زکریا خان بتارہا تھا کہ یہ پورا علاقہ راوی دریا کے کنارے آباد ہے۔ یعنی جتنے شہر اور قصبے ہیں (ساہیوال، ہڑپہ، اوکاڑہ، اور سست گھرا) یہ سب کے سب دریا کے سبب یہاں وجود میں آگئے تھے۔ پانی اور آبادی لازم وملزوم ہوتے ہیں۔

راوی اور ستلج کے درمیان واقع اس علاقے میں گندم اور کپاس بڑی فصلات ہیں۔ باقی میں تمباکو، پھلی والی سبزیاں، آلو کی پیداوار بہت ہوتی ہے۔میووں میں مالٹا، لیموں، امرود اور آم ہوتے ہیں۔ زراعت ہی یہاں کی اہم ترین ذریعہ معیشت ہے۔

یہاں کی صنعت بھی زرعی پیداوار پہ مبنی ہے۔ یہیں مچلز فیکٹری،فروٹ سے پراڈکٹس بناتی ہے۔ منٹگمری بسکٹ اور سویٹ فیکٹری ہے۔ رائس ملیں ہیں اور اب تو شوگر ملیں ہیں۔ یہاں فوجی فرٹلائزر کمپنی ہے، ویجٹیبل آئل بنتا ہے، ٹکسٹائل فیکٹریاں ہیں اور صابن بنانے کے یونٹ ہیں۔

یہاں بڑے پیمانے کی زراعت نہری نظام آنے کے بعد شروع ہوئی۔ اس سے قبل تو سمجھو پورا علاقہ بارشوں پہ انحصار کرتا تھا۔ ہر طرف ناقابل ِ کاشت علاقہ تھا۔ موجودہ نہری نظام آنے سے قبل جن زمینوں پہ دریا کا پانی نہ چڑھتا تھا اور نتیجے میں گھنے جنگل یا کاشت نہ کیے ہوئے علاقے وجود میں آئے۔ ایسے علاقوں کو ”بار“ کہتے ہیں (دودریاؤں کے درمیان ناقابل کاشت علاقہ)۔ اس سلسلے میں یہاں تین نام اکثریت سے استعمال ہوتے ہیں:گنجی بار، سندل باراور نیلی بار۔(ستلج کا پانی نیلا ہے اسی نسبت سے اس کا نام نیلی بار پڑ گیا)۔ اب کون کون سے علاقے گنجی بار میں آتے ہیں اور کون کون سے گاؤں نیلی بار اور سندل بار میں، اس باریکی میں پڑے بغیر یہ سنیے کہ یہ جنگ گنجی بار، نیلی بار اور ساندل کے سارے علاقوں میں باہم پیوست طور پر لڑی گئی۔

یہ ایک نیم بارانی علاقہ ہے۔غربت و افلاس انسان کے بائیں کندھے پہ ہمہ وقت سوار۔ بقول طاہرہ اقبال: ”گندا دیس، گندا بھیس، گندی رہتل، گندی بولی۔۔۔ کھارے پانی باروں کے، ننگی بچی دھوہیں جھوکوں کی، کووں چیلوں اور سولوں بھرے بار، چھدرے پیٹر، کوڑے کالے کھو۔۔“

اس علاقے کی بھینس بہت مشہور ہے اور اُس کا نام بھی: نیلی بار کی بھینس ہے۔ ساہیوال کی گائے دودھ کے لیے بہت مشہور ہے۔ اسی لیے یہ نسل پاکستان میں ہر جگہ درآمد کی جاتی ہے۔

ساہیوال کا پرانا نام مِنٹگمری نہیں ”مونٹ گمری“ تھا جو کہ 1865کے زمانے میں پنجاب کے گورنر رابرٹ مونٹ گمری کے نام پہ رکھا گیا۔ سو سال بعد 1966میں یہ دوبارہ ساہیوال بنا۔جاٹ لوگوں کے کھرل قبیلے کی ایک ذیلی شاخ کا نام ”ساہی“ ہے۔ اسی کی نسبت اس کا نام ساہی وال پڑا۔ یہ علاقہ حضرت یسوع ہزاروں برس قبل سے آباد رہا ہے۔

یہاں راجپوت، ارائیں، جٹ، سید، انصاری برادریاں نمایاں ہیں۔ بڑے قبائل میں لنگڑیال، کھگا، فتیانہ، کاٹھیا، اور بھروانے شامل ہیں۔

1881کی مردم شماری میں بلوچ اس علاقے میں تحصیل منٹگمری، پاکپتن اور تحصیل گو گیرہ میں آباد ہیں۔ منٹگمری میں رند اور ہوت ہیں، گوگیرہ میں لاشاری، اور پاکپتن میں رند اور لاشاری۔

مجھے یہاں کے باسیوں کے حسنِ بے پایاں کے بارے میں لکھنا ہو تو شاید بہت کچھ لکھ پاؤں۔ یانہیں، شاید لکھ ہی نہ پاؤں۔طاہرہ اقبال ہی لکھ سکتی ہے: یہاں کی ”۔۔۔شہابی رنگتیں اور کھینچے ہوئے تیکھے نقوش جیسے آریا نسل کے باشندے ہڑپہ کے کھنڈروں سے نکلی سنگ مرمر کی تیکھی ہندو دیویاں۔۔۔جیسے آک کے سفید کاسنی پھول،جیسے کریوں پر جڑے لعل ڈیلے،جیسے بھکڑے کی ہریالی جولُو کے لانبے مارتے، بھاپ کے جھانپڑ برساتے بار کے ان جنگلی موسموں میں بھی تروتازہ لشکتے پھڑکتے شاداب رہتے ہیں“۔

اپنی صورتحال سولہویں صدی کے بلوچی کلاسیک کے قد آور ترین آدمی بیورغ کی زبان سے بیان کرتا ہوں۔ اس لیے کہ میں اِس علاقے اُس وقت گیا جب ”بڑھاپے کے جاسوس مجھے گرفتار کر چکے۔ جب اس بدبخت نے میری مونچھوں اور دانتوں کے خلاف جنگ جیتنی شروع کردی، جب آنکھ دور دیکھنے سے معذور ہوئی، جب ہاتھ گھوڑی کی خوبصورت باگ تھامتے ہوئے لرزاں ہیں، جب ران گھوڑی کو ایڑھ لگاتے ہوئے لڑکھڑاتی ہیں۔۔ اور جب حسینائیں ”ماما“ کہہ کر پکارتی ہیں“۔

اس علاقے کی تاریخ کی طرح یہاں عوام کی حالت بھی ہم سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ مہر گڑھ سے ہڑپہ تک تو ہم ایک سے رہے ہی۔ مگر اُس کے بعد بھی حاکم طبقے کی طاقت ہی طاقت، اور نچلے طبقات کی بے کراں بے انت بے طاقتی نہ زمان کی محتاج رہی ہے اور نہ مکاں کی۔ پسماندہ حکمرانوں نے ہر اچھی چیز اپنے موجود کے لیے ہی حلال قرار دیے رکھی۔ لہذا غاروں کے سماج والے عوام الناس کی حالت میں کوئی بڑا فرق نہ آیا۔ ہر سمت فیوڈلزم کی وہی وحشتیں ہیں، کسان کی وہی غلامی ہے۔ دیہات میں جاگیردار کا راج ہے،اوپر صوبائی اور مرکزی سطح تک دیہات کے اُس جاگیردار کے ساتھیوں کا پورا سلسلہ موجود ہے۔ حاکم طبقے کے لیے جیت ہی جیت اور محکوم طبقہ مات در مات۔

ساہیوال میں یونیورسٹی ہے، میڈیکل کالج ہے۔ ریاض ہمدانی کی قیادت میں ایک سرگرم آرٹس کونسل ہے۔۔۔۔اورپھر، ساہیوال تو مجید امجد کی شالاط کا شہر ہے۔ محبوبہ کو خریدی ہوئی چوڑیاں نہ دے پانے کے ارمان کا شہر ہے۔

ہم گپ شپ میں مگن ہڑپہ کی طرف رواں دواں تھے۔ گوکہ کھیتی باڑی بھی تھی مگر درختوں کی بہتات سے اندازہ ہوا کہ ایک زمانے میں یہاں ایک اچھا خاصا جنگل موجود ہوگا۔چٹیل ہموار میدان ایک بھی چٹان نہیں، ایک بھی پہاڑی نہیں۔ایک جگہ زکریا خان نے اچانک اعلان کیا کہ اب ہم جس علاقے سے گزر رہے ہیں یہ انگریز کے خلاف احمد خان کی جنگ کا علاقہ ہے۔ ایک خونی جنگ جس میں سامراج دشمن عوام ایک طرف تھے اور انگریز اپنے پٹھوؤں کے ساتھ دوسری طرف۔

ایسے لگا جیسے اس نے میرے دل کے کندھوں کو جھنجوڑ کر ایک بہت ضروری اطلاع دی ہو۔سچی بات ہے کہ میں ساہیوال آیا ہی اس سامراج دشمن جنگ کے بارے میں کچھ لکھنے کے لیے۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے