ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتوں کی تاریخ

پاکستان میں لوگوں کو قانون کو ہاتھ میں لینے اور عدالتوں میں ملزم کو پیش کرنے کی بجائے ہجوم کی صورت میں اسے جان سے مار دینے کے واقعات کافی تعداد میں ہوتے رہے ہیں۔
Foreign affairs insights and review کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں مذہب کے نام پر لوگوں پر تشدد کرنا ایک عام سی بات ہے۔ گو کہ توہین مذہب کے قانون کے تحت ابھی تک کسی کو پھانسی نہیں ہوئی ہے لیکن 1990 سے 2023 کے دوران ستر70 سے زیادہ افراد توہین مذہب کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ سب سے زیادہ ہائی پروفائل کیس سری لنکا کے شہری پری یانتھا کمارا کا ہے جو سیالکوٹ کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں مینجر تھا اور 3 دسمبر 2021 کو اس پر توہین مذہب کا الزام لگا کر مار دیا گیا اور پھر سڑک پر اس کی لاش کو آگ لگا دی گئی۔اس واقعے کی بدولت دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی بحران پیدا ہو گیا اور دنیا بھر میں غم و غصہ کا اظہار کیا گیا چنانچہ بڑے پیمانے پر تحقیقات کے نتیجے میں 89 لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور بالآخر ان میں سے چھ کو موت کی سزا سنائی گئی۔ اس سے پہلے 13 اپریل 2017 کو مشال خان کا واقعہ پیش آیا تھا۔مشال مردان کی عبد الولی خان یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کا طالب علم تھا۔اسے طلبہ کے ایک گروہ نے وحشیانہ تشدد کر کے قتل کر دیا تھا۔ یہ واقعہ بھی اپنی ظالمانہ نوعیت کی وجہ سے دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا۔مشال اپنے ترقی پسند نظریات کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔اس کیس میں 61 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ان میں سے ایک کو سزائے موت، سات کو عمر قید اور پچیس کو چار سال قید کی سزا سنائی گئی جب کہ 26 کو چھوڑ دیا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نومبر 2014 میں لاہور کے قریب کوٹ رادھا کشن میں ایک مسیحی جوڑے کو ایک ہجوم نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔اس واقعے نے پاکستانیوں اور باقی دنیا کو ہلا کے رکھ دیا۔ایک قابل مذمت اور دل دہلا دینے والا واقعہ ہونے کے باوجود پاکستان میں یہ کوئی حیران کن واقعہ نہیں تھا۔مارا جانے والا جوڑا شمع اور شہزاد تین بچوں کے والدین تھے اور شمع کو چار مہینے کا حمل تھا۔بعد میں ہجوم نے ان کی لاشوں کو اینٹوں کے بھٹے میں پھینک کر جلا دیا تھا۔ دونوں میاں بیوی اسی بھٹے پر بانڈڈ لیبر کے طور پر کام کرتے تھے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش لوگوں کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور ہجوم کے تشدد کی وجہ سے بدنام ہیں۔ پاکستان میں کرسچن، ہندو اور دیگر اقلیتیں اپنے پڑوسیوں سے خوف زدہ رہتی ہیں کیونکہ توہین مذہب کے الزام میں عدالت نہیں تو ہجوم ضرور انہیں موت کی سزا دے سکتا ہے۔ سعودی عرب میں سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں مجرم کا سر تن سے جدا کیا جاتا ہے۔ایران میں سر عام پھانسی دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں پھانسی کی سزا سب سے زیادہ چین میں اور اس کے بعد ایران اور سعودی عرب میں دی جاتی ہے۔ جب کہ ضیا ا لحق کے دور میں سیاسی کارکنوں کو سر عام اور صحافیوں کو جیل میں کوڑے لگائے گئے۔اس طرح کی سزائیں پورے معاشرے کو تشدد پر آمادہ کرتی ہیں۔
NUST کے پی ایچ ڈی اسکالر خورشید علی سنگے نے ہجوم کے ہاتھوں قتل پر تحقیق کے لئے 2014 سے 2017 تک کے انگریزی اخبارات کا جائزہ لیا تو ہجوم کے ہاتھوں قتل کے 22 واقعات سامنے آئے۔پنجاب میں سات، اربن سندھ، کراچی اور حیدرآباد میں 11، دیہی سندھ میں صفر، کے پی کے میں تین اور بلوچستان میں ایک واقعہ پیش آیا۔اس میں زخمی ہونے والے یا پولیس کی بر وقت مدد سے بچ جانے والے شامل نہیں ہیں۔ ان کی تحقیق کے مطابق ہجوم کے ہاتھوں قتل تین صورتوں میں ہوتا ہے۔یا تو کوئی چور ی کر کے یا پرس یا کوئی اور قیمتی چیز چھین کر بھاگنے والا یا اغوا کار ہجوم کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔یا ہجوم کسی شخص کے بارے میں توہین مذہب کا الزام سن کر مشتعل ہو کر اسے مار ڈالتا ہے۔ یا جنسی زیادتی کے الزام پر کسی کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔پہلی وجہ کی بنا پر اس عرصے میں 15 لوگوں کو ہلاک کیا گیا۔مذہبی وجوہات کی بنا پر 5 کیسز سامنے آئے۔جب کہ صنفی اور جنسی حوالے سے دو کیسز سامنے آئے۔پنجاب میں مذہبی بنیادوں پر مارے جانے کے سب سے زیادہ واقعات کرسچن کمیونٹی اور اس کے بعد قادیانیوں کے ساتھ پیش آئے۔بعض مرتبہ مسلمانوں پر بھی توہین مذہب کا الزام لگا کر مار دیا جاتا ہے۔اربن سندھ میں چوری یا موٹر سائیکل وغیرہ چھین کر بھاگنے والوں کو مار دیا جاتا ہے۔
بہاو¿الدین ذکریا یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف ایمسٹرڈیم نیدر لینڈ کے ایم آصف، ڈی وینک اور پیٹر میسینی کی تحقیق کے مطابق مشال خان اور کوٹ رادھا کشن کے شمع اور شہزاد جن کے کیسز کا اوپر ذکر ہو چکا ہے کے علاوہ مارچ 2015 میں یو حنا باد میں کرسچن چرچز پر بم حملوں کے الزام میں ہجوم نے بابر نعمان، اور حافظ نعیم کو مار کے جلا دیا۔ جولائی 2012 میں ضلع بہاولپور کے چانی گوٹ ٹاﺅن میں غلام عباس کو قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام میں ہجوم نے جلا دیا۔اگست 2010 میں سیالکوٹ میں دو بھائیوں مغیث اور منیب کو ہجوم نے ڈکیتی کے الزام میں مار ڈالا۔ اپریل 2017 میں چترال کی شاہی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران توہین مذہب کا الزام لگایا گیا لیکن امام نے اسے ہجوم سے بچا کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ مارچ 2013 میں لاہور میں بادامی باغ میں ایک کرسچن ساون مسیح پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا۔اسے بھی پولیس نے بچا لیا لیکن مشتعل ہجوم نے کرسچن کمیونٹی اور وہاں کے رہائشیوں پر حملے کئے۔ رائٹر کے مبشر بخاری کے مطابق فروری 2023 میں ننکانہ صاحب میں محمد وارث نامی ایک نوجوان پر ہجوم نے قرآن مجید کی بے حرمتی کے الزام میں حملہ کر دیا لیکن پولیس نے اسے بچا کر تھانے میں بند کر دیا مگر ہجوم نے تھانے پر حملہ کر دیا اور اسے باہر لا کر مارنے کے بعد اس کی لاش کو جلانے کی کوشش کی۔مگر جب تک پولیس کی مزید نفری وہاں پہنچ گئی اور ہجوم لاش کو جلا نہیں پایا۔
6 مئی 2023 کو ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کے مطابق پاکستان کے شمال مغربی حصے میں ایک مشتعل ہجوم نے ایک مقامی مولوی پر ایک سیاسی ریلی میں توہین مذہب کے الزام میں حملہ کر دیا۔اور اسے جان سے مار دیا۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 2014 میں ایک مشتعل ہجوم نے گوجرانوالہ میں احمدیوں کے گھروں پر حملہ کر دیا۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جھگڑے کی ابتدا کرکٹ کے کھیل سے ہوئی لیکن جھگڑا بڑھا تو ایک نو عمر احمدی لڑکے پر توہین مذہب کا الزام لگا دیا گیا اور سینکڑوں کے ہجوم نے احمدیوں کے ایک درجن سے زیادہ گھروں کو آگ لگا دی۔تین بچیاں اور ان کی دادی جل کر مر گئیں۔
توہین مذہب کے الزام می ہجوم میں ہاتھوں مارے جانے کے معاملے میں صرف ایک ملک پاکستان سے آگے ہے اور وہ ہے نایئجیریا۔ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے قانونی اور پالیسی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ایسے الزامات کی موثر اور شفاف طریقے سے تحقیقات کی جائے اور جھوٹا الزام لگانے والے اور ملزم کو جان سے مار دینے والوں کو قانون کے مطابق سخت سزائیں دی جائیں۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ اپریل 2024

0Shares
[sharethis-inline-buttons]

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*