آسمان پر ستارے
روشنی کی بے ترتیب ڈور
بنتے رہتے ہیں
زمین پر بوئے گئے درد سے
زندگی اگتی رہتی ہے
سمندر کا شور
روح کے پرسکون ماحول سے
محبت میں مگن ہے
لہروں کی گیلی کشمکش
دل کی دھرتی
سرسبز کردیتی ہے
اسی لمحے تمہارا تصور
دل پر جزیرے کی طرح
ابھر آتا ہے
درختوں سے پتے
گرنے لگتے ہیں
ایک پرندا بادل چگ کر
اڑ جاتا ہے
میں بادل کے بغیر کھڑی رہتی ہوں
اپنے پیروں کی طرف دیکھتی ہوں
جہاں کوئی زمین نہیں
میں ایک نظم لکھتی ہوں
مگر تمہارا تصور
لفظوں کے کینواس سے
کہیں زیادہ ہے
دور جہازوں کی ہلکی روشنی
ہوا کے تیز جھونکوں سے مل کر
ماحول کو مزید اداس کر دیتی ہے
صدیوں کی مسافتوں سے
تھکا ہارا سمندر
پتھروں سے ٹکراتا رہتا ہے
میں لفظوں کے بغیر نظم لکھ کر
تیز ہوا میں اڑا دیتی ہوں…
ماہنامہ سنگت کوئٹہ