آسمانی استیپ

دادا زخار اور میں جنگلی بلیک تھارن کی ایک جھاڑی کے سائے میں ڈون کنارے کی ایک پہاڑی پر لیٹے ہوئے ہیں جو دھوپ میں گنجی ہو چکی ہے۔ بادلوں کے سیاہ دار سلسلے کے نیچے ایک بھوری چیل پر مارے بغیر اڑتی پھر رہی ہے۔ بلیک تھارن کی پیتیاں، جن پر جگہ جگہ چڑیوں کی بیٹ جمی ہوئی ہے، ہمارے لئے کوئی خاص سایہ نہیں کرتیں۔ گرمی سے میرے کان سنسنار ہے ہیں اور جب میں نیچے ڈون کی بل کھاتی ، ہر لیتی پہنائی کو یا اپنے پاو¿ں کے پاس پڑے تربوز کے سوکھے سکڑے چھلکوں کو دیکھتا ہوں تو منہ میں گاڑھا، چپ چپاا لعاب بھر آتا ہے جسے تھوکنا بھی ایک مصیبت ہوتا ہے۔
بھیڑیں نشیب میں ایک ادھ سوکھے تالاب کے پاس جمع ہیں۔ تھکن سے جھکے ہوئے پٹھوں کے ساتھ وہ اپنی موٹی چر بیلی دموں کو ہلا تیں اور دھول میں زور سے چھینکتیں، تالاب کے اُس پار بند کے پاس ایک موٹا سا نو عمر مینڈھا اپنی پچھلی ٹانگوں کو مضبوطی سے جما کر ایک گندی پیلی بھیڑ کا دودھ پی رہا ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ اپنی ماں کے تھن میں سر مارتا ہے، وہ بیچاری کراہتی ہے اور دودھ اتارنے کے لئے اپنی پیٹھ کو اکٹر الیتی ہے اور مجھے یہ لگتا ہے کہ اس کی آنکھوں میں تکلیف کی ایک جھلک ہے۔
دادا زخار میری طرف پہلو کئے بیٹھے ہیں۔ اپنی بنی ہوئی اونی قمیص اتار کر اسے آنکھ کے بالکل پاس لے جا کر کمزور بینائی سے دیکھتے ہیں اور ہاتھ سے شکنوں اور سیونوںکو ٹٹولنے لگتے ہیں۔ دادا ستر سال سے بس ایک کم کے ہیں۔ ان کی ننگی پیٹھ پر جھریوں کا ایک اچھوتا جال ہے اور ان کے لکپھوڑے کھال میں سے ابھرے ہوئے ہیں لیکن ان کی آنکھیں ابھی تک نیلی اور جواں سال ہیں اور ان کی کھچڑی بھنووں کے نیچے سے نکلنے والی نگاہ تیز اور چبھتی ہوئی ہوتی ہے۔
قدرے مشکل سے وہ اس چیلر کو دبائے رہتے ہیں جسے انہوں نے اپنی کانپتی ہوئی کھردری انگلیوں سے پکڑا ہے، اسے احتیاط سے اور نرمی سے دبائے رہتے ہیں ۔پھر ہاتھ بڑھا کے جتنی دور ہو سکتا ہے اسے زمین پر رکھتے ہیں، ہوا میں صلیب کا نشان بناتے ہیں اور پھٹی آواز میں بڑ بڑاتے ہیں :
” اچھا، تو چل رینگ جا کیڑے ! تو زندہ رہنا چاہتا ہے، ہے نا ؟ ہاں میں نے یہی سوچا ۔۔۔۔۔تو اب تو میری جان ،تم پیٹ بھر کر خون چوس چکے ناں ؟“
کھانستے اور بڑ بڑاتے ہوئے بڑے میاں نے قمیص پہنی اور سر پیچھے کر کے اپنے کاٹھ کے پیپے میں سے نیم گرم پانی پیا۔ ہر گھونٹ لینے پر ان کا کنٹھ کھال کی ان دو ڈھیلی شکنوں کے درمیان اٹھ آتا جو ان کی ٹھوڑی اور گلے کے بیچ میں لٹکی ہوئی ہیں۔ پانی کی بوندیں ان کی داڑھی پر بہہ آئیں اور ان کی زعفرانی پلکیں دھوپ کی ٹہک میں سرخ ہو گئیں۔
پیپے کا ڈھکنا بند کر کے انہوں نے کنکھیوں سے مجھے دیکھا اور یہ دیکھ کر کہ میں انہی کو تک رہا ہوں انہوں نے اپنے سوکھے ہونٹ چبائے اور استیپ پر نظر دوڑائی۔ نشیب کا دوسراسر چلچلاتی ہوئی دھند میں جھلس رہا تھا۔ تپتی ہوئی زمین سے اٹھتی ہوئی ہوا میں جنگلی صعتر کی میٹھی مہک بسی ہوئی تھی۔ بڑے میاں کچھ دیر چپ رہے پھر انہوں نے اپنی گڈریوں والی کبڑی کو ایک طرف کھسکا یا اور تمباکو سے پیلی پڑی ہوئی انگلی سے میرے اوپر سے اشارہ کیا۔
”کھائی کے اس طرف حور کے ان پیڑوں کو دیکھتے ہو؟ وہ تو پولیفکا ہے۔ یہ تو میلن کی حویلی تھی ۔ وہاں جو گاﺅں ہے اس کا نام بھی تو پولیفکا ہے ۔ وہاں کے سارے لوگ کسان غلام تھے ۔ میرا باب بھی کسان غلام تھا۔ وہ آخری دم تک یوگراف تو میلن کا کوچوان تھا۔ جب میں بالکل چھوٹا تھا تو میرے باپ نے مجھے بتایا تھا کہ کیسے اس کے مالک نے اس کو ایک پڑوسی سے ایک پالتو سارس کے بدلے میں خریدا تھا اور جب میرا باپ مر گیا تو اس کا کوچوانی کا کام میں کرنے لگا۔ مالک خود اس وقت ساٹھ کے پیٹے میں تھا۔ بڑا ڈیل ڈول والا آدمی تھا اور طاقتور بھی ۔ جوانی میں وہ خاص شاہی گارڈ میں تھا۔ پنشن پانے کے بعد وہ ڈو ن کے کنارے اپنے باقی دن کاٹنے کے لیے آیا۔ ڈون کے کنارے اس کی جو خاندانی زمین تھی وہ تو کزاکوں نے لے لی تھی لیکن اس کے بدلے میں اسے سارا توف صوبے میں آٹھ ہزار ایکڑ زمین مل گئی تھی ۔ تو میلن اس زمین کو سارا توف والوں کو لگان پردے دیتا تھا اور خود تو پولیفکا میں رہتا تھا۔
”عجیب وحشی آدمی تھا۔ ہمیشہ وہ ایک لمبی جارجیائی کرتی پہنے رہتا جو بڑے عمدہ اونی کپڑے کی بنی ہوتی تھی ، کمر پر ایک کمر بند سے بندھی رہتی تھی اور اس میں ایک خنجر لگا رہتا تھا۔ جب وہ کہیں ملنے ملانے جاتا تو جیسے ہی ہم تو پولیفکا سے باہر نکلتے ویسے ہی وہ حکم دیتا “۔
” اے ذرا چال بڑھا!“
” میں چابک چلاتا اور گھوڑے اتنی تیزی سے ہمیں لے اڑتے کہ ہوا آنسو بھی نہ سکھا پاتی۔ جلد ہی ہم سڑک کو کاٹنے والے کسی نالے پر آجاتے ۔ بہار میں باڑھ آتی تو ایسے نالے بہت سے بن جاتے۔ اگلے پہیے تو سنائی تک نہ دیتے لیکن پچھلے پہیے نالے میں زوروں کے دھچکے سے گرتے !ہم کوئی آدھ میل اور جاتے کہ وہ چلاتا ، واپس چل ! اور ہم پوری رفتار سے اسی نالے پر واپس آتے ۔ ہم کوئی تین بار اس میں گرتے اور پار کرتے یہاں تک کہ کوئی کمانی ٹوٹ جاتی یا پہیہ نکل جاتا۔ تب میرا مالک بڑ بڑاتا ہوا اترتا اورر باقی راستہ پیدل جاتا اور میں گھوڑوں کو لیے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے چلتا ۔
اس کی ایک اور تفریح بھی تھی۔ گھر سے باہر نکلتے ہی وہ میرے برابر کوچ بکس پر آبیٹھتا اور میرے ہاتھ سے چابک لے لیتا، پھر چلاتا: بیچ والے گھوڑے کو ذرا تیز کر۔تو میں اپنے بس بھر اس کو تیز کرتا یہاں تک کہ جو اہلتا تک نہیں اور وہ میرے چابک سے بازو والے گھوڑے کو سڑکا تا۔ ان دنوں ہمارے پاس گھوڑوں کی تکڑی تھی اور بازو والے گھوڑے ڈون کے اصیل تھے، ان کی گردنیں سانپ کے پھن کی طرح تنی رہتیں اور لگتا کہ بس ابھی زمین کو کاٹ کھائیں گئے”۔
”اور وہ ان میں سے ایک کو چابک لگاتا جاتا یہاں تک کہ بیچارے کے منہ سے جھاگ اڑنے لگتا۔۔۔تب مالک اپنا خنجر نکالتا اور جھک کر چمڑے کے بم بند کو کاٹ دیتا جیسے استرے سے بال تراش رہا ہو۔ بس پھر کیا، گھوڑا کوئی پانچ گز تک قلا بازی کھاتا اور دھڑام سے گر جاتا، اس کے نتھنوں سے خون اہلنے لگتا ! ۔ پھر وہ بازو والے دوسرے گھوڑے کا بھی یہی حال کرتا ۔۔۔۔۔اور بیچ والا گھوڑا دوڑتا جاتا یہاں تک کہ بے دم ہو کر گر جاتا اور پھر بھی میرے مالک پر کوئی اثر نہ ہوتا سوائے اس کے کہ وہ ذرا خوش ہو جاتا اور اس کے گالوں پر خون جھلکنے لگتا“۔
” وہ کچھ نہ کچھ ہوئے بغیر تو کہیں پہنچتا ہی نہیں یا تو گاڑی کو چکنا چور کر دیتا یا گھوڑوں کو مار ڈالتا اور پھر باقی راستے پیدل جاتا ۔۔۔۔ میرا مالک خوش مزاج آدمی تھا۔ خیر اب تو وہ سب ختم ہو گیا ، مجھے بھی خدا کو منہ دکھانا ہے ۔۔۔۔۔وہ میری عورت سے چھیڑ چھاڑ کیا کرتا تھا۔ وہ نوکرانی تھی۔ بھاگتی ہوئی نوکروں کے کوارٹر میں آتی ، بلاو¿ ز سارا پھٹا ہوا، آنکھوں سے آنسو بہتے ہوئے اور میں دیکھتا کہ چھاتیوں پر کھرونچے لگے ہیں اور بدھیاں پڑی ہیں ۔۔۔۔۔۔تو ایک دن شام کو مالک نے مجھے ڈاکٹر کو لانے بھیجا۔ میں جانتا تھا کہ کوئی ضرورت نہیں ہے اور سمجھ گیا کہ بات کیا ہے۔ میں استیپ میں جا کر رک گیا، اندھیرا ہونے کا انتظار کرتا رہا اور پھر لوٹ پڑا۔ میں حویلی پچھواڑے سے آیا ، گھوڑوں کو باغ میں چھوڑا ، اپنا چا بک لیا اور نوکروں کے کوارٹر میں سید ھے اپنی کوٹھری میں پہنچا۔ میں نے دروازہ کھول دیا اور موم بتی جان کے نہیں جلائی۔ میں نے سنا کہ کوئی بستر پر کسر مسر کر رہا ہے ۔۔۔۔اور جیسے ہی میرا مالک اٹھا میں نے اس پر چابک برسانے شروع کر دیئے اور اس چابک کے سرے پر سیسہ لگا ہوا تھا ۔۔۔۔میں نے دیکھا کہ وہ کھڑ کی کی طرف جا رہا ہے تو میں نے ایک چابک اور اس کے ماتھے پر رسید کیا۔ پھر وہ کھڑکی سے کود کر بھاگ گیا۔ دو چار چابک میں نے اپنی عورت کو بھی لگائے اور سو گیا۔ کوئی پانچ دن بعد ہمیں گاڑی میں گاو¿ں جانا تھا اور جب میں غالیچہ بچھا رہا تھا تو مالک نے میرا چابک اٹھا لیا اور اس کے سرے کو انگلی سے ٹولنے لگا۔ کچھ دیر اس نے اسے ٹٹولا اور جب سیسے کی گھنڈی مل گئی تو اس نے پوچھا کیوں بے کتے کی اولاد تو نے اپنے چابک میں یہ سیسہ کس لئے لگایا ہے؟“
”میں نے جواب دیا آپ ہی نے تو کہا تھا“۔
”اور پھر وہ پہلے نالے تک کچھ بولا ہی نہیں ، بس بیٹھا دانت بھینچے سیٹی بجا تارہا۔ میں نے جلدی سے ایک نظر اسے دیکھا۔ اس نے اپنے بال کنگھی کر کے ماتھے کو ڈھک لیاتھا اور اس پر کس کے ٹوپی جمالی تھی۔ ۔۔۔”
” کوئی دو سال بعد اس پر فالج کا حملہ ہوا۔ ہم اسے اوست میدوید یتسا لے گئے، ڈاکٹروں کو بلایا گیا اور جب ڈاکٹر آئے تو مالک میرا زمین پر پڑا تھا اور منہ کالا ہو رہا تھا۔ وہ بس اتنا ہی کر رہا تھا کہ اپنی جیب سے نوٹوں کی گڈیاں نکالتا اور ہماری طرف پھینکتا اور چلا تا سور مجھے ٹھیک کرواو¿ ، جو کچھ میرے پاس ہے سب تمہیں دے دوں گا !“
”لیکن وہ اپنے پیسے سمیت مر گیا، خدا اس کی روح کو بخشے ۔اس کا وارث اس کا افسر بیٹا ہوا تھا۔ وہ بھی جب لڑکا تھا تبھی پلوں کی جیتے جی کھال کھینچ لیتا اور پھر انہیں صحن میں دوڑاتا۔ بالکل اپنے باپ پر پڑا تھا۔ لیکن جب بڑا ہوا تب اس نے یہ حرکتیں چھوڑ دیں۔ وہ بڑا لمبا اور دبلا پتلا تھا اور اس کی آنکھوں کے نیچے ہمیشہ حلقے پڑے رہتے جیسے عورتوں کے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ وہ ناک پر سنہری عینک دھرے رہتا تھا جس کو لگانے کے لئے چھوٹی سی ڈوری بھی ہوتی تھی۔ جرمنوں کے خلاف لڑائی میں وہ سائبیریا میں قیدیوں کا نگران تھا لیکن انقلاب کے بعد پھر ہمارے علاقے میں آگیا۔ تب تک میرے پوتے بڑے ہوگئے تھے اور ان کا باپ یعنی میرا بیٹا مر چکا تھا۔ میں نے بڑے پوتے سیمیون کا بیاہ کر دیا تھا لیکن چھوٹا انیکیئی کنوارا ہی تھا۔ میں انہی کے ساتھ رہتا تھا اور زندگی کے چھوٹے چھاٹے سروں کو گرہیں لگاتا تھا۔۔۔ بہار میں ایک اور انقلاب ہوا۔ ہمارے لوگوں نے نوجوان مالک کو اس کے تعلقے سے بھگادیا اور اسی دن سیمیون نے کسانوں کو اس پر راضی کر لیا کہ وہ سب مالک کی زمین کو بانٹ لیں اور اس کی چیزوں کو اپنے گھر لے جائیں اور ان لوگوں نے یہی کیا۔ وہ سب اس کی ساری اچھی اچھی چیزیں اٹھا لے گئے ، زمین کا انہوں نے بٹوارا کر لیا اور اس کو جوتنا شروع کردیا۔ ایک ہفتے بعد یہ افواہ پھیلی کہ مالک اپنے ساتھ کزاکوں کی ایک فوج لے کر سبھوں کو ذبح کرنے آرہا ہے ۔ گاﺅں کی میٹنگ ہوئی اور ہم نے اسلحہ لانے کے لیے دو گاڑیاں سٹیشن بھیجیں۔ ایسٹر کے ہفتے میں ہمیں سرخ گارد سے اسلحے ملے اور ہم نے تو پولیفکا کے باہر مالک کے تلاب تک کھائیاں کھودیں“۔
”وہ دیکھو ، ادھر، جہاں صعتر کے حلقے ہیں، اس گھاٹی کے پار، بس وہیں تو پولیفکا والے کھائیوں میں مورچہ لگائے تھے۔ میرے لڑ کے بھی ان کے ساتھ تھے ، سیمیون اور انیکیئی دونوں۔ عورتیں ان کے لیے صبح کو کچھ کھانے کو لائیں اور وہ دوپہر کو جب سورج بالکل سر پر تھا تو پہاڑی پر گھڑ سوار فوج آگئی اور حملہ کرنے کی ترتیب میں پھیل گئی۔ انکی سیفیں نیلی نیلی چمک رہی تھیں۔ اپنے صحن سے میں نے دیکھا کہ سردار نے جو سفید گھوڑے پر سوار تھا ، اپنی تلوار بھانجی اور پھر سب کے سب پہاڑی کی ڈھلان پر یوں لڑھکنے لگے جیسے بورے میں سے کسی نے مٹر کے دانے انڈیل دیئے ہوں۔ میں نے مالک کے سفید گھوڑے کو اس کی چال سے پہچان لیا اور سمجھ گیا کہ سوار کون ہے ۔۔۔ تو ہمارے آدمیوں نے دوبار تو انہیں پیچھے دھکیل دیا لیکن تیسری بار کزاکوں نے چالاکی کی اور انہیں پیچھے سے آلیا اور پھر مارکاٹ شروع ہوئی….. سورج ڈوبتے ڈوبتے لڑائی ختم ہو گئی۔ میں سڑک پر نکلا تو میں نے دیکھا کہ گھڑ سوار ہمارے لوگوں کی ایک ٹولی کو حویلی کی طرف لے جارہے ہیں تو میں بھی اپنی کبڑی لے کر ان کے پیچھے ہو لیا“۔
” صحن میں ہمارے تو پولیفکا والے بھیڑوں کے گلے کی طرح اکٹھے کھڑے تھے اور چاروں طرف سے کزاک انہیں گھیرے ہوئے تھے تو میں پاس گیا اور پوچھا یہ بتائو بھائیو کہ میرے پوتے کہاں ہیں؟“
”ٹولی کے بیچ میں سے میں نے دونوں کو جواب دیتے سنا۔ ان سے کسی طرح دوبات کی لیکن اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ڈیوڑھی کے زینوںپر مالک چلا آ رہا ہے۔ مجھے دیکھتے ہی وہ چلایا:
”ارے داد از خار یہ تو تم ہو؟“
”میں ہی ہوں ، سر کار !“
”کس لیے آئے ہو؟“
”میں زینوں تک گیا اور اس کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا۔“۔
”پوتوں کو مصیبت سے چھڑانے آیا ہوں مالک ، رحم کرو! ۔میں نے آپ کے باپ کی ، خدا ان پر اپنی رحمت نازل کرے ، ساری زندگی خدمت کی۔ مالک میری لگن کو یاد کرو اور میرے بڑھاپے پر رحم کرو!“
”اور اس نے کہا بات یہ ہے داد از خار کہ تم نے میرے باپ کی جو خدمت کی اس کی میں بہت عزت کرتا ہوں لیکن تمہارے پوتوں کو میں نہیں معاف کر سکتا۔ وہ پکے باغی ہیں۔ دادا، اب تم بس صبر کرو۔
”میں زینوں پر رینگ کر او پر گیا اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا“۔
”مالک، رحم کرو! میرے اپنے ، ذرا یاد کرو کہ دادا از خار نے آپ کی کیسی کیسی خدمت کی۔ مجھے برباد مت کرو۔ میرے سیمون کے تو دودھ پیتا بچہ ہے”۔
” تو اس نے اپنا ایک خوشبودار سگریٹ سلگایا، دھواں ہوا میں اڑایا اور بولا : جائو جا کے ان لفنگوں سے کہہ دو کہ میرے کمرے میں آئیں۔ اگر وہ معافی مانگ لیں گے تو ٹھیک ہے۔ اپنے باپ کی یاد کی خاطر ان کو کوڑے لگوا کر چھوڑ دوں گااور اپنے رجمنٹ میں بھرتی کرلوں گا۔ ہو سکتا ہے وہ تو بہ کر لیں اور اپنے شرمناک قصور کی تلافی کر لیں”۔
” تو میں بھاگ کے اپنے پوتوں سے کہنے گیا۔ میں نے ان کی آستینیں پکڑ کر کھینچیں اور ان سے کہا جاو¿ ، معافی مانگو پاگلو، جب تک معاف نہ کر دے تب تک زمین سے اٹھنا ہی مت“۔
”سیمیون نے سر تک نہیں اٹھایا ، اکڑوں بیٹھا ایک تنکے سے زمین کرید تا رہا۔ انیکیئی نے البتہ مجھے گھور کر دیکھا اور پھر برس پڑا جاو¿ ”جا کر اپنے مالک سے کہہ دو کہ دادا زخار ساری زندگی تیرے لئے رینگتے رہے اور اس کے بیٹے نے بھی یہی کیا لیکن اب پوتے ایسا کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ جا کے کہہ دو اس سے !“۔
”تو کتیا کے بچے تو نہیں جائے گا ؟“
”نہیں جاو¿ں گا !”
”لفنگے تیرے لئے تو مرنا جینا برابر ہے، اکیلی جان لیکن سیمیون کو کیوں اپنے ساتھ گھسیٹتا ہے؟ اس کی عورت اور بچے کی دیکھ بھال کون کرے گا ؟”
”میں نے دیکھا کہ تنکے سے زمین کریدتے کریدتے سیمیون کے ہاتھ کا نپنے لگے لیکن وہ بولا کچھ نہیں ، بیل کی طرح خاموش رہا“۔
”انیکیئی نے مجھ سے منت کی دادا جائو ہمارے لئے مت پریشان ہو“۔
” میں نہیں جاو¿ں گا ، تیری آنکھیں پھوٹیں ! اگر کچھ ہو گیا تو سیمیون کی انیسیا اپنی جان لے لے گی“۔
"سیمیون کے ہاتھ کا تنکا چٹخا اور ٹوٹ کر زمین پر گر گیا“۔
” میں انتظار کرتا رہا لیکن وہ چپ ہی سادھے رہے“۔
”سیمیون ہوش میں آ بیٹا، تو ہی میرے بڑھاپے کا سہارا ہے۔ جا مالک کے پاس چلا جا“۔
”انیکیئی میرے اوپر لال پیلا ہونے لگا ”ہم ہوش میں آگئے ہیں اور ہم نہیںجائیں گے ۔تم خود ہی جاو¿ اور رینگو اس کے سامنے !“
” میں نے اس سے کہا مجھ پر غصہ کرتے ہو کہ میں نے مالک کے سامنے گھٹنے ٹیکے، ایں“ ارے میں تو بوڑھا آدمی ہوں اور میں نے اپنی ماں کا دودھ نہیں پیا، مالک کے کوڑے ہی کھائے ہیں ۔۔۔۔ مجھے کوئی شرم نہیں ہے، میں تو اپنے پوتوں کے سامنے بھی گھٹنے ٹیک سکتا ہوں۔
”تو میں نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور زمین پر ماتھا ٹیک کر ان کی منت کی۔ ان کے پاس جو اور لوگ کھڑے تھے انہوں نے دوسری طرف منہ کر لیا جیسے وہ دیکھ ہی نہ رہے ہوں“۔
”جاو¿ ، دادا، چلے جاو¿ نہیں تو مار ڈالوں گا !“
انیکیئی چلایا۔ اس کے منہ سے جھاگ اڑ رہا تھا اور آنکھیں ایسی وحشی جیسے رسی میں جکڑے ہوئے بھیڑیے کی ہوتی ہیں۔
” تو میں مڑ کر پھر سے مالک کے پاس گیا۔ میں نے اس کے پاو¿ں کس کے سینے سے چمٹا لئے تا کہ وہ مجھے ٹھکرانہ سکے۔ میرے ہاتھ سن ہو گئے لیکن میرے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا۔
”اس نے پوچھا کہاں ہیں تمہارے پوتے ؟“
”مالک وہ ڈر رہے ہیں..“
”اچھا تو وہ ڈر رہے ہیں۔۔ ۔ بس اور کچھ نہیں بولا۔ اس نے اپنے جوتے سے ٹھیک میرے منہ پر ٹھوکر ماری اور زینوں پر چلا گیا“۔
دادا زخار بہت تیز تیز اور زور زور سے سانس لینے لگے ۔ ان کا منہ ایک لمحے کے لیے سکڑ گیا اور زرد پڑگیا ۔ بڑی کوشش کر کے انہوں نے ایک بوڑھے انسان کی ہلکی سی سسکی کو گھونٹا، ہاتھ سے اپنے سوکھے ہونٹ پونچھے اور منہ دوسری طرف کر لیا۔ تالاب کے اُس پار ایک چیل نے اپنے پر آڑے پھیلائے ، جھپٹ کر گھاس پر گری اور اپنے پنجوں میں ایک سفید سینے والی سون چڑیا لے کر اوپر اٹھی۔ سون چڑیا کے پر برف کی طرح ادھر ادھر اڑے اور گھاس پر ان کی تیز چمک آنکھوں میں کھبنے لگی ۔ داداز خار نے ناک چھنکی اور اپنی انگلیاں بنی ہوئی قمیص کے دامن میں پونچھ کر پھر سے اپنی کہانی شروع کردی۔
” تو اس کے پیچھے پیچھے میں بھی زینوں پر آگیا۔ دیکھا کہ انیسیا بچے کو گود میں لیے دوڑتی چلی آرہی ہے ۔ وہ اپنے شوہر پر اس طرح ٹوٹ پڑی جیسے وہ چیل ابھی وہاں جھپٹی تھی اور اس کی بانہوں میں جم کر رہ گئی“۔
”مالک نے سارجنٹ میجر کو بلایا اور سیمیون اور انیکیئی کی طرف اشارہ کیا۔ سارجنٹ میجر اور چھ اور کزاک ان کے پاس پہنچے اور ان کو مالک چراگاہ میں لے گئے ۔ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے گیا اور انیسیا نے بچے کو بیچ صحن میں چھوڑا اور مالک کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگی۔ سیمیون ان سب کے آگے آگے چلتا ہوا اصطبل تک گیا اور زمین پر بیٹھ گیا“۔
”یہ تو کیا کر رہا ہے ؟ “ مالک نے پوچھا۔
”میرے جوتے کاٹ رہے ہیں۔ اب اور نہیں چلا جاتا۔ یہ کہہ کر سیمیون مسکرانے لگا“۔
”پھر اس نے جوتے اتار کر مجھے دے دیئے اور بولالے جاﺅ دادا، تمہارے کام آئیں گے ۔ ان کے تلے دوہرے اور اچھے ہیں“۔
” تو میں نے جوتے لے لئے اور ہم پھر چل پڑے۔ جب ہم باڑھ کے پاس پہنچے تو کز اکوں نے انہیں باڑھ سے لگا کر کھڑا کر دیا اور اپنی بندوقیں بھرنے لگے۔ مالک پاس ہی کھڑا تھا، میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ کس قدر سفید ہیں“۔
”میں نے کہا مالک اس کی اجازت دے دو کہ ان کے کپڑے اتارلوں۔ ان کے کپڑے اچھے ہیں ، ہماری غریبی میں کام آئیں گے، ہم پہنیں گے”۔
”اتارتے ہیں تو اتار دیں“۔
”تو انیکیئی نے اپنی پتلون اتاری ، اس کو الٹا کیا اور باڑھ کی بلی پر ڈال دیا۔ پھر اس نے اپنی جیب سے تمباکو کا بٹوہ نکالا ، ایک سگریٹ جلائی ، ایک پاو¿ں آگے کر کے کھڑا ہو گیا، سگریٹ کا دھواں اڑانے لگا اور باڑھ پر تھوکنے لگا اور سیمیون بالکل ننگا ہو گیا۔ اس نے اپنا سوتی جانگیا بھی اتاردیا لیکن ٹوپی اتارنا بھول گیا۔ میرے خیال میں اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ کر کیا رہا ہے. مجھے کبھی ٹھٹھرن لگتی اور کبھی سارا آپا جلنے لگتا۔ میں نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو پسینہ ایسا ٹھنڈا تھا جیسے چشمے کا پانی ۔۔۔۔ان دونوں پر نظر پڑی۔ وہ ایک دوسرے کے پاس کھڑے تھے۔ سیمیون کے پورے سینے پر بڑے گھنے بال تھے اور وہ یوں ہی وہاں کھڑا تھا، بالکل ننگابس ٹوپی پہنے ہوئے ۔۔۔۔تو انیسیا ، عورت جات ، جب اس نے دیکھا کہ اس کا شوہر یوں ننگاکھڑا ہے اور خالی ٹوپی پہنے ہے تو وہ دوڑ کر اس سے ایسے لپٹ گئی جیسے بلوط کے پیڑ سے کوئی لتر لپٹے۔ سیمون اس کو دھکیل کر الگ کرنے لگا“۔
”پرے ہٹ ، چھنال ! باو¿ لیہوئی ہے کیا ! سارے لوگ دیکھ رہے ہیں! تجھے دکھائی نہیں دیتا کہ میں بالکل ننگا ہوں ۔۔۔۔۔بے شرم۔۔۔۔“۔
”لیکن اسے کوئی شرم حیا نہ تھی ، وہ بس چلا ئی جارہی تھی دونوں کو گولی ماردو!“۔
"مالک نے اپنی چھوٹی قینچی جیب میں رکھی اور پوچھا تو چلا ئیںگولی؟”
"چلا دے حرامی!”۔
”اور یہ وہ مالک سے کہہ رہی تھی !“۔
”اس نے حکم دیا اسے بھی اس کے شوہر کے ساتھ باندھ دو!“۔
”انیسیا نے پیچھے ہٹنا تو چاہا لیکن ہٹ نہیں پائی۔ کزاکوں نے ہنس ہنس کر اسے ایک باگ ڈور سے سیمیون کے ساتھ ہی باندھ دیا۔ گر پڑی وہ بیوقوف اور اپنے ساتھ شوہر کولے گری۔ مالک ان کے پاس آیا اور دانت پیس کر بولا شاید تو اپنے بچے کی خاطر معافی مانگ لے گا؟“
”سیمیون کراہتے ہوئے بولا مانگتا ہوں“۔
”ہاں مانگ لے لیکن خدا سے ۔۔۔۔مجھ سے مانگنے کا وقت تو گزر چکا“۔
”اور ان لوگوں نے انہیں ویسے ہی ، جیسے زمین پر پڑے تھے ، گولی مار دی. ۔۔۔۔جب ان لوگوں نے انیکیئی کو گولی ماری تو وہ لڑ کھڑا یا مگر فوراً نہیں گرا۔ پہلے وہ گھٹنوں کے بل گرا، پھر اچانک بل کھا کے پیٹھ کے بل گر پڑا۔ مالک اس کے پاس گیا اور اس سے بڑی نرمی سے پوچھا جینا چاہتا ہے؟ اگر چاہتا ہے تو معافی مانگ۔ میں تجھے 50 کوڑے لگواو¿ں گا اور لام پر بھیج دوں گا“۔
”انیکیئی کے منہ میں اگال بھر آیا لیکن تھوکنے کی طاقت اس میں نہیں تھی اور وہ سارا اس کی داڑھی پر بہہ آیا۔ غصے کے مارے وہ سرخ ہو گیا لیکن اس سے کیا ہونا تھا۔۔۔۔۔تین گولیوں نے اسے چھید دیا“۔
”مالک نے حکم دیا اسے سڑک پر ڈال دو !“
”کزاکوں نے اسے اٹھایا اور باڑھ کے اس پار پھینک دیا اور وہ سڑک پر جا کر بینڈا گرا۔ ٹھیک اسی وقت کزاکوں کی ایک ٹولی تو پولیفکا سے باہر جارہی تھی اور ان کے ساتھ دو توپ گاڑیاں بھی تھیں۔ تو مالک اچک کر باڑھ کے پاس گیا اور چلا یا کو چوان دوڑا دے گھوڑوں کو بچا کے مت نکلنا!“۔
” میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں سیمیون کے جوتے اور کپڑے لئے تھا لیکن میری ٹانگوں نے جواب دے دیا ۔۔۔۔۔گھوڑوں میں جانو خدائی چنگاری ہوتی ہے۔ ایک نے بھی میرے انیکیئی پر ٹاپ نہیں رکھی ، سارے کے سارے اسے پھلانگ کر نکل گئے ۔۔۔۔۔میں باڑھ سے چمٹاہوا تھا ، آنکھیں پھٹی اور منہ بند۔ توپ گاڑی انیکیئی کی ٹانگوں پر سے نکل گئی۔ ۔۔۔۔پہلے تو ایسا لگا جیسے کوئی روٹی کا سوکھا ٹکڑا چبا رہا ہو اور پھر ٹانگیں یوں چھوٹی ہو گئیں جیسے نرکل کو دبا دیا گیا ہو۔۔۔۔ میں نے سوچا کہ انیکیئی مارے درد کے مرجائے گا، لیکن وہ تو چیخا تک نہیں، بس اس نے زمین سے مٹی کھرچی اور منہ میں ٹھونس لی۔۔۔۔ ہاں، مٹی کھائی اس نے اور مالک کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا اور اس کی آنکھیں آسمان کی طرح روشن اور صاف تھیں ..“۔
”تو بس یہ ہوا۔ اس دن ہمارے مالک نے 32 لوگوں کو گولیوں سے اڑوا دیااور ان میں سے بچا بس انیکئی ، اپنے گھمنڈ کی وجہ سے….“۔
داد از خار لکڑی کے پیسے میں سے دیر تک پانی پیتے رہے جیسے بڑے پیاسے ہوں۔ پھر انہوں نے اپنے ہونٹ پونچھے اور بادل ناخواستہ بات ختم کی۔
”اب تو یہ بیتی بات ہو گئی۔ رہ گئی ہیں بس وہ کھائیاں جن میں ہمارے لوگوں نے لڑ کر اپنے لئے زمین حاصل کی۔ ان میں بھی اب گھاس پھوس اگ آئی ہے۔۔۔۔ انیکیئی کی ٹانگیں کاٹ دی گئیں۔ اب بس اس کے ہاتھ ہیں جن سے وہ اپنے جسم کو زمین پر گھسیٹتا ہے۔ دیکھنے میں خوش لگتا ہے۔ روز وہ اور سیمیون کا بیٹا چوکھٹ کے برابر کھڑے ہو کر اپنا اپنا قد ناپتے ہیں۔ لڑکا اب اس سے اونچا ہوتا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ جاڑوں میں وہ کبھی نکل کر اس وقت گلی میں آجاتا جب لوگ جانوروں کو پانی پلانے ندی پر لے جاتے ہوتے۔ وہ اپنے ہاتھ اٹھا کر بیچ سڑک میں بیٹھ جاتا اور بیل ڈر کر برف پر بھاگ نکلتے ، پھسلتے گرتے اور بال بال بچتے اور انیکئی ٹھٹھے لگاتا ۔۔۔۔بس ایک بار میں نے دیکھا بہار کی بات ہے۔
ہمارے کمیون کا ٹریکٹر کزاک حد کے باہر جتائی کرنے جارہا تھا ۔ اس نے منت کی کہ اس کو بھی ساتھ لے چلیں۔ میں تھوڑی ہی دور پر بھیڑیں چرا رہا تھا ۔ دیکھتا کیا ہوں کہ میرا انیکیئی اپنے کو جتے ہوئے کھیت پر گھسٹواتا چلا جارہا ہے۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ اب یہ کیا کرنے جارہا ہے ۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ انیکیئی نے پہلے اچھی طرح ادھر ادھر نگاہ ڈالی کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا ہے اور پھر منہ کے بل زمین پر گر پڑا اور ہل کے الٹے ہوئے ڈھیلوں کو سینے سے لگا کے سہلا رہا ہے اور پیار کر رہا ہے ۔ ۔۔۔ اب اس کا پچیسواں سال لگا ہے اور وہ بھی ہل نہیں چلا سکے گا۔ اسی لیے وہ اداس رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔“
دھوئیں کے سے نیلے دھند لکے میں آسمانی استیپ اونگھ رہا ہے ۔ کملا ئے ہوئے صعتر کے حلقوں پر شہد کی مکھیاں آج کے دن کا آخری شہد جمع کر رہی ہیں۔ سنہری اور ڈھیٹ سرپت اپنی اونچی کلغیوں کی نمائش کر رہی ہے ۔ گلہ دھیرے دھیرے پہاڑی سے اتر کر توپولیفکا کی طرف کھسکنا شروع ہوگیا ہے ۔
دادا زخاراس کے پیچھے اپنی کبڑی ٹیکتے ہوئے چپ سادھے چلے جارہے ہیں۔ سڑک پر دھول کی چادر ہوئی تھی جسے بڑی احتیاط سے بنا گیا تھا ۔ اس پر بس دو نشان ملتے ہیں۔ ایک تو بھیڑیوں کے پنجوں کے نشان ہیں ،گدی دار پاﺅں کے نشان ، برابر برابر اور دور دور پر ۔ دوسرا نشان تو پولیفکا کے ٹریکٹر کی لیکھ ہے جو آڑی آڑی پٹیوں کو کاٹتی چلی گئی ہے ۔
جہاں گرمیوں کی گاڑیوں والی ڈگر گزاک سروار کی بھولی بسری شاہراہ سے ملتی تھی وہاں سے سڑک کے دونوں نشان الگ الگ ہوجاتے ہیں۔ بھیڑیوں کے پنجوں کے نشان مڑ کر کگارے سے نیچے سبز جھاڑیوں میں چلے جاتے ہیں اور سڑک پر صرف ایک ہی نشان رہ جاتا ہے جو ہموار ہے اور فکر میں ڈوبا ہے اور جس سے جلے ہوئے مٹی کے تیل کی مہک آتی ہے ۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*