”نسیم پوچھتی ہے “کہانی کیوں نہیں بدلتی ؟۔نسیم کہتی ہے ! میرے من میں تو ہر دم ہاو ہو مچی رہتی ہے، میری ماں جب تک رہی یہ ہی سمجھاتی رہی زبان دانتوں تلے رکھنا سیکھ لے سکھی رہے گی ، بھلا زبان دانتوں تلے ہو تو بندہ کیسے سکھی رہ سکتا ہے؟، کلیجہ پھٹے تو بندہ ہائے بھی نہ کرے!، ماں کے زمانے اور تھے تب سر پر ہاتھ رکھنے والے ہاتھ زیادہ ہوتے تھے ۔اب سر کی چادر کھینچنے والے اور چادر کی قیمت لگانے والے ہاتھ زیادہ ہیں، گھر بھی گھر کب رہے ! ہٹیاں سی بن گئے ہیں ؛ ہٹی سڑے کراڑ دی جتھے دیوا نت بلے“
نسیم نے روتی ہوئی ہنسی کے ساتھ بین کی طرح مصرع گنگنایا۔ چائے کے کپ میز پر سے اٹھانے لگی تو میں نے ذرا تنبیہی نظروں سے نسیم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ”ذرا خیال سے جگہ جگہ کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ یہاں کسی کو کسی پر اعتبار نہیں، کیمرے کی آنکھ ہر کسی کو تاڑتی ہے-” :ٹیچر فکر نہ کریں میں جانتی ہوں کیمروں کا فوکس کس جانب ہے۔ ویسے بھی کیمرہ بھی بھگوان کی طرح بس دیکھتا ہی ہے،سنتا نہیں”۔ نسیم ہمہ وقت مصروف شہد کی مکھی تھی۔ مسکراتے ہونٹ ،حیران نظریں ،ذرا نم پلکیں ،آنکھوں کی پتلیاں اکثر ایک جگہ ٹھہری رہتی تھیں جیسے کچھ نہ دیکھ رہی ہوں، بھاری جسم کی پانج فٹی ، بدن بولی میں ایسی شانتی آشتی کہ زندہ انسان سے زیادہ بدھا کا مجسمہ لگتی۔
مجھے سکول جوائن کیے ایک دو ماہ ہی ہوئے تھے۔سکول کا ماحول بھی پاکستان کے عین مین تھا یعنی حرکت تیز تر سفر معکوس، ایسے میں بدھا یعنی نسیم سے ملاقات خوب رہی ، پہلے ہی روز مجھے دیکھتے ہی یوں مسکرائی جیسے کسی اجنبی خلائی مخلوق کو اپنی دنیا کا باسی نظر آجائے، جب دیکھتی آس پاس کوئی نہیں تو اپنے بیٹے اکرم کا حال احوال سنانے لگتی تھی۔ کم گو سی نسیم اس قدر باتونی ہو سکتی ہے! کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا۔ اکرم کی خبریں تو بریکنگ نیوز کی طرح چلتی ہی رہتیں ،ان میں بھی خبر کم دہرائی زیادہ ہوتی۔
”ایک تو میرے دیور کے عمرے ہی ختم نہیں ہوتے، پہاڑی بکرے جیسی داڑھی اور پھر چلتے ہوئے لہراتی بھی ، اس کے گرانڈیل جثے کا بوجھ پل صراط تو نہ اٹھا سکے گا۔یہ تو اپنی لمبی داڑھی کی پینگ ڈال کر ٹارزن کی طرح لٹکتے لہراتے ہوئے پار ہو جائے گا۔
ہر مہینے گیاریویں شریف پر زردے کی دیگ میوے ڈھیر ڈال کر اپنے گھر کے سامنے اتارتا ہے،میرے اکرم کے سر پر ہاتھ رکھ دیتا تو۔۔۔۔۔“
نسیم کی آنکھوں میں آنسو مچلے،ٹپکے نہیں۔جیسے بیلے ڈانسر پیر کے انگوٹھے پر اپنے بدن کا سارا وزن ڈالے رقص میں رہتی ہے،نسیم نے بھی اپنا سارا دکھ اک بوند میں سمو کر آنکھوں میں رکھ لیا تھا۔
آتے جاتے راہداری میں ، چائے ، فائلوں کی سپرد داری کرتے ،باغیچے میں جنگلی لال گلابوں کی باڑ کے پاس ،کہیں بھی لمحہ بھر رک اپنی کتھا کا کوئی نہ کوئی ماترا سنا جاتی۔
: "ٹیچر! ایک بات پوچھوں ؟”
نسیم جان! تم نے کیا مجھے گوگل
سمجھ لیا ہے ہر وقت کچھ نہ کچھ پوچھتی رہتی ہو”۔ میری مسکراہٹ نے جملے کی تلخی محسوس نہ ہونے دی ،نسیم کی ٹون بھی نہ بدلی :”ٹیچر! میری کہانی بھی لکھو نا، آخر یہ کہانی کیوں نہیں بدلتی، آج بھی اکرم کے پیٹ میں درد ہے، تڑپتا بلکتا گھر چھوڑ آئی ہوں چھٹی کرنے سے تنخواہ جو کٹتی ہے۔سکول نہیں گیا درد سے زیادہ ماسٹروں کی ڈانٹ ڈپٹ سے گھبراتا ہے ،استاد کہتے ہیں بہانے کرتا ہے بورڈ کی کلاسسز ہیں ہمارا رزلٹ خراب کرے گا۔ابھی دسویں میں ہے گھبرو نظر آتا ہے۔ سفید چہرے پر ہلکی سیاہ مونچھوں کا رواں بھلا لگتا ہے۔
”ٹیچر! وہ بہانے نہیں کرتا ،بڑا بیبا پت ہے ۔اسے تو میری طرح پڑھنے کا شوق ہی بہت ہے۔مجھے بھی پڑھنے کا بہت شوق تھا اور ماں باپ کو میرے بیاہ کا ، ایف اے کا نتیجہ بھی نہیں آیا تھا، دن باندھ دیے۔۔۔جیسے سر پر رکھی گناہوں کی گٹھڑی کوئی اتاولی میں اتار پھینکے۔
”میرا اکرم بہت میٹھی طبیعت کا ہے۔ اللہ بخشے اس کا باپ بھی ایسا ہی تھا ،خیال رکھنے والا ،پیار کرنے والا ،بہت عزت سمان دیا اس نے ،جب تک رہا مجھے ہتھیلی پر پھول کی مانند رکھا۔اب تو زندگی کوڑ تونبے کی سی،آخ تھو بھی نہیں ہوتی۔
”سکول چھٹی ہوتے گھر پہنچتے چار پانچ بج ہی جاتے ہیں۔میرے اکرم نے سبزی کاٹ شاٹ کر رکھی ہوتی ہے،ہر چیز سلیقے سے اپنی جگہ پر ہوتی ہے ،سات بیٹیوں کے برابر ہے میرا بیٹا۔۔شالا حیاتی تھیوے جند جیوے -” بیٹے کو دعائیں دیتے ہوئے اسے اردو شردو سب بھول جاتی ۔
کبھی کسی دیوار کے ساتھ منہ جوڑے ایسے کھڑی ہوتی جیسے دیوار اس کی سرگوشیاں سن رہی ہو یا دیوار سرگوشیاں کر رہی ہو، کبھی کہیں کسی کونے میں ہاتھوں کی انگلیاں اکڑائے ہتھیلی پر نظریں جمائے جانے کیا ڈھونڈتی رہتی۔
چلچلاتی دھوپ میں گلاب کی باڑ کے پاس نسیم کو سر جھکائے دیکھا ،دور سے پلاسٹک کی ڈمی لگ رہی تھی ،جس میں زندگی کی رمق تو نہ ہو پر وجود موجود ہو۔ شاید لال گلابوں کی کشش تھی کہ میں کھینچتی سی نسیم کے پاس پہنچ گئی۔ "نسیم کیا ہوا؟”۔
ایک جھٹکے سے نسیم نے یوں سر اٹھایاجیسے خالی چھوڑے بدن کا خیال روح کواچانک پلٹا گیا ہو۔ اپنی پھیلی ہوئیں اکڑی انگلیوں کو سمیٹا ۔بھینچ کر ہاتھوں کو مٹھی کی شکل دے دی۔آنکھوں میں آنسو ڈول رہے تھے۔” میرا اکرم چار پانچ سال کا تھا تو اس کا باپ دنیا چھوڑ گیا۔ویلڈنگ کرتا تھا اچھا کاریگر تھا ،گھر میں خوش حالی تھی۔ مکان اور دکان اکرم کے دادا کی تھی۔ دونوں بھائیوں کا گھر بھی ،کاروبار بھی سانجھا تھا۔اچھا بھلا ہنستا کھیلتا گھر سے گیا ،لاش واپس آئی۔تار ننگی تھی، کرنٹ لگ گیابے دھیانی سے، عدت تو گزر گئی۔ پھر دیور بہانے بہانے سے گھر سے دھکیلنے لگا۔چنگیر میں روٹیاں پڑی تھیں ،اکرم نے ایک روٹی اٹھالی،اس کے چاچا کی چپیڑ کے نشان اکرم کے گالوں پر رہ گئے کبھی نہ مٹے، چاروں انگلیاں جیسے کسی نے مہر لگا دی ہو،چیچی کا نشان کان کی لو کے نیچے تھا،،کان دکھتا رہا ،میرا اکرم کئی راتیں سو نہ سکا۔میں واری! ماں صدقے !میرے اکرم نے تو سسکی کی آواز بھی نہ نکالی تھی پھر بھی چاچا دھاڑ کر بولا: گھر سے نکل جا منحوس!ہر وقت کا رونا دھونا نحوست پھیلا رکھی ہے ، گھر اور کاروبار میرے باپ کا ہے، تیرے باپ کا نہیں ، زمینی آسمانی سارے قانون یہ ہی کہتے ہیں کہ دادا کی جائیداد میں یتیم پوتے کا کوئی حق نہیں۔میرا میمناسا اکرم بھلا دھاڑ سہنے جوگا تھا۔ہم منحوس گھرسے نکل آئے۔اکرم کا دادا فالج کا مارا منجی پر اپنے ہی گوہ موت میں پڑا بے بسی سے دیکھتا رہا "۔
”جب اپنے ماں باپ نے خیال نہ کیا ہو تو کسی دوسرے کو کیا پڑی !۔ ایف اے تک پڑھایا اور رخصت کر دیا کہ پرائے مال پر کیا خرچ کرنا! ہاتھ پاﺅں باندھ کر باکسنگ رنگ میں پھینک دیاگھونسے مکے کھاتے رہو نسیم نے بولتے بولتے سانس لینے بکے لیے پل بھر رکی پھر اسی لب و لہجے میں کہانی کا سرا پھرسے تھام لیا ”
”رج کے سوھنڑا ہے میرا پت ! اپنے باپ پر گیا ہے ،آج بھی درد بہت تھا میں سکول آگئی ،چھٹی کرو تو تنخواہ کٹ جاتی ہے۔
” میں خاموشی سے نسیم کی سرگوشیاں سنتی رہی۔ نسیم بھی شاید مجھ سے نہیں اپنے آپ سے محو گفتگو تھی ،ہری گھاس پر لال پتیاں بکھری ہوئیں تھی۔ "ڈاکٹر مہنگے مہنگے ٹیسٹ لکھ دیتے ہیں۔لیکن درد کا سراغ نہیں ملتا،سکول کے مالک نے بہت دادرسی کی ورنہ میری اوقات کیا تھی!“۔ نسیم نے گھاس پر بکھری پتیاں ہاتھ کی بنی ہوئیکپڑے کی تھیلی میں چن چن کر ڈالتی رہی۔”میرے اکرم کو گلاب بہت پسند ہیں ، گلاب نہیں توڑتی مالک ناراض ہوتے ہیں ،پتیاں چن کر لے جاتی ہوں اکرم کے سرہانے رکھ دیتی ہوں "۔ شاید نسیم کی آواز کی تھرتھراہٹ سے گلاب زمین پر گر کر بکھر تے رہے، پتیوں سے نسیم کی تھیلی بھر گئی تھی۔” بستر سے ہی لگ گیا ہے زرا آرام آتا ہے تو سکول کی طرف بھاگتا ہے،کہتا ہے ماں! سال ضائع ہو جائے گا،میری ماں نے کہا تھا ہم نے تمھیں گھر سے رخصت کر دیا ۔اپنی اوقات سے بڑھ کر جہیز دیا ۔اب اپنے بھگتان خود بھگتو۔” نسیم کی آواز ایسے تھی
جیسے کسی گنبد میں گونج رہی ہو:
سلائی کڑھائی کی ،مڈ وائف کا کور س کیا ،سکول میں آیا کی نوکری بھی مل گئی، دن سکول ڈیوٹی رات ہسپتال، ،ایک کمرے کا سہی مکان تو اپنا ہے نا۔ محنت سے نہیں گھبراتی ۔بس دعا کریں خدا میرے اکرم کو صحت یاب کر دے "۔۔
جنگلے میں مقید ہرنوٹوں کی طرح نرسری کے بچے کلاس روم میں بیقرار دیواروں سے ٹکراتے ،ماﺅں کو پکارتے۔نسیم کے کمرے میں داخل ہوتے ہی فضامیں مامتا کی لہریں ہلکورے کھانے لگتیں۔اس کے پاس خاموشی میں گفتگو کا کمال فن تھا۔مرغی کی طرح پر پھیلا کر بیٹھ جاتی ۔بچے چوزوں کی طرح اس کے آس پاس طمانیت سے غٹک غٹک کرتے رہتے۔ چائے بنانے کا ہنر بھی نسیم کے پاس تھا ۔جس دن چائے کوئی اور بناتا ،چائے پیالوں ہی میں بن چاہی سی پڑی رہتی۔ڈسپنسری میں تعنیات نرس کا دائیاں بائیاں ہاتھ بھی نسیم ہی تھی۔” نسیم کے ہاتھ میں شفا ہے "نرس مسکراتے ہوئے کہتی: مجھے دَرد کُش دوا دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ،دکھتے سر کے لیے نسیم کا ہاتھ ہی کافی ہے”۔
نسیم کی سرگوشی سرسرائی : ”میں ساری ساری رات اکرم کے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر سورتیں دم کرتی رہتی ہوں،اس کو اس کے رحمت العالمین کے ،اس کے مسیحا کے واسطے دیتی ہوں۔۔۔۔نہیں سنتا”
منظر در منظر میں الجھی ہوئی آنکھوں میں لالی تھی، علاج میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،ہر بڑے ہسپتال میں لے کر گئی ہوں لیکن۔”۔۔۔یہ لیکن بہت سی ان کہی کہانیاں سنا رہا تھا۔میں نے پوچھا : ” پیسوں کی ضرورت ہو گی۔۔۔۔” میرا جملہ ادھورا رہ گیا۔ نسیم تیزی سے بات کاٹتے ہوئے بولی: ” پیسوں کا کوئی مسلہ نہیں،پیسے بہت ہیں۔گائنی سنٹر میں رات ڈیوٹی دیتی ہوں،ڈاکٹر صاحبہ کو مجھ پر بڑا بھروسا ہے، سارا علاج کا خرچہ تو ڈاکٹر صاحبہ اٹھارہی ہیں۔میں تو ان بڑے بڑے ہسپتالوں کا نام بھی نہیں جانتی ،جہاں ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی گاڑی میں میرےاکرم کو علاج کے لیے بھجوایا۔مولا کرم کرے !میرے اکرم ٹھیک ہو جائے پیسوں ضرورت نہیں ، پیسے بہت ہیں۔ ” آواز مزید دھیمی ہوگئی تھی” علاج میں تو کوئی کسر نہیں چھوڑی”۔۔نسیم کی اکڑی ہوئی انگلیاں مٹھی کی شکل میں بھینچ رہی تھیں۔
سٹاف روم میں تقریبا سارا سٹاف موجود تھا۔ میں نے کہا :” نسیم کا بیٹا بہت بیمار ہے ہم سب کو مل کر اس کی مدد کرنا چاہیے ،پر ایسے کہ اس کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچے”- چاروں اور سناٹا طاری ہوگیا۔ کچھ ساکت لمحوں کے بعد ایک ٹیچر ذرا ہمت کر کے بولی: ” پانچ سال ہوئے ہیں اس کے بیٹے کا تو انتقال ہوگیا، علاج کے لیے پیسے نہ تھے ،دو دن گھر ہی میں تڑپتا رہا ، اپنڈکس تھا ،پھٹ گیا”۔