کالی چائے

بجٹ اجلاس شروع ہوچکاتھا،ٹی وی پر وزیرِخزانہ کی تقریر براہِ راست نشرہورہی تھی، وزیرخزانہ کے لہجہ میں بڑی گرم جوشی تھی۔وہ کہہ رہاتھا،۔

”حالیہ بجٹ غربت کے خاتمہ کا بجٹ ہے،اس بجٹ میں ملک کے پسماندہ طبقات کا بہت زیادہ خیال رکھاگیاہے۔“

”چائے لے آؤں؟“

بیوی نے پوچھا،جوپوری کی پوری سفید چادرمیں ملفوف تھی،وہ شایدعصرکی نماز پڑہ کر آئی تھی۔

میں نے ’ہاں‘کے الفاظ میں مختصرجواب دیا۔

میری تمام تر توجہ غربت کے خاتمہ والے بجٹ کی طرف تھی۔ہرسال کی طرح امسال بھی وزیرِخزانہ کی بجٹ تقریر بہت دلکش تھی۔پتہ نہیں کس وقت صفیہ میرے سامنے چائے کا کپ رکھ کر چلی گئی تھی۔میں نے چائے کا رنگ دیکھا،دن بہ دن سیاہ تر ہوتا جارہا تھا۔

”بھلا آج چائے حدسے زیادہ کالی ہے،کیوں؟“ میں نے پوچھا۔

”آج دودوھ والا دودھ دینے سے جواب دے گیا ہے،کہہ رہا تھا کہ پہلے پچھلی رقم چکاؤپھر دودھ دوں گا۔اور ہاں،چائے کی پتی بھی ختم ہوگئی ہے۔“

صفیہ جیسے بجٹ تقریر کا مزہ غرق کرنے کا فیصلہ کرچکی تھی۔

”اچھا،ٹھیک ہے،اب خدا کے لئے دو منٹ کے خاموش ہوجاؤ،مجھے تقریر سننے دو۔“

”بابا!بابا!! میرامنہ پک گیا ہے۔“

چھوٹی آسیہ نے میری گود میں بیٹھتے ہوئے کہا۔

”کیوں بھلا!میری اماں کا منہ پک گیا ہے؟“

میں نے آسیہ کے پشم جیسے منہ کا بوسہ لیتے ہوئے کہا۔

”بابا! اب میں پیاز،دال،ٹنڈوں اور آلوؤں سے روٹی کھاکھاکر تنگ آچکی ہوں۔امی ناں خود بھی پانی میں مرچیں ڈال کر روٹی کھاتی ہے اورمجھے پیازروٹی کھلاتی ہے…..مجھے کہتی ہے،مرچیں تیز ہیں،تیرا منہ جل جائے گا،تمہیں میٹھے میٹھے پیاز کاٹ دیتی ہوں۔بابا! مجھے پیاز اچھے نہیں لگتے،بدبووالے بے کار پیاز!!“

میں آسیہ کی باتوں میں بجٹ تقریرکا کافی حصہ سننے سے محروم ہوچکا تھا۔اس نے بات کرتے وقت میری ٹھوڑی پکڑ کرمیراچہرہ ٹی وی سے ہٹاکراپنی طرف کرلیا تھا۔

”اماں! میری پیاری اماں!! مجھے تنخواہ ملے تومیں تیرے لیے گوشت اور مچھلی لے آؤں گا۔“

میں نے اپنا غصہ پیتے ہوئے آسیہ کو بڑی نرمی سے جواب دیتے ہوئے کہا۔بجٹ کی حمایت میں ڈیسک دھم دھم کی زرودارآواز سے بجائے جارہے تھے۔ تالیوں کی گونج اور ڈیسکوں کے تڑتڑاہٹ کے شور میں اب اور کچھ بھی سننے میں نہیں آرہاتھا۔

شرکاء زور زور سے تالیاں بجارہے تھے۔سخی کے میلہ میں سردار جمال خاں اور رئیس رب نواز خاں کے گھوڑوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ تھا۔میلہ کی گھڑدوڑ کے مقابلہ میں علاقے کے تمام وڈیروں کے گھوڑے اور گھوڑیاں مقابلہ کرنے کے لئے موجود تھے۔لوگ یہ مقابلہ دیکھنے کے لئے ایک دوسرے کو لتاڑرہے تھے۔کھوے سے کھوا لگ رہا تھا۔وڈیرے اپنی بچھوبرانڈ مونچھوں کو بل دے رہے تھے۔اچانک ”ٹھا“ کی آواز ہوئی اور ایک فائر کے ساتھ ہی گھوڑے ہوا سے باتیں کرنے لگے۔سموں کی دھمک سے زمین پر ایک زلزلہ سا برپا ہوچکا تھا۔تالیوں کی تڑتڑاہٹ اور سیٹیوں کی آوازوں کی گونج نے گھڑدوڑ میں ایک نئی زندگی کی لہر پیداکردی تھی۔ماحول میں بڑی گرم جوشی تھی۔لوگوں نے اپنی سانسیں روک دی تھیں۔انہیں مقابلہ کے نتائج کا سخت انتظارتھا۔گھڑدوڑکے بعدریچھ اور کتوں کی لڑائی شروع ہونے والے تھی۔ریسٹ ہاؤس کے وی آئی پی کمرے میں رئیس الطاف خاں اپنے کتے کواپنے ہاتھوں سے بادام اور پستہ ملی کھیرکھلا رہاتھا،ورنہ وہ اپنے کسانوں اور عام لوگوں سے عموماََ ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتاتھا۔اگربہ حالت مجبوری کسی سے ہاتھ ملانا بھی پڑتاتوکھڑے کھڑے خوشبودار صابن سے ہاتھ دھولیاکرتاتھا۔رئیس کایہ کتا اسے اس کی وزارتِ اعلی کے دور میں امریکی سفیر نے گفٹ کیاتھا۔یہ کتّا رئیس کو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیزتھا۔کراچی کے اُس دھرنے میں جوپانی کی کمی کے خلاف دیاگیاتھا،میں دھرنے والوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں حکومتی وفد،جس میں وزیرِ اعلی رئیس الطاف خاں بھی شریک تھا،مذاکرات کے درمیان میں جب رئیس کے کامدار نے فون پر اطلاع دی کہ ”ٹمی کو گلے میں بکرے کی ہڈی پھنس گئی ہے۔“ تو وہ اسی لمحہ مذاکرات چھوڑکرہیلی کاپٹرمیں سوار ہوکرگاؤں پہنچااور کتّے کا لندن سے آپریشن کرواکر لوٹا۔

زمین گھوڑوں کے سموں کی ٹاپوں سے لرز رہی تھی۔دھول کے طوفان میں کافی دیرتک کوئی چیز دیکھنے میں نہیں آرہی تھی۔رئیس رب نواز کی گھوڑی ایک یار پھر میدان مارگئی تھی۔میدان کے چاروں طرف کھڑی خلقِ خداکی تالیوں کی گونج نے آسمان سر پر اٹھالیاتھا۔رئیس رب نواز نیند سے ہڑبڑاکر اٹھا۔اس کی آنکھیں حیرت کے مارے پھٹی ہوئی تھیں۔رئیس نے آنکھیں ادھر اُدھر گھمائیں تو اس نے اپنے اردگردڈیسک بجاتے اور تالیاں پیٹتے لوگوں کو دیکھا۔اس نے قریب بیٹھے ایم این اے سے پوچھا:

”بتا تو سہی کہ انہوں نے کس بات پر اسمبلی کو سر پر اٹھارکھا ہے؟“

”پتہ نہیں، یار!میں بھی تیری طرح بڑی میٹھی نیندسویاہواتھا،ان بدبختوں نے وہ ہنگامہ بپاکیا کہ الامان والحفیظ۔میں بھی اچانک اٹھ بیٹھاہوں۔اب جلدی کرو، ڈیسک بجاؤ،سپیکرصاحب اپنے چشمہ کے شیشوں سے تمہیں گھورکر دیکھ رہا ہے۔“

”بہن کے….. نیند کا سارا مزہ ہی خراب کردیا۔“رئیس بھنبھنایا اور بے دلی کے ساتھ ڈیسک پیٹنے لگا۔دھڑدھڑکی آوازوں کے درمیان بجٹ کی تقریرچلتی رہی۔

اچانک دروازہ پر دستک ہوئی تو چھوٹی آسیہ میری گود سے کھسکتی دوڑتی باہر گئی اور دروازہ کھولا۔دروازے پر محلہ کاایک ننگے پاؤں بچہ،ہاتھ میں خالی برتن لئے کھڑا تھا۔وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتاصفیہ کے قریب جاکربڑی معصومیت سے کہنے لگا:

”خالہ!ابا ابھی تک بازار سے سبزی لے کر نہیں لوٹا۔تھوڑی ساسالن ہے تو دے دو،میرے چھوٹے بھائی کو بہت بھوک لگی ہے،وہ بہت رورہا ہے۔“

”بیٹا!ہم نے سبزی پکائی تو تھی،لیکن دوپہرکو کھاگئے۔ہوتی تو،میرے رانا!تمہیں ضروردیتی۔“

صفیہ نے چھوٹے بچے کو جواب دیا۔بچہ چلاگیا۔

”امی! ہم نے سالن پکایاہی نہیں تھاپھر تم نے کیوں کہا کہ ہم کھاچکے ہیں؟“

صفیہ نے آسیہ بات سنی ان سنی کردی۔غربت کے خاتمہ کے بجٹ پر تقریرابھی جاری تھی۔وزیرِخزانہ کی تقریر کے ساتھ نیچے ٹِکرچل رہاتھا،جس پر تحریرتھا:

”غربت کے ہاتھوں تنگ آکر ایک شخص نے اپنے تین بچوں اور بیوی کے ساتھ خودکشی کرلی۔“

”ایک شخص نے مفلسی کے مارے اپنے بچے فروخت کردیے۔“

”ایک بوڑھی عورت نے غربت سے تنگ آکراپنے آپ کو ٹرین کے نیچے دے دیا۔“

وزیرِخزانہ بتا رہا تھا کہ حکومت نے غریب عوام کی سہولت کے لئے ایئرکنڈیشنروں، کاروں، موٹر سائیکلوں کوسستا کردیاہے۔میں نے فوراََ رموٹ کا بٹن دباکر ٹی وی کو بندکردیااور اپنی نظریں ٹی وی کی سیاہ سکرین سے ہٹاکرکالی چائے پر مرکوزکردیں……۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*