میں کوئی غیر تو نہیں

میں باہر ہوکر واپس آیا تو سب کچھ بگڑ چکا تھا۔ گھر میں ایک سفید پگڑی والے نے ڈیرا ڈالا تھا، اور کھیتوں میں چاروں طرف دور دور تک ا±س کے جانور بکھرے ہوئے تھے۔۔۔
”نجانے یہ کون ہے، جس نے خود میرے گھر پر قبضہ کر رکھا ہے اور فصلوں کو اس کے جانور تباہ کر رہے ہیں۔۔۔ غالباً کوئی چرواہا ہوگا۔ مگر یہ کونسی انسانیت ہے۔۔۔ کہ اجازت کے بغیر اس طرح کی حیوانی حرکتیں کی جائیں؟۔ میں پریشانی کی حالت میں اپنے آپ سے ہم کلام تھا۔۔۔
”بتائو ، کون ہو تم؟!؟ میں نے سلام دعا کے بغیر ، قدرے غصے کے عالم میں پگڑی والے سے پوچھا۔۔۔ اور یہ۔۔۔ یہ سب کیا ہے؟“
وہ جواب دینے کی بجائے گھور گھور کر میری طرف دیکھنے اور مسکرانے لگا۔ اس کے دیکھنے اور مسکرانے کا انداز مجھے بڑا معنی خیز لگا۔
مجھے محسوس ہوا ، جیسے کچھ نہ کہتے ہوئے بھی ، وہ بہت کچھ کہہ رہا ہے۔ جس سے مجھے دور دراز کے بے شمار اندیشوں نے گھیر لیا۔۔۔ یہ بولنے کی بجائے مسکراتا کیوں ہے بھلا؟“
”بولتے کیوں نہیں؟ آخر تمہارا ارادہ کیا ہے؟ میری غیر موجودگی میں میرے گھر پر قبضہ جمالیا ہے اور میری لہلہاتی ہوئی فصلوں میں جانور چھوڑ رکھے ہیں۔۔۔ تم نے ایسا کیوں کیا ہے؟ کون ہو تم ! ؟“
اب بھی اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بلکہ نگا ہیں میرے چہرے پر گاڑ کر مسلسل مسکراتا رہا۔۔ پھر سرتا پا ایک اچٹتی ہوئی نظر میرے سراپا پر ڈال کر ہنسنے لگا۔ اور اس کے بعد ، دیر تک لگا تار ہنستا رہا۔۔۔ جس سے مجھے شک ہوا کہ شاید وہ بہرا ہے۔ جب بہرا ہے اور کچھ سنائی نہیں دیتا تو پھر بھلا جواب کیا دے گا ؟ “
” کیا تم بہرے ہو؟“ میں نے تقریباً چیختے ہوئے دریافت کیا۔ لیکن اس کی طرف سے اب بھی مسکراہٹ اور ہنسی کے سوا کسی قسم کا اظہار نہیں ہو سکا۔
اب مجھے یقین سا ہو گیا کہ یہ کوئی بہرا چرواہا ہوگا۔ اس لئے میں نے سوچا، فی الحال اس کی بجائے ، اس کے جانوروں کی جانب متوجہ ہونا چاہیے۔ اور انہیں کھیتوں سے باہر نکالنا چاہیے۔۔۔ میں نے ایک ڈنڈا اٹھایا اور جانوروں کے قریب جا کر، انہیں ہانکنے لگا۔ جانور بھی بڑے ڈھیٹ نکلے۔ ایک جگہ سے ہٹ کر دوسری جگہ جا کر ٹھہرتے ، ایک کھیت سے نکل کر دوسرے کھیت میں داخل ہوتے اور فصلوں کو چرتے اور روندتے رہتے۔
”بہرے چرواہے کے جانور بھی بہرے لگتے ہیں۔۔۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔۔۔ مگر انہیں باہر نکلنا ہی ہو گا۔۔۔ میں ڈنڈے سے انہیں مار بھگانے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ مار کھا کر بھاگ جاتے لیکن جگہ اور کھیت بدل بدل کر ٹھہر جاتے۔۔۔ اورفصلیں چرتے اور روند تے رہتے۔۔۔
جانوروں کے باہر نکلنے سے مایوس ہو کر ، میں دوبارہ پگڑی والے کے پاس گیا۔اور بلند آواز سے التجا کی۔۔۔
”مہربانی کر کے یہاں سے اٹھ کر چلے جائیے۔ اور اپنے جانور میرے کھیتوں سے نکال کر ساتھ لے جائیے۔۔۔ مجھے اپنے گھر اور کھیتوں کی خود۔۔۔ ضرورت ہے۔۔۔“
اب نہ تو وہ مسکرایا اور نہ ہنسا۔ بلکہ تعجب سے برابر میری طرف دیکھتارہا۔ اچانک میرے ذہن میں ایک خیال بجلی کی مانند کوند نے لگا۔
”ممکن ہے یہ گونگا ہو۔۔۔ اور پھر میں نے چیخ چیخ کر اس سے پوچھا۔۔۔ کیا تم گونگے ہو؟ لیکن اس کی جانب سے کوئی آواز نہیں آئی۔۔۔ پھر میں نے سوچا اگر گونگا ہے تو بھلا بولے گا کیسے؟ اور پھر سوچا اگر بول نہیں سکتا تو کوئی اشارہ تو کر سکتا ہے۔ سرتو ہاںیا نہیں میں ہلا سکتا ہے۔۔۔ کہ میں گونگا ہوں یا نہیں۔۔۔“
”اگر تم بہرے نہیں ہو اور گونگے ہو۔۔۔ تو سر ہاں یا نہیں میں ہلا کر بتا دو کہ تم گونگے ہو یا نہیں۔۔۔“ ۔پھر میں نے زور زور سے پوچھا۔۔۔ بتائو نا تم گونگے ہو، یا نہیں؟“ مگر اب بھی ا
س نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔ بلکہ اب تو خاصے لا تعلقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکڑی کے ایک ٹکڑے سے زمین پر لکیریں کھینچتا رہا۔۔۔ میں نے جھک کر غور سے لکیروں کی طرف دیکھا۔۔۔ یوں لگتا تھا جیسے اس نے کوئی نقشہ کھینچا ہو۔۔ کسی بستی کا نقشہ کسی علاقے کا نقشہ کسی ملک کا نقشہ کسی خطے کا نقشہ ، گھروں، کھیتوں، پہاڑوں، جنگلوں، بیابانوں ، دریائوں اور سمندروں کا نقشہ۔۔۔ نقشے کو دیکھ کر میں پہلے سے بھی زیادہ پریشان ہوا۔ جیسے نقشے کی لکیروں کے اندر الجھ کر رہ گیا۔۔۔ پھنس کر رہ گیا۔۔۔ قید ہو کر رہ گیا۔ اور اپنی نجات کے لئے کوئی راستہ سوچنے لگا۔۔۔ کیا میری نجات کا کوئی راستہ بھی ہے؟“
اچانک میں نے کچھ سوچا اور جذبات میں آکر ا±س پر برس پڑا۔
”تم پاگل تو نہیں ہو؟ پھر بھی ا±س نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔ اور خود میں نے سوچا۔۔۔ ’بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی ؟ کونسا پاگل ہوگا ، جو اپنے آپ کو پاگل سمجھے گا۔ اگر اپنے آپ کو پاگل سمجھے گا بھی تو کم از کم اقرار تو نہیں کرے گا۔۔۔ پھر یہ سوال پوچھنے کا بھلا کیا فائدہ کہ وہ پاگل ہے یا نہیں؟“
”تم سے جان چھڑانا تو کافی مشکل ہے۔۔۔ پتہ نہیں تم بہرے ہو گونگے ہو،یا پاگل ہو۔۔۔ “میں نے پہلی بار اس کی پگڑی کو چھوا اور بیزاری سے دریافت کیا۔
یکا یک اُس نے سر اوپر اٹھایا۔ پر اسرار انداز سے میری آنکھوں میں جھانکا اورالفاظ کو کھینچ کھینچ کر آہستگی سے کہنے لگا۔
”میں۔۔۔ نہ تو بہراہوں ، نہ گونگا ہوں اور نہ پاگل !“
”اگر تم بہرے، گونگے اور پاگل نہیں ہو تو کم از کم یہ تو بتا سکتے ہو، کہ تم کون ہو؟“میں نے غم اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے تحت ، اس سے جلدی جلدی پوچھا۔۔۔
میرے سوال کے جواب میں پہلے تو وہ عجیب انداز سے مسکرانے لگا، پھر کھلکھلا کر ہنسنے لگا۔۔۔ اور پھر خوش دلی سے کہنے لگا:
”بھئی! میں کوئی غیر تو نہیں تمہارا بڑا بھائی ہوں۔ مسلمان بھائی !!“

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*