فرانس اور اٹلی کی سرحدوں کے قریب بحیرہ روم کے ساحل پر ایک چھوٹی سی موناکو نامی بادشاہت واقع ہے۔ بہت سارے چھوٹے شہر اس بادشاہت سے زیادہ آبادی کا دعوی کر سکتے ہیں۔ کہ اس کی کل آبادی سات ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اور اگر مملکت کی ساری زمین اس کے باشندوں میں تقسیم کی جائے تو ہر ایک کے حصے میں ایک ایکڑ بھی نہیں آئے گی۔لیکن اس کھلونا بادشاہت میں ایک حقیقی معمولی بادشاہ ہے ، اس کا ایک محل ،درباری ،اور وزرا ،ایک بشپ اور جنرلز اور فوج بھی ہے۔
یہ کوئی بڑی فوج نہیں ہے کل ساٹھ آدمی ہیں ،لیکن بہرحال یہ ایک فوج ہے۔ اس بادشاہت میں بھی دوسرے ممالک کی طرح ٹیکس لئے جاتے ہیں۔ یہ ٹیکس تمباکو، شراب / وائن اور سپرٹس اور پول ٹیکس برائے رائے دہی ہیں۔
اگرچہ وہاں کے لوگ دوسرے ملکوں کے لوگوں کی طرح شراب اور سگریٹ نوشی کرتے ہیں ،لیکن وہ بہت کم ہیں ،اس لئے بادشاہ کو اپنے درباریوں ،اور افسران کو کھانا کھلانا اور اور اپنے آپ کو قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ،اگر اسے کوئی نیا اور خاص ذریعہ آمدنی نہ ملتا۔
یہ نیا اور خاص زریعہ آمدن ایک جواءخانہ سے آتا ہے ،جہاں لوگ رو لیٹی / roulette ( ایک جواءجس میں گیند ایک چکر کھاتے پہیے پر گرائی جاتی جس پر نمبر لگے ہوتے ،کھلاڑی گیند رک جانے والے نمبر پر شرط لگاتا۔ ) کھیلتے اور چاہے وہ ہارتے یا جیت جاتے ,نگران ہمیشہ کل آمدنی کا مخصوص فیصد وصول کرتا اور اپنے اس منافع پر ایک بڑی رقم بادشاہ کو ادا کرتا۔ اتنی زیادہ ادائیگی کی وجہ یہ ہے کہ یورپ میں بس یہی جو ا خانہ رہ گیا ہے۔ کچھ چھوٹے جرمن خود مختار بادشاہ اسی طرح کے جوا خانے قائم رکھتے تھے ،لیکن کچھ سال پہلے ان پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
پابندی کی وجہ ان جوا خانوں سے ہو نے والا نقصان تھا۔ ایک آدمی آتا اپنی قسمت آز ماتا ،اس پر وہ جو کچھ اس کے پاس ہوتا اسے کھو دینے کا خطرہ مول لیتا اور ہار جاتا۔ اس کے بعد وہ اس رقم پر جو اس کے پاس ہوتی بھی نہیں تھی دائو لگاتا اور وہ بھی ہار جاتا تو مایوسی کی انتہا پر یا تو وہ ڈوب کر خود کشی کر لیتا یا اپنے آپ کو گولی مار لیتا۔ اس وجہ سے جرمنوں نے اپنے حکمرانوں کو اس طریقے سے رقم بنانے سے منع کر دیا۔ لیکن موناکو کے بادشاہ کو روکنے والا کوئی نہیں تھا اس لیے اس کاروبار میں اس کی مکمل اجارہ داری تھی۔
اس لئے اب ہر وہ شخص جو جوا کھیلنا چاہتا ،وہ موناکو جاتا۔چاہے وہ ہاریں یا جیتیں بادشاہ کو اس سے فائدہ ہی ہوتا۔ جیسے محاورتاً کہا جاتا ہے ،” پتھر کے محل ایمانداری سے نہیں بن سکتے“، اور موناکو کا بادشاہ جانتا تھا کہ یہ گندہ کاروبار ہے ،لیکن وہ کیا کر سکتا تھا۔اسے زندہ رہنا تھا: اسی طرح تمباکو اور شراب سے ٹیکس حاصل کرنا بھی اچھی بات نہیں تھی۔اس لئے وہ زندہ رہتا ،حکومت کرتا اور رقم کماتا ہے اور ایک حقیقی بادشاہ کی طرح تمام رسومات کے ساتھ دربار لگاتا ہے۔
اس کی تاجپوشی بھی ہوتی ہے ، صبح دربار سجتا ہے ،وہ انعامات سے نوازتا ہے ، سزائیں سناتا ہے اور معافیاں بھی دیتا ہے۔ اس کی مشاورتی مجالس ہیں قانون ہے عدالتیں ہیں۔سب کچھ دوسرے بادشاہوں کی طرح ہے ، بس فرق صرف اتنا ہے کہ یہ سب چھوٹے پیمانے پر ہے۔
ایسا ہوا کہ کچھ سال قبل اس کھلونا بادشاہت میں قتل کی واردات ہو گئی۔ اس بادشاہت کے لوگ پرامن لوگ ہیں ،ایسا اس سے قبل کبھی نہیں ہوا تھا۔جج صاحبان اکٹھے ہوئے ،انصاف کے مطابق مقدمے کی کاروائی عمل میں لائی گئی۔جج صاحبان کے ساتھ استغاثہ ، جیوری کے ارکان ، اور بیرسٹر ز بھی تھے۔ بحث مباحثے کے بعد قانون کے مطابق مجرم کا سر کاٹنے کا حکم سنایا گیا۔ یہاں تک تو سب ٹھیک ہو گیا۔ اس کے بعد سزا کا فیصلہ بادشاہ کے حضور پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے فیصلہ پڑھا اور اس کی توثیق کر دی۔
لیکن مسئلہ اب شروع ہوا۔ ایک رکاوٹ آ گئی اور وہ یہ تھی کہ ان کے پاس نہ تو سر قلم کرنے والی مشین تھی اور نہ ہی جلاد۔وزرا نے معاملے پر غور وغوض کے بعد حکومت فرانس سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا کہ ان سے پوچھا جائے کیا وہ انہیں مجرم کا سر کاٹنے کی مشین اور ماہر نہیں دے سکتے ؟ اور اگر وہ دینے کے لئے تیار ہیں تو اس کے اخراجات کیا ہوں گے۔چنانچہ خط بھیجا گیا۔ایک ہفتے بعد جواب موصول ہوا : مشین اور ماہر مہیا کئے جا سکتے ہیں ،خرچہ سولہ ہزار فرانکس ہوں گے۔ بادشاہ کو اس بارے میں آگاہ کیا گیا۔ اس نے اس پر سوچا۔سولہ ہزار فرانکس! “بد بخت اتنی زیادہ رقم کے قابل نہیں ہے ،” اور پوچھا ،” کیا یہ کام اس سے سستا نہیں ہو سکتا ،سولہ ہزار فرانکس کا مطلب ہوا پوری آبادی کے ہر فرد پر دو فرانک سے زیادہ کا بوجھ پڑے گا ،لوگ یہ برداشت نہیں کر سکیں گے ،اور فساد کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ ! “
اس لیے مشاورتی کونسل بلائی گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس معاملے میں اٹلی سے رابطہ کیا جائے۔فرانس کی حکومت رپبلکن ہے اور وہ بادشاہتوں کو نا پسند کرتے اور عزت نہیں دیتے ہیں۔ لیکن اٹلی کا بادشاہ برادر بادشاہ ہے اور اس سے سستے معاملات طے کئے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ خط لکھا گیا اور فوری جواب بھی موصول ہو گیا۔اٹلی کی حکومت نے لکھا تھا کہ وہ بارہ ہزار فرانکس بشمول سفر کے اخراجات ، میں مشین اور ماہر دونوں مہیا کر دیں گے۔ یہ پہلے سے بہتر تھا لیکن پھر بھی مہنگا تھا۔ وہ بد ذات کسی بھی طرح رقم خرچ کرنے کے قابل نہیں تھا۔ اس کا مطلب بھی ٹیکسوں کے علاوہ تقریباً دو فرانک ہر شہری پر بوجھ پڑے گا۔ ایک بار پھر کونسل کا اجلاس بلایا گیا۔انہوں نے مشورہ کیا کہ کیسے کم خرچ پر یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ کیا کوئی فوجی کسی نہ کسی طرح سادگی سے یہ کام نہیں کرسکتا ؟۔جنرل کو بلا کر پوچھا گیا ،کیا آپ ایسا سپاہی دے سکتے ہیں جو مجرم کا سر قلم کر سکے ؟ جنگ کے دوران وہ قتل کرتے ہیں اور اسی کام کے لیے انہیں تربیت دی جاتی ہے۔ جنرل نے سپاہیوں سے اس بارے میں بات کی کہ کوئی اس مہم کے لئے تیار ہو ،لیکن کسی نے بھی حامی نہیں بھری ،” نہیں ، ہم یہ نہیں کر سکتے ہمیں اس کی تربیت نہیں دی گئی “۔
اب کیا کیا جائے ،وزرا نے بار بار سوچا ۔انہوں نے ایک کمیشن تشکیل دیا ،ایک کمیٹی بنائی پھر ایک سب کمیٹی بنائی گئی اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچے کہ بہتر یہ ہوگا کہ سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا جائے۔اس سے بادشاہ کی رحمدلی بھی ظاہر ہوگی اور یہ سستا بھی پڑے گا۔ بادشاہ راضی ہو گیا۔لیکن اس معاملے میں بھی ایک رکاوٹ تھی کہ ملک میں عمر قید کاٹنے کے لئے کوئی مناسب جیل نہیں تھی۔ صرف ایک چھوٹی سی حوالات تھی جس میں عارضی طور پر لوگوں کو رکھا جا سکتا تھا۔لیکن مستقل استعمال کے لئے کوئی مضبوط جیل نہیں تھی۔ تاہم انہوں نے مجرم کو رکھنے کے لئے ایک جگہ ڈھونڈ لی اور اس پر ایک پہریدار بھی مقرر کر دیا۔ پہریدار کو مجرم پر نظر رکھنے کے ساتھ محل کے باورچی خانے سے اس کے لئے کھانا بھی لانا پڑتا تھا۔قیدی وہاں ایک سال تک رہا۔ایک دن بادشاہ اپنی آمدنی اور اخراجات کا حساب کتاب دیکھ رہا تھا کہ اسے ایک نئے خرچے کا پتہ چلا۔یہ اس مجرم کے قید میں رکھنے پر اٹھنے والے اخراجات تھے۔اور یہ کوئی تھوڑی رقم نہیں تھی۔ اس کے لئے ایک مخصوص پہریدار تھا اور اس کے کھانے پینے کے اخراجات تھے۔یہ چھ سو فرانک سال کے بن رہے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مجرم جوان اور صحت مند تھا اور ہوسکتا ہے پچاس سال زندہ رہے۔ اس لئے معاملے کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے بادشاہ نے وزرا کو بلایا اور کہا ، “ اس بدمعاش کے لئے کوئی سستا بندو بست ڈھونڈو۔موجودہ انتظام تو بہت مہنگا ہے۔ وزرا نے مل کر سوچا اور بالآخر ایک بولا ،” میرے خیال میں ہمیں پہریدار کو ہٹا دینا چاہیے۔” دوسرے نے کہا ،” پھر تو مجرم بھاگ جائے گا۔” جس پر پہلے نے کہا ،” بھاگ جانے دو اور اسے پھانسی دے دو ! اب انہوں نے اپنی مشاورت کا نتیجہ بادشاہ کو بتایا۔ بادشاہ رضامند ہو گیا۔پہریدار کو ہٹا دیا گیا ،اور وہ انتظار کرنے لگے کہ کیا ہوتا ہے۔ ہوا یہ کہ رات کے کھانے کے وقت مجرم باہر نکلا اور پہریدار نظر نہ آنے پر وہ بادشاہ کے باورچی خانے میں اپنا کھانا لینے خود چلا گیا ،انہوں نے جو کھانا دیا لے کر آ گیا دروازہ بند کیا اور اندر ہی رہا۔ اگلے دن بھی یہی کچھ ہوا ،مخصوص وقت پر کھانا لینے گیا لیکن بھاگنے کا کوئی ارادہ ظاہر نہ کیا۔ اب کیا کیا جائے ؟
پھر غوروغوض شروع ہوا ،” ہمیں سیدھی طرح اسے بتا دینا چاہیے کہ ہم اسے نہیں رکھنا چاہتے “ سب نے مشترکہ فیصلہ سنایا۔ وزیر انصاف نے اسے بلایا ،” تم بھاگ کیوں نہیں گئے ؟ تمہیں روکنے کے لئے اب کوئی پہریدار نہیں ہے۔ تم جہاں جانا چاہتے ہو جا سکتے ہو ،بادشاہ ناراض نہیں ہوگا۔ جس پر اس نے جواب دیا ،” ٹھیک ہے بادشاہ ناراض نہیں ہو گا لیکن میرے پاس کہیں جانے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ آپ نے اپنی سزا کے ذریعے میری شہرت خراب کر دی ہے۔اب لوگ مجھ سے منہ موڑ لیں گے اور پھر اب مجھے کام کرنے کی عادت بھی نہیں رہی ،آپ نے میرے ساتھ بہت برا کیا۔ یہ انصاف نہیں ہے۔جب آپ نے مجھے موت کی سزا دی تو آپ کو چاہیے تھا کہ اس پر عمل درآمد کرتے۔آپ نے ایسا نہیں کیا۔ میں نے شکایت نہیں کی۔پھر آپ نے مجھے عمر قید کی سزا سنائی، اور مجھے کھانا لا کر دینے کے لئے پہریدار رکھا ،لیکن پھر آپ نے اسے بھی ہٹا دیا اور مجھے اپنا کھانا خود لانا پڑ گیا۔ میں نے تب بھی شکایت نہیں کی۔لیکن اب آپ چاہتے ہیں کہ میں یہاں سے چلا جائوں ! میں اس پر رضامند نہیں ہوں۔ آپ کی جو مرضی ہے کریں لیکن میں کہیں نہیں جائوں گا۔ “
اب کیا کیا جائے ؟ ایک دفعہ پھر مشاورتی کونس کا اجلاس بلایا گیا۔انہوں نے بہت سوچا ،اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اس سے خلاصی حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اسے پنشن دے دی جائے۔ انہوں نے بادشاہ کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ “ اس سے نجات حاصل کرنے کا اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔ چھ سو فرانکس کی رقم مختص کی گئی۔ اور قیدی کو بتا دیا گیا۔
اس نے کہا ،” اگر آپ رقم باقاعدگی سے ادا کرتے رہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔اس شرط پر میں جانے کے لئے تیار ہوں۔”
اس طرح یہ معاملہ طے پا گیا ، اس نے ایک تہائی حصہ ایڈوانس میں حاصل کیا اور مملکت سے نکل گیا۔وہ ریل کے ایک گھنٹے کے سفر جتنے فاصلے پر سرحد کے باہر مقیم ہو گیا۔وہاں اس نے کچھ زمین خرید لی ،مارکیٹ گارڈنگ شروع کر دی۔ اور آرام دہ زندگی گزارنے لگا۔ وہ ہمیشہ مخصوص وقت پر جا کر اپنی پینشن وصول کرتا ہے ،رقم لے کر جوا خانے جاتا ہے ،دو یا تین فرانکس پر شرط لگاتا ہے۔کبھی جیت جاتا ہے اور کبھی ہار جاتا ہے ،تب گھر لوٹ آتا ہے۔وہ اب پرسکون اچھی زندگی گزارتا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ اس نے کسی ایسے ملک میں جرم نہیں کیا ،جہاں وہ مجرم کا سر قلم کرنے پر آٹھنے والے اخراجات کی یا اسے عمر بھر قید میں رکھنے کی پرواہ نہیں کرتے۔
[sharethis-inline-buttons]