ابھی ٹی وی ڈرامے میں تھوڑی دیر تھی، دونوں بچیاں، رجو اور بھوندو رحمت بی بی کے کمرے میں براجمان تھے،یہی و ہ وقت ہوتا کہ سب اپنے اپنے مسائل اور اختلافات بھول کر ایک خوبصورت دنیا میں پہنچ جاتے، نہ رجو کو ساس کے طعنے یاد رہتے، نہ رحمت بی بی کو بہو کی تیزی کا خیال رہتا نہ توبھوندوفیکٹری کی سیاست پر بات کرتا اور نہ ہی بچیوں کو اپنی ضدیں یاد رہتیں۔
شہر کی ایک بہت بڑی کچی آبادی ترک کالونی میں دو کمروں ، ایک کوٹھری اور محدود سے آنگن والے گھر میں یہ چھوٹا سا خاندان رہتا تھا۔اس مختصرسے کمرے میں ایک طرف بان کی چارپائی تھی، جس پر رحمت بی بی اپنی ایک پوتی کے ساتھ سوتی تھی۔سامنے ایک تپائی پر ٹیلی ویڑن تھا، اور ایک طرف کونے میں ایک چھوٹا فرج تھا جسے رحمت بی بی الماری کی طرح استعمال کرتی تھی اور آنے جانے والیوں کو فخر سے بتاتی تھی اسکا چھوٹا بیٹا اصغر یہ سب دبئی سے لایا تھا۔ .دادی۔۔۔۔ڈرامہ کب شروع ہوگا؟ بڑی بیٹی بینا نے پوچھا۔’صبر کرو ابھی ہوگا۔۔جرا استہار تو کھتم ہوں’ رجو نے دلاسہ دیا۔اچانک زور سے بجلی کڑکی اور دونوں بچیاں سہم کر ماں سے لپٹ گئیں۔ ‘ارے میری بیٹیاں اور ڈرپوک’ رجو زور سے ہنس پڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے زور کی بارش شروع ہوگئی۔رجو دوڑ کر مختصر سے آنگن سے بالٹی اٹھا لائی، اسے معلوم تھا کہ اب رحمت بی بی کا کمرہ ٹپکنے لگے گا۔ رجو ایک مضبوط بدن کی مستعدعورت تھی، اس کا سارا بچپن ڈیفنس سوسائٹی کے ایک سرونٹ کوارٹر میں گذرا تھا، اس کا باپ شہر کے ایک متمول گھرانے میں ڈرائیور تھا۔ رجو اپنے گھرانے کی واحد فرد تھی جسے مالک کے گھر آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ وہ ذہین تھی ، محنتی تھی مگر بیگم صاحب کی کوشش کے باوجود نہ پڑھائی لکھائی میں اس کا دل نہ لگا اور نہ ہی زبان کی درستگی کی اسے فکر تھی ، اور 16 سال کی عمر میں اس کی شادی کردی گئی۔
”چلو اب کل تو کام پر جانا نہیں ہوگا“ بھوندو ماں کے پلنگ پر پسرتے ہوئے بولا۔”ہاں اس پانی میں کہاں جائے گا’ ماں نے بیٹے کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ”لے اب جرا سی بارس سے تو کام دھام بھی چھوڑ دے گا؟ ارے اصگر جو لمبے پلاسٹک کے جوتے لایا تھا وہ پہن کر آرام سے چلے جانا اور باہر میں اینٹیں رکھ کراسپر تکھتہ بھی رکھ دوں گی۔’“رجو نے تسلی دی۔ ” تیرے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے“ وہ مسکرایا۔”کیوں نہ ہو ڈیپھنس کی لڑکی ہوں اور نام ہے رجیہ سلطانہ “ رجو فخریہ لہجے میں بولی۔” ہاں لگے ہے بنگلے سے آئی ہے، سرونٹ میں تو تھی رجیہ سلطانہ“ ساس بھی کہاں چوکنے والی تھی، اور ایکدم بجلی غائب ہو گئی۔چلو گارت ہوا ڈرامہ۔۔۔بھوندو کھڑے ہوتے ہوئے بولا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا، اسکا نام تو انور تھا لیکن سمجھ کمزور ہونے کی وجہ سے بچپن میں محلے کے بچے بھوندو بھوندو کہ کر اسے چھیڑتے تھے اور چھیڑ ہی چھیڑ میں وہ انور سے جانے کب بھوندو بن کر رہ گیا ، اسکی بڑی خواہش تھی کہ سب اسے اسکے اپنے نام سے پکاریں مگر کبھی کسی کو روکنے کی ہمت نہ کر پایا بس خواہش کر کے رہ جاتا۔رجو اسکی یہ کمزوری جانتی تھی اوراسکو جب زیادہ پیار آتا یا کوئی کام کروانا ہوتا تو تو بڑے میٹھے لہجے میں اسطرح انور پکارتی کہ وہ پگھل کر رہ جاتا اور عجیب سا سرور بدن میں دوڑ جاتا اور وہ رجو کا بچہ جمہورا بن جاتا۔
رحمت بی بی کو خود پر بڑا ناز تھا کہ اس نے تین مردوں کو جنم دیا، اکبر ،انور اور اصغر۔ اسے اگر کوئی دکھ تھا تو یہ کہ اسکا بھوندو اولاد نرینہ سے محروم تھا ، اور جب موقع ملتا وہ بہو کو لڑکا نہ ہونے کا طعنہ ضرور دیتی اور خاص طور سے جب کسی بات پر اس سے ناراض ہو۔آج بھی یہی ہوا ،گو بارش بند ہوچکی تھی اور موسم کھل چکا تھا مگر ماں مصرتھی کہ بیٹا کام پر نہ جائے لیکن رجو زبردستی بھیج رہی تھی۔”اتنا تو کیچڑ ہوگا باہر نہ جا بیٹا۔۔۔“ ماں نے ایک کوشش اور کی ”انور۔۔کیچڑ ہونے سے کام تو نہیں بند ہوتے، یہ لے آج تیرے دن کے کھانے کے لئے پراٹھا اورآلو کی ترکاری بنائی ہے۔۔۔۔“ رجو نے کھانے کا ڈبہ اسے دیتے ہوئے کہا اور بھوندو اپنے نام اور بیوی کے مٹھاس بھرے لہجے میں سب کچھ بھول کر دھیمی مسکان لئے گھر سے نکل گیا۔” اری نامراد اگر اسے کچھ ہوگیا؟؟؟’ ساس تڑخی”کچھ نہیں ہوتا اسے، اچھا سور نہ کر سبیرے، سبیرے ، میں دکان کھولنے جارہی ہوں“۔ رجو کوٹھری کی طرف بڑھتے ہوئے بولی۔”ہاں سب جانتی ہوں آج اتنی جلدی تجھے کیوں ہے دکان کھولنے کی جیادہ مرد ہی آئیں گے۔“ساس نے ایک رکیک حملہ کیا، حالانکہ وہ جانتی تھی یہ اسکی بہو ہی تھی جس نے گھر میں ایک کوٹھری بنا کر گلی میں کھڑکی کھلوالی تھی اور اسے ‘کالونی دکان’ کا نام دیدیا تھا جس سے گھر کی معیشت پر اچھا اثر پڑا تھا۔محلے کے لوگ جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہوتی، اپنی چھوٹی موٹی ضرورتوں کے لئے اسکی دکان کا رخ کرتے تھے اور رحمت بی بی یہ بھی جانتی تھی کہ اگر کبھی کوئی مرد سودا لینے آجاتا تو اس سے کہتی ‘ بھائی جلدی بتاو¿ کیا لینا ہے، آج بھوندو دیر سے کام پر جا رہا ہے یا کسی اور بہانے سے جتا دیتی کہ اسکا شوہر گھر پر ہی ہے۔
‘اری رجو دن چڑھ چکا ہے کب سے کہہ رہی ہوں پانی گرم کردے نہانے کو، رحمت بی بی کمرے سے نکل کر اسے آواز دیتی کوٹھری کی جانب چل پڑی۔
”جرا ان لوگوں سے تو نبٹ لوں، ابھی آتی ہوں’۔“ اس نے ساس ہی کے لہجے میں جواب دیا۔۔۔”ہاں یہ لے موم بتی اور ماچس۔۔۔کیا آج بھی بتی نہیں آئیگی؟ “اسنے پٹھانی خالہ کی بہو کو سودا دیتے ہوئے پوچھا۔ ”ہاں وہ شیرو کا با با بتاتا ہے آج کالونی میں تار ٹوٹا ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔پٹھانی کی بہو پھولے سانسوں سے بولی۔“یہ کیا چار بچے بہت نہیں تھے۔۔پانچ سال میں پانچواں بچہ۔۔۔رجو کو اسکی حالت پر بڑا ترس آرہا تھا۔ ‘بس کیا کرے ہم عورت لوگ۔۔۔۔وہ خاموش ہو گئی۔ میرے پاس آنا تجھے بتاو¿ں گی بچہ روکنے کی ترکیب۔۔۔رجو رازداری سے بولی۔ ‘تم کوئی دوا کھاتی ہے؟ پٹھانی کی بہو نے پوچھا۔ نہیں اور بھی ترکیب ہے۔۔۔وہ معنی خیز انداز میں مسکرائی۔
رجو۔۔رجو! ساس پھر چلائی۔۔پتہ نہیں میرے بھوندو کو تجھ میں کیا نجر آگیا تھا۔۔۔کتنی لڑکیاں تھیں۔۔ وہ اب کوٹھری کے دروازے پر پہنچ گئی تھی’کھیر۔۔کھیر کھالہ یہ تو نہ کہہ مجھے سب کھبر ہے یہ سادی بھوندو سے جیادہ تیری مرجی سے ہوئی تھی۔۔۔میری اماں تو نہیں چاہتی تھی، وہ تو کسمیر میں اپنے بھتیجے سے میری سادی کرنا چاہتی تھیں۔وہ آخری گاہگ نپٹاتے ہوئے بولی اور دکان کی کھڑکی بند کردی۔”میری مرجی سے؟ کھدا نہ کرے جو میں تیری جیسی کو لاتی اور پھر ہم ترکستان کے لوگ اور تیرا کھاندان۔۔۔” رجو زور سے ہنس پڑی اور ساس کے سامنے جھک کر رازداری سے بولی’ کھالہ، سنا ہے تیرا اور ابا کا جوروں کا ماسکہ چلا تھا، اور مجھے تو یہ بھی پتہ ہے کہ تو ابا کے ساتھ بھاگنے کو تیار تھی مگر عین وکھت پر تیرے ابا نے سب کام کھراب کردیا اور یہ تو ترک ترک کی رٹ محلے کی عورتوں تک ہی رکھ میرے سامنے نہ بول ہم اور تم ایک ہی برادری سے ہیں ، نیچ جات ہندو تھے سکر کر کہ تیرا ابا اور میرا دادا مسلمان ہوگئے تو اجت کی روٹی مل رہی ہے ورنہ تو ابھی ہندوستان میں گوہ کی بالٹیاں سب ڈھورہے ہوتے۔ ‘ ”کیسی بےسرم ہے کتنی تیج جبان ہے تیری۔۔۔۔۔“ساس کچھ کمزور پڑ گئی تھی۔۔’مجھے تو لگے کہ ابا کے دماگ پر تو ہی سوار تھی جبھی تو میری جبان بھی تیری ہی طرح ہے۔۔۔ وہ بے حیائی سے ہنستی ہوئی بالٹی میں بھرے بارش کے پانی کو چولہے پر چڑھاتی ہوئی بولی۔” تجھے یہ الٹی سیدھی کون بتاتا ہے؟ یہ سب جھوٹ ہے،“ساس بھنا گئی تھی ”پتہ نہیں ابا ہی بتا رہا تھا ۔۔۔“ وہ چھوٹی بیٹی ثنا کے رونے کی آواز پر لپکتی ہوئی بولی۔ ‘ ”توبہ ہے ، کیسی حرافہ ہے اپنا کصور چھپانے کے لئے سب پر لجام لگا رہی ہے ، ارے کھاندان کیسے چلے گا۔۔۔ ایک لڑکا تو جن نہیں پائی “ساس حلق کی پوری قوت سے چلائی۔
”تو اسمیں میرا کیا کصور ہے؟ “وہ بچی کو کمر پر ٹکائے کمرے سے نکلتی ہوئی بولی۔ ”تو اور کس کا؟ بچہ تو عورت ہی پیدا کرتی ہے، میں نے تین لڑکوں کو جنم دیا ، اکبر کے بیٹیوں کے علاوہ ماسا آ دو بیٹے ہیں اور ایک میرا بھوندو۔۔۔“ ”تو کھالہ اکبر بھائی سے میری سادی کرا دیتی تجھے پوتے مل جاتے ، “وہ تڑخی۔”بد جبان سرم نہیں آتی جیٹھ کے لئے ایسا بولتی ہے؟ ”ساس نے ڈانٹا
” سچ بولنے میں کیا سرم اور ہاں تو کونسا گلط کہتی ہوں، تیرے بھوندو میں مرد کا بیج ہی نہیں۔۔“ رجو کے لہجے میں ایسا طنز تھا کہ ساس تڑپ گئی اور جلبلا کر بولی ”ارے میرے بچے پر لجام لگا رہی ہے نامراد۔۔۔“، لجام نہیں” ال جام“ اور کھالہ نامراد تو تم ہوئیں، عورت ہو کر عورت کو کوس رہی ہو، یہ لڑکیاں تیری ہی تو ہیں’ وہ صحن کے کونے میں لگے نل سے بچی کا منہ دھلاتے ہوئے بولی۔” ہاں ہاں آکھر میرے بھوندو کی ہی اولاد ہیں۔۔۔۔“وہ کچھ نرم پڑ گئی تھی۔۔”میں تو بس یہ چاہوں کہ ایک لڑکا ہوجائے تو تیرے اور بھوندو کے بڑھاپے کا سہارا ہو جائے۔۔۔آکھر لڑکیاں تو اپنے گھر کی ہو جاتیں ہیں، “ ‘لڑکیاں تو رحمت ہوتی ہیں سبھی کہتے ہیں ، رجو ہار ماننے کو تیار نہ تھی۔ ”ہاں یہ بھی بارس کی طرح ہوویں پکے مکان والوں کے لئے تو رحمت ، ہمارے جیسے کچے گھر والوں کے لئے ہو تو مصیبت “وہ چولہے پر چڑھے پانی کی حرارت ہاتھ سے محسوس کرتے ہوئے بولی۔ ‘”کھالہ اب لڑکا لڑکی کی بات نہ کر ، آجکل لڑکیاں جیادہ آگے ہیں ، دیکھ ٹی وی پر کتنی پیاری پیاری لڑکیاں آتی ہیں، اور اس دن یاد نہیں انورسٹی کی لڑکیاں ہمارے محلے میں آئی تھیں ہم سے بات چیت کرنے ،کوئی بھی تو لڑکا انمیں نہیں تھا“اس نے یاد دلایا۔۔۔۔”تو آکھر کریں کیا؟ نہ سادی نہ بیاہ ماں باپ نے سوچا کہ ساید اسی طرح۔۔۔ہائے بے چاریاں“رحمت بی بی کو ان پر بہت ترس آرہا تھا۔۔۔۔۔”اور کھالہ بے نجیر بھی تو عورت تھی، ملک کی وجیر آجم بنی۔۔۔۔ اسنے اپنے چلتے ایسا پانسہ پھینکا تھا جو ساس کو خاموش کرانے کو کافی تھا۔ مگر رحمت بی بی کا ترکش کبھی خالی نہیں رہتا تھا۔”ہا! جبھی تو مار دی گئی، مرد ہوتا تو مجال تھی کسی کی؟۔۔۔“ اور رجو خاموش ہو گئی ،مرد کی بات ہی اور ہوتی ہے اچھا جرا یہ پانی نہانے کو رکھ دے بڑی دیر میں گرم ہوا۔۔رحمت پوتی کو گود میں لیتی ہوئی بولی، یہ بینا کہاں ہے؟ اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بڑی پوتی کے بارے میں پوچھا۔ اسے تو پھاتمہ بائی کے پاس کران پڑھنے بھیجا ہے، اسکول کی چھٹیوں میں کھالی گھر بیٹھ کر کیا کریگی وہاں کران (قران) پڑھنے کے ساتھ سلائی ٹکائی بھی سیکھ لے گی۔اسنے بتایا۔ ‘ اور کتنا پیسہ لیگی پھاتمہ؟ دس روپے مہینہ۔ رجو ، معدوم سے غسلخانے میں پانی رکھتے ہوئی بولی۔ ساس کچھ بولی تو نہیں مگر اسے غصہ تھا کہ ایک تو لڑکی کو اسکول میں داخل کرادیا گیا دوسرے ایک اور خرچہ ، اس کا خیال تھا کہ سکولوں میں بھیجنے سے لڑکیاں بد زبان اور بے لگام ہو جاتی ہیں، اس نے بڑی کوشش کی تھی کہ پوتی کو اسکول نا بھیجے لیکن رجو آڑے آگئی تھی۔ ”پتہ نہیں اس نے میرے بھوندو کو کیا گھول کر پلا دیا ہے کہ اسکے آگے کچھ سوچتا ہی نہیں،“ وہ نہاتے میں بڑبڑا ئے جارہی تھی۔
موسم میں خنکی اتر آئی تھی،اس روز بھوندو وقت سے تھوڑا پہلے گھر پہنچا تو گھر کی فضا بدلی بدلی سی لگی، رجو چند عورتوں میں گھری بیٹھی تھی اور اس کی ماں سب کی خاطرداری میں لگی تھی۔” ارے بھوندو ادہر آ جرا سن، ماں نے پکارا، کھیر سے تو پھر باپ بننے والا ہے۔۔۔اور اس بار تو کھدا جرور سنے گا پوتا ہوگا پوتا ، “اور ماں کے منہ سے نکلے الفاظ جیسے ، گنگناتے ،رقص کرتے بھوندو کی روح میں ہلکورے لینے لگے تھے، رحمت بی بی کوایک طرف پوتے کی امید اور دوسری طرف اس بات کا اطمینان کہ یہ خبر کالونی کی ان عورتوں کے لئے تازیانہ تھی جو اکثر اسے اپنی بہوو¿ں کی کثیرالاولادی اور اولاد نرینہ کا فخر سے تذکرہ کرتیں ، اور اسے مشورے بھی دیتیں کہ کسی پیر فقیر کے پاس رجو کو لیجائیں۔”دیکھ رحمت، اس بار رجو کو اسپتال نہ بھیج اسکا بچہ میں جنواو¿ں گی، دیکھنا لڑکا ہو گا، پٹھانی کی بہو کے پہلے دو بچے میں نے جنوائے دونوں لڑکے ہوئے تیسری اور چوتھی بار اسپتال میں بچے ہوئے دونوں لڑکیاں“ جگن دائی نے وثوق سے کہا اور رجو سن کر زور سے ہنس دی ”اچھا تو دائی کھالہ تیرے ہاتھ میں جادو ہے کہ ہاتھ لگا دیا تولڑکی لڑکا بن جاتی ہے؟ چل میرے پیٹ پر ہاتھ پھیر دے اگر لڑکی ہوئی تو لڑکا بن جائے گی اور اگر لڑکا ہوا تو؟؟؟؟ “جوان مائیں اسکی منطق پر ہنس پڑیں دائی کے ماتھے پر بل آگئے، ‘ تو تو باو¿لی ہے، اچھا اب میں چلوں رحمت کھدا کھیر سے تجھے پوتے کا منہ دیکھنا نصیب کرے، وہ اٹھتے ہوئے بولی۔
” کیوں رجو تونے بتایا نہیں،” رات میں جب وہ سونے لیٹا تو بیوی سے شکوہ کیا۔ ”لے مجھے کیا معلوم، آج ہی تو سبیرے طبیعت کھراب ہوئی تو تیری اماں نے دائی کھالہ کو بلالیا تھا اسی نے بتایا۔ہوں، اچھا ایک بات کہوں؟ بھوندو بولا۔ کہہ۔۔۔۔”اس بار دائی کھالہ سے ہی کروا لے اپنے میکے نہ جا۔“ اس نے لجاجت سے کہا۔ٹھیک ہے جیسا تو کہے ،وہ بولی۔ کتنا اچھا ہو کہ اس بار لڑکا ہوجائے، بھوندو کے دل کی بات کھل کر زبان پر آگئی تھی۔” ہاں جی تو میرا بھی چاہتا ہے، مگر میں نے ٹی وی پر سنا تھا کہ عورت کے لڑکا ہو یا لڑکی سب مرد کی وجہ سے ہوتا ہے۔۔۔“ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی۔”اچ۔۔چھا” مارے حیرت کے بھوندو اٹھ کر بیٹھ گیا۔” ہاں اور یہ بات تو ہماری بیگم صاحب نے بھی بتائی تھی، جہاں ابا کام کرتا ہے ،تو تو جانتا ہے وہ ڈاگڈرنی ہے۔” رجو بولی ، ” نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا! “اس کی مردانگی تلملا اٹھی تھی۔ ہاں بیگم صاحب تو کہتی ہیں کہ عورت توجمین کی طرح ہوتی ہے، جیسا بیج پڑے گا ویسا ہی پودا ہوگا۔ اس نے انجانے میں ایک اور کچوکا لگادیا تھا۔”میرا صاحب تو بتاتا ہے کہ جمین ٹھیک ہو تو پودا بھی اچھا ہوتا ہے، وہ بولا، رجو اس کی یہ بات سن کر تھوڑا حیران ضرور ہوئی مگر مسکرا کر بولی ” اب بھنڈی کے بیج سے ٹماٹر تو نہیں ہوتے۔“اماں ساید ٹھیک ہی کہتی ہے کہ رجو بڑے لوگوں میں رہنے سے ایسی ہوگئی ہے بالکل عجیب باتیں کرتی ہے۔۔۔وہ یہ سوچتا ہوا دوبارہ بستر پر دراز ہوگیا۔۔۔۔مگر ہے بہت اچھی۔۔۔وہ مسکرا اٹھا۔ کیا سوچ کر مسکرا رہے ہو؟؟ رجو نے پوچھا۔ کچھ نہیں بس تیرے ہی بارے میں سوچ رہا تھا کہ تو کتنی اچھی ہے۔۔۔رجو! اسبار تو مجھے بیٹا دیدے، اسکے لہجے میں لجاجت تھی۔ اور رجو نے اس ایسی نظروں سے دیکھا گویا کہہ رہی ہو، تو رہا بھوندو کا بھوندو ہی!
رجو دو تین دنوں کے لئے میکے آئی ہوئی تھی اور اس وقت بنگلے میں بیگم صاحب کے پاس بیٹھی تھی، وہ چاہ رہی تھیں کہ رجو زچگی کے لئے ادھر ہی آجائے لیکن اس نے بتایا کہ اسکا شوہر اور ساس اس بار دائی سے کیس کرانا چاہ رہے تھے۔اور جب بیگم صاحب نے وجہ پوچھی تو اسنے بتایا کہ س کی ساس اور شوہر سمجھتے ہیں کہ دائی کے ہاتھوں لڑکا ہو سکتا ہے اور بیگم صاحب زور سے ہنس پڑیں۔ ”تو رضیہ سلطانہ تم بھی یہی سمجھتی ہو؟؟؟؟ انہوں نے سوال کیا ”میرا تو کھیال ہے کہ اس بار بھی لڑکی ہی ہوگی، “اس نے انکی بات پر نفی میں سر ہلاتے ہوئے یقین سے کہا۔وہ کیسے ؟ اسکی ماں جو بیگم صاحب کے پیر دبا رہی تھی بول اٹھی ” ایسے اماں کہ ، لڑکا ہوتا تو پیٹ میں وہ اودھم مچاتا کہ پٹھانی کھالہ کی بہو کی طرح بستر پر پڑ جاتی! وہ بولی۔ خیر میرا مشورہ اب بھی یہی ہے کہ تم دائی وائی کے چکر میں مت پڑو تاریخ سے دو تین دن پہلے ادھر آجانا۔ بیگم صاحب اٹھتے ہوئے بولیں۔ رجو خاموش رہی۔
بیٹے کی امید میں بھوندو اور اس کی ماں کی عنائیتیں رجو پر بہت بڑھ گئی تھیں، دونوں اسکی ہر ہر چیز کا خیال رکھتے، بھوندو نے تو اسے موبائل فون بھی لاکر دیدیا تھا اگر کبھی بازار سے کچھ کھانے کو جی چاہے تو بس بٹن دبادے اور اسکو بتا دے۔بھوندو کو ہر سال کی طرح اسبار بھی گاو¿ں جانا تھا فیکٹری کے مالک کے آم کے باغ سے مال لدوا کر شہر لانا تھا۔”رجو ٹھیک سے کھانا پینا اور کوئی بات ہو تو مجھے سیل کر دینا، اسنے کہا، تو پھکر نہ کر مجھے سیل استعمال کرنا آتا ہے اور کھالہ تو ہے ہی اور اماں بھی دو ایک دن میں ادھر آجائے گی اسنے شوہر کو تسلی دی۔
اس بار بھی رجو کے بیٹی ہی ہوئی، گلابی سی پیاری سی رجو تو اسکی شکل دیکھ کر اپنی سب تکلیف بھول گئی تھی اور دائی مرے لہجے میں رحمت کو مبارک باد دی ”جگن دائی تو تو کہے تھی کہ لڑکا جنوائے گی۔۔۔“رحمت نے تیز لہجے میں کہا۔ ”اب میں کیا کروں تیری کسمت میں ہی نہیں” وہ سارا الزام قسمت پر ڈالکر گھر سے باہر نکل آئی۔ دوسرے دن کئی عورتیں ، کچھ مبارکباد دینے اور کچھ رحمت کا ردعمل دیکھنے آئی ہوئی تھیں، فاطمہ بائی بھی مٹھائی لےکر آئی۔” ”لڑکا ہوتا تو تو۔۔۔۔کھیر ہے تو میری ہی پوتی۔۔۔۔“رحمت نے نہ جانے کیا کہتے کہتے خود کو روک لیا، مگر ایک اداسی اس پر چھا گئی تھی۔اسی وقت بھوندو سامان سے لدا پھندا گھر میں داخل ہوا، وہ خاموش بیٹھی عورتوں اور ماں کے اترے چہرے کو دیکھ کر پریشان ہوگیا،” اماں سب ٹھیک تو ہے نا؟ رجو کیسی ہے؟ اس نے گھبرا کر ماں سے پوچھا۔ ” اسے کیا ہونا ہے، اس بار بھی اس نے لڑکی جنی ہے” ماں جیسے پھٹ پڑی، اور وہ بے دم سا ہو کر وہیں زمیں پر بیٹھ گیا، اس کے سارے خواب، سب امیدیں خاک میں مل گئی تھیں۔ وہ کافی دیر تک اسی حال میں بیٹھا رہا، فاطمہ نے تسلی دی، دوسری عورتوں نے دلاسے دئیے مگر وہ جیسے بہرا ہو گیا تھا۔” ارے سب ایسے بول رہے ہیں جیسے گھر میں خوشی نہیں موت آئی ہے؟ رجو نہ جانے کب کمرے سے نکل کر آگئی تھی۔۔۔۔” ارے ابھی کل ہی تو بچی ہوئی اور تو۔۔۔ اس کی ماں نے کہنا چاہا۔” اے اماں کچھ نہیں ہوتا مجھے وہ بولی اور شوہر کی طرف لپکی ”اور تو بھوندو بڑا مرد بنا پھرتا ہے ارے ایک لڑکا مجھے نہیں دے سکتا تھا؟ دفع ہوجا۔۔“وہ بھوندو پر برس پڑی تھی سب عورتیں منہ کھولے یہ منظر دیکھ رہی تھیں، بزرگ خواتین کی آنکھوں میں حیرانگی تھی جبکہ جوان عورتوںکی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، شایداس تنومند کمزوری کی اچانک تباہی کی جو انہیں گھٹی میں ڈال کر چٹا دیا تھا۔” ارے مرد ہے تو مردوں والا کام کر اور نکل جا یہاں سے اپنی صورت لے کر۔۔۔ہائے بھوندو تجھے اپنے اور میرے بڑھاپے کا بھی کھیال نہ آیا۔۔۔۔“ وہ زور زور سے چیخ رہی تھی اور بھوندو گھبرا کر گھر سے باہر نکل گیا۔
کئی برس بیت گئے رجو کی زندگی بدل چکی تھی، رحمت بی بی گذر چکی تھیں، اپنی زندگی بھر کی بچت ،بھوندو اور بیٹیوں کی کمائی سے اس نے کچی آبادی سے بہت دور شہر کے ایک کھلے علاقے میں ایک فلیٹ لے لیا تھا، رجو اب بیگم رضیہ سلطانہ بن چکی تھی۔ وہ اس وقت اپنے فلیٹ کی بالکونی میں آنکھیں بند کئے سکون سے بیٹھی تھی آج ہی اسکی بڑی بیٹی بینا کا رشتہ اسی کی کمپنی کے مالک کے چھوٹے بھائی وقاص احمد سے طے ہوا تھا جو اسکے شعبے کا انچارج تھا۔ اسے یاد تھا جب بینا پہلی بار نوکری پر جا رہی تھی تو رجو نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تھا”دیکھ بینا تو کمپیوٹر میں بہت اچھی ہے مگر بس کمپیوٹر میں نہ گھسی رہنا ، اپنی آنکھیں کھلی رکھنا، میں نہیں چاہتی کہ تو کسی ترک کالونی یا سرونٹ میں بیاہی جائے۔“اور بیٹی نے ماں کی ہدایت گرہ سے باندھ لی تھی۔دوسری بیٹی ثنا نے نرسنگ کی تربیت حاصل کر کے عورتوں کے ایک مفت علاج کے اسپتال میں ملازمت کر لی تھی جہاں اس کی بیگم صاحب اور ان کی بیٹی بھی کام کرتی تھیں۔ تیسری بیٹی دعا ابھی پڑھائی کر رہی تھی اور وہ بقول بیگم رضیہ سلطانہ ،”یہ ہمارے خاندان کی پہلی افسر ہو گی۔“ اس نے اپنے لہجے کو سنوارنے میں بھی بہت محنت کی تھی کہ اس کی بیٹیوں کو کوئی شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔
مگر اکثر وہ یہ سوچتی ضرور تھی کہ اگر اس کے بھی ایک بیٹا ہوجاتا تو اس کی بیٹیوں کو اتنی محنت تو نہ کرنا پڑتی۔ مگر بات تو وہی تھی کہ بھنڈی کے بیج سے ٹماٹر نہیں اگتے، زمین چاہے کتنی ہی زرخیز کیوں نہ ہو۔
[sharethis-inline-buttons]