ابھی تک بے کلی باقی ہے اپنی
ابھی درماندگی باقی ہے اپنی
تمہیں کس بات کی جلدی پڑی تھی
ابھی تک بزًگی باقی ہے اپنی
زندگی کے محاذ پر لڑتے لڑتے ایک اور جانثار اپنے بزگ لوگوں،اپنی سرزمین اور اپنے اردگرد کے دکھ،درد اور جبرکے موسموں کی کہانی بیان کرتے کرتے اپنا راستہ موڑگیا۔۔۔۔۔،یہ تو تھا کہ
زندگی اس سے اور وہ زندگی سے کبھی مطمن نہیں رہا
وہ اکثر کہتا تھا ،،”ایسا قاضی جو مبارک بھی ہو شاید کہ تمیں دوبارہ نصیب ہو”
میں اکثر محفلوں میں گفتگو کے درمیان اس سے متفق ہوتا وہ اپنی خمارآلود نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہتا
،”مراد من زاناں تو مبارک آ پوہ بہہ،
تئی او منی ڈکھ دڑد یک انت”
بلوچی شاعری کو عصری حوالوں سے دیکھیں تو مبارک قاضی کے ساتھ گل خان نصیر، مرادساحر،اکبر بارکزئی،محمدحسین عنقا، عطاشاد،بشیربیدار،منیرمومن،منظور بسمل،ڈاکٹرعلی دوست،بلوچ،اللہ بخش بزدار،ڈاکٹر فضل خالق،رزاق نادر،اور دیگر بزرگ اور جوان شعرا کی ایک بڑی تعدادنے بلوچی زبان کے شعری سفر کو آگے بڑھایا اور اپنے لوگوں ،موسموں،مسائل و وسائل کوموضوع بناتے ہوئے اپنے عوام کے جذبات کی نمائندگی کی،قومی شعور کی بالیدگی کااظہار کیا اور اپنے پڑھنے والوں کے دلوں کو گرمایا-شاعری کے اس کہکشاں میں جب ہم مبارک قاضی کی شاعری اور شخصیت کے حوالے سے انفرادیت اور الگ پہچان کی بات کرتے ہیں تو ایک چیز واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ قاضی اپنی شاعری میں دلوں کو گرمانے اور خوابوں کو سجانے کا کام کرتا،اور اپنے مترنم اوررواں اندازِ بیاں سے سحر کی کیفیت پیدا کرتا،وہ بلوچ سائیکی اور بلوچ بزگی کا نمائندہ شاعر بن کر سامنے آیا،دوسری صورت جو اسے عوام اور خواص میں مقبول بنا گیا وہ اس کی درویشی اور سرشاری تھی،جس سے ایک مرتبہ گلے ملا اسے کے دل میں بس گیا،وہ علم و ادب سے تعلق رکھنے والوں سے عقیدت کا اظہار کرتا خصوصا اپنے چاہنے والوں سے جس وارفتگی اور اپنائیت سے ملتا کہ وہ سب قاضی سے عشق کرنے لگتے- قاضی میں تصنع اوربناوٹ نام کی کوئی بیماری نہیں تھی-بلوچی زبان کے بہت سارے تبصرہ نگاروں اور نقادوں نے مبارک قاضی کو بلوچی زبان کا فیض احمد فیض قرار دیا ہے- بلوچی مزاحمتی شاعری کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ اس حوالے ہردور میں شعرا نے اپنا بھرپور اظہار کیا ہے،جس میں ظلم و جبر اور استحصال ،ناانصافی اور قبضہ گیری کے خلاف شاعری سامنے آئی ہے۔ قاضی کی مزاحمت دلوں کو گرمانے کا کام کرتی تھی،اور مٹی سے محبت کا درس دیتی۔ ان کی ایک نظم کاترجمہ ملاحظہ ہو،
مجھے جلا کر خاک کردے
مجھے اپنے جان لیوا ہتھیاروں سے باندھ دے
تلواروں اور نیزوں سے چھلنی کردے
مجھے پابہ زنجیر کر
بےشک مجھے دار ورسن پر کھینچ
یہ میری تمنا
میرا اعزازہوگا
میرے لوگوں کے لئے،میرے ساتھ
یہ سلوک روا رکھا جائے
مجھے اس کا دکھ نہیں ہوگا
میں اپنے بےکسوں کے لئے
اسمانوں کا کہکشاں بنوں گا
اس یقین کے ساتھ ،کہ
ظلم و جبر کاانجام ہوگا
تیرے قلعوں اور محلوں کے لئے
مسمارہونے کا پیغام ہوگا،
قاضی کی شاعری کے سماجی،سیاسی،تاریخی، مذہبی اور ثقافتی پہلوئوں پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے اور لکھا جائے گا۔میں اس وقت ان سے ذاتی تعلق کے حوالے سے بات کروں گا
۔اسےاتفاق کہہ لیں یا بدقسمتی میں اور قاضی مبارک ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب نہیں رہے، میں اس کو پڑھتا داد دیتا اوراپنی گواہی بھجواتا رہتا
ہمارے شہر آتے تو ان کے چاہنے والے،مہرو محبت اور عقیدت رکھنے والے ان کے اردگرد نظر آتے۔ یوں ملنے کی بات کل پرٹل جاتی۔۔۔۔اور ہم اگلے کسی موقع پر قاضی کی کسی ملاقات اورمحفل کا انتظار کرتے رہ جاتے۔۔۔۔۔۔ہمیں
ان کے علاقے جانانصیب نہیں ہوا۔۔۔۔۔جس کا تاحیات دکھ رہےگا۔ وہ میرے خطہ وطن میں سمندروں ،صحراوں بے پایاں آبادیوں کے درمیان ظلم و جبر،غم و دکھ اور شدید پابندیوں کے درمیان رہ کر اپنی آذادی کو انجوائے کرتارہا۔قاضی عوامی شعور کا شاعر تھا،وہ دلوں پر راج کرنا جانتا تھا
۔قاضی نے جو لکھا برملا اور بر محل لکھا،وہ ٹیکنیکی تجربوں اور استعاروں کی بھول بھلیوں اور اساطیری علامتوں کو شعوری طور پربرتنے کی بجائے سیدھےسادے اور عوامی انداز و اسلوب میں اپنے پڑھنے والوں تک پہنچا۔۔۔۔موجودہ دور میں جہاں کتاب کلچر کے مطالعے کے رحجان کے ختم ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے وہاں مبارک قاضی کی شاعری کی کتابیں سب سے ذیادہ پڑھی جارہی ھیں۔۔۔۔۔قاضی محبت کے اظہار میں بے باکی اور کھلاپن رکھتا تھا۔اس کے لہجے اور روئیے میں کہیں بھی تصنع اور بناوٹ نہیں تھی۔ اپنے چاہنے والوں کے درمیان ایک معصومیت اور خوش گواریت لئے دکھائی دیتا۔۔۔۔۔۔بادہ خواری کی روایت میں غالب و جالب،جوش،فیض و فراز ،جون ایلیا اور عطاشاد کے ہم پلہ رہا بلکہ اس روایت کو تخلیقی سطح پر جِلا بخشی
ابتدائی دنوں میں جب مبارک سے ملاقات ہوئی تو وہ گھنگریالے بالوں ،گندمی رنگت اور خوب صورت سرخی مائل انکھیں لئے کلین شیو کے ساتھ اپنی خوش لباسی لئے ہمارے درمیان قہقہے بکھیرتا تازہ اشعار کی بہار دکھائے جاتا۔۔۔۔۔۔۔،شام کے اترتے سایوں کے ساتھ عطا بھائی اور ان کی ملاقات ضروری ہوتی،۔۔۔۔اب گفتگو کا دور چلتا تو حیات و کائنات،سائنس و ادب،تاریخ و سیاست کے تمام موضوعات کو سمیٹتے ہوئے اپنی شاعری سے محفل کو رونق بخشتے،
وقت کا پہیہ چلتا رہا ۔آس آپ کے اس سفر میں قاضی اپنی خوش لباسی اور خوش گمانی سے لاپروا ہوتا گیا ۔گھنگریالے بال اب بے ترتیب ہوتے گئے داڑھی نے وقت سے پھیلے سفیدی اوڑھ لی۔۔۔بلکہ بھنویں بھی سفیدمائل ہونے لگیں۔ اس کے لہجے میں اب تلخی اور گلہ نمایاں ہونے لگا،وہ دلوں پر راج کرتے کرتے خود سے بیگانہ دکھائی دینے لگا ۔شاعری اور بادہ خواری کے علاوہ اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگا،
اس کو غداری کے الزام اور قید و بند کی صعوبتوں نے قومی شعور اور احساس کی نمائندگی سے دور کرنے کی بہت کوشش کی مگر مبارک قاضی کہساروں کی طرح پورے عزم کے ساتھ اپنے تخلیقی جوہر کو آگے بڑھاتے رہے۔مشاعروں کی کامیابی کے لئے ان کا نام کافی تھا۔ سٹیج پر آتے ہی پہلے مصرعے کے ساتھ ان پر فرمائشوں کی بوچھاڑ ہوتی۔اکثر دوست مشاعرے سے پہلے یامشاعرے کے بعد ان سے گفتگو کے منتظر رہتے۔
قاضی بابا اور میرا مشترکہ موضوع عطاشاد تھا ۔وہ عطا بھائی کے حوالے سے میرے کام کو پسند کرتے تھے اور اس کا حوالہ بھی دیتے جاتے۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ عطا بھائی کے ساتھ ہمارے سفر اور دیگر ادبی محفلوں کے تذکروں کو بھی ایک کتاب کی صورت دوں۔ میں نے نکات قلم بند کئے ہیں جب بھی مکمل صورت ہوگی ان شاء اللہ اسے مبارک قاضی کے نام کروں گا۔کچھ مباحث کے دوران میں نے اس کی گفتگو میں وہ دکھ وہ کرب محسوس کیا جس کو دوسری بار سننے کے بعد میں لرز گیا تھا۔
وہ اپنے اشعار میں اپنے موضوعات میں اپنی گفتگو میں بڑی گہری باتیں کرتا جاتا ۔وہ ہمارے قومی شعور کا نمائندہ تھا۔ بزگ لوگ اس کے اشعار میں خود کو تلاش کرتے خودکو بیان کرتے اور تسکین پاتے تھے۔
وہ ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے،سکول کے زمانے سے لب پہ آتی ہے تمنا میری کا ورد کرتے کرتے
ٹی ایس ایلیٹ،شیکسپئیر،عالب،اقبال،فیض اور عطا کے مطالعے کے ساتھ،فرانز فینن،نوم چومسکی،کافکا،دوستوفسکی اور اس قبیل کے لوگوں کو پڑھتا اور دھراتا رہا۔۔۔۔۔۔مجھے قاضی کے بزمِ دوستاں کا ایک ادنی رفیق ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔یہ بات درست ہے کہ قاضی نمیران ہے اور اس کی شاعری،زندگی اور جدوجہد ہمارا سب سے بڑا سہارا اور معاون رہے گا۔
یہ دیکھو میکدہ خالی پڑا ہے
وفا کا سلسلہ خالی پڑا ہے
کہاں پر رہ گیاہے میرا قاضی
خوشی کا راستہ خالی پڑاہے