خیرات نہ بانٹو ، اصلاحات کرو!
عوام کی زندگی کا معیار زمیں بوس ہوچکا، امیر اپنی دولت کے ساتھ اپنا وطن تو کیا یہ براعظم بھی چھوڑ چکا ۔ عوام صحت ، تعلیم ، رہائش ، اور بجلی گیس اور پٹرول کے بلوں کی ادائیگی کے مہیب مراحل سے گزر رہے ہیں اور امیر آئی ایم ایف سے مزید پیسوں کے نشے میں دروازے کھٹکٹا تا ہے ۔ غریبوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوتا جارہا ہے اور امیر اپنی تعداد کو محدود سے محدود تر کرنے کی کوششوں میں کامیاب ہوتے جارہے ہیں ۔ قیمتیں اونچی اڑان سے باز نہیں آرہیں ، سیلاب ہیں کہ تھمتے نہیں۔
اس سارے پس منظر میں سماج دائیں طرف سرکتا گیا، محنت دشمن بنتا گیا ، فرقہ وارانہ اور نسل پرستانہ بنتا گیا اور اس کے تقریباً ہر شعبہِ زندگی پر فاشزم چھانے لگا۔ پاپولزم اس سب شیڈز کا واحد نام ہے ۔ عوام کی ٹریجڈی تو اس سے بھی بڑھ کر ہے۔اسے جو حکمران ملے ہیں وہ انسانی اوصاف تک سے خالی نکلے ۔ کوئی نیا خیال، نئی حکمت عملی ، نئے نعرے نہیں ۔۔۔آئی ایم ایف کے فیڈ کردہ روبورٹ ہیں یہ۔
شہباز شریف کو اب پھر وزیراعظم بنا دیا گیا۔ سب کا خیال تھا کہ وہ اب عبرت پکڑ ے گا، عوام اُس کی جن حرکات و اقدامات کو پسند نہیں کرتے تھے وہ ان سے اجتناب برتے گا اور حکمرانی کے نئے طرز طریقے اختیار کرے گا۔ مگر نہیں!۔ پھر اُس کے وہی چھاپے ہیں۔ پھر اس کے وہی ناگہانی دورے ہیں۔ کسی افسر کو معطل کر رہا ہے ، کسی کوٹرانسفر ۔ارے بھئی اکیسویں صدی میں کسی یوٹیلیٹی سٹور پر وزیراعظم کا چھاپہ مارنا بنتا ہے ؟۔ آپ کی پالیسی اور نظامِ گورننس خود آپ کو کیوں نہیں بتاتا کہ حالت کیا ہے ؟۔ مطلب یہ کہ اس نے کچھ نہیں کرنا ، کوئی پالیسی نہیں بنانی ۔ یوں وقت گزاری کے لیے اسسٹنٹ کمشنر والے کام کرنے ہیں۔ ان حرکتوں سے اب پبلسٹی بھی نہیں ہوئی ۔ کوئی پراڈکٹوٹی نہیں ہوتی ۔۔۔ محض عوام کا دل جلتا ہے ۔
شہباز کا سابقہ دوربھی ہنگامی اور سرپرائز دوروں کا دور تھا ، تو کیا آ ج پنجاب کا تھا نہ کلچر تبدیل ہو چکا ہے ؟ کیا سر کاری ہسپتالوں میں لواحقین کو علاج کی بہتر سہولیات میسر آ چکی ہیں۔ کیا سرکاری اداروں سے عوام کو بہ آسانی ریلیف مل رہا ہے ؟
وہ خود تو یہی کرتا رہا ، اب اس نے پنجاب کی وزیراعلیٰ اوراپنی بھتیجی مریم نواز کو بھی اس کام پہ لگادیا ۔شہباز شریف اور اس کی بھتیجی وہی ناگہانی اور ناگمانی سرپرائز دورے کرتے ہیں۔ قدموں کی چاپ کبھی اس ضلع میں ہوتی ہے کبھی یہ تراپ تروپ دوسرے ضلع میں ۔ اِس کو شاباش کہو ، اُس کو معطل کرو ۔ بھئی بنیادی کام کرو، کوئی بنیادی فیصلے کرو ۔ نہیں۔بس لکیر کی فقیری کرنی ہے ، نئے آئیڈیاز جاگیرداروں کے پاس ہوتے کہاں ہیں!۔
مریم نواز تو اب لوگوں کے گھروں میں گھس کر وہاں کی عورتوں سے آشیر بادیں لیے پھرتی ہے ۔
آئی ایم ایف کے درپہ حسبِ سابق بھیک کا کچکول ، پرائیوٹائزیشن کے وِرد۔ کوئی تعلیمی پالیسی نہیں بس دانش سکول۔ کوئی زرعی اصلاحات نہیں بس کسان کو کھاد بیج۔ کوئی صنعتی وژن نہیں بس پرائیوٹا ئزیشن ۔کوئی خارجہ پالیسی نہیں ، بس امریکہ اور خلیجی ممالک کی کا سہ لیسی۔
اور پیپلز پارٹی دیکھیے ۔ ستر سالہ معمر یہ سیاسی پارٹی ابھی تک سیدوں ، پیروں ، سجادہ نشینوں کے ہاں رہن ہے ، وہ ذرا سامنے سے ہٹیں تو یہ پارٹی نہ سیاسی رہے گی اور نہ عوامی ۔ سینیٹ چیئرمین پیر، سندھ وزیراعلیٰ پیر، اسمبلی ممبران میں پیر ہی پیر۔نہ صرف سندھ میں ، بلکہ پیروں کے دیس ملتان میں بھی ۔ ایسی بدبختی کہ فیوڈل ازم اس کی جان نہیں چھوڑتی ۔ایسی نااہلی کہ وہ صنعتی کلچر کو گلے ہی نہیں لگاپاتی۔ جب بھی الیکشن آتے ہیں پیپلز پارٹی روٹی کپڑا اور مکان کا 50سالہ پرانا گدڑ سنگھی نعرہ گُدڑی سے نکال لیتی ہے اور جھاڑ جھوڑ کر عوام میں فروخت کرتی ہے ۔
ہم کہتے ہیں کہ جاگیرداروں سے زمین لے کر اسے بے زمین کسانوں میں بانٹ دو۔ اس طرح خوراک اور اناج کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا اور سماج سے فاشزم بھی ختم ہوگا ۔
ہم کہتے ہیں کہ بڑی زراعت اور لائیو سٹاک پر ٹیکس لگا ﺅ ۔ مگر یہ لوگ ایسا نہیں کرتے اس لیے کہ بڑے زمیندار تو اُن کے ساتھی ہیں، ان کے ”پارلیمنٹ فیلو “ہیں، ان کے ”کابینہ کو لیگ “ہیں۔
عوام کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے قرضے کسی صورت واپس نہیں کیے جاسکتے ۔ اور یہ کہ سُود ادا کر کر کے ہم اس قرض سے کئی گناہ زیادہ رقم پہلے ہی ادا کر چکے ہیں۔ اس لیے اس سے انکار کردو اور ہمسایہ ممالک سے تجارتی وصنعتی تعلقات استوار کر کے ملک کو خود کفیل بنا دو۔ مگر یہ حکمران پارٹیاں دوڑ دوڑ کر آئی ایم کے پیر چھونے جاتی ہیں۔ اس کے الٹے سیدھے سیاسی، دفاعی اور معاشی مطالبے مانتی جاتی ہیں اور مزید بیس برس کے لیے مزید قرضے لے کر ملک کی سا لمیت اور آزادی رہن رکھ کر آتے ہیں اور سینہ پھلا کر مقروض ہونے پر فخر کرتے ہیں۔
عوام کہتے ہیں کہ اتنا بڑا ریاستی ڈھانچہ ملک پہ بوجھ ہے ، اس کی تعداد ،اختیارات اور مراعات گھٹا دو۔ دیگر غیر پیداواری اخراجات بھی کم کرو۔ اس طرح حاصل ہونے والی بہت بڑی رقم سے ملک کو صنعتی بناﺅ۔ مگر یہ لوگ اُس طرف سر کتے تک نہیں۔
عوامی دانشور کہتا ہے کہ ملک میں نچلے طبقات ، نسلی اور مذہبی اقلیتیں، عورتیں اور محکوم قومیں سخت محکومی اور غلامی میں ہیں۔ اُن کے حقوق دو۔ مگر یہ لوگ ایک آدھ سکھ، یا کرسچین پٹھو کو وزارت پہ بٹھا کرتاثر دیتے ہیں کہ گویا اقلیتیں محفوظ ہوگئیں۔ ایک آدھ عورت کو منسٹر بنادیا ،ایک ”اپنا “ بلوچ وزیراعلیٰ بنا کر سارے سادہ پنجابیوں کو باور کرواتے ہیں کہ سارا اقتدار بلوچوں کو عطا کیا گیا۔
عوام کہتے ہیں کہ الیکشن لڑنے کو عام آدمی کے لیے ممکن بنادیا جائے ۔ مگر یہ لوگ سردار ، وڈیرہ ،خان اور چودھری کو نام نہاد ”الیکٹے بل “قرار دے کر ، اور اس سے پیسے لے کر، اسے ٹکٹ دیتے ہیں۔ اور یوں اسمبلی میں جاگیردار بھرتی ہوکر حزب اقتدار اور حزب اختلاف تشکیل کرتے ہیں۔ یوں سرمایہ داری والی پارلیمانی جمہوریت فیوڈلوں کو تحفہ کی جاتی ہے۔
عوامی دانشور کہتے ہیں کہ تعلیم لازمی ہو، مفت اور سائنسی ہو اور مادری زبانوں میں ہو۔ مگر پیپلز پارٹی اور ن لیگ تعلیم کو دقیانوسی ، رجعتی ، مہنگی رکھے ہوئے ہیں۔
عوام ،صحت کی مفت سہولیات اپنے گھر کے دروازے پر چاہتے ہیں ۔ مگر یہ لوگ اربوں روپے ہیلتھ کارڈ سکیم جاری کرتے ہیں۔ اس طرح پرائیویٹ ہسپتالوں کو پیسہ دے دے کر مالک سرمایہ داروں کو کروڑ پتی بناتے جاتے ہیں۔ حالانکہ انہی پیسوں کو سرکاری ہسپتالوں پہ خرچ کر کے عوام کو صحت کی سہولتیں دی جاسکتی ہیں۔
لوگ ٹریڈ یونین، اور سٹوڈنٹس یونین کی بحالی چاہتے ہیں، پریس کی آزادی ، تقریر و تحریر و اجتماع اور تنظیم کاری کا حق مانگتے ہیں۔ مگر یہ دونوں حکمران پارٹیاں لاکھ بہانوں سے اس طرف آدھا قدم بھی اٹھانے کو تیار نہیں ہوتے۔
مگر معاملہ سیا ہ ہے ۔ پالیسیاں سیاستدانوں نے بنانی نہیں ہیں ۔ بڑے ریفارم انہوں نے کرنے نہیں۔ اس لیے کہ یہ اُن کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ IMFکے ہاتھ میں ہے یا اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں۔ اس لیے یہ سول حکومت گھر کی مرغیاں ذبح کرتی رہے گی۔ مضبوط لوگوں پر زور نہیں چلتا تو غریب تو موجود ہے ، انہی پہ بوجھ بڑھاﺅ۔
یہ لوگ راشن تقسیم کرتے نظر آئیں گے۔ جوکہ سرمایہ دارانہ مکاری اور بورژوازی کی ساحری ہے ۔ بھئی ، بجلی اور گیس کے بلوں میں کمی کردو اور پٹرول سستا کردو۔۔۔راشن بھیک میں لینے کے بجائے لوگ خود اپنی محنت کے پیسوں سے خرید لیں گے۔
ریاستیں خیراتی ادارے نہیں ہوتیں ۔ ریاستیں عوامی حق میں پالیسیاں بناتی ہیں۔
لوگوں کو بھکاری نہ بناﺅ، خیرات خور نہ بناﺅ۔۔۔۔خیرات نہیں ،ضروریاتِ زندگی سستی کرو۔