ابھی آٹھ دس سال قبل تک ہمارے خطے میں ”گلوبل وارمنگ “ ایک بورژوا بات لگتی تھی ۔ترقی یافتہ بورژوا ممالک میں بھی کمیونسٹ پارٹیاں ، یا پھر بس جرمنی میں گرین پارٹی ہی اس معاملے میں سنجیدہ لگتی تھی۔
ہم دو لاکھ سالوں سے اِس 4.5بلین برس پرانی زمین پہ رہ رہے ہیں۔ہمارے کلاسیک اور فوک ادب میں کسی کلاﺅڈ برسٹ کا کوئی ذکر نہیں، کسی سونامی پہ کوئی مصرع موجود نہیں۔خیر خیریت کے دو لاکھ سال ۔ ہم لوگ تو اس وقت ہوش میں آئے جب ہر لحاظ سے رنجیدہ و ژولیدہ بلوچ قحط اور سیلابوں کی متضاد تباہ کاریوں کی باریوں کا شکار بننے لگے ۔ ایسی بربادی کہ لوگوں کے لیے پیٹ بھرنے کا بڑا ذریعہ تباہ ہوتا رہا ۔ اور یہ تو معلوم ہے کہ طویل دورانیے کی نیم فاقہ کشی سے بڑا عذاب کوئی نہیں ہوتا۔ اجتماعی بھوک کی سست رفتار موت ،مسنگ یا مسخ شدگی سے بھی بہت بھیانک بات ہوتی ہے ۔
تکبر اور شاونزم کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ہم انسان ،اکیلے اس زمین کے باسی نہیں ہیں ۔بلکہ ہم اسے دوسرے سپیشیز کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔چنانچہ موسمی تغیر سے صرف انسان ہی نہیں مر رہا، بلکہ اُس کے ساتھ محنت کرنے والے ، یا اسے دودھ اورگوشت دینے والے جانور وں نے بھی مرنا ہے، انسان سے بھی پہلے انہیں مرنا ہے ۔ فصل نہیں تو جھاڑیاں کہاں ، درنگ ئِے زامر کہاں، لیموئی برکہاں، درخت کہاں۔ بلبلیں ، تتلیاں ۔۔۔۔الغر ض زندگی نہیں۔
بلوچستان اس گلوبل کلائمیٹ چینج کا ایپی سنٹر بن چکا ہے۔ یہاں سرد علاقوں میں چھ سات ماہ کی سردیاں ہوا کرتی تھیں۔ اب محض ایک ماہ کی سردی پڑتی ہے ۔ ستمبر سے لے کر اپریل تک چھ ماہ کے دوران برف اور بارشیں ہوتی تھیں، اب صرف مارچ کے مہینے کے پندرہ دنوں کے اندر اندر برف اور بارش وحشتناک انداز میں برستی ہے ۔ تباہ کن سیلاب ، ژالہ باری ، آسمانی بجلی ۔ اِن پندرہ دنوں میں ایک قیامت صغری کا نزول ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ قیامت اپنے اثرات اگلے دو تین سال تک جاری رکھتی ہے ۔ مگر نئی قیامت تو اگلی سردیوں میں پھر آنے والی ہوتی ہے۔ ہم اس سلسلے میں مون سون کی تباہیوں کی بات ہی نہیں کر رہے ، جب پورا زرعی اور میدانی بلوچستان پہاڑوں سے آئے سیلابوں کے تھپیڑوں کا شکار بن جاتا ہے ۔ اب ہمیں ، ہمارے عام آدمی کو معلوم ہوا کہ ماحولیاتی تبدیلی یا گلوبل وارمنگ کیا ہوتی ہے ۔ واقعتا مطالعہ کی بہ نسبت کسی چیز کو خود بھگتنا لاکھ گنا معلوماتی ہوتا ہے ۔
اگر یہ بربادی مقامی ہوتی تو یقیناً ہم کالے بیل خیرات کر کے ، پیرو مرشد کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کرکے، چیونٹیوں کے غار کی پرستش کر کے اسے ٹالنے کی کوشش کرتے،یا پھر ہمارا عام آدمی اپنی پاک پوتر زندگی میں کوئی اور گناہ تلاش کرنے میں لگ جاتا۔ یا پھر قیامت کی نشانی سمجھ کر مزید عبادت کرتا ۔مگر چونکہ یہ عالمی فناں می نن ہے اس لیے عالمی پیمانے پہ تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ دوھری اور جڑواں مصیبت یعنی قحط سالی اور سیلاب کے پیچھے کپٹلزم کا ہاتھ ہے۔ایک حالیہ رپورٹ میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس دنیا پر ہونے والے ماحولیاتی اثرات 16فیصد امیر لوگوں کی آبادی کی وجہ سے پڑ رہے ہیں۔ گوکہ اب یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ امیر لوگوں کا طرز زندگی جو رہا ہے اور جس کے یہ عادی ہوچکے ہیں یہ اس زمین پر مزید لمبے عرصے تک جاری رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔
لالچی کپٹلزم نے جنگلات کی کٹائی کی اور اس عمارتی لکڑی کو بیچ کر بہت منافع بنایا ۔ نیز انہیں صاف کر کے وہاں کھیتی باڑی شروع کردی ۔اس نے جنگلات کی بے رحم کٹائی ، کوئلہ پٹرولیم گیس (یعنی فوسل فیول )کا صنعت میں استعمال ، اور گاڑیوں انڈسٹریوں سے نکلتے دھوئیں کے ہاں ”زندگی “یرغمال کردی۔ انہی نقصان دِہ گیسوں کو گرین ہاﺅس کہتے ہیں۔ ان گیسز کو گرین ہاﺅس گیسز اس لیے کہتے ہیں کہ ان کی مناسب مقدار پودوں کی نشوونما کے لیے ضروری ہوتی ہے ۔(کاربن ڈائی اکسائڈ ہی گرین ہاﺅس گیس ہوتی ہے ۔ )
اگر یہ گیسز مقدار میں زیادہ ہوں تو سورج کی گرمی کی مقدار ان میں پھنس جاتی ہے ، اور یوں زمین پہ گرمی میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔اسے گلوبل وارمنگ کا نام دیا گیا ۔ یہی گلوبل وارمنگ اُس کلائمیٹ چینج کا سبب ہے ۔ جس کے نتیجے ہم بھگت رہے ہیں۔
انسان ہی نے کیڑے مار دوائیں اور کھادیں ایجاد کیں تاکہ پیداوار بڑھے ۔ مگر بعد میں معلوم ہوا کہ یہی دونوں چیزیں بایو ڈائیورسٹی کو نقصان پہنچاتی ہیں ۔ سبزے کے خاتمے ، درختوں کی کٹائی اور بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے باعث ہمارے دوست اور واقف اور ہمدرد جاندار نایاب ہوتے جارہے ہیں۔ اور یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ گھاس کی ہریالی ہر سال اُس وقت زیادہ شدت سے پیدا ہوتی ہے اگر ہر ی بھری گھاس کو چرنے والے جانور میسر ہوں گے ۔ اگر گھاس چرنے والے جانور ہی موجود نہ ہوں تو گھاس دوسری بار اس شدت کے ساتھ پیدا نہیں ہوگی جیسا پہلی بار ہوا تھا۔“
اس مہیب عالمی مسئلے پر بے شمار کا نفرنسیں سمینار ، سمٹ میٹنگز اور معاہدے ہوتے رہے ۔ مگر کپٹلزم جوکہ انڈسٹریل ممالک کی قیادت میں آج کا عالمی نظام ہے ، منافع ، مقابلہ اور لالچ پہ مبنی نظام ہے ۔ اس نے سارے معاہدوں کے باوجود کسی نکتے پر عمل نہ کیا اور اس زمین پر زندگی کو خطرے سے دوچار رکھا ہوا ہے ۔
اور اب یہ بربادی بلوچستان اور سندھ پہ ڈیرے ڈال چکی ہے اس لیے ہم اِس کی کچھ زیادہ ہی شدبد رکھتے ہیں۔
ہمارے مون سونی علاقے میں ،نیز غیر مون سونی علاقوں میں بھی بارشوں کا پیٹرن بدل چکا ہے ۔ اب بہت کم وقت میں شدید بارشیں ہوتی ہیں۔ یوں ایک طرف طویل خشک سالی نازل رہتی ہے اور دوسری طرف فوری سیلابیں شدید انداز میں برپا ہوتی ہیں۔
ساحل اور سمندر کے ماحولیات پہ اثر کا ہمیں اندازہ ہی نہ رہا۔ حالانکہ اس دنیا میں جو لگ بھگ 500ساحلی علاقوں میں تعمیر شدہ شہر موجود ہیں، ان میں سے 50شہر اور گاﺅں بلوچستان کے ہیں۔مگر بلوچ ساحل اور سمندر تو بالکل صاف شفاف ہیں۔ سمندری پالیوشن دیکھنا ہو تو دنیا کی بڑی سمندری شاہراہوں اور بندر گاہوں پہ دیکھیے۔ سمندر تو نیلا ہوتا تھا۔ مگر وہاں اب یہ سیاہ کالا پڑ چکا ہے ۔
ہم جغرافیائی ناواقفیت کا شکار ہیں۔ ہم روزگار دینے والے شعبوں ، یعنی ڈاکٹری اور انجینئرنگ وغیرہ کے بارے میں تو کچھ نہ کچھ جانتے ہیں مگر ہم نے جغرافیہ کے بارے میں خود کو بالکل بھی باشعور بننے نہ دیا۔ ہم نے فضا میں موجود گیسوں کے بارے میں معلومات اپنے دماغ میں جانے نہ دیں۔ کیمیکل تبدیلیاں کس طرح پورے کرہِ ارض کو جکڑتی ہیں ہم نے جاننے کی کوشش ہی نہ کی ۔ یہ نہ جانا کہ کاربن ڈائی اکسائڈ کی زیادتی سے سمندر تیزاب ہوجاتے ہیں ، یا پھولوں پہ تتلیوں کا منڈلانا دراصل پولی نیشن کا عمل ہے۔ہم نے جنگل کی اہمیت اور درخت کے تقدس کو کچن میں سوئی گیس کی غیر موجودگی کا بارٹر ٹریڈ سمجھا ۔ سرکار پہ زور نہ چلا تو کُلہاڑی اپنے پیروں پہ دے ماری، جنگل کاٹنے شروع کردیے۔
بلوچستان نے اپنے بارے میں بھی تفصیلات نہ دیں ۔ بلوچستان جو کہ رقبہ اور تنوع کے اعتبار سے خود ایک برصغیر ہے۔بلوچ کی واضح اکثریت کو اپنے سمندروں کے بارے میں معلومات ہی نہیں ہیں۔ سمندر ،ماحولیات کے لیے کیا کرتا ہے ، اس کے اندر کیا کیا خزانے چھپے ہوئے ہیں عوام نہیں جانتے ۔ اور پھر سمندری مخلوق کی تفصیلات تو ہمیں بالکل معلوم نہیں ہیں۔
باہر کی دنیا کی طرف تو ہم نے جھانکا ہی نہیں۔ ہمیں گلشیئرز کا پتہ نہیں ۔حتی کہ مست تﺅکلی کی شاعری میں سے ہم نے ماحولیات کے بارے میں کچھ اخذ ہی نہ کیا۔
بلوچستان میں ایمزون کے گھنے جنگل تو نہیں ہیں مگر جو درخت موجود ہیں اُن کا رول انتہائی اہم ہوتا ہے ۔یہ درخت بے شمار کام سرانجام دیتے ہیں۔کپٹل ازم بدبخت نظام ہے۔ اس نے پہلے ہم سے ہمارا اپنا کمیونل والا کوڈ چھین لیا۔ عجب عجب لچھن دکھا کر اپنی چمک میں اس قدر گرفتار کر لیا کہ ٹریکٹر ملنے سے قبل ہی ہم نے اپنے بیل بیچ ڈالے ۔ ہمارے ہاں بہت عمر کا درخت ، یا گھنا درخت نہیں کاٹا جاتا تھا۔ ہم اس درخت کو ولی سمجھتے تھے ۔ ورنہ یہ مشہور کر لیتے کہ اس درخت پہ جنوں کا ٹھکانہ ہے ۔ انہیں تنگ نہ کیا جائے ورنہ وہ بہت نقصان پہنچائیں گے ۔ دیگر درختوں کے کاٹنے کے بھی اخلاقی کو ڈ ہوا کرتے تھے ۔ مثلاً جلانے کے لیے سبز درخت نہیں کاٹا جاتا تھا ۔ صرف سوکھے درخت اکٹھے کر کے جلانے کے لیے لے جائے جاتے ۔ دیہات گاﺅں میں سو ختنی لکڑی بیچی نہیں جاتی تھی۔ ہر ایک اپنی ضرورت کے مطابق خود لکڑیاں چنتا تھا ۔ درخت کو برکت، امن سرسبزی ، خوشحالی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
انسان واحد سپیشیز ہے جو جنگلات کو سب سے بڑے پیمانے پر تباہ کرنے کا ذمہ دار ہے ۔اور انسان ہی وہ واحد سپیشیز ہے جو جنگلات کو سب سے بڑے پیمانے پر بچا سکتاہے۔اور اس مسئلے کا حل بھی صرف انسان کے پاس ہے ۔ کائنات بھر کے اشجار و چرند پرند اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کرسکتے۔سرکاری محکمے شجرکاری کے نام پہ ایک اور جہالت یہ کرتے ہیں کہ وہ مقامی درخت نہیں لگاتے ۔ جو کہ ہزاروں سالوں سے ہماری زمین ، آب و ہوا اور ماحول سے مطابقت رکھتے ہیں۔ بناوٹی ، فیشنی اور سجاوٹی پودے لگانے سے ماحولیاتی آلودگی ختم تو کیا ،کم بھی نہ ہوگی۔
ماحولیاتی بحران کے معاملے میں مغربی ممالک اور چین نے کافی پیش رفت کی ہے۔ کچھ ممالک نے سڑک پہ زہریلی گیسوں میں کمی کے لیے سائکلیں چلانے کی حوصلہ افزائی کر کے زبردست کام کیا ہے۔ دنیا میں پٹرول ڈیزل گاڑیوں پر پابندی لگائی جارہی ہے اور اس کی جگہ پر بجلی سے چلنے والی روڈ ٹرانسپورٹ چالو کردی ہے ۔ اسی طرح ڈرون سے سامان کی نقل و حرکت کے شعبے کو ترقی دی جارہی ہے۔
لفظ ”شاپنگ“ ہماری ڈکشنریوں کے اندر باقاعدہ ایک اہم کام کے بطور شامل ہوچکا ہے ۔ یہ بد بخت شاپنگ ہماری شناخت کے کنفیوژن کو بڑھاتا ہے اور زندگی کی سمت بدلنے کا باعث بنتا ہے ۔ کنزیومر ازم (Consumerism) ہمیں ایسے خیالات اور سوچوں میں پھنسا لیتا ہے کہ ہم سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم اپنی شخصیت کو چیزیں خرید کر بنا ئیں گے ۔
دوسرا مسئلہ یہ ہوا کہ جب ماحولیات کے ساتھ کی گئی زیادتیوں نے بدلہ لینا شروع کردیا تو اندازہ ہوا کہ اسے صرف ہم ٹھیک نہیں کرسکتے ۔ یہ بحران کپٹلزم کا بحران ہے ۔ کپٹلزم نے بہت عرصہ سے لکڑی بیچنے ، کارخانے لگانے ، ہاﺅسنگ سکیم کھڑی کرنے ،یا زراعت کے لیے بڑے پیمانے پر جنگلات کا صفایا کردیا ۔ وہی کارخانوں سے زہر یلا پانی دریاﺅں سمندروں میں انڈیلتا رہا۔ اسی نے چمنی اور ٹرانسپورٹ کے دھوئیں سے فضا کو آلودہ کردیا۔ اتنے بڑے پیمانے کی تباہی کو محض ایک کمیونٹی ، ایک ملک ریورس نہیں کرسکتا۔
غربت و بھوک کی موجودگی میں ماحولیاتی آلودگی کی طرف راغب ہونا آسان بات نہیں ہے ۔ مگر کیا کیا جائے ، سامنے موت ہے ۔ انتہائی سنگین صورت حال سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ محض ماحولیات ماحولیات جپنے سے بات نہیں بنے گی۔ پورے انسانی طرز زندگی کو بدلنا ہوگا۔ اچھی صحت اور فلاح و بہبود کا نظام بناناضروری ہوگیا ہے جہاں کوالٹی ایجوکیشن ہر ملک میں بچے کا حق ہو ۔ عورتوں مردوں کو برابری کے حقوق حاصل ہوں،صاف پانی مہیا ہو ۔ کلین انرجی لوگوں کی پہنچ سے باہر نہ ہو۔ مناسب روزگار اجتماعی سطح پر انسان کو مہیا ہو ۔ صنعت ، ماڈرنزم اور انفراسٹرکچر کے ذریعے ترقی کے نئے طریقوں کو پرموشن ملے ۔ترقی کا نیا ماڈل قائم ہو جس تک سب شہریوں کی برابر رسائی ہو۔
موسمیاتی تبدیلی کے خلاف ایکشن کرنے کی گلوبل سطح پر ضرورت ہے ۔ پانی کے اندر موجود زندگی کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے سمندروں کو صحت مند رکھے ، صاف رکھے ۔ زمین پر زندگی کی مدد کا نظام جنگلات اور سبزہ زاروں کی وجہ سے قائم اور برقرار رہتا ہے ، اس لیے جنگلات کے خاتمے کو روکا جائے ۔
بے شک کلائمیٹ تبدیلیاں ہمیں جس تباہی سے دو چار کر رہی ہیں، ہمارے لوگ اسے قومی بقا کے لیے خطرہ سمجھیں گے ۔ اور پھر ایک دو سال کے اندر اندر کلائمیٹ ایکٹوزم میں کود پڑیں گے ۔ مگر یاد رہے کلائمیٹ ایکٹوزم سرمایہ دشمنی ہے ، سامراج دشمنی ہے ۔

لِیڈ بلوچستان کو کرنا پڑ ے گا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے