کوئی جھرنا پکارے گا ، کوئی میدان بولے گا
میں تھک کر بیٹھ جائوں گا تو پِھر بولان بولے گا
چَھنک جانے دو زنجیریں مرے پیروں کی گردش سے
یہ سَکتہ ٹوٹ جائے گا تو پِھر زندان بولے گا
ہمارے درد کے قصّے گلی ، گھر گھر میں بکھریں گے
کبھی کوہلو پکارے گا ، کبھی کاہان بولے گا
مری آواز دَب جانے سے دَب سکتی نہیں سوچیں
کوئی مہکان بولے گی ، کوئی ساچان بولے گا
جَتا مَت اپنی جھوٹی شان کہ اے صاحبِ مَسند !
جو میں بولا تو پِھر سارا بلوچستان بولے گا