(31جولائی1916۔20اپریل1986)
ستر ، اَسی برس کی عمر کے لوگوں کے اذہان کو روشن فکری سے بپتسما دینے والوں میں جناب سبط ِحسن کا مقام بہت اونچا ہے۔ اُن لوگوں کے بعد آج کے نوجوانوں سے ملنا ہو تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی سبطے صاحب سے ہی متاثر ہیں۔ مطلب یہ کہ سبط ِحسن نے پوری دو نسلوں کی ذہن سازی کی. اور سبط ِحسن کی ذہن سازی کیا ہوگی؟ اُس نے اِن دو نسلوں کو زندگی سے محبت کرناسکھایا، انھیں دل میں امید کی کونپلیں سجانے کا گُر سکھایا، انسانوں سے وابستگی کا سبق دیا اور ایک روشن و تاب ناک مستقبل کی راہ سجھائی۔
اس مفکر اور آئیڈیو لاگ کے دل پسند موضوعات میں ہسٹری ، کمیونزم، کلچر ، سولائزیشن ، سوشیالوجی، انتھراپالوجی، سیاسیات ، سام راج اور رینے ساں شامل تھے۔
سبط ِحسن نے نے علم و ادب اور تحریر واشاعت کا کام کیے رکھا۔ وہ جب تک زندہ رہا، نیچر کا ، زندگی کا اور انسان کا مدد گار بنا رہا۔مستقل دانش اور شعور عطا کرنے والا رہا۔اس کی کتابیں روشنی کابلب بن کر ہر گھر میں جاتی ہیں ، وہاں چمکتی جگمگاتی رہیں اور جنّوں ، پریوں اور تاریکی کے دیگر بھوتوں کو بھگاتی رہیں۔ وہ بے شمار لوگوں کو فکری خزانے عطا کر کے 1986میں ستر برس کی عمر میں فطری موت مرا ( موت بھی کبھی فطری ہوتی ہے؟مگر ہاں ، بلوچستان میں تو ایسا ہی ہے ۔ ایک ایسی گراں بہا نعمت جو اَب بہت کم لوگوں کو میسر ہے)….مگر دیکھیے کہ اس کی موت کے اتنے عرصے بعد بھی ایشیا میں دانش کے اندر اس کا ثانی پیدا نہ ہوا۔
اُس کی ایک اور صلاحیت آرگنائزر کی تھی۔ تنظیم سازی کا ماہر اور وہ بھی مشکل ترین لوگوں کی تنظیم سازی، ادیبوں، شاعروں اور دانش وروں کی تنظیم سازی ۔ اس نے پاکستان اور انڈیا دونوں ملکوں میں روشن فکر لوگوں کو پراگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن کے پرچم تلے جمع کیا، اُس کی کانفرنسیں کانگریسیں کرائیں اور اس کی گولڈن جو بلی بڑے پیمانے پہ منعقد کی ۔
وہ مشعلوں کی فوج اور روشنیوں کی رجمنٹیں تشکیل دینے والا عالم تھا۔اس مفکر نے انسان ایک دوسرے پر اعتبار کرنے والی انسانی فوجیں تشکیل دیں ۔ اس نے سائنسی بصیرت پر ایقان رکھنے والوںکے مجمعے کھڑے کردیے، حسن اور خیر کے قدر دانوں کی جماعتیں قائم کیں،عدل اور مساوات کے لےے لوگوں کو کمر بستہ کیا۔
مفکرسبط ِحسن ،مارکسی فکر سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ ساری زندگی مارکسزم کی ترویج کا کام کرتا رہا اور آخری عمر میں اس خطے میں سب سے بڑے مارکسی مفکرکا درجہ حاصل کیا۔ یہ اُس کی شخصیت کا تیسرا پہلو ہے ….ور اُس نے زیادہ مو¿ثر اسی پہلو میں ہونا تھا۔
میری اُس سے دوبار ملاقات ہوئی۔ پہلی بار ملتان کی ایک ادبی تقریب میں اُس سے ہاتھ ملا نے کا شرف ملا اور دوسری بار کراچی میں اُس کے دفتر میں اُسے تفصیل سے سنا ۔ وہ خوب صورت اور وجیہہ شخص تھا ۔ سرخ و سفید چہرہ تھا اور لمبے مگر تعداد میں سفید کم ہوتے ہوئے بال تھے۔مگر ادب و سخن کی دنیا میں توشکل و صورت سے زیادہ تحریر و گفتار ہی کشش کا سبب ہوتے ہیں۔سبط ِحسن کا لہجہ بہت ہی مہذب و دھیما تھا ۔ ملنساری میں بے مثال …. وہ ایک ایسا عالم تھا جو ایک جہان کا محبوب تھا۔بلاشبہ سبط ِحسن ایک وسیع حلقے کا استاد تھا۔
جس وقت جنرل ڈائر مغربی بلوچستان کی جنگ آزادی کچلنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا (1916) ، اُسی سال (31جولائی کو)ہندوستان کے اعظم گڑھ میں ایک زمیں دار گھرانے میں سبط ِحسن نامی بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی۔
سبط ِحسن کو گریجویشن کے لیے علی گڑھ یونیورسٹی میں داخل کرایا گیا ۔وہاں اُس کے ساتھیوں میں علی سردار جعفری ، اسرار الحق مجاز ، خواجہ احمد عباس، اختر الایمان اور اختر حسین رائے پوری جیسے علم و ادب کے درخشاں افراد شامل تھے۔اسی علی گڑھ میں زیر ِ تعلیم سبط ِحسن با مقصد صحافت کے کارواں کے ساتھ جڑنے کی تیاریاں کرنے لگا۔ کم و بیش اسی زمانے میں ان افراد نے سید سجاد ظہیر کی قیادت میں پروگریسو ادبی تحریک کا آغاز کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے مقبول و ہمہ گیرتحریک بن گئی۔
سید سبط ِحسن کا شمار اپنی نسل کے محنتی ترین اور تخلیقیت سے پُر دانش وروں میں ہوتا ہے ۔ اس نے بہت ہی کم سنی میں1930ءکی دہائی میں ’نیا ادب‘ جاری کیا۔
اُس کی شخصیت کا ایک پہلو صحافت بھی ہے۔ وہ بھی یوں کہ اس نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا ۔ وہ ’پیام ‘اور’ نیشنل ہیرالڈ‘ جیسے رسالوں اور اخباروں سے وابستہ رہا۔اس نے بمبئی میں انگریزی اور اردو اخبارات سے وابستگی رکھی ۔ خصوصاً وہ ’ پیپلزوار‘ کی تدوین کرتا رہا ۔ وہ ہفت روزہ ’ قومی جنگ ‘ سے بھی وابستہ رہا۔
اس نے مجلس ترقی ادب کی کلاسیکی موضوعات پر کتابوں کی ترتیب وتدوین کی اور ان پر بیش قیمت مقدمے لکھے ۔ ایسے مقدمے جو خود اپنی جگہ ادبی تحقیق و تخلیق کے بہترین نمونے قرار دیے جاسکتے ہیں۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ یہ بہت خوب صورت نوجوان سٹوڈنٹ لائف میں ڈراموں میں ہیرو کا کردار بھی ادا کرتا رہا ۔
اس نے اعلیٰ تعلیم کولمبیا یونی ورسٹی سے حاصل کی۔
سید سبط ِحسن 1942 میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیامیں شامل ہوا۔اس نے ایک عام کمیونسٹ سیاسی ورکرکے بہ طور کام شروع کیا تھا۔ یہی سیاسی ورکری کی تربیت اس کی شخصیت کی اولین تشکیل پذیری کی مضبوط سیڑھی بنی ۔
تقسیم ہند کے بعد سبط ِحسن کو سجاد ظہیر کی طرح پاکستان کے اندر پارٹی منظم کرنے میں مدد دینے بھیجا گیا تھا ۔چناںچہ وہ لاہور آیا اور یہیں پر اقامت پذیر ہوا۔
وہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا رکن تھا۔ لیاقت علی والی پنڈی سازش کیس میں اس کا نام بھی درج ہوا اور وہ گرفتار ہوگیا۔اسے کئی دفعہ قید و بند کی صعوبتوں اور ریاستی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بے روزگار بھی رہا۔
سبط ِحسن 1951ءمیں ڈھائی تین برس تک گرفتار ہوکر جیل چلا گیا۔(1) سب سے اذیت ناک پہلو حمید اختر کے بہ قول یہ تھا کہ اُس کے ساتھ تین برس تک جیل میں باہر سے ایک ملاقاتی بھی نہ آیا ۔ اس لےے کہ نظر بندی کے قوانین کی روسے سیاسی قیدیوں سے صرف قریبی عزیز ہی مل سکتے تھے اور سبط ِحسن کا کوئی قریبی عزیز موجود نہ تھا۔ نہ کوئی یار، نہ نامہ بر، نہ ملاقاتی، نہ گھر سے ملاقات پہ آنے والا کوئی سامان …. ” دوست بہت تھے اور اُس کے لےے تڑپنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی مگر اس نے تنہاہی یہ مرحلہ طے کیا۔ “(2)….کوہِ گراں تھے یہ لوگ!!
جیل میں سبط ِحسن، افضل اور سی آر اسلم شطرنج کھیل کر وقت گزارتے تھے۔(3)بہ قول سبط ِحسن:” میں جسٹس کیانی مرحوم کے حکم سے رہا ہوا۔ اس وقت پورا ملک جیل خانہ بنا ہوا تھا اور جیل کے اندر فقط کیانی مرحوم کے طنزیہ مضامین ہی سے پتہ چلتا تھا کہ پاکستان کا ضمیر ابھی زندہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ چودھری اسلم ( سی آر اسلم) اور میں جب کیانی صاحب کی عدالت میں (پشاور میں) پیش ہوئے تھے تو کیانی صاحب نے پولیس کی فائل پڑھ کر مجھ سے پوچھاتھا کہ” تم راولپنڈی سازش کیس میں بھی ماخوذ تھے؟“میں نے کہا تھا کہ جی نہیں میں تو نظر بند تھا ۔کیانی صاحب نے بھری عدالت میں فرمایا تھا کہ ”گھبرائیے نہیں، وہ فوجی سازش ناکام رہی لیکن یہ سازش تو کام یاب ہوگئی…. اور ہم لوگ کیانی صاحب کی اس جرات مندانہ تنقید پر حیران ہوگئے تھے۔“(4)
1954ءمیں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگی۔
تقسیم کے بعد سارے اچھے صحافیوں لکھاریوں کا مجمع روزنامہ’ امروز‘ لاہور ہوا کرتا تھا۔ 1956-57 ءمیں پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے مالک افتخار الدین نے ہفت روزہ ” لیل و نہار“ کا اجرا کیا اور سبط ِحسن کو اس کا ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ وہ اس رسالے کی 1957 ءسے 1959ءتک ایڈیٹری کرتا رہا۔(5)اُس زمانے کی صحافت حصولِ روزگار کے ساتھ ساتھ ایک سماجی ذمہ داری بھی تصور ہوتی تھی۔ نظریات کی کشمکش زوروں پہ تھی۔ سید صاحب روشن فکر نظریات سے وابستہ تھا ۔ اس کے ہاں عوام الناس سے وابستگی اولین شرط تھی۔ عوام کے دکھ درد بیان کرنا، اُن کی جدوجہد کی خبریں چھاپنا اور انھیں اپنے فکری اور تجزیاتی مضامین کے ذریعے باشعور بناتے رہنا، صحافی کے فرائض میں شامل ہوا کرتے تھے۔
ہفت روزہ ’لیل و نہار‘ میں اس کے لکھے ہوئے اداریے تاریخی دستاویز ہیں۔ انھیں پڑھیں تو آپ کو اُس وقت کی پاکستانی سیاست کے بارے میں معلومات ملیں گی ۔ اُس وقت کی حکومتوں کے جبر و ستم کی تفصیل ملے گی اور ملکی وبین الاقوامی حالات کا بے لاگ ، جامع اور معروضی جائزہ دیکھنا نصیب ہوگا ۔ یہ ساری باتیں پاکستان کی ابتدائی دور کی سیاست کی نوعیت اور خد و خال کو سمجھنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔
سبط ِحسن کی صحافت ایک اعلیٰ نصب العین کی صحافت تھی ۔ وہ خود 1970ءمیں” لیل و نہار پر کیا گزری؟“ کے عنوان سے یوں لکھتا ہے :
” پروگریسو پیپرز کے دوسرے پرچوں ’پاکستان ٹائمز‘ اور’ امروز‘ کی مانند ’لیل و نہار‘ کی بھی آرزو تھی کہ پاکستان ایک فلاحی ریاست بنے اور یہاں حقیقی معنوں میں جمہوریت قائم ہو۔ وہ چاہتا تھا کہ پاکستان‘ امریکا کی معاشی فوجی اور سیاسی گرفت سے آزاد ہوکر ایک باعزت ملک کی حیثیت سے ترقی کرے اور سیٹو اور سنٹو کے فوجی معاہدے سے گلو خلاصی پائے۔ وہ چاہتا تھا کہ ملک میں جمہوری اقدار کو فروغ ہو اور سرمایہ داروں اور جاگیرداروں اور سرکاری افسروں کا جو امریکا کے وظیفہ خوار تھے ،زور ٹوٹے۔ اسمبلیوں کے انتخابات ہوں اور ان میں عوام کے چنے ہوئے نمائندے شریک ہوکر زمامِ اختیار اپنے ہاتھوں میں لیں۔ اسی بنا پر اربابِ اختیار ان پرچوں پر اور ان کے روحِ رواں میاں افتخار الدین پر ملک کا دشمن، روس اور چین کا ایجنٹ اور اسی قسم کے دوسرے بے بنیاد الزامات لگاتے تھے مگر خود زمانے نے بتا دیا کہ میاں صاحب اور ان کے اخباروں کا موقف درست تھا…. آج ملک کے سبھی اخبار و جرائد وہی باتیں کہہ رہے ہےں جو ہم اب سے دس برس پہلے کہتے تھے اور موردِ الزام ٹھہرتے تھے۔“
پاکستان میں تو مارشل لاکا مطلب دلیل و منطق کا گلا دبانا ہوتا ہے ۔وہی مارشل لا لگا ۔ میاں افتخار الدین کا ادارہ بشمول ’لیل و نہار‘ رسالہ سرکار نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ اُسے ایڈیٹری سے نکال دیا اورکلاسیکل بلوچ شاعری کے بہ قول: ” سبی پہ دوسرے زوراور قابض ہوگئے۔“
وہ 1965 میں کراچی منتقل ہوگیا۔ کراچی میں سبط ِحسن نے اپنا زیادہ تر وقت تصنیف و تالیف پر صرف کیا۔ بے شمار مقالوں، مضامین اور اداریوں کے علاوہ اس کی بے شمار کتابیں ہیں۔ ہم اُن کی کتابوں کی گنتی پیش نہیں کریں گے۔ گنتی تو ساہوکارا نہ بدتمیزی ہوتی ہے۔ سبط ِحسن کے ساتھ ایسا نہ کیا جائے اس لیے کہ اس کی ایک ایک کتاب دس دس کتابوں پہ بھاری ہوگی۔ اس لیے گنتی کو گم کرو ۔ (واضح رہے کہ یہ ساری ضخیم و مدلل کتابیں اُس نے دس بارہ برس کے اندراندر لکھیں)۔
ماضی کے مزار
”انسانی تہذیب کوئی جامد اور ساکت شئے نہیں ہے جو ایک مقام پر مستقل ٹھہری رہتی ہو بل کہ وہ ایک تغیر پذیر اور فعال حقیقت ہے جس نے اب تک ارتقا ئے حیات کے مختلف مدارج طے کیے ہیں اوریہ عمل بدستور جاری ہے۔ “
اس اقتباس کا سرچشمہ سبط ِحسن کی بہت اہم کتاب ” ماضی کے مزار “ہے ۔ یہ کتاب 1969 میں چھپی تھی ۔ یوں سمجھیے کہ یہ کتاب انسانی تاریخ کی سرگزشت ہے ۔اسے پڑھ کر آپ جان سکیں گے کہ انسان اپنے ارتقا میں کن کن مراحل سے گزرا ، اُس نے کیا کیا فکری صورتیں تخلیق کیں، وہ کن کن معاشی سماجی ادوار میں جیا اور کس طرح اگلے مرحلے کی تعمیر کی ۔
بدقسمتی ہے کہ بلوچستان میں مہر گڑھ کے آثار سبط ِحسن کی زندگی میں دریافت نہ ہوئے تھے ۔ یعنی اُس سولائزیشن کے بارے میں ماہرین کاریسرچ ورک تحریری مشکل میں سامنے نہیں آیا تھا۔ اسی طرح آرکیالوجی میں بہت امیر خطہ بلوچستان کے دوسرے مقامات کے متعلق لٹریچر زیادہ دست یاب نہ تھا۔ مہر گڑھ دریافت نے تاریخ سے متعلق ہمارے بے شمارمفروضوں کو غلط ثابت کردیا۔ یہ غلط مفروضے جو کہ سبط ِحسن کی اس کتاب میں بھی در آئے ، کاش وہ زندہ ہوتا اور اِن غلطیوں کی درستی کر جاتا۔
اس اہم اور منور کتاب کا ایک اور پیراگراف:
”تمدن اسی وقت وجود میں آتا ہے جب شہر آباد ہوتے ہیں۔ دراصل تمدن نام ہی اُن رشتوں کی تنظیم کا ہے جو شہری زندگی اپنے ساتھ لاتی ہے۔ خواہ یہ تنظیم انسان کے باہمی رشتوں سے تعلق رکھتی ہو یا انسانی اور مادی چیزوں کے باہمی ربط سے وابستہ ہو۔ یہی تنظیم آگے چل کر ریاستی نظام کی اساس بنتی ہے۔ “
500صفحات کی یہ ضخیم کتاب انتھراپالوجی پہ ایک بہت ہی اچھی تحریر ہے۔اس کتاب کے اُنیس چیپٹر ہیں۔ ایک طویل اور متعلقہ ببلو گرافی کتاب کے اعتبار کی اعانت کرتی ہے ۔ ایڈیشنوں کی تعداد کے چکر میں نہیں پڑتے، اس لیے کہ سبط ِحسن قاری کو گرفت میں لینے اور اسے حیران کردینے والی ہر صلاحیت سے مالا مال ہے ۔ اس نے دل کش انداز میں دلیل و منطق و علم سے لب ریز یہ کتاب لکھی۔ اِس میں اُس نے ابتدائی انسان سے لے کر ترقی یافتہ کپٹلزم تک ارتقا کے ایک ایک پڑاﺅ کو مفصل بیان کیا۔ عینک تو ظاہر ہے مارکسزم کی تھی۔
وہ سائنس کی بالادستی کو طعنے مار مار کر نہیں جتلاتا ، بس ایک عام سی تمثیل دے کر ”غیرضرررساں “انداز میں آگے بڑھ جاتا ہے :
”سترہویں صدی کے ایک پادری اشر نے انجیل کی کتاب پیدائش کے مطالعے سے ثابت کیا تھا کہ ظہورِ آدم کا واقعہ 4004 قبل مسیح میں پیش آیا تھا اور دانایان مغرب نے پادری کی اس کاوش کو بہت سراہا تھا لیکن انیسویں صدی میں جب سائنس نے ترقی کی اور نئے نئے علوم مثلاً جیوگرافی،زوالوجی اور ایسٹرانومی کو فروغ ہوا تو زمین اور زندگی کی عمریں متعین ہونے لگیں۔ارتقائے حیات کے نظریے بننے لگے اور زمین کی تہوں سے بے شمار ایسی چیزیں برآمد کی جانے لگیں جن سے یہ ثابت ہو گیا کہ زندگی کے جرثومے کروڑوں برس سے زمین کی آغوش میں پرورش پا رہے ہیں۔ دانش وروں نے ان معدوم جانوروں کے ڈھانچے بھی ڈھونڈ نکالے جو لاکھوں برس گزرے معدوم ہو چکے ہیں اور جب 1891ءمیں پروفیسر دوبائے کو جاوا میں قدیم انسان کی چار لاکھ برس پرانی ایک کھوپڑی ہاتھ آئی تو پادری اشر کا حساب بالکل ہی غلط ہو گیا۔اس کے بعد 1907ءمیں ہائیڈل برگ (جرمنی )کے مقام پر آدمی کا ایک جبڑا ملا جو پانچ لاکھ برس پرانا تھا اور 1907ءمیں پیکنگ (چین) کے ایک نواحی غار میں انسانوں کے 45 ڈھانچے دست یاب ہوئے جو چار لاکھ برس پرانے تھے۔چنانچہ اب ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ انسان کم از کم پانچ لاکھ برس سے اس کرئہ ارض پر آباد ہے۔ “
سبط ِحسن نے اس کتاب میں تہذیبوں کو بھی بیان کیا ہے، اُن کے عقائد و مروجات کو بھی لکھا ہے اور ان عقائد و افکار کے وہاں موجود پیداواری رشتوں سے براہِ راست تعلق کو بیان کیا ہے۔
بلوچی میں بہت بڑی تعداد میں مویشی کے مالک کو ” بھاگیا“ کہتے ہیں۔ میں اِس ”بھاگیا“ لفظ کے پیچھے بہت پھرتا رہامگر اس کی ابتدا ہاتھ نہ آرہی تھی ۔ میں نے اپنا ذہنی گھوڑا دوڑایا میں نے الفاظ کے ایٹمالوجی کے سہارے بھی لیے اور کچھ اور بھی لکھا تھا مگر جب سبط ِحسن کی کتاب ”ماضی کے مزار“ پڑھی تو میں اچھل پڑا۔ لفظ بھاگیا کے معانی کا مسئلہ حل ہوگیا:
”بھاگ سنسکرت میں حصے کو کہتے ہیں اور بھاگوان شکاری قبیلے کا وہ بزرگ مرد ہوتا تھا جو خورد و نوش کی چیزوں کو قبیلے والوں میں برابر تقسیم کرتا تھا۔دراصل ان کا حقیقی رزاق وہی تھا۔“
جب انسانوں کی زندگی کا انحصار شکار پر نہ رہا اور انھوں نے کھیتی باڑی اور تجارت و حرفت شروع کی اور ذاتی ملکیت کو فروغ ہوا تو بھاگوان کا یہ قدیم منصب لامحالہ ختم ہو گیا۔
یہی حادثہ لفظ ”قسمت “کے ساتھ بھی پیش آیا۔چنانچہ ”حصہ تقسیم کرنے والے کا معزز عہدہ تو ختم ہو گیا لیکن آنے والی نسلوں میں یہ یقین باقی رہا کہ کوئی ایسی طاقت ضرور ہے جو دنیاوی نعمتوں کو انسانوں میں تقسیم کرتی ہے۔اسی سے قسمت اور لوحِ تقدیر کے تصورات پیدا ہوئے اور اب کسی کو یہ بھی یاد نہیں کہ ایک زمانے میں دنیاوی نعمتوں کو قبیلے کا سربراہ ہی لوگوں میں تقسیم کیا کرتا تھا۔“
پاکستان میں تہذیب کا ارتقا
300صفحوں پہ مشتمل اس کتاب میں سبط ِحسن نے معاشرے اور اس کی میٹریل بنیادوں کی تاریخ لکھی۔ آٹھ چیپٹرز پہ مشتمل اس کتاب کا پہلا باب تہذیب کے اپنے بارے میں ہے۔ تہذیب کیا ہے، اس کی definition کیا ہے؟ اس کی خصوصیات کیا ہیں اور اس کے عناصر ِ ترکیبی کیا ہےں ؟( سبط ِحسن صاحب اِن عناصر میں طبعی حالات، آلات و اوزار ، نظامِ فکر و احساس اور سماجی اقدار کو شامل کرتا ہے)۔
دوسرے باب میں ”پاکستان میں تہذیب کا ارتقا‘ ‘ اس منطقے کے قدیم عہد کے تہذیبی عوامل کا مارکسسٹ بیانیہ ہے ۔ بالخصوص مہر گڑھ کے پوتے ” موہن جو دڑو“ کی تہذیبی صورت گری کو تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ عہد ِقدیم سے لے کر مغلوںکے زوال تک سندھ و پنجاب ( اوربالواسطہ بلوچستان بھی ) کے علاقوں میں کون سے تہذیبی عوامل کا ر فرما تھے اور تہذیب کا سفر کس انداز میں آگے بڑھا، یہ اس کتاب کا موضوع ہے۔
یہ درست ہے کہ اگر سبط ِحسن زندہ ہوتا تو بلوچستان اپنے اِس محبوب و مقبول و معتبر دانش ور سے اُس کی دو کتابیں” ماضی کے مزار“ اور ” پاکستان میں تہذیب کا ارتقا “دوبارہ لکھوالیتا۔ اس لیے کہ اُس کے زمانے میں سائنس کے آرکیالوجی والے شعبے نے زیادہ ترقی نہیں کی تھی اور اس کے دل برمعشوقانہ نازک انگلیاں مہر گڑھ کی زلف سنوارنے جتنی بلوغت نہیں پاگئی تھیں۔ چناںچہ اُس کے زمانے میں فقط چار پانچ ہزار سال قبل کی تاریخ ہی لکھی جاسکتی تھی۔
”پاکستان میں تہذیب کا ارتقا “نامی کتاب کے تیسرے چیپٹر میں اُس نے آریا اور دراوڑ پر تفصیل سے لکھامگر یہ تحریر اُس وقت کی ہے جب تک ابھی مہر گڑھ دریافت نہ ہوا تھااور اُس وقت تک ”آریائستان“ ، اور ”دراوڑ ستان “کی تھیوری غلط ثابت نہیں ہوئی تھی ۔ سبط ِحسن اپنی تحریروں میں پانچ کروڑ برس قبل حاملہ وہیل مچھلی کے بارے میں کچھ نہیں لکھ سکتا تھا جس کی بلوچستان میں دریافت اُس کی موت کے بعد ہوئی تھی۔ اسی طرح وہ ساڑھے تین کروڑسال قبل کے دیوہیکل بلوچی تھیریم کے ریوڑوں کے بارے میں بھی اُس وضاحت سے نہیں جانتا تھاجن کی تفصیل اُس کی آنکھیں بند ہونے کے بعد آئی۔
مہر گڑھ تہذیب کی دریافت تو ابھی1990 کی دہائی میں ہوئی۔ کاش سبط ِحسن کچھ سال مزید زندہ رہتا تو فرانسیسی آرکیالوجسٹ اُسے بتاتے کہ مہر گڑھ کا انسان گیارہ ہزار سال قبل سوتی کپڑا پہنتا تھا، گندم ، جو، کھجور اور چاول کاشت کرتا تھا، حتیٰ کہ دانتوں کی فلنگ بھی کرتا تھا۔وہاں انسان بیل گاڑی ایجاد کر چکا تھا۔ وہ طبعی طور پر زندہ ہوتا تو بلوچستان کی حالیہ دریافتیں اسے بتاتیں کہ ہم اس خطے کے تقریباً سارے لوگ اور قومیں یہیں کے اصل باشندے ہیں۔ ہم نہ حلب سے آئے ہیں اور نہ کیسپین سی سے۔
کتاب کا چوتھا چیپٹر ہمارے خطے میں بدھ مت کی پیدائش اورارتقا کا احاطہ کرتا ہے ۔ نیزیہاں ہم پہ یونانی اثرات کا تذکرہ موجود ہے ، جس طرح کہ پانچویں چیپٹر میں ہمارے خطے پر عرب اثرات کو دکھایا گیا ہے ۔ اگلاباب ترکی اور ایرانی اثرات کو بیان کرتا ہے ۔ اسی تسلسل میں مغلوں کے عروج وزوال کا قصہ ہے ۔ اور آخری باب میں مغرب کے صنعتی معاشرے کے اثرات بیان کیے گئے ہیں۔(6)
سبط ِحسن کا کمال یہ ہے کہ اُس نے ہسٹاریکل میٹریلزم کی اُس عینک کو صاف کر کے ہمیں پہنا دیا جس سے ہم اِن جدید دریافتوں کو دیکھیں پر کھیں تجزیہ کریں اور نتائج نکا لیں ۔ اس نے قدیم تہذیبوں کے نظام ہائے فکر و احساس کا جائزہ ان تہذیبوں میں مروج پیداواری رشتوں اور میٹریل حقائق کے پس منظر میں لیا۔ وہ ماضی کے کسی بھی عہد کے سیاسی و سماجی اداروں، رسوم و رواج اور خیالات و افکار کو اُسی عہد کے تناظر میں دیکھتا اور اُسی کے پس منظر میں اُن کی وقعت کا تعین کرتا تھا۔
اس کتاب سے ایک اقتباس:
”تہذیب جب طبقات میں بٹ جاتی ہے تو خیالات کی نوعیت بھی طبقاتی ہو جاتی ہے اور جس طبقے کا غلبہ معاشرے کی مادی قوتوں پر ہوتا ہے اسی طبقے کا غلبہ ذہنی قوتوں پر بھی ہوتا ہے۔ یعنی معاشرے میں اُسی کے خیالات و افکار کا سکہ چلتا ہے۔“
موسیٰ سے مارکس تک
سبط ِحسن کی ایک اور بنیادی کتاب ”موسیٰ سے مارکس تک“ہے ۔ اس کتاب نے بہت بڑی تعداد میں قارئین بنائے۔500صفحات کی اس کتاب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لے کر کارل مارکس کے زمانے تک انسانی سماج کے ارتقا کی پوری تاریخ موجود ہے۔
سبط ِحسن نے مدلل انداز میں لکھا کہ کس طرح شروع کا انسان بے انصافی کی اولین حرکت پر نا خوش ہوا تھا اورکس طرح ہزاروں برس قبل سوشلزم کا نظریہ پیدا ہوا تھا۔ اس کتاب میں قدیم کمیونسٹ سماج کے حوالے سے نیچر اور نیچر کی جدلیات اور ابتدائی انسان کے طرزِ بود و ماند کا سراغ لگایا گیا ہے۔
بیس چیپٹرز میں بٹی اِس کتاب میں آرکیالوجی کی دریافتوں سے استفادہ کیا گیاہے ۔ اس کے علاوہ اس میں مائتھالوجی سے خوب مدد لی گئی ہے اور دنیا بھر سے میسر متعلقہ تحریروں کو سمویا گیا ہے ۔
سبط ِحسن نے شکار کے سماج کے قدیم یا ابتدائی کمیونسٹ نظام والے نام ہی سے یاد کیا۔ اُس کی تحقیق کے مطابق حضرت موسیٰ کا دوراجتماعی ملکیت کا دور تھا۔ اُس دور میں اشیائے خوردونوش کی مساوی تقسیم ہوتی تھی البتہ اُس دور کے آخری حصے میں آقا اور غلام ، بادشاہ اور رعیت ، مخیر اور محتاج ابھر آئے ۔
اسی طرح اس نے اس کتاب میں سپارٹا نامی ریاست کی معاشرتی زندگی کا تفصیلی ذکر کیا۔ یونان، افلاطون اور ایتھنز سبط ِحسن کے قلم سے بہت آسان زبان اور بہت تفصیل سے قاری کے ذہن میں بیٹھتے ہیں۔
اس خوب صورت کتاب کے اندر سال 408ق م کے ایک ڈرامہ میں افلاس یعنی غربت کی طرف سے ایک ڈائیلاگ ملاحظہ ہو:
” اے ایتھنز والو! تمہاری راحتیں اور آسائشیں میری بہ دولت ہیںبل کہ تمہاری زندگی کا انحصار ہی مجھ پر ہے۔ اگر ہر شخص کو کام سے فراغت مل گئی تو لوہا کون پگھلائے گا، بھٹی کون جھونکے گا، ہتھوڑا کون چلائے گا، جہاز کون بنائے گا، کپڑے کون سیے گا، کھال کون رنگے گا، چمڑا کون سجائے گا اور ہل کون جوتے گا۔ اگر کمیونزم نافذ ہوگیا تو تم کوسونے کے واسطے عمدہ مسہریاں دست یاب نہ ہوں گی۔ مسہریوں کا بننا موقوف ہوجائے گا اور نہ تم قالینوں پر آرام کر سکو گے کیوںکہ جب ہر قالین باف کے پاس دولت ہوگی تو وہ قالین کیوں بُنے گا۔“
اُس وقت تک دیوی دیوتا نہیں بنے تھے اور نہ مذاہب کا ظہور ہوا تھا ۔ انسان جمادات ، نباتات اور حیوانات کے فرق کو نہیں سمجھتا تھا بل کہ اس کا خیال تھا کہ تمام موجوداتِ عالم اس کے مانند فعال اوربا ارادہ ہیں۔ وہ غیرشعوری طور پر وحدت الوجود کا قائل تھا۔
البتہ جب معاشرہ طبقوں میں تقسیم ہو گیا اور بادشاہتیں وجود میں آئیں۔ بادشاہ اور رعایا ، حاکم ومحکوم ، آقا اور غلام ،خواص اورعوام کے درمیان حد یں کھچ گئیں تومعاشرے کی پرانی وحدت باقی نہیں رہی۔ اس ثنویت کا عکس عقائد میں بھی نمودار ہوا۔
خدا اور کائنات، خالق اور مخلوق دو الگ الگ ہستیاں قرار پائیں۔ خدا موجوداتِ عالم سے ارفع ایک خودمختار اور قادرِ مطلق ذات ٹھہرا اور طبقاتی معاشرے کی ثنویت نے کائنات کی اکائی کے تصور کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
وجود کی وحدت ختم ہو گئی۔ اب انسان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ احکام خداوندی کی پابندی کرے۔ خدا کی خوشنودی کے لیے نیک کام کرے تا کہ مرنے کے بعد اس کو خدا کی قربت حاصل ہو مگر یہ قربت وصل میں بھی بدل نہیں سکتی تھی، مخلوق اپنے خالق کا جز کبھی نہیں بن سکتا تھا۔ وہ کبھی خدا نہیں ہوسکتا تھا۔ حالاںکہ اس کی دلی آرزو تھی۔“
مصنف نے بتایا کہ یسوع مسیح اور اُس عہد کے 400سالوں تک کی مسیحیت کے پیش واﺅں نے دولت سے نفرت کرنے کی تلقین کی۔
اس کے بعد کے ابواب میں موسوی شریعت سے لے کر مزدک تک اور یوٹوپیا سے لے کر انقلاب ِ فرانس کے پس منظر میں مارکس اور اینگلز تک آپ کو زبردست روانی ملے گی ۔دل مزہ لے لے کرہر فقرے کو دماغ کے اندر سٹورکرتا جاتا ہے۔ایک اہم انکشاف جو اس ضخیم کتاب میں ہے، وہ یہ ہے کہ کس طرح حکم ران طبقات کی طرف سے تاریخی طور پر یہ بات ذہنوں میں بٹھائی گئی کہ دولت و افلاس کسی ظلم و استحصال کا نتیجہ نہیں ہیں اور دوسرے کی لوٹ کا دولت مندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اسی کتاب میں سبطِ حسن نے کارل مارکس پر لکھا۔ اس کی سوانح حیات، سیاست، تصانیف ، محبت ، جلاوطنیوں اور بھوک وغربت سب کو تفصیل سے بیان کیا۔ اسی طرح اس نے مارکس کے ہم سفر فریڈرک اینگلز کے بارے میں بھی خوب تفصیل سے لکھا۔
سبط ِحسن ہی بتا سکتا ہے کہ 1668ءکا انقلاب سولہویں صدی پر سترہویں صدی کی جیت تھا۔ 1789ءکا انقلاب سترہیں صدی پر اٹھارویں صدی کی جیت تھا۔ یہ انقلاب اپنے عہد کی دنیا کی ضرورتوں کا اظہار تھے نہ کہ ان علاقوں (برطانیہ اور فرانس )کی ضرورتوں کا اظہار جہاں وہ برپا ہوئے لیکن سماجی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے جو انقلابی عز م و ارادہ درکار ہوتا ہے۔ اس کی لازمی شرط سماج کے ابھرتے ہوئے عناصر میں انقلابی شعور کی تربیت ہے ۔شعور و احساس کی اس تربیت میں برسوں صرف ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر لینن نے کہا تھا کہ سماجی انقلاب سے پیش تر فکری انقلاب لاناپڑتا ہے ۔ چناںچہ اٹھارویں صدی کے فکری انقلاب میں فرانس کے روشن خیال دانش ور پیش پیش تھے ۔“
اس کتاب کا ایک اور خوب صورت پیراگراف دیکھیے:
"بیگانگی یا لاتعلقی( Alienation) نفسیات کی پرانی اصطلاح ہے۔اس سے مراد تشخص ذات کا زیاں ہے ۔یعنی وہ ذہنی کیفیت جس کے باعث انسان اپنے معاشرے،اپنی تہذیب حتیٰ کہ اپنی ذات سے بھی کٹ جاتا ہے۔وہ ہزاروں لاکھوں کی بستی میں بھی اپنے آپ کو تنہا اور بے یارومددگار محسوس کرتا ہے۔اس کو اپنے گردوپیش کی ہر شئے اجنبی اور غیر نظر آتی ہے اور وہ معاشرے کی تمام قدروں، تمام سرگرمیوں کو بے معنی سمجھنے لگتا ہے۔اس ذہنی بیماری کی دوسری علامت لاچاری اور بے بسی کا شدید احساس ہے۔
انسان کو یقین ہو جاتا ہے کہ مجھ کو اپنی زندگی پر بالکل قدرت حاصل نہیں ہے۔میں نہ اپنے حالات کی اصلاح کر سکتا ہوں نہ میرے عمل سے دنیا میں کوئی تبدیلی آ سکتی ہے۔بے مقصدیت کا احساس اس کو سماجی قدروں سے اور بے بسی کا احساس اس کو اپنے کردار و عمل سے بے گانہ بنا دیتا ہے۔وہ اپنی شخصیت کھو دیتا ہے ۔
سبط ِحسن نے اپنی اس کتاب میں لکھا تھا کہ شخصیت کی یہ توڑ پھوڑ دراصل اُس وقت شروع ہوئی جب معاشرہ طبقات میں تقسیم ہوا اور اس کی وحدت پر پہلی ضرب لگی۔ جن دنوں معاشرہ طبقوں میں نہیں بٹا تھا اور نہ با دشاہتیں قائم ہوئی تھیں بل کہ ہر قبیلے کی نوعیت ایک بڑے گھرانے کی تھی اور لوگ زرعی زندگی یا گلہ بانی یا ماہی گیری کے اشتراکی دور سے آگے نہیں بڑھے تھے تو معاشرہ ایک سالم وحدت تھا۔ معاشرے اور فرد کے مفاد میں کوئی تضاد ،کوئی ٹکر نہیں تھی۔
بے گانگی ہی کے موضوع پر صفدر میر نے ایک مقالہ لکھا تھا، 1984ئمیں۔ سبط ِحسن نے اس کا بہت دقیق اور عملی تعارف لکھا تھاجو کہ پڑھنے کے قابل ہے۔ اس سے مارکسزم پہ اُس کی دست رس اور معاملات کو عصری حالت سے مطابقت دینے میں اس کی ہنر کاری کا اندازہ ہوتا ہے ۔
بہر حال ، یہ سوشلزم کی تاریخ کے موضوع پر ایک زبردست کتاب ہے ۔ اس کی ابتدائی قدیم یوٹوپیائی صورت سے لے کر سائنٹفک شکل تک۔
۔۔۔۔۔۔۔۔جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔