بھری دنیا کی محفل ہے
یہ عورت کی بدولت ہے
یہ عورت کا تمدن ہے
یہ عورت کی روایت ہے
سماجی قدر کی پہلی اساس فن بھی عورت ہے
کہ کرب روح سہتی ہے
یہ رشتوں میں بٹی ہر غم اٹھاتی ہے
یہ بربط ہے
سبھی تانیں گداز و سوز کی من میں سموتی ہے
گھنی چھاوں کی راحت میں بساتی ہے
اسی کی برق خنداں سے درودیوار ہنستے ہیں
اسی کی خاک سے حسن و مسرت کے سبھی نغمے امڈتے ہیں
یہ عورت فرد ہے
عقل و خرد ہے
نفس کامل ہے
محبت ہے ، عنایت ہے ، لطافت ہے ، حلاوت ہے
یہ راحت ہے ، حرارت ہے ، نظارت ہے ، نفاست ہے ، مروت ہے ، مشقت ہے ، ریاضت ہے ، نظامت ہے ، لیاقت ہے
خدا کو بھی مثال عشق میں اک ماں ہی دکھتی ہے
ذرا سوچو !
اسی کے خون سے تشکیل پاتے ہو
اسی اک مہرباں ہستی سے تم منسوب رہتے ہو
مگر جب تم توانائی کے جوہر سے دمکتے ہو
اسی کو روند دیتے ہو
وفا کی دھجیاں پل میں اڑاتے ہو
لہو اس کو رلاتے ہو
وجود زن سے ٹوٹے اک شرر سی جان ہو پھر بھی
عجب ہے یوں گرجتے ہو
کہ بے مایہ سمجھتے ہو
سنو احمق ! سنو ناداں!
اسی کے دم سے قدرت نے تمہیں ہستی نوازی ہے
تمہیں جینا سکھایا ہے
تمہیں طاقت عطا کی ہے
کرو عزت کہ محسن یہ تمہاری ہے
اسے انساں کبھی سمجھو
مقام خلق بھی جانو
ستم اپنے بھی پہچانو
کرو گے قتل عورت کو اندھیرے تم پہ چھائیں گے
خوشی تم سے بھی روٹھے گی
مسرت روشنی تاریکیوں میں ڈوب جائے گی
کہیں الفت نہیں ہو گی
کہیں چاہت نہیں ہو گی