کتاب ”سیٹیزن ٹام پین“
مصباح نوید
موضوع: ناول
مصنف: ہاورڈ فاسٹ
ترجمہ: شاہ محمد مری
قیمت : 600
سنگت تراجم: 35
زیراہتمام: سنگت اکیڈیمی کوئٹہ
ہاورڈ فاسٹ کے لکھے دلچسپ سوانحی ناول "سٹیزن ٹام پین’ کو تمام تر جزئیات اور ترسیل معنی کی نزاکتوں سمیت اردو میں شاہ محمد مری نے منتقل کیا ہے۔ ،شاہ محمد مری کے ترجمے نے گویا ایک مقبول سوانحی ناول کی تفہیم کا دروازہ کھول دیا ہے۔یہ ایک جہان دیگر ہے، ٹام پین نے کہا تھا: ” اگر کوئی مشکل ہے تو اسے میرے زمانے میں آنے دو تاکہ میرے بچے کو چین نصیب ہو”. ناول کی قرات کرتے ہوئے ناول کی خوب صورتی نے دل ودماغ کو اپنی گرفت میں لے لیا ،انداز بیاں کی ندرت ، دانش کا تحئیر ، زبان کی سادگی اور بیان کا بے ساختہ پن۔ اس ناول کے جمال کو حسن سادہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسی سادگی جس میں ہنراور آرٹ کی پرکاری بھی ہو۔ شاہ محمد مری نے ناول کے پیش لفظ میں لکھا:
"اہم سبق یہ بھی ہے کہ ہم اپنی جدوجہد میں شخصیات پر کم سے کم انحصار کریں۔شخصیت پرستی تباہ کر دیتی ہے۔تین سو برس قبل انقلابی تھامس پین کی تحریک کو جارج واشنگٹن جیسا شخص دغا دے گیا۔حالانکہ ساری جنگِ آزادی اسی کی کمان میں لڑی گئی تھی۔ مگر فتح مند ہو کر اس نے عام انسان کو بھلا دیا اور سرمایہ داروں کی خدمت بجا لاتا رہا۔ٹام پین نے واشنگٹن کے خلاف بہت لکھا۔مگر اس وقت کوسنے سے کیا فائدہ جب اگلے کو آپ خود بڑھا چڑھا کر، عبادت کی حد تک کی تعریفیں،توصیفیں کر کر کے اقتدار پر بٹھادیں۔ ہمارا اپنا خطہ تو اس بات کا مجرم ہے کہ ہم نے بار بار غلطی دہرائی ہے۔ہماری انقلابی تحریک ہروقت کسی نہ کسی ” بڑی” شخصیت کی بلندقدی بڑھانے کا کام کرتی رہی۔یوں تنظیم تباہ ہوئی اور فرد واحد نے جس طرح چاہا ،تحریک کا رخ متعین کرتا رہا۔
” ڈاکٹر مری کتاب کے انتخاب کو اہمیت دیتے ہیں ، وہ یونہی راہ میں چلتے چلتے کسی بھی کتاب کو اٹھا کر اس کا ترجمہ کرنے میں نہیں جت جاتے۔کتاب کے انتخاب میں ایک ایڈیٹر کی پرکھ تو شامل ہوتی ہی ہے ، ایک وسیع سیاسی، سماجی ،علمی شعور بھی انتخاب کی بنیاد بنتا ہے۔ ہاورڈ فاسٹ محض ایک ادیب ہی نہیں تھا بلکہ وہ انصاف اور سماجی آزادی کی خاطر بہادری سے جدوجہد کرنے والا امریکی تھا ،وہ طبقاتی شعور سے بھرے ناول لکھتا تھا۔ اس کا مشہور زمانہ ناول ” سٹیزن ٹام پین” 1943 میں لکھا گیا۔یہ ٹام پین جیسی ایک غیر معمولی شخصیت پر ایک تحسین بھری نگاہ ہے۔ ٹام پین امریکی انقلاب کے بانیوں میں تھا۔ اس نے ‘لفظ” کو اپنی طاقت بنا لیا تھا :” اسے لفظوں کی تلاش کی مزید ضرورت نہ تھی،وہ اب اس پر آسانی سے اترتے تھے اور ہر لفظ ایک تلخ یاداشت تھی "۔
خلوص و علم سے اٹھائے گئے لفظ کرشماتی ہو جاتے ہیں ،وہ کبھی نہیں مرتے اور ان لفظوں کا لکھنے والا بھی موت کی نحوست اور اس کے نتیجے میں ہونے والی فراموشی سے ذرا فاصلے پر ہی رہتا ہے۔ ٹام پین ایک غیر معمولی انسان تھا۔وہ بھی کوئی غیر معمولی انسان تھا جس نے پہلا اوزار ایجاد کیا ، وہ بھی ایک غیر معمولی انسان تھا ،جس نے بیج مٹی میں بوئے تھے۔ ہمارے عہد منافقت میں بڑی مقبول دعا ہے :”خدا آسانیاں عطا کرے، آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا کرے” ، شاید دعا کرنے والے نہیں جانتے کہ آسانیاں بانٹنے کے لیے اپنے حصے کی کچھ آسانیوں سے دست بردار ہونا پڑتا ہے،مشکلوں سے گزرنا پڑتا ہے:
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہم دم
وصال ِیار فقط آرزو کی بات نہیں
آسانیاں بانٹنے والے غیر معمولی ہوتے ہیں ۔وہ اپنا آج اپنا کل اپنا تن اپنا من اور گاہے اپنا دھن ، سب خرچ کرتے ہیں ، تب آسانیوں کے کچھ اسباب پیدا ہوتے ہیں۔ اپنا دکھ محسوس کرنا ،اس دکھ کو بیان کرنا یا اس دکھ کی تلافی کی کوشش کرنا غیر معمولی نہیں، یہ تو جانور بھی کر لیتے ہیں۔ غیر معمولی انسان وہ ہوتے ہیں جو دوسروں کا دکھ خود پر گزرتے محسوس کرتے ہیں۔اس دکھ کو بیان کرتے ہیں، اس دکھ کی تلافی کی کوشش کرتے ہیں۔ غیرمعمولی وہ نہیں ،جو پانی پر چل سکتا ہے۔ غیر معمولی وہ ہے جس نے کشتی بنائی۔ غلام تو بہت تھے لیکن غیر معمولی سپاڑٹیکس تھا جس نے ایسے سماج میں غلامی کو غیر انسانی ثابت کیا ، جس سماج میں غلامی معمول کی بات تھی۔ غیر معمولی مزدک تھا ،غیرمعمولی شاہ عنایت تھا، غیر معمولی کارل مارکس تھا، غیر معمولی ٹام پین تھا، جو غربت کی ناقابل برداشت کڑواہٹ اپنی زبان پر رکھتے ہوئے بھی سب انسانوں کے لیے میٹھا ڈھونڈنے کی سعی کرتا رہا۔ غربت ہو یا امارت جب انسانوں سے اس کا وقار چھین لیتی ہے تو ذلت بن جاتی ہے۔ٹام تھامس نے انسان کے وقار کے لیے کوشش کی۔ نو عمر لڑکا ،ایک بریزئیر سینے والا ایک شعور بھرا فیصلہ کرتا ہے یہ غیر معمولی نہیں ہے کیا!
تین ملکوں میں انقلاب لانے کی جدوجہد میں لڑنے اور صعوبتیں برداشت کرنے والا تھامس پین ایک بریزئر بنانے والا تھا۔
میلے کچیلے پھٹے پرانے لباس والا ٹام پین انسان کی میل کچیل صاف کر کے اسے انسانیت کا دیدہ زیب لباس پہنانے کی کوشش کرتا رہا۔تمام عمر یعنی زندگی نے جتنے سال بھی اسے عطا کیے وہ اوروں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں لگا رہا۔”امریکہ جو آج سامراج ہے،ایک زمانے میں خود برطانیہ کا غلام تھا۔ یہ ناول اس غلام امریکہ کی جدو جہد آزادی کی کہانی ہے:”کبھی امیدوں بھری سرزمین تھی اس سرزمین کی طرف وبائی بخار میں مبتلا بحری جہاز میں ٹام پین نو ہفتوں تک سفر کرتا رہا۔” دنیا جو چند لوگوں کے لیے ہی اچھی جگہ ہے باقیوں کے لیے جہنم بنا دی گئی۔
ٹام پین جدوجہد کر رہا تھا ، ان کثیر بے نوا لوگوں کے لیے ، جن کے لیے زندگی عذاب بنا دی گئی تھی۔وہ بیماری، بھوک، تنہائی اور دکھ سے لڑتا رہا،لڑتا رہا آخری دم تک لڑتا رہا۔ وہ غیر معمولی تھا کہ اس کے پاس دانش بھرے لفظ تھے اور لفظوں کو چھونے کو بیقرار سماعتیں بھی۔اسے لوگ شلنگ والا ٹیوٹر کہنے کے بجائے لکھاری کہہ کر پکارتے تھے۔جی ہاں! ٹام پین نے ٹیوشن پڑھانا بھی شروع کردی تھی وہ بچوں کو پڑھاتا تھا۔ایک شلنگ یومیہ معاوضہ ٹھیک تھا اور دو شنلگ تو کافی سے بھی زیادہ تھے۔ وہ مختلف کہانیاں اور پس منظر رکھنے والے لوگوں کے بیچ رہتا تھا۔ابھی اس کے پنکھ بھیگے تھے ورنہ اڑنے کی شکتی کے ساتھ ساتوں آسمان اس کی نگاہوں میں تھے۔میگزین کی ایڈیٹری اُسے ملتی ہے لیکن اس شرط کے ساتھ:”تم میگزین میں غلامی کے موضوع پر نہیں لکھو گے،تم مخالفت اور بغاوت پر نہیں لکھو گے”۔لندن کے فربہ بادشاہ کی بادشاہت تھی اگر کہیں فربہ چربیلے شخص پر نگاہ پڑتی ہے تو کھال منڈی ہڈیلے کا سوچنا تو بنتا ہے نا کہ کہیں اس نے میرے حصے کا بھی تو نہیں کھا لیا!! ۔ ایسا سوچنا ہی تو بغاوت ہے تو پھر بغاوت غلط ہے کہ اپنے جسم کو ذخیرہ اندوزی کے لیے استعمال کرنا غلط ہے ؟
ٹام پین کے پاس بہت سارے سوال تھے رحمت اس پر یہ تھی کہ اس کے پاس لکھنے والا قلم بھی تھا۔وہ لکھتا رہا۔پین خاموش نہیں رہ سکتا تھا:” اس کے پاس بہت یادیں تھیں،بہت ساری بےخواب راتیں تھیں،بہت سارے خواب تھے۔”
اس نے غلامی کے خلاف اپنی ساری نفرت ، ذہن میں محصور بے چارگی اور دل و دماغ میں بھرا سارے کا سارا طیش کاغذ پر منتقل کر دیا۔اس ناول میں بہت سارے منظر ایسے ہیں جو اجنبی نہیں ہیں۔روزمرہ کے،دیکھے بھالے آری کی طرح دل کو چیرتے ہوئے:
” تم گندے حرامزادو! میجر چیخا۔”تم گندے کسان حرامزادو!راستہ چھوڑ دو اور گھر واپس جاو¿۔” وہ نہ ہلے،وہ پرعزم رہے ۔پھر برطانیوں نے حملہ کر دیا اور دوزخ سج گئی ” اور دوزخ سجتی رہے گی جب تک دکھی غریب جنھیں عوام کہا جاتا ہے یعنی نکیل ڈالا گیا ہجوم ،اپنی طاقت سے واقف نہیں ہوتے۔ٹام پین نے دامے درمے سخنے ہر جہت سے انقلاب کے لیے کام کیا۔لفظ ‘کام’ ذرا کم لگتا ہے اس نے ہر کام عبادت کی طرح کیا۔ کسی منافق کی عبادت کی طرح نہیں بلکہ عاشق کی عبادت کی طرح شعلوں پر رقص کرتے ہوئے۔
ٹام پین کی زندگی میں کچھ شبنمی لمحے بھی نوک خار پر لرزاں رہے ، سارا کہتی ہے: "ماں!یہاں ایک لکھاری آدمی فلیڈیلفیا سے پیدل چل کر آیا ہے-” رمپل خاندان جو پنسلوانیا کے حدود میں گرم جوش مہمان نواز خاندان ہے۔ رمپل کا وسیع مطالعہ اسے ایک مضبوط خوش حال کسان سے بڑھ کر شان و شوکت عطا کرتا ہے۔وہ ایک فارم ہاو¿س ہے ،جہاں مالک اور مزدور مل کر کام کرتے ہیں۔جہاں کھانے کی لمبی فراخدل میز ہے،جہاں میزبان ،مہمان اور ملازمین مل کر برابری کی سطح پر صحت بخش غذا سے لطف اندوز ہوتے ہیں-لیکن پین اپنی پیٹھ پر بہت ان دیکھے زخم اٹھائے ہوئے تھا۔وہ گوری کے گاو¿ں میں سایہ دار درخت کے تنے سے ٹیک لگائے زیادہ دیر نہ بیٹھا رہ سکا۔اس کی بیقرار روح اسے بھگائے پھرتی رہی۔سارا کا ساتھ شانت اور راحت بھرا تھا۔لیکن ماضی میں رکھی ایک یک طرفہ پریت کی تلخاب، اسے خوف زدہ رکھتی تھی۔ٹام کا تن من پریم میں شرابور ہوا تھا، لیکن دوجا اسے محض تشکر یا پھر نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر کے طور برتتا رہا تھا۔ غربت کی ذلت کی یاد اسے آسودگی میں بھی چین سے نہیں رہنے دیتی تھے۔یہ آسودگی کے لمحے بھی فراخ دست قدرت نے اسے کنجوسی سے ہی عطا کیے تھے ،جو جلد ہی خواب وخیال ہو گئے۔ ٹام پین بارہا زمین بوس ہوا پھر اٹھ کھڑا ہوا،پہلے سے زیادہ شکتی اور ایمان کے ساتھ۔ ڈر دہشت تباہ حالی انسان کو مزید انسان نہیں رہنے دیتے لیکن وہ کیسا جی دار زندہ انسان تھا۔ایک آزاد شانت خوش حال انسان کا خواب لیے ٹام پین مرتے دم تک دہشت، غلامی اور بدحالی سے نبرد آزما رہا۔جیتا بھی لیکن اہم یہ ہے کہ اس نے ہار میں بھی اپنا وقار قائم رکھا۔ اس ساری کرب ناکی کے باوجود پین کا قلم چلتا رہا:”!
"وہ اپنی سوچ سے چیزیں لکھ رہا تھا اور عدم سے کچھ چیزیں بنا رہا تھا اور جب وہ متواتر پانچ چھ سات گھنٹے تک کام کرتا تو اس پہ چھوٹا سا کمرا بند ہو جاتا۔رم اس کی مدد کرتا۔وہ جب پیتا تو اس کی حرکات سست رفتار اور پُر درد ہوتیں مگر قلم کی کھرچن جاری رہتی۔ اسی بات کی اہمیت تھی۔اسے کوئی خوش فہمی نہ تھی۔وہ جو کچھ لکھ رہا تھا اُسے شاید درجن سے زیادہ لوگ بھی نہ پڑھتے مگر وہ تو یہی کچھ کر سکتا تھا اور یہ ہی کچھ اسے کرنا تھا۔انسان ایک ہی دوپہر میں نئی دنیائیں نہیں بناتے،ایک اینٹ دوسری پر رکھنی پڑتی ہے۔
یہ ناول تراجم کے ایک طویل سلسلے کی ایک کڑی ہے۔شاہ محمد مری کی ترجمہ نگاری کی جملہ خصوصیات کی آئینہ دار ہے۔ایسا ترجمہ جس کے تن میں روح بھی ہو ،ایک تخلیقی قوت سے ہی ممکن ہے۔ سٹیزن ٹام پین معنی کی کفالت کرتا ہوا ایک رواں ترجمہ ہے۔اگر نام اور مقام بدیسی نہ ہوں تو محسوس بھی نہ ہو کہ یہ ناول ترجمہ کیا گیا ہے۔البتہ بعض کہاوتوں پر ذرا سی محنت اور یکسوئی کی ضرورت تھی۔کہاوتوں کے لفظی ترجمے کے بجائے اگر مادری زبان اور اردو کے خزانے کو ذرا پھرولا جاتا تو معنی سے لگا کھاتی کہاوتوں کے ڈھیر سامنے آ جاتے۔یہ ایک ایسا ناول ہے جسے دل جمعی سے بار بار پڑھا جا سکتا ہے۔ایسی خوبی اور خوش بختی ذرا کم ناولوں کے حصے میں آتی ہے۔
[sharethis-inline-buttons]