گل خان نصیر

اِس ملک کے سب سے بڑے ، مگر سب سے بے کرامت ٹمپل (ایوانِ صدر) میں نصب سماعت و بصارت سے مبرا بت کو انہی ایام میں کوئٹہ آنا تھا جب ہم اِس دھرتی میں انکار کے سب سے بڑے وکیل ، میر گل خان نصیر سے منسوب سال کی تقریبات کی اختتامی تقریب منارہے تھے۔ ہم حیران ہیں کہ صدر کا کوئٹہ آنے کا آخر حاصل و مطلب و مراد کیا ہوتاہے ؟۔ اُس نے تو زرغون روڈ پہ واقع مارچری میں پڑے گورنر، وزیروں سیکرٹریوں ،اور زرو حشمت و دربار و شہرت کے خریدے ہوئے بشر دشمن مایہ لگے نام نہاد ” عمائدین“ سے ہی ملنا ہوتا ہے ۔ تو اُن کا یہ باہمی ملنا تو لگا رہتا ہے ۔ اُس کے لےے کوئٹہ آنا کیوں ضروری ہے؟۔
اور اگر اُنہی سے ملنا ہے اور کوئٹہ ہی میں ملنا ہے تو اپنے گورنر ہاﺅس ( جہاں صدر تین دن تک قیام پذیر رہا) کو محفوظ ترین مقام، کینٹ شفٹ کیوں نہیں کرتے؟۔ ویسے ایک غور طلب بات یہ بھی ہے کہ کیا بلوچستان کو ایک گورنر ہاﺅس اور ایک دانہ گورنر کی ضرورت ہے بھی؟۔
چنانچہ اُس روز کوئٹہ غز ہ بن چکا تھا۔ شہر کی ساری وریدیں شریانیں بند کردی گئی تھیں، ریڑھیاں ٹانگے رکشے، اور دیگر انسانی علامتیں میلوں تک قطار و بے قطاری میں روڈ کھلنے کے انتظار میں غلطاں تھیں۔ ضرورت مندوں کو کسی جگہ پہنچنے میں دو تین بار راستے بدلنے پڑ رہے تھے۔ جگہ جگہ چیک پوسٹیں، جگہ جگہ تلاشیاں۔انارکی کے ہاتھوں پہلے سے قائم ، نیم دوزخ آج تکمیل پا چکی تھی۔ عشاق کی راہیں بند تھیں ، سگ آزادتھے ۔
بہر حال دو بجے کے مقررہ وقت تک بلوچی اکیڈمی کوئٹہ کا ہال بھر چکا تھا۔ اور ”کاروائی شروع کرو“ کی کھسر پھسر اب بلند آوازوں میں بدل چکی تھی…….. عابد میر نے ابتدائی کلمات غیر روایتی انداز میں ادا کےے ۔ اورقاضی عبدالحمید شیرزاد کے ہاتھ اٹھا کر تعزیتی دعا کرنے سے کاروائی شروع ہوئی۔یہ دعا پشاور میں قتلِ عام شدہ بچوں، جناب عزیز مینگل اور سوبھو گیانچندانی کی ارواح کے لےے کی گئی۔
سنگت اکیڈمی کے سیکریٹری جنرل جیند خان جمالدینی نے جشن گل خان صدی کے تحت سال بھر کی تقریبات کی اس اختتامی تقریب میں سب شرکا کو خوش آمدید کہا۔اور سا ل بھر کی رپورٹ یوں پیش کی:
”سنگت اکیڈمی کے دوست تسلسل کے ساتھ اپنے فکری اکابرین کے افکار کی بازیافت کرتے رہتے ہیں۔ ہم مختلف اکابرین کے یومِ وفات یا سال گرہ کی مناسبت سے ان کے افکار کو دوبارہ یاد کرتے ہیں اور یوں اپنے قافلے کو فکری راہنمائی کا سامان کیے رہتے ہیں۔
”2011ءمیں جب اس قافلے کے ایک اہم اکابر فیض احمد فیض کی صد سالہ سالگرہ کی مناسبت سے تقریبات کا اعلان ہوا، تو سنگت اکیڈمی نے ہر ماہ ہونے والی اپنی فکری نشست ’پوہ و زانت‘ میں سال بھر اُس پہ مقالوں، لیکچرز، مضامین اور گفتگو کا انتظام کےے رکھا۔
”2014ءمیں جب میر گل خان نصیر کی پیدائش کو سو سال ہونے جار ہے تھے، تو دسمبر2013ءمیں فیصلہ ہوا کہ سال2014 میں سنگت اکیڈمی سال بھر گل خان کی تقریبات کرے گی۔ سنگت نے سال بھر گل خان نصیر پہ مقالوں، مضامین، لیکچرز اور گفت گو کا سلسلہ جاری رکھا۔
”چنانچہ جنوری2014 سے لے کر دسمبر2014 کو ہر ماہ ” سنگت پوہ زانت“ کی نشستوں میں میر گل خان کی شخصیت ، فن اور جدوجہد پر مقالے پڑھے گئے، مباحثے ہوئے ، شاعری سنائی گئی، ڈرامے پیش کےے گئے اور کتابی میلے منعقد کےے گئے۔ سنگت اکیڈمی کی اوستہ محمد ، خاران، اسلام آباد اور کوئٹہ کی شاخیں تواتر کے ساتھ ایسا کرتی رہیں۔یہ تقریبات بالعموم بڑے پیمانے کی رہیں۔
”2014ءکی اس سلسلے کی اولین نشست 12جنوری کو منعقد ہوئی، جس میں شاہ محمد مری نے ”گل خان نصیر اور محبت“ کے موضوع پر اپنا مضمون پیش کیا۔ اسی نشست میں ڈاکٹر عطاءاللہ بزنجو نے گل خان پہ مقالہ پڑھاتھا۔
دوسری نشست 23فروری کو ہوئی، جہاں شاہ محمد مری نے اپنے مذکورہ مضمون ”گل خان نصیر کی شاعری میں محبت کا تذکرہ“کا دوسرا حصہ پیش کیا۔
”اس سلسلے کی تیسری نشست منعقدہ 30مارچ2014 میں ساجد نبی بزدار نے گل خان نصیر کی شاعری پر اپنا مضمون”مانیت حبر مئے“ کے عنوان سے پیش کیا۔
”20اپریل کی چوتھی نشست میں پروفیسر بیرم غوری نے گل خان نصیر پہ اپنا مضمون سنایا۔
”مئی میں سنگت نے بلوچی اکیڈمی کے ہال میں مرکزی تقریبات کا انعقاد کیا۔ جس میں مئی کے مہینے میںگل خان نصیر کے علاوہ اُس کے ہم فکروںکے یوم پیدائش اور وفات کے حوالے سے انھیں یاد کیا گیا۔ جن میں کارل مارکس، میر گل خان نصیر، سوبھوگیان چندانی، اور عبداللہ جان جمالدینی کی سال گرہ سمیت میر یوسف عزیز مگسی کا یوم وفات بھی شامل تھا۔ اس تقریب میں جاوید اختر اور وحید زہیر نے ان پہ مقالے پیش کےے۔اس جلسے میں ایک تھیٹر اور مشاعرہ شامل تھے۔
”22 جون کوپروفیسر رحیم بخش مہرنے میر گل خان کی شاعری کے فنی پہلوﺅں کا جائزہ لیا۔
”اگلی نشست 20جولائی کو ہوئی، جس میں شاہ محمد مری نے گل خان کی اسیری پہ مضمون پڑھا۔
”10اگست کو سنگت اکیڈمی کی خاران میں ہونے والی نشست میں شکور زاہد اور توقیر زرمبش نے گل خان نصیر کی اردو و فارسی شاعری پہ بات کی۔
”7ستمبر کو خاران میں ہونے والی نشست میں ایک بار پھر گل خان نصیر کی زندگی پہ گوہر ملک کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔
”کوئٹہ میں اگلی نشست 16نومبر کو ہوئی، جہاںافضل مراد، اورپروفیسر ڈاکٹر خالد محمود خٹک کے مقالوں کے علاوہ عابد میر نے گل خان نصیر کی اردو شاعری کا فنی جائزہ پیش کیا۔
”واضح رہے کہ اس دوران سنگت اکیڈمی کی اندرونِ بلوچستان واقع دیگر شاخوں، ڈیرہ مرادجمالی، بھاگ ناڑی اور اوستہ محمد میں ہونے والی نشستوں میں بھی گل خان نصیر پہ بات چیت کا سلسلہ جاری رہا۔
”اِن تقریبات میں بے شمار نئے لکھنے، بولنے والے، آرٹسٹ اور گلوکار سامنے آئے۔اور گل خان اُن کے عہد کا ساتھی اور ہمسفر بنا۔ اسی طرح ان جلسوں میں ہم نے خصوصی طور پر بزرگوں کو بلایا ۔ اُن کی پذیرائی کی ، انہیں سنا اور گل خان سے اُن کی ملاقاتوں کی روئیدادیں سنیں۔ ماہتاک سنگت اس سارے سال اپنی تنظیم کا ترجمان اور ساتھی رہا۔
”ہم گل خان کے ہم فکر ادیبوں دانشوروں شاعروں اور فن کاروں کو متحرک کرنے اور سماج میں اپنے راہنما یا نہ رول کو سمجھنے قبول کرنے کے پورے پراسیس میں جُتے رہے۔اس پر سنگت اکیڈمی کے دوست کو مبارکباد پیش کیے جانے کے قابل ہیں۔ یہ صد سالہ تقریبات اس بڑے شاعر و دانشور کی تفہیم میں بہت کارگر ثابت ہوئیں۔ سنگت اکیڈمی کے دوست اس کام کو جاری رکھیں گے ۔ اور گل خان کی تعلیمات کو سمجھنے، فروغ دینے اور مقبول بنانے کا اپنا مشن برقرار رکھیں گے“۔
جئیند خان کہہ رہا تھا کہ آج ہم اور آپ اس سلسلے کی اختتامی نشست میں شریک ہیں۔ لیکن یہ کسی طرح بھی اس سفر کا اختتام نہیں ہے،سفر جاری رہتا ہے۔
جئیند خان کی باتوں کے بعد فنکشن نے واپس اپنی بے ساختگی اپنالی۔ اس تقریب میں کوئی ایک سٹیج سیکریٹری نہ تھا۔ ہر بولنے والا بول کرخود ہی اگلے شخص کو بلاتا۔
بولنے والوں میں آج مقالہ نگار ایک بھی نہ تھا ۔ یا تو شاعری کے لےے کسی کو بلایا جاتا ، یا ترانہ سنانے ، تھیٹر پیش کرنے ، یا مذاکرے جیسے سیشن میں حصہ لینے کے لےے بلایا جاتا ۔ سٹیج سیکریٹریوں میں جئیند جمالدینی، سعید کوڑد، نبی بزدار، سرور آغا اور عابد میر شامل تھے۔
دوسرا فرق یہ تھاکہ پورے فنکشن کی طرح اس کی کاروائی بھی ،ایک زبان میں نہیں چلائی گئی۔ اس فنکشن کو بلوچوں کی ساری قومی مادری زبانوں یعنی بلوچی ، براہوئی ، پشتو، اردو، اور سرائیکی میں چلا یا گیا۔
سنگت اکیڈمی کی تقاریب میں تھیٹر پہلے بھی ہوتا تھا، اس بار بھی تھا ۔ اور اِس بار اِس کا تھیم میر گل خان کے اُس شئیر پہ تھا جب وہ جیل میں ایک خواب دیکھتا ہے۔بلوچی کے اٹھارویں صدی کا قادرالکلام شاعر جام دُرک اس کے خواب میں آتا ہے ۔ گل خان اُسے اس کی وفات کے بعد کے دو ڈھائی سو برسوں کے دوران عالمی اور مقامی واقعات کو بلوچی حال حوال کے طرز پر جام کو آگاہ کرتا ہے ۔ جہاں انگریز سامراج کے خلاف بلوچوں کی جنگِ آزادی، کارل مارکس کی تعلیمات پر مبنی روس میں سوشلسٹ انقلاب ، اُس انقلاب کے بلوچستان پہ اثرات، اور بلوچوں کی ایک روشن فکر سماج کے لےے جدوجہد کی تفصیلات شامل تھیں۔ آدھے گھنٹے کے اِس تھیٹر کوعبداللہ نور کے گروپ نے پیش کیا۔
اس بار سنگت اکیڈمی نے اپنے ہر دلعزیز ساتھی عزیز مینگل مرحوم کی پینٹنگز کی نمائش کی۔ ہمارے نئے ساتھی جمیل مینگل نے اس کی دس پینٹنگز کا تعارف، پس منظر اور عنوانات سے سامعین و ناظرین کو آگاہی بخشی۔ لوگوں نے ایک سائنسز اکیڈمی کے بطور سنگت اکیڈمی کے اِس رخ کو پسندکیا۔
گل خان نصیر کا ایک مشہور شیئر” گلیں ڈیو اشمالانی“ کے نام سے ہے۔ فیض احمد فیض نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا تھا: ” اے سرخ دےے تیری تب و تاب سلامت“۔ ہماری فکری ساتھی اور باصلاحیت گلوکار محترمہ نوشین کمبرانڑیں نے ترنم کے ساتھ یہ ترانہ سنایا۔ ہال پر ایک سحر سی طاری ہوگئی۔ نوشین بہت عرصہ بعد ایک بار پھر سنگت اکیڈمی کی تقریب میں نظر آئی۔ سب کو اُس کی آمد اچھی لگی۔ اُس کے آنے سے سب کو اپنا بزرگ ساتھی نادر کمبرانڑیں یاد آیا ۔ ہم نے نوشین کی جوڑی دار اور ساتھی افشیں کمبرانڑیں اور اُس کے بچوں کے لےے نیک خواہشات رکھیں۔افشیں ہی نے تو اِس ترانے کی دھن بنائی تھی۔ نوشین کی خوبصورت آواز ، درست تلفظ اور فنکارانہ ادائیگی گل خان اور فیض کے فکر کو تقویت عطا کرتی ہے۔
قاضی عبدالحمید شیرزاد، ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں، محسن شکیل، اوربیرم غوری نے میر گل خان کے حوالے سے اپنی شاعری کی ۔سعید کوڑد نے گل خان نصیر کی ایک بلوچی نظم کا براہوئی ترجمہ پیش کیا۔…….. اور ہماری نسل نے پیر سال قاضی صاحب سے مترنم شاعری بھی پہلی دفعہ سنی اور مزاحیہ شاعری بھی ۔ بلوچی میں اِس طرز اور اس موضوع دونوں میں شاعری کی سخت ضرورت ہے۔
ہمارا نوجوان دوست ڈاکٹر شاکو تقریب کا ویڈیو بناتا رہا ۔ سعید و عابد میر ،آڈیو سسٹم کا خیال رکھتے رہے۔
کسی جلسے کے سامنے ایک مذاکرہ کرانا بالکل نئی بات تھی ۔ دراصل سنگت اکیڈمی کے سال بھر کی تقریبات میں میر گل خان نصیر کی شخصیت اور فکر و فن پہ خوب عالمانہ باتیں ہوتی رہیں۔ ہمیں دو کمیاں نظر آئیں: ایک تو اُس کے فکر و فلسفہ میں آدھی آبادی یعنی عورت کو کیا حیثیت حاصل تھی۔ اور دوسرا نوجوانوں کو بغیر مقالوں کے ایسی شخصیات سے ملواناجنہوں نے خود گل خان کو نصیر کو دیکھا، سنا ہو، اُس سے رابطہ تعلق رکھا ہو۔ چنانچہ دوستوں نے اس سب کے لےے سب سے موزوں شخصیت محترمہ گل بانو کو پایا۔ وہ گل خان کی پیروکار ہونے کے علاوہ اس کی بیٹی ہے ، دکھ سکھ کی شریک اور سیاسی اتار چڑھاﺅ کی چشم دید گواہ اور خاندان ،خواتین اور ذاتی زندگی کے ساتھ گل خان کے رویوں سے آگاہ ۔
مگر پتہ چلا کہ گل بانو تو بیمار ہے ۔ بستر سے اٹھ نہیں سکتی۔ کمر میں شدید درد ہے لہٰذا اُس کی آمد نا ممکن تھی۔ ہمیں منیر احمد بادینی نظر آیا جو میر گل خان کی بہن کا بیٹا ہے۔ لہٰذا گل خان کو قریب سے جانتا ہے ۔ ہم نے سفید ریش میر علی اکبر مینگل کو تکلیف دی جو گل خان کا بھتیجا ہے، اور خاندان پہ قیامتیں گزرنے کا گواہ و شکار ۔ ہمیں نوشکی کابزرگ قاضی عبدالحمید شیرزاد سُوجھا جس کی یادداشت پہ ابھی تک بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ اور پھر ،ہم نے ڈاکٹر سلیم کوڑد کو تلاش کیا جو میر گل خان کی جیلوں کا ساتھی تھا۔ بغیر کسی تمھیدی اعزازات وعنوانات کے سٹیج پہ چار کرسیاں رکھ دی گئیں۔ ایک مائیک مہیا کیا گیا اور ایک گھنٹہ کا وقت اُن کے حوالے کیا گیا۔ سوائے میر علی اکبر مینگل کے باقی تینوں دوست بڑے وضاحت گر ہیں ۔ لمبی بات کرنے والے، یہاں سے وہاں بہک جانے والے۔ لہٰذا علم و تجربے سے مالا مال اِن دوستوں کو پندرہ دن قبل انتہائی بے تکلفی سے بتایا گیا تھا کہ نہ فلسفہ چا ہےے ،نہ سیاست و تاریخ ۔سیدھا سیدھا میر گل خان سے متعلق اپنی ملاقاتوں، واقعات اوریادداشتیں بیان کرتے جائیں۔ مقصد صرف یہ ہو کہ نئی نسل جس نے میر گل خان کو دیکھا نہیں وہ اُ س سے زیادہ سے زیادہ واقف ہو۔
مائیک قاضی عبدالحمید شیرزاد نے تھامی اور ایک شریف اورڈ سپلنڈ انسان کی طرح اپنے دس منٹ اپنے موضوع کے ساتھ چمٹ کر گزارے۔ قاضی نے نہ صرف میر گل خان کا شجرہِ نسب بیان کیا بلکہ اُس کے فکری ارتقا کے اسباب و علل بھی بیان کردےے۔ قاضی عبدالحمید شیرزاد نے خوبصورت انداز میں گل خان کے حوالے سے بلوچستان کی انقلابی سیاست کی تاریخ بیان کردی۔
نوجوانوں سے بھرے ہال نے اُس کی زبانی بہت توجہ اور انہماک سے مافوق الفطرت گل خان کو دیکھا۔
منیر بادینی نے فلسفہ، ادب میں اِدھر اُدھر نکلنے کی بہت کوشش کی مگر دیواروںمیں پیوست موضوع کی کڑی نگرانی کرنے والی آنکھیں اُسے واپس اصل موضوع کی طرف لوٹ جانے پہ مجبور کرتی تھیں۔ موضوع پہ ہی رہنا بڑے عالم کی سب سے بڑی نشانی ہوتی ہے۔ منیر کے لےے یہ دس منٹ واقعی عذاب تھے۔ مگر نئی نسل کے لےے یہی دس منٹ تو سو مقالوں پہ بھاری تھے۔ ایک زندہ چلتے پھرتے انسان سے متعلق عام انسانی باتیں تھیں۔ گل خان آج گوشت پوست کے عام انسان کی طرح سامنے آچکا تھا جس کے ارمان تھے، جس کے جشن و ماتم تھے، جس کے لےے فتح و شکست معنے رکھتے تھے ۔ ہمیں آج شاعر، سیاستدان اور مورخ گل خان، ایک عام نوشکوی بلوچ کے بطور نظر آرہا تھا۔
میر علی اکبر مینگل بالکل بھی گل خان کا بھتیجا نہیں لگتا تھا ۔ دیہات کا ایک عام بوڑھا بلوچ آج علم و شعور کے طلبگاروں میں گھر چکا تھا۔ تقریبات میں بہت کم نظر آنے والا ہمار ایہ دوست ہماری درخواست پہ کوئٹہ آیا تھا۔ ہم سب منتظر تھے کہ وہ کیا کہے گا۔ اچھی بات یہ تھی کہ زبان پہ کوئی پابندی نہ تھی۔ اور یوں یہ سارے دوست بلوچی میں ہی بولتے رہے ۔ مادری زبان میں یہ خاصیت ہے کہ آپ اپنے خیالات و یادداشت پہ زیادہ توجہ دے پاتے ہیں بہ نسبت ایک پرائی زبان کی ساخت و سا لمیت پہ توجہ دےے رکھنے کے۔ علی اکبر مینگل نے گل خان کے شکار کی دلدادگی کے واقعات سنائے۔ اُس کی اسپ سواری کا شوق بتایا، اور گاﺅں والوں سے گل خان کے رشتوں کی مضبوطی کے قصے کےے۔ اپنے میٹھے رخشانی لہجے میں، اپنے نیم دیہاتی سٹائل میں اور اپنی بلوچ بے ساختگی بے تکلفی میں۔ مزہ آگیا۔
سلیم کوڑد جیل کی کرختگی حیوانگی کی باتیں کرتا رہا اور ہم سب 2014 کے بجائے پچھلی صدی کے آخری نصف میں چلے گئے۔ ہمیں اپنے پاک اجداد کو لال بیگوں سے آلودہ غیر انسانی خوراک کھاتے سننا پڑا، ہم پنجروں کے ذریعے دور رکھے ملاقاتیوں کے ظہیرو اشتیاق کے منہ زور گھوڑوں کو قابو ہونے کی کوششیں کرتے بلوچوں کو دیکھ رہے تھے۔ ہم حاکموں کی کمینگیوں ، مکاریوں اور مظالم کی انتہاﺅں کی بد ذائقی چکھ رہے تھے…….. ہمیں اپنے آباﺅ اجداد بہت بلند اور اعلیٰ شان معلوم ہوئے۔
محفلیں توبرخواست ہونے کے لےے بپاہوتی ہیں۔ اور یہ محفل جو پورے سال کی محافل کے تسلسل کی آخری مگر سرتاج محفل تھی،بھی برخاست ہوئی ۔ گرم چائے اور بسکٹوں کے ساتھ۔
گل خان پورے سال اچھوں کو اکٹھا کےے رہا۔ گل خان نے جنگیاتی سماج کو مسلسل مکالمے میں ڈالے رکھا۔ اپنی زندگی میں بھی اور اپنی سوویں سالگرہ کے سال بھی۔یہ سال اپنی حالیہ تاریخ کو ایک بار پھر تحقیقی نظر سے دیکھنے کا سال رہا۔ ہم نے عام انسانوں کو ستارے چھوتے دیکھا۔ ہم نے لائقِ پرستش لوگوں کو عام آدمی بنتے دیکھا۔ ہمیں آزادی ِ فکر و فلسفہ ، آزادیِ تحریر و تقریر ، آزادیِ پالیسی سازی اور آزادیِ انتخابِ نظام و مقام کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوا۔ ہمیں بلوچ اور انسان بننے کے لےے درکار قیمت و ریاضت کا تخمینہ ہوا ۔ ہم نے آہوں، سسکیوں، کراہوں جیلوں ریلوں، پھانسی گھاٹوں میں جمہوریت اور سوشلزم کو ڈھلتے اور پروان چڑھتے دیکھا۔ ہم نے انسانی سربلندی و فیض کے لےے عذابیں جھیلتے بے شمار ایسے ساتھی راہی دیکھے جن کے نام بڑی ہستیوں کے پیچھے گم گشتہ رہے۔ ہمیں قافلہ دکھائی دیا جو بہت ہی نمایاں اور ممتاز انداز میں کٹھن راہوں پہ مدہم مگر روشن منزل کی طرف رواں ہے…….. ہم نے اس کارواں میں خود کو موجود و ہم سفر دیکھا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے