جلد نمبر6 کا پیش لفظ

”عشاق کے قافلے “کا موجودہ جلد (نمبر6)کارل مارکس،فریڈرک اینگلز، جینی ویسٹ فالن اور اُن کے عہد کے دوسرے دمکتے ستاروں کے لےے وقف ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مارکس بہت جی نیئس تخلیق کار،بڑا فلاسفر، منہمک محقق ،اور بے انتہا قربانی دینے والا انسان تھا ۔ایسا بے مثال فلاسفر کہ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جہاں کارل مارکس کا فکری سایہ ایک یا ایک سے زائد پارٹیوں کے اجلاسوں کی صدارت نہ کر تا ہو۔بیسویں اور اکیسویں صدیوںمیں سماجی سائنسز کے پورے سلسلے پر مارکس سب سے زیادہ اثر رکھنے والی شخصیت ہے۔
مارکس کا تو بس ایک فقرہ گرہ میں باندھ لیجیے ساری زندگی راہ نہ بھٹکیں گے:” ایک کاٹن فیکٹری میں ایک مزدور محض سوتی کپڑے پیدا کرتا ہے؟ ۔نہیں۔ وہ سرمایہ پیدا کرتا ہے۔“
مارکس وہ پہلا شخص تھا جس نے دنیا کوٹھوس سائنسی عینک سے دیکھا ، زمان و مکان کے ارتقا کے تضادات اور پیچیدگیوں کے تناظر میں دیکھا۔ اس کے نزدیک انسانی معاشرہ، فطرت کے ارتقاکی اعلیٰ ترین شکل ہے ۔ انسان کو تاریخ کے قوانین کے سماجی ارتقا پر اطلاق نے پروان چڑھایا ہے۔ لیکن اُس کا زور اس بات پر ہے کہ ” عوام ہی اپنے حالات کو تبدیل کرتے ہیں“۔
عوام الناس اوراُن کے اردگرد کی کائناتی زندگی سے باہر مارکس کا کوئی محور اورمرکزموجود ہی نہ تھا۔انسانی معاشرہ کی تاریخ کو عوام نے تسلسل سے آگے کی جانب دھکیلے رکھا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی بڑا واقعہ یا انقلابی تبدیلی عوام الناس کی متحرک و فعال شرکت کے بغیر ممکن نہیںہے۔
مگر،اسی بات کو سمجھنے میں ہمیں ہزاروں برس لگ گئے۔ عوام الناس کو ہمیشہ بادشاہوں، ہیروﺅں ، دیوﺅں، دیوہیکلوں ، پہلوانوں،اورکرامتیوں کے پیادوں کا درجہ دیا گیا ۔ خود فلاسفر بھی ‘ اپنے طبقاتی نقطہِ نظر اور تاریخی حالات کے سبب عوام کے رول کو نہ سمجھ سکے۔ وہ بھی سارے عوام الناس کو چند قابل افراد کا طفیلی قرار دیتے رہے۔ مگر،مارکس نے معروضی تاریخی ارتقا کے پورے پراسیس کا پیچھا کرتے ہوئے دریافت کیا کہ عوام الناس کا رول ہر جگہ اہم اور بنیادی رہا ہے۔
سیاست، معیشت، فلسفہ، سماجیات،محنت، تاریخ، طبقاتی جدوجہد، اور نظریہ اس کی دلچسپی کے میدان تھے۔ اسی نے قدرِ زائد ، مزدوروں کے استحصال ، اور اُس کے نتیجے میں ابھرتی بیگانگی کھوج نکالے ۔ اسی طرح وہ تاریخ کے مادی تصور جیسے شاہکار سائنسی انکشافات کا قلمکار تھا۔آپ حیران ہوں گے کہ مارکس کی قلمی اور عملی جدوجہد سے قبل دنیا میں سوشل سیکورٹی ، پنشن،اور بامعاوضہ چھٹُیاں جیسے الفاظ موجود ہی نہ تھے۔
مارکس زندگی بھر ڈوگما مخالف رہا،زندگی بھر” اندھیرکی جڑیں“ کاٹتا رہا ،اور زندگی بھر اجالے کی راہیں صاف کرتا رہا۔
مارکس کا نظر یہ عمل سے سینچا گیا ۔وہ عمل میں اس نظرےے کو‘ ( اور خود کو بھی)پیستا رہا، گھولتا رہا، کُوٹتا رہا ۔فطرت کی سچائیوں کو دریافت کرنا کٹھنائیوں کے سمندر میں سے ہوکر گزرنا ہے۔
انسان اُس کی شخصی زندگی، گھریلو زندگی،صحافتی زندگی اورتصنیفی زندگی کو ہم آہنگ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔
آئیے ذرا اُس کی تصانیف کی فہرست دیکھتے ہیں :
-1ڈیموکرائی ٹس اور ایپی کیورس کے قدرتی فلسفہ کے بیچ فرق(1841)
-2یہودی مسئلے پر (1843)
-3پیرس مسودے (1844)
-4 Holy family (1845)
-5جرمن آئیڈیا لوجی (1845/46)
-6فلسفے کا افلاس (1847)
-7 کمیونسٹ مینی فیسٹو(1848 )
-8 فرانس میں طبقاتی جدوجہد (1850)
-9ہژدمی برومیئر آف لوئی بونا پارٹ (1852)
-10 کولون میں کمیونسٹ ٹرائل پہ انکشافات(1853)
-11پولیٹیکل اکانومی کی تنقید پرایک مراسلہ ۔(1859)
-13 اجرتیں ، قیمت، منافع(1865)
-12۔Grundrisse(1857)
-14 فرانس میں خانہ جنگی (1871)
-15 (داس کپٹالi۔1867،داس کپٹال ۔ii۔1885،داس کپٹال ۔اور، iii۔1894)۔
کہتے ہیں کہ مارکس نے ایک ناول بھی لکھا تھا۔
اور یہ ساری تصانیف کا غذ کو عام انداز میں سیاہ کرنا نہ تھا۔ اِن تصانیف میں آپ کو جمالیات،ادب، لطائف ، اورتحقیق کی شاندار ٹکڑیاں پیوست ملیں گی۔
اس خاندان کی تقدیر میں دنیاوی شہرت تواُن سب کی موت کے بعد ہی آئی۔ زندگی میں تو انھوں نے اُتار ہی اُتار دیکھا،غم کے سمندر کی سی تلخ نمکینی ہی پھانکی ۔ اِن کی تکالیف پڑھ اورسن کر دل پرغم کے سیاہ بادل کی تہیںچھا جاتی ہیں ۔ میں نے اُن کے حالات بیان کرتے کرتے بہت بار صفحوں کے صفحے کاٹ دےے کہ میں رُلا نے والا ذاکر نہیں بننا چاہتا۔ مگر ایسا کرتے وقت کسی کی سوانح سے خیانت نہیں کی جاسکتی ۔ایک بات یقینی ہے ،وہ یہ کہ آپ مارکس، جینی اور اس کے بچوں کی بائیوگرافی پڑھتے وقت ہمت وامید سے سر شارہوتے ہیں ۔
جینی کی تین بیٹیوں نے سوشلسٹوں سے شادی کی۔ اُس کے سارے داماد بذاتِ خود بہت نامور لوگ بنے۔
کمیونزم کو اپنے روز اول سے لے کر آج تک ، اور جرمنی سے لے کر جھل مگسی تک بہت بدنام کیا جاتا رہا ہے ۔کوئی گاﺅں دنیا میں نہ ہوگا جہاں کمیونزم کو ” گالیاں“ نہ پڑی ہوں، مگر کوئی گاﺅں ایسا بھی نہیں ہے جہاں طبقاتی نظام سے تنگ لوگ مارکسزم سے راہنمائی نہ لیتے ہوں۔سرمایہ داروں کے دانشوروں کے بس میں ہو تا تو وہ اپنے روتے بچوں کو مارکس سے ڈرا کرچپ کراتے ۔ یہ بھی حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے ہر گاﺅں، قصبہ،شہر، فیکٹری، سکول، کالج یونیورسٹی، بحری جہاز، ادب ، آرٹ، تاریخ ، مدرسہ، ٹریڈ یونین ، تحریک ، تقریب، تحریر، تقریر، طب، صنعت، زراعت، صحافت اور ہر بولک وہلک میں ایک کڑی ایسی ضرور ملے گی جہاں کوئی شخص مارکس کو معتبر گردانتا ہوگا۔ مارکس کا کوئی نہ کوئی پیروکار ہر تغار، تل ، شم ، رہنغ، سابند، پیتاف، گَل،لشکر، اورسٹڈی سرکل میں ضرور موجودہوگا۔
میں کارل مارکس کی شخصی زندگی کے بارے میں جاننے سے بہت قبل اُس کی تعلیمات سے روشنا س ہواتھا۔میں ہفت روزہ عوامی جمہوریت ، کرشن چند ر، خلیل جبران، سید فرید آبادی ، سی آر اسلم ،ساحرلد ھیا نوی، سبط حسن، اور علی عباس جلا لپوری سے ہوتا ہوا مارکس تک پہنچا،طالب علمی کے زمانے میں۔ اور میں نے مارکس کا فوٹوبہت بعد میں دیکھا۔ اور جب پہلی باردیکھا تویہ ایک بھرپور مردانہ وجاہت کی تصویرتھا ۔ چمکتی خوبصورت آنکھوں کے اوپر کشادہ پیشانی ہے اورسر کے خوبصورت بال ہیں اور آنکھوں کے نیچے بھرے چہرے پہ گھنی داڑھی ہے۔ اسی کالے،گھنے بالوں اور داڑھی کی وجہ سے خاندان اور دوستوں میں وہ ” مُور“(Mohr)کے نام سے پکارا جاتا تھا جس کا ترجمہ شیر جنگ نے اردو میں”دڑھےل“ کیا تھا۔یہ لفظ کیوبا میں انقلاب لانے والے گوریلوں کے لےے تو صحیح لگے مگرمارکس کے بارے میں شاید درست نہیں ہے۔ (بلوچی میں کیا کہیے گا؟ ۔ہماری زبان میں لفظ کی ادائیگی کا طرزہی اُس کے معانی بدل دیتا ہے۔ مارکس کی تکریم اور عزت برقرار رکھتے ہوئے ہم ” بُوژو“ لفظ کی ادائیگی ملائمت سے کریں تواس کا مطلب ”تو صیفی انداز میںگھنے بالوں والا“ بنتا ہے)۔
مارکس کوئی مافوق الفطرت شخص نہ تھا ، یہیں ہمارے کرہ ارض میں گوشت پو ست کا باسی تھا۔ وہ اور انیسویں صدی کے عظیم سماجی نظریہ دانوںکی اکثریت( یعنی ہر برٹ سپنسر، آگسٹے کومٹے، جون سٹیورٹ مِل ، اور فریڈرک اینگلز) اپنے عہد سے ایک صدی قبل ،اٹھارویں صدی والی روشن خیالی کے وارث تھے۔اور یہ سلسلہ مزید ماضی میں جائے گا جہاں یوٹو پیائیوں کے نام سے منسوب عظیم ذہنوں نے معاشی سیاسی اور سماجی تبدیلی کو ضروری جانا اور اُن کے لےے ذہنی اور جسمانی اذیتوں کے دریا پار کےے۔خود بورژوا دانشوروں اور مورخوں نے مارکس کی ذہنی اور فکر ی نشوونما میں بہت ساری بنیادیں فراہم کیں ۔ ہیگل، فیورباخ، سپینوزا، پرودھون، سٹرنر ، سمتھ، والٹیر ، ریکارڈو، وےچو ، روسو ، شیکسپیئر، گوئٹے، ہیل وی ٹی یس ، ڈارون، فیوریئر ، رابرٹ اوون، بالسیسکو، ہیس ، ہُوپے، ایپی کیورس ، گوئیزوٹ اور ارسطو نے مارکس پہ خوب خوب اثرات ڈالے۔
اگربہت لوگوں نے مارکس کو متا ثر کیاتھا،تو مارکس نے بھی جواباً بہت سوں کو متاثر کیاتھا ۔اور اس نے سماج کو جو کچھ لوٹا دیا وہ بہت معتبر ، بہت موثرہے ۔ لاطینی امریکہ اور دوسرے مسیحی علاقوں میں تو لبریشن تھیالوجی نامی الگ مسیحیت نے پوپ کا چوغہ ہلا ڈالا۔مارکس نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو متاثرکرنے والے دوسرے بڑے انسانوں کو متاثرکیا: گورکی ، کارڈینا س، دت ، ڈی گال، کیٹ کالوٹز،میر ہولڈ، کاموس ،ا ٓرویل ، گگارین ، پاسٹرنیک ، لوممبا، چپلن، ہیمنگوے ، کاڈویل ،ڈارون، برٹر ینڈ رسل ، تھا مس مان ، مایا کو فسکی ، کا سٹرو ، بر یخت ، دیمتروف،زولا، رولاں ، پاولوف، ٹالسٹائی، گارشیالورکا، پشکن ، نہرو، گرامچی،نرودا، ہوچی منہ ، لینن،سٹالن،ناصر، لوکاس، پکاسو، رِیڈ، ٹیٹو، فرائڈ، کافکا،شولوخوف،سارتر ،ہکسلے، ٹراٹسکی ، کالکنر ،ا ورٹیگا، فیوچک،روزالگزمبرگ، یو سف مگسی ،غوث بخش بز نجو، گل خان نصیر، خیر بخش مری، رسول بخش پلیجو ، نورمحمدترہ کی ۔ہم اور آپ بھی تو اس قافلے میں شامل ہیں۔
برصغیر میں شاہ ولی اللہ اور عبید اللہ سندھی مکتبہ فکر مارکس کی تعلیمات سے بہت متاثر رہا ۔ مصری خان کھتیر ان سے لے کررحم علی مری تک ہم اس متشکل نظریہ ہی کے گرد شعوری سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔شاہی قلعے ، قلی کیمپ، ساہیوال اور مچ وحیدرآبادکی جیلیں ، پھانسی گھاٹ اور غیر فطری سیاسی اموات میں اس نظریے کا حصہ ہے۔ بلوچوں پر تو اِس فلسفہ کا جادو ہوگیا ۔بلوچستان میں انگریز کے خلاف مزاحمت کی ساری تحریک مارکس کے نظریہ کی سرخ مخملی چادر میں لپٹی رہی۔
مارکس کی تصانیف نے صرف شخصیا ت کو نہیں بدلا بلکہ اُس نے تودنیا کو، دنیا کے جغر افیہ کو بدل کر رکھ دیا۔روس کا 1917کا انقلاب مارکس ہی کے نظر یات کا نتیجہ تھا ، چینی انقلاب مارکس ہی کے نظر یات نے برپا کردیا۔کیوبا،چلی ، میکسیکو،ویتنام ، بلوچستان ، کوریا ، قبرص، ہنگری ، چیکوسلواکیا،انڈونیشیا ، یولینڈ،بولیویا، ونینر ویلا ، گوئٹے مالا، کانگو، البانیہ،یونان ، انگولا، جرمنی ، افغانستان۔دنیاکا نقشہ ہی بدل ڈالا مارکسزم نے !!۔پھر، گذشتہ سواصدی میں توہر سماجی سیاسی تحریک مارکس سے متاثر رہی ہے ۔
مارکس اور مارکسزم کی ایک خاصیت یہ رہی ہے کہ ہر عہد اور ہر ملک میں اس کے دوست بھی رہے ہےں اور دشمن بھی۔ دوست جاں نثار، اور دشمن جان لیوا ۔ ہر دور میںمارکس کو دشمنوں نے تباہی کے نشان کے بطور دیکھا اور دوستوں نے انسان کی نجات کا ہتھیار بنا لیا۔
وہ خود اپنے بارے میں ہمیشہ سچ ہی بولتا رہا :” جہاں تک میرا تعلق ہے نہ تو جدید سماج میں طبقات کی موجودگی کی دریافت میرا اعزاز ہے نہ اُن طبقات کے درمیان جدوجہدمیں نے دریافت کی ہے۔ مجھ سے بہت پہلے بورژوا مور خین اِس تاریخی ارتقا کو بیان کرچکے تھے اور بورژوا معیشت دان طبقات کی معاشی اناٹومی کوبیان کرچکے تھے“۔ جو نیا کام میں نے کیا وہ مندرجہ ذیل باتوںکی وضاحت تھی:
1۔ یہ کہ ” طبقات کا وجود پیداوار کی ترقی میں خصوصی تاریخی مرحلوں“ سے محض جڑا ہواہے۔
2۔ یہ کہ طبقاتی جدوجہد لازمی طور پر ” پرولتاریہ کی آمریت کی طرف “لے جائے گی۔
3۔ یہ کہ خود یہ ڈکٹیٹر شپ صرف” سارے طبقات کے خاتمے اور ایک غیر طبقاتی سماج“ کی طرف ڈھل جانے کا عبوری دور ہے“(1)۔
شکر ہے کہ سائنس کی دوسری شاخوں کی طرح کمیونزم میںبھی ” بابائے اردو“ ، ” بابائے قوم“ ، ” بابائے ملت “، ©© قائد عوام “ ، ”بابوئے ازبکستان “ ، ”شیرپنجاب“ اور ” بنگلہ بندہو“جیسی بدعتیں موجود نہیں ہیں۔ ورنہ اچھے بھلے مارکس کے گلے میں ایک بے حرمت تمغے کا بے کار بوجھ پڑ جاتا ۔ نہ لینن نے یہ بدعت کی، نہ ہوچی مِن نے اور نہ کاسٹرو نے ۔
میں نے پچھلی صدی کی سترکی دہائی میں مارکس کی سوانح پرشیر جنگ کی لکھی کتاب پڑھی تھی۔ دوسری جگہوں پراُس کے تذکرے پڑھے۔ پھر کارل مارکس کی اپنی تصانیف پڑھیں۔والکوف کی کتاب ”برتھ آف اے جی نیئس“ کا اردو ترجمہ کیا۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو کا بلوچی ترجمہ کیا،”ہژدمی برومیئر “ کے نام سے مارکس کی ایک مشہور کتاب کا بلوچی ترجمہ کیا۔ کپٹل کا ایک چیپٹر بلوچی بناتا رہا۔پھر مارکس کی بایوگرافی اور تعلیمات پر مفصل انداز میں لکھی گئی فرانز مہرنگ کی کتاب کااردو میں ترجمہ کیا۔ یوں چالیس برس تک مارکس کے ساتھ تقریباً روزانہ ملاقات رہی……..۔اور میں نے جانا کہ وہ بہت ہی برباد کر ڈالنے والی قربانیاں دے کر ہی کارل مارکس بنا تھا۔مگر اچھا یہ ہے کہ وہ تخلیقی محنت کی ہر ہر گھڑی اپنے کام کی سماجی اہمیت تولتا رہا تھا ۔…….. تاریخ میں بلند و سر بلند مقام ویسے ہی نہیں ملاکرتا۔
مارکس ایک عام انسان تھا …….. ایک خاوند، ایک باپ۔ایک غریب ترین خاندان کا غریب ترین سربراہ جسے انہیں ضروریات مہیا نہ کرسکنے کا غم زندگی بھر ستا تا رہا۔ اس کے ساتھ بڑا المیہ یہ ہوا کہ ا س کے دشمنوں ( اور دوستوں نے بھی) اس کے انسانی پہلوﺅں کو کم ترکرکے دکھایا۔میں حیران ہوں کہ اس کی زندگی کو پڑھے سمجھے بغیر اُس کی تعلیمات کو کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟ ۔ اس کے خاندان کے افراد کو سیاسی انتقام گیری، سرکاری قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔وہ اُن پرکڑھتارہا۔ اپنے دوسرے بیٹے کی تدفین پر یہ شخص دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ اس نے اور اس کی بیوی جینی نے زندگی کا زیادہ حصہ ہمہ گیر دردناک غربت میں گزارا۔ اس کی کتاب ”سرمایہ “کی پہلی رائلٹی کا چیک ملاتو وہ بچوں کو ملا اس لیے کہ مارکس اور جینی کب کے فوت ہوچکے تھے۔یہ سب کچھ پڑھے بغیر آپ مارکسزم پڑھیں گے تو پڑھ تولیں گے مگر ایسے جیسے سجی بے نمک کے کھارہے ہوں۔
شعور و دانش کے سفر میں البتہ ایک بڑی زیادتی یہ ہوتی رہی ہے کہ ہم بڑے انسانوں کی اوٹ میں موجود اُن کی محنتی ، کمٹڈ اور باوفا بیوی کا تذکرہ ثانوی انداز میں کرتے رہے ہیں۔مثلاً ہم نے ٹالسٹائی کو بہت پذیرائی دے رکھی ہے۔ پوری دنیا میں وہ جانا اور پڑھا جاتا ہے ۔ مگر بہت ہی کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اُس کی بیوی سوفیہ نے اپنے محبوب خاوند ٹالسٹائی کے لکھے ہوئے ضخیم ناول ” واراینڈ پیس“ کو سات بار کاپی کیا ( لکھا)، جی ہاں ہاتھ سے کہ اُس زمانے میں کمپیوٹر نہیں ہوا کرتے تھے۔
کوئی شخص جب کوئی بڑا تخلیقی کارنامہ کرتا ہے تو دراصل اُس کے ساتھ اس کی بیوی کی گمنام شب بیداریاں شامل ہوتی ہیں۔ سوفیہ ٹالسٹائی نے ، انا دو ستو ئفسکی نے، اور ویرا نا بوکوف نے زندگی کے مشکل ترین وقتوں میں اپنے ساتھی اور خاوندوںکی زبردست مدد کی ۔ نہ صرف اُن کی گندی عادتیں چھڑوائیں ، نہ صرف انہیں لکھنے کا ماحول مہیا کیا بلکہ علمی اور اکیڈمک بحث و مباحثے کرکرکے ، کاپیاں نقل کرکرکے، آس پاس کی معلومات اکٹھی کرنے کے لےے خطوط لکھ لکھ کر ، پبلشرز تلاش کرکرکے اور مارکٹنگ کی گنجائش ڈھونڈ ڈھونڈ کر انہیں اتنے بڑے مقام پر پہنچادیا ہوتا ہے۔یہ عورتیںخود کو گُھلا گُھلا کر خاوندوں سے لکھواتی رہیں۔ اُن کی دوست و ہم بحث کار و سیکرٹری بن کر۔ ہم لینن کی محبوبہ اور جدوجہد کی ساتھی کروپسکایا کا تذکرہ کیسے بھول پائیں گے جو سائبیریا جیسی یخ بستگی میںخود جلا وطن رہ کر دوسرے جلا وطن سیاسی کارکن یعنی لینن کے ساتھ رہی اور اسے لکھنے پڑھنے میں راحت و تعاون و ماحول عطا کرتی رہی۔اپنے بلوچستان کے اکابرین کا تذکرہ نہیں کریں گے جن کی محترم بیویاں اُن کی جلا وطنیوں، جیلوں، بندشوں اور بے انت معاشی معاشرتی مسائل کا بہادری سے مقابلہ کرتی رہیں۔
جینی کے سلسلے میں ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ اس نے محض غیر اکیڈمک بوجھ اٹھا کر مارکس کو لکھنے کی سہولت دی۔بلکہ ہم تو یہ کہہ رہے ہےں کہ وہ خود بہت سچی اور جینوئن دانشور اور مفکر تھی ۔ اس کا مطالعہ بہت شاندار تھا۔ وہ فکری ساتھیوں اور دانشوروں سے بے پناہ تبادلہِ خیال کرتی تھی۔ خطوط کی صورت میں شاہکار تحریریں اُس کی بے مثال ادبی فکری صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
چارلس مارکس( جرمن زبان میں مارکس کا نام چارلس ہے نہ کہ کارل) اتنا بڑا انقلابی اور فلاسفر تھا کہ دنیا کی آنکھیں جائز طور پر اُسی پہ ٹکی رہیں، اورجینی پر وہ توجہ نہ دی جاسکی جس کی کہ و ہ حقدار تھی ۔ جینی نے خود بھی مارکس جیسے بڑے اور سرسبز درخت کے پس منظر میں خود اپنا سر بلندکرنے دیا ہی نہیں۔وہ ہمیشہ مارکس کے بعد ہی اپنا مقام سمجھتی رہی ۔حالانکہ لاہور کے مشتاق احمد کے بقول :”اگر مارکس کی شادی جینی سے نہ ہوئی ہوتی تواُسے فلسفی تو پھر بھی ہونا ہی تھا مگر اس طرح کا نہیں ہونا تھا جس طرح کا کہ وہ دنیا کے سامنے آیا“۔
مارکس کو شاعر ،حسینہ جینی سے محبت کی طاقت ہی نے بناڈالا ۔یہ معتبر و معززخاتون محبت کے ہاتھوں دولت و خاندانی وجاہت کو لات مار کر مارکس کے ساتھ چلی آئی تھی۔ مکمل طورپر ڈی کلاس ہوئی اور پھر سوشلزم کے لےے وقف شدہ مارکس کو وہ سکون بخشا جس کی عدم موجودگی میں مارکس کا زندہ رہنا، تصنیفی کام کرنا، تنظیمی امور سرانجام دینا ،اور انسانیت پر احسانِ عظیم کرنا نا ممکن ہو جاتا ۔وہ پوری زندگی غربت و افلاس اور دردناک دکھوں میںجئی اور مری۔
چنانچہ جینی کو مارکس سے جدا نہیں کیا جاسکتا کہ سموکے تذکرے کے بغیر مست کاتصور تک نہیں ہو سکتا۔ جینی آپ کومارکس کی زندگی اور تصانیف کی تاریخ کے تذکرے کے ہر ہر صفحے میں موجود ملے گی۔ اُس کے تمام خطوط کا اردو ترجمہ میں نے اسی لےے کیا تاکہ اِن خطوط کو پڑھ کر آ پ اندازہ لگا سکیں کہ جینی جو کہ خود کومارکس کی سےکریٹری کہتی تھی ، اصل میں اُس کی ہم گام و ہمسفر و ہمراز تھی اور دانش میں مارکس کی برابرکی ساتھی۔مارکس کی بیماری یا حد سے زیادہ مصروفیت کے دنوں میں وہ دنیا بھر کے انقلابیوں کو خطوط لکھ لکھ کر مارکس کے پیغامات بھیجتی رہی۔ اور وہ کتنے فخر سے کہتی ” آج میرے خاوند نے مجھے اپنا ڈپٹی مقرر کیا ہے ……..یا ،”مجھے سیکرٹری کے سارے امور سنبھالنے ہوں گے“۔ اورآخری زمانے میں تووہ سارا کام خود ہی کرتی تھی اس لےے کہ مارکس بہت بیمار رہتا تھا ۔اُس کو جگرکی پرانی بیماری لاحق تھی، پشت پہ پھوڑے نکلتے رہتے اور کھانسی کے باربار کے دورے پڑتے رہتے۔
انکساری سے بھری حسینہ جینی ‘تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال تھی ۔ اس کی حسِ مزاح بہت اچھی تھی اور وہ بہت جاندار لکھاری تھی۔ اس نے آرٹ اور جمالیات پر بہت کچھ لکھا۔ ایسی خاتون جو بین الاقوامی طبقاتی قوتوں کے مابین تضاد کے ہرایک پہلو سے واقف رہی، روزمرہ سیاسی واقعات سے قریبی طور پر جڑی رہی۔اور قلم کاغذ لے کر دوسرے ملکوں میں موجود احباب تک یہ تفا صیل پہنچا نے کا کام کرتی رہی۔
مگر اس سب کے ساتھ ساتھ وہ ایک عام سادہ سی گھریلو عورت بھی تھی جو اپنے خاندان کے ساتھ سائے کی طرح وابستہ رہی۔ہر خاندانی مسرت اُسے مسرور کردیتی اورخاندان کا ہر غم اُسے ہلکان کردیتا ۔
جینی خاندانی معاملات سے متعلق اس قدر حساس اور باخبرانسان تھی کہ اپنی دوسری دوستوں اور جدوجہد کی ساتھیوںکو ایک عورت ہونے کا مطلب بتانے اور اُس کی ذمہ داریوں اور حساسیت کے بارے میںصفحوں کے صفحے لکھتی تھی۔ وہ بہت صابر انسان تھی،ایک بہادر عور ت۔
اس کے چھ بچے ہوئے جن میں صر ف تین بچیاں ہی بچپن کو زندہ پھلانگ پائیں۔ ایسے مصائب جنہوں نے خاندان کے اِن نوجوان افراد میں محبت و خلوص بڑھادیا تھا، مکمل انسان بنا دیا تھا۔ ان کے ذکر کے لےے انسانیت کا وہی پیمانہ چاہےے۔
اور ظاہر ہے کہ جب بھی آپ جینی نامی فلا سفر، دانشوراور سیاسی کارکن کے محبوب ، یعنی کارل مارکس کے بارے میں سر سے پیروں تک پڑھیںگے یا لکھیں گے تو آپ خود بخود اُس تیسری بڑی ہستی سے بھی دوستی بنالیں گے جس کا نام فریڈرک اینگلز ہے۔ اینگلز کے ساتھ میری دوستی بھی جینی اورمارکس ہی نے کروائی…….. مگر اب میں فرق نہیں کرسکتاکہ جینی میری اچھی دوست ہے،مارکس میرا گہرا دوست ہے ،یا اینگلزمیرا اچھا سنگت ہے !……..یہ تینوں ایک شخصیت کے مختلف پہلو لگتے ہیں جنہیں باہم الگ نہیں کیا جاسکتا ہے !۔جینی اور اینگلز میںایک بہت بڑ ی بڑا ئی یہ ہے کہ انہوں نے زندگی بھر مارکس کے لےے پہلی نشست خالی کیے رکھی ،اور خود ہمیشہ پچھلی نشستیںسنبھال لیں۔
مارکس اور اینگلزتو لگتاہے” جڑواں“ تھے۔ اُن کے درمیان مشترک باتیں بہت عجیب تھیں۔ وہ دونوں جرمن رائین لینڈی تھے۔ دونوں کی اچھی سکولنگ ہوئی۔ دونوں یورپی ادب بہت پڑھتے تھے ۔ دونوں نے جلد ہی اپنے سامنے موجود بورژوا زندگی پر تھوک دیا اور،ایک متبادل نظام متعارف کرایااور اس متبادل نظام یعنی کمیونسٹ کاز کے لےے خود کو وقف کردیا ۔
اُس زمانے میںایسے محققوں اور مصنفوں کے لےے برطانیہ ہی موزوں ترین ملک تھا۔ سہولیات کے لحاظ سے بھی اور سرکاری خوف سے پاکی کے لحاظ سے بھی۔دلچسپ بات دیکھےے کہ وہ تینوں کے تینوں، جلا وطنی کے اندر ‘ برطانیہ میں فوت ہوگئے۔ جینی سب سے پہلے رخصت ہوئی۔پھرسواسال بعد،مارکس انتقال کرگیا جبکہ اینگلز ایک درجن برس مزید جی کر فوت ہوگیا۔
جینی ،مارکس اور اینگلز کی باہم ، اور دوسرو ں کے ساتھ خطوط کا انتخاب ہزارصفحات بنتے ہیں۔ محبت، فلسفہ ، معاشی اور سماجی سیاسی موضوعات پر مشتمل ہیں۔یہ خطوط زندگی کے بیچ رہ کر معاملات سے نمٹتے ہیں۔ ایک خط بھی آپ کو ایسا نہیںملے گاجو علمی موضوعات سے ہٹ کر ہو۔ بہت کم خطوط آٹھ دس فقروں کے ہیں وگرنہ دس ، پندرہ ، بیس بیس چھپے ہوئے صفحات کے خطوط ہیں یہ۔ حیرا نی ہوتی ہے کہ اتنی کتابیں لکھنے کے بعد ، اور اتنے ملا قاتیوں ، مباحثوں، سمینا روں ، کا نفر نسوں اور تنظیمی کاموں کے بعد اتنے زیادہ ، اور اتنے مفصل خطوط لکھنے کا وقت کیسے ملتا ہوگا۔ کئی جگہوں پر تو لگتا ہے کہ یہ خطوط اُن کی کتابوں کی تلخیص ، وضاحت یا ضمیمہ ہوں۔
جینی، مارکس ، اور اینگلز کا دور عمومی طورپر اُس خطے میں فلسفہ اور ادب کا دور تھا۔مگر چونکہ اُس زمانے میں مارکس و اینگلز جیسے بڑے اور بلند پہاڑموجود تھے، اس لےے انہوں نے اُن باقی فلاسفروں، ادیبوں اور مصنفوں کواپنی بلند قدی کی اوٹ میں رکھا۔ اُس دور سے مکمل لطف اندوز ہونے، اور مارکسزم کو مکمل سمجھنے کے لےے اشد ضروری ہے کہ اُن کے ہم عصروں کو بھی پڑھا جائے۔ اُن لوگوں کی ایسی خوبصورت تحریریں ہیں کہ لطف آجائے ۔
یہ لوگ جینی کے ذاتی دوست بھی تھے۔اس لیے کہ کون ایسا انقلابی تھا جس نے مارکس کے گھر کا کھانا یا کافی نہ پی ہو ۔ جینی میزبان ، کامریڈ، سیاسی ورکر ، اور ایک خوبصورت لکھاری تھی ۔ دیکھیے ایک کامریڈ کے نام اُس کا لکھا ہوا ایک فقرہ :” اگر یہ بہت تکلیف دِہ نہ ہو تو کسی وقت ہمیں زندگی کی ایک علامت دکھا جائیے“۔
مارکس ،جینی اور اینگلز کے جی نیئس اورشخصی قربانیوں کے ساتھ یوں گھل مل گیا کہ مجھے انہیںایک ہی کتاب میں اکٹھے رکھنے ہی میں عافیت نظر آئی ۔…….. میرا خیال ہے کہ مارکس، اینگلز اور جینی کی سوانح عمریاں الگ الگ لکھی ہی نہیں جاسکتیں۔ ایک کو جاننے کے لےے آپ کو تینوں کو پڑھنا پڑے گا۔اس لےے کہ ان تینوں کی دنیا ہی ایک تھی۔
اور پھر اُن کے گھر کی ایک اور فرد ہیلینی ڈیموتھ تھی جو کہنے کو تو گھرکی خادمہ تھی مگر اِن دونوں میاں بیوی کے لئے،اور اُن دونوں کی موت کے بعد اینگلز کے لےے، ایک رحمت تھی ۔اِن سب کے دروازے کو زندگی کے مصائب نے باربار کھٹکھٹانا تھا۔
ہمیں اِن تینوں لوگوں نے بتلا دیا کہ سرمایہ داریاس وقنوطیت ، حسدوبغض اور لالچ کے سب سے بڑے پالنہارہیں۔ یہ بھی کہ سرمایہ دار پیسہ بناتا ہے ، مزید پیسہ اور پیسہ۔۔۔تاکہ اس سے وہ اور پیسہ بنائے ،اور زیادہ پیسہ بنائے…….. اور پھر ایک معمولی رقم پینٹنگز خریدنے، تھیٹر جانے، فٹ بال میچ د یکھنے ، خیراتیں کرنے، خیراتی فاونڈیشنیں قائم کرنے اور اپنے مفادات سے وابستہ دوستانہ تعلقات والے یورپی ملکوں کے چکر لگانے میں خرچ کردیتا ہے۔
ہم ان تینوں کی تنظیمی اور سیاسی سرگرمیاں بھی فراموش نہیں کر سکیں گے ۔ اُنہوں نے ہی دنیا میں مزدوروں کی پہلی بین الاقوامی تنظیم بنائی تھی اور اُنہوں نے ہی سب سے بڑا اور سب سے دیرپا نعرہ دیا تھا” دنیا بھر کے مزدورو ! ایک ہوجاﺅ “۔
اس تکون کا دیا ہوا فلسفہ یہ کمال رکھتا ہے کہ یہ جمود سے نا آشنا ہے ۔ یہ فلسفہ زندگی کے جھمیلے کے اندرہی زندہ رہ سکتا ہے ، عمومی مجموعی انسانی زندگی کے جمگھٹے میں۔ یہ فلسفہ زندگی سے باہر مر جاتا ہے۔ یہ محض ایک فرقے کے اندربھی جی نہیں سکتا، یہ عمومی انسانی تجربات سے غنی ہوتا جاتا ہے ۔ یہ انسانوں کو زندہ رہنے اور ماحول کو اس کے زندہ رہنے کے قابل بنانے میںمدد دیتا ہے ۔
اگر آپ کا ،کتاب بینی سے شغف ہو، اوراگر آپ کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ ہو تو آپ نے اپنے پسندیدہ مصنفین کے بطور یقیناً تین چار افراد منتخب کےے ہوئے ہوں گے ۔ میری عرض صرف یہ ہے کہ اگر اُن منتخب کردہ پسندیدہ لکھاریوں کی آپ والی لسٹ میں اِ ن تینوں کا نام شامل نہیں ہے تو آپ اپنی لسٹ پر نظرثانی ضرور کرلیں۔ جی ہاں،یہ لوگ بطور مصنف زبردست نام ہےں۔ ان کا مزاح مچلتا ہوا لگتا ہے ۔لبریز استدلال اور تجزیہ سے بھرا تحقیقاتی طرزاِس تکون کو بڑے عالمی لکھاریوں کی صف میں کھڑا کردیتے ہیں۔ وہ فلسفہ، معیشت ،اورتاریخ کے علاوہ سیاست پر سائنسی تبصرہ نگاروں کے بطور آپ کے ذہن کو منور کریں گے ۔
سائیں کچھ بھی ہو، ایک بات تو حتمی ہے کہ انسان اور اُس کی دنیا کبھی بھی ” بِن مارکس “ نہیں رہے گی۔ دیکھےے ناں، انیسویں صدی کا آخری نصف اُس کا تھا، پوری بیسوی صدی پہ اُسی کی چھاپ قائم رہی، اکیسویں صدی اُسی کے فکر و نظریہ کے بہاﺅ کو راستہ دینے نہ دینے کی طوفانی کشمکش میںغلطاں ہے۔
ان تکونیوں کے فلسفے نے دنیا کو بیان ہی نہیں کیا بلکہ وہ تو دنیا میں واقعات کے بہاﺅ کا رخ ہی تبدیل کرچکے ہے ۔ تحریر کی دنیا بدل ڈالی، تقریر ، جلسہ جلوس ، جیل اور پھانسی گھاٹ ، اسمبلی و کلاس روم ،اقتدار و حکمرانی کی دنیا۔ اور پھراس فلسفہ کے پیروکاروں نے دنیا کو بھی تبدیل کرکے رکھ دیا ۔
اِن تینوں بڑے انسانوں کی تعلیمات کے بعد ایک بات تو یقینی ہے کہ جب کوئی فرد، گروہ یا قوم ان نظریات سے لیس ہو جائے، تواُن کے گھٹنے پھر کسی کے سامنے دو زانو ہونے کے قابل نہیں رہتے۔
مارکسزم میں آٹو ڈیفنس کے بڑے موثر نظام موجود ہیں۔ ابھی حالیہ تاریخ میںسوویت یونین کاپاﺅں بلندی کی معراج سے پھسل گیا اور وہ گرتے گرتے جب محض روس بنا ۔ تب دشمن تو دشمن مارکسزم کے اپنے ” مجاوروں “ تک نے بھی سوشلزم کی فاتحہ خوانی شروع کردی:…….. اور کئی مارکسی لوگ اپنے نظریات بہت ہی گندی نالی میں پھینک کر،پورے کے پورے مشرف بہ کیپٹل ازم ہو گئےصرف افراد نہیں گروہ بھی، پوری کی پوری سیاسی پارٹیاں بھی ، اور حتیٰ کہ ممالک بھی۔
اور نظریاتی بلاکوں کے مرگ کی فاتحہ خوانی توکم ازکم تین چار د ہائیوں تک چلتی ہی ہے۔……..بہر حال اب سوگ کا وہ زمانہ گزر گیا۔ہم نے اس عرصے میں دیکھا کہ مارکسزم نے اپنے دفاع میں خود تو کوئی بڑی اور منظم کوشش نہیں کی ۔اُس کا دفاع توخود سرمایہ داری نظام نے کیا ۔اس لےے کہ ایک بار پھر سرمایہ داری نظام شدید ترین بحران میں ہے۔ سرمایہ داری نظام کے اندر ہر پانچ برس کے اوسط والا بحران ” مارکسزم کا انتقام“ ہوتا ہے اور یہ انتقام طبقاتی معاشرے کی حتمی عالمگیر موت تک جاری رہے گا۔سرمایہ داری نظام،سٹاک مارکیٹ کی ہر ڈبکی کے ساتھ چیخ اٹھتا ہے:” مارکسزم سے بچاﺅ“۔مارکسزم کا بھوت ایک بارپھر ابھرکرکپٹلزم کے سر پر منڈ لا رہا ہے ۔یوںمارکس کی تحریریںپھر دو ا خانوں میں دستیاب ہونے لگیں۔بالخصوص اس کا ماسٹرپیس ”کپیٹل“، تو دوبارہ یونیورسٹیوں کے کورس میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں جب سرمایہ دار اپنے لوٹ مار سے اتھل پتھل کردہ نظام کے بحران کی کوئی وضاحت نہیں پیش کر سک رہے ہیں ۔ مارکسی فکر ایک بارپھر اپنا نشاطِ ثانی کر رہا ہے !!۔
ضروری ہے کہ ہم بہت زیادہ معروضی رہیں۔ مارکس کوئی مذہبی پیشوا نہ تھا ، ایک عام خاکی فانی انسان تھا ۔ ہم قطعاً اُسے دیوتا نہیں بنائیںگے ۔ عالمِ انسان کی بھلائی بہبود میں اس کا جتنا حصہ بنتا ہے اتنا ہی د یں گے ( اور بڑی فیاضی سے ) مگر، اسے غیر ضروری طور پر بڑھا چڑھا کر اُس کی شان قطعاً ”کم “نہ کریں گے ۔

ریفرنسز
-1کارل مارکس کا خط بنام جوزف وی دی میر۔5 مارچ 1852 ۔ در: مارکساینگلزselected correspondence ۔ صفحہ64

23

0Shares
[sharethis-inline-buttons]

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*