وہ رنگ کی کالی تھی ، ایسی جیسی تو ے کی پشت ہوتی ہے۔ وہ جب نہا دھو گر چہرے پر کریم لگا کر باہر آتی اور کریم دھوپ کے سبب پگھلنے لگتی، تب اس کا چہرہ چہکتا نظر آتا۔ اس کا سیاہ کالا رنگ، خوبصوت رنگ مزید کھل اٹھتا۔ تم ضرور حیرت زدہ ہوئے ہو گے کہ میں نے اس کے رنگ کو خوبصورت کیوں کر کہا! لیکن میں تم سے پوچھتا ہوں کہ سیاہ کالی رات اماوس کے اندھیرے کے خاموش بہاو¿ میں بہتے ہوئے خوبصورت نظر نہیں آتی؟ ۔وہ خوبصورت تھی اور خاموش! اسے اپنی خوبصورتی کا احساس نہیں تھا۔ دنیا اسے بد صورت سمجھتی تھی اور اسے اس بات کا احساس تھا، اس لئے اس کے ہونٹوں پر خاموشی کی مہر لگی ہوتی۔ اندھے کنویں کی طرح خاموش ! لیکن میں اسے خوبصورت سمجھتا تھا۔ میں یہ تو کہہ نہیں سکتا کہ اس کی خاموشی میں خوبصورتی تھی یا خوبصورتی میں خاموشی ! لیکن میرے خیال میں آخری بات ہی درست ہے۔ اس کی خوبصورتی دنیا کو بیانگ دہل کہہ نہیں سکتی تھی کہ میں خوبصورت ہوں، میرا انگ انگ سجیلا ہے، میری جلد ہمیشہ چہکتی رہتی ہے، میں سفید کپڑوں میں دوزخ کی حورلگتی ہوں۔ اسے کسی سے محبت نہیں تھی ، کھانے پینے سے نہ پہننے اوڑھنے سے عزیز واقارب سے نہ سکھی سہیلی سے۔ اس کی دنیا بالکل تنہا تھی ، پر سکون منکسر المزاج، حسین دنیا ! اس کے باوجود وہ ہمیشہ گاتی رہتی، ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کچھ نہ کچھ گنگناتی رہتی۔ اس کا دل کرتا تو دو تین مصرعے بلند آواز میں گالیتی۔ شناسا اسے کوئل کہتے لیکن یہ لفظ سن کر اس کا چہرہ اتر جاتا۔ وہ بجھتی تھی کہ لوگ میرے رنگ کا مذاق اڑا رہے ہیں نہ کہ میری آواز کی تعریف کر رہے ہیں۔ تمہیں لگتا ہوگا کہ میں بہک رہا ہوں۔ اول تو میں نے کہا کہ وہ خاموش رہا کرتی تھی اور اب کہتا ہوں کہ وہ گاتی تھی۔ لیکن، دوست ! کیا خاموشی نہیں گاتی ؟ کیا تم نے رات کی میٹھی مدہم ترل رل کی آواز نہیں سنی ؟ سناٹے کا ترنم بھرا گیت ! اسی طرح مجھے بھی اس کے راگ میں خاموشی نظر آتی تھی ، گاتی ہوئی خاموشی ، خاموش راگ!
وہ رات کے وقت بالکنی میں بیٹھ کر” بھئیوں “کا راگ سنا کرتی۔ اندھیرے اور چار سو پھیلی رات میں ”بھیئے “وجد میں آجاتے۔ وہ دس بیس آدمی اپنے وجود کا احساس گنوا کر ، راگ کے رس میں گھل جاتے۔ ان کے راگ میں پردیسی پیا کی یاد، باجرے کے سرسبز کھیت، کسی صحرا کی چمکتی ہوئی ریت، بارش میں ٹوٹی ہوئی کھپریل، انتظار کے لمحات، اداس ستارے اور بیا کل نین وغیرہ وغیرہ کے موضوعات آ جاتے تھے۔ جھانجھریا کی آواز میں کائنات ملیا میٹ ہو جاتی اور اسی وقت اس کے وجود سے اداسی نکل جاتی تھی۔ اس کی روح جھانجھریا کی آواز پر جھومنے لگتی اور وہ سمجھتی کہ وہ اس دیس میں ایک مسافر ہے، ایک نا واقف ، حواس باختہ مسافر، ایک پیاسا، پیدل راہی اور اس کے تمام عزیز واقارب، اس کی سکھی سہیلیاں ، سب کے سب مسافر ہیں۔ ہر ایک کی منزل الگ، ہر ایک کا راستہ جدا، ہر ایک کی رفتار علیحد۔وہ آنکھیں اٹھا کر آسمان میں قطب ستارہ کو گھور کر دیکھتی تو اسے کئی کائناتیں نظر آتیں، دور دور کی دنیا ئیں، جہاں صرف خوبصورتی تھی، جہاں محبت ، حسن کی محتاج نہ تھی ، جہاں زندگی بے معنی نہ تھی، جہاں دوستی دھوکہ نہ تھی ، جذبات بے بس نہ تھے۔ اس وقت اس کا دل کنول پر اوس کے قطرے کی مانند ہو جاتا ، جو اپنے ارد گرد بے پناہ پانی دیکھ کر کبھی گھبرا تا تو کبھی پیار کے مارے چھلکنے لگتا ہے۔ ا±س نے کئی مرتبہ موت پر بھی غور کیا۔ موت ! موت کو سمجھنا تو اتنا مشکل نہیں ہے، جتنا کہ زندگی کو ! لوگ پتہ نہیں کیوں دبدھا میں پڑ جاتے ہیں؟؟ یہ بدن ، یہ مٹی کا گھروندہ کبھی بھی گر سکتا ہے اور گر کر مٹی سے مل کر مٹی ہو سکتا ہے۔ موت کا سوچ کر اس کا دل بڑا ہو جاتا۔ اسے لگتا کہ اس کی مٹی کی دھول اڑ کر قطب ستارہ سے جاملی ہے ، وہ آسمان پرستاروں کی چار پائی پر سوئی ہوئی ہے اور یوں کہ وہ کہکشاں کے دھارے میں بہتی چلی جارہی ہے۔ اس کی ہستی کی لہروں سے بھی لطیف چیز میں ۔راگ ۔راگ ہی اس کی بے معنی ہستی کو سہارا دیے ہوئے تھا۔ اور جس طرح اس کی زندگی بے معنی تھی ، اسی طرح تھا اس کا راگ ! بے حد خوبصورت جل پریوں کے متعلق بھنبھریوں کی پرواز، سیتا پھل کے درخت کے متعلق، نیم کے بور اور دوسری نہ جانے کن کن باتوں پر اس کے دل میں شیریں تر الفاظ تیر تے آتے اور وہ انہیں گنگناتی رہتی۔ بے انداز بے معنی دل لبھانے والے الفاظ !
میرے گھر کی بالکنی ، اس کی بالکنی کے عین سامنے تھی۔ میں نے جب بھی اسے غور سے دیکھا تبھی وہ ہر مرتبہ مجھے کسی دور دیس کا فرشتہ لگی کہ جس کا اس دنیاسے کوئی تعلق نہ ہو، جو ایک مبہم پیغام دے رہا ہو اور پیغام پورا ہونے پر اسے اڑ جانا ہو۔ وہ صبح سویرے اٹھ کر ٹھیکرے کی چھوٹی پر اتوں میں پرندوں کے لئے دانہ پانی ڈالتی۔ جوں ہی پرندے دانا چگ کر اڑتے اور آسمان کی وسعتوں میں غائب ہو جاتے توں ہی اس کی آنکھیں ان کے تعاقب میں ان دیکھی نا معلوم دنیا ئیں تلاش کرتی جاتیں۔ وہ کافی دیر تک انہیں گھورتی رہتی۔ میری بہن کہتی کہ وہ بہت رحم دل ہے لیکن ساتھ ساتھ تھوڑی پگلی بھی ہے۔ میں نے اسے کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ وہ کبھی کبھی مسکراتی اور دوسرے لمحے اس کے ہونٹوں سے مسکراہٹ یوں غائب ہوتی جس طرح شفق کی باقی ماندہ رنگینی ،رات کے اندھیرے میں گم ہو جائے۔ میں نے اسے کبھی غور کرتے نہیں دیکھا۔ وہ یونہی گم سم ، حیران کھڑی گنگناتی رہتی، جیسے اس کی کھوپڑی میں بھیجہ ہی نہ ہو۔ اس کے باوجود وہ مجھے بہت اچھی لگتی۔ میں جب بھی اسے دیکھتا تو یوں محسوس کرتا کہ ہم صدیوں پہلے کہیں ملے تھے۔ کہیں برگد کے درخت میں جھولے پڑے ہوئے تھے، جہاں ہم مل کر جھولے تھے، کسی ندی کے کنارے پر ایک دوسرے کے تعاقب میں دوڑے تھے، اس کے بال ہوا میں لہراتے اور چنر یا اڑتی جاتی تھی۔ اور وہ تھک ہار کے پنگھٹ پر بیٹھی تھی، جہاں میں نے اسے گا گر اٹھا کر دی تھی۔ صدیوں کی گہری شناسائی ، ایک قدیم اور شدید احساس، ایک لایعنی اضطراب، میرے دل کو تڑپاتے رہتے تھے۔ اس کا سیاہ رنگ چمکتا نظر آتا اور وہ مجھے خوبصورت لگتی تھی، بے حد خوبصورت!
میں نے جب پہلی مرتبہ اس سے بات کی تھی تو اس کی آواز سن کر مجھے تعجب نہیں ہوا تھا۔ میں نے پہلے ہی اندازہ کر لیا تھا کہ اس کی آواز بہت رسیلی ہوگی۔ اس نے اپنی بالکنی سے کہا ” میرے بھائی کی گیند آپ کی طرف چلی آئی ہے۔” اور میں نے گیند اٹھا کر اس کی طرف پھینکی اور بڑبڑایا ”کوئل“۔ چار پانچ مہینوں میں اس نے میری بہن کے ساتھ کافی راہ و رسم بڑھائی، لیکن ابھی تک بولتی بہت کم تھی۔ میری بہن اس کی نس نس سے واقف ہوگئی اور اس نے مجھے بتایا کہ وہ جتنی رحم دل اور معصوم ہے، اتنی ہی اپنے رنگ کے متعلق حساس بھی ہے۔ اسے دو چیزوں سے زیادہ رغبت ہے، ایک آئینہ اور دوسری اس کی بلی۔ وہ دن میں سو مرتبہ آئینہ دیکھتی اور سو مرتبہ بلی کو گود میں اٹھاتی۔ اس کے پہلے عمل میں نفرت کا احساس ہوتا تو دوسرے میں محبت کا۔
مجھے اپنی بہن نے بتایا کہ اس نے شادی نہ کرنے کی قسم اٹھارکھی ہے۔
میرا تبادلہ کراچی سے نوشہرہ فیروز ہو گیا اور میں جب سال بھر کے بعد کراچی آیا تو اس کے گھر سے بھی گزرا۔ وہ بالکنی میں کھڑی تھی اور دوسری بالکنی میں کھڑی اپنی سہیلی کے ساتھ اونچی آواز میں باتیں کر رہی تھی اور بات بات پر قہقہے لگارہی تھی۔ اسے دیکھ کر میرے حیران ہونے کی حد نہ رہی۔ اس کی چھاتیاں، اس کی قمیص سے نکل آنے کو بے تاب تھیں۔ اس کے گال بھر آئے تھے۔ اس نے کھدر کی جگہ ریشم پہنا ہوا تھا ۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرائی۔ اس کی مسکراہٹ میں چالا کی اور شرارت تھی۔ مجھے پہلی دفعہ اس کا سیاہ رنگ بد صورت لگا۔ وہ ڈائن سی محسوس ہوئی، کالی ڈائن۔ راستہ میں مجھے چوکیدار نے بتایا کہ وہ بہت بد چلن ہوگئی ہے۔ راتوں کو چھپ چھپ کر دوسرے کو ٹھے پر چلی جاتی ہے، جہاں ایک ایس ڈی اور ہتا ہے۔ اس کی ماں کو پتہ چلا تو اس کی کہیں منگنی کر دی ہے، اب اگلے مہینہ اس کی شادی ہونے والی ہے۔ ”دیکھو تو ، بھیا ”چوکیدار نے بات ختم کرتے ہوئے کہا، ” شکل کیا کہہ رہی ہے اور کرتوت کیسے ہیں !؟” ۔میں نے دل میں کہا کہ کون کہتا ہے کہ اس کی شکل خوبصورت نہیں ہے۔ کالا سیاہ چمکتا ہوا چہرہ ، رحم دل اور معصوم ! پتہ نہیں کیوں وہ اتنی بدل گئی ہے؟ میں خیال لڑاتا ہوا جار ہا تھا اور مجھے لگا کہ کائنات کی ابتدا کے وقت رات، دن سے کہہ رہی تھی کہ میں کالی ہوں، مجھ سے اپنا رنگ بدل ، دن اسے کہہ رہا تھا کہ اچھا ہوا کہ تم سیاہ ہو، تمہاری تمام تر اچھائیاں اور برائیاں اس میں چھپی ہوئی ہیں۔ میری سفیدی جائے بھاڑ میں ! میرے تمام تر گناہ اور ثواب عیاں ہو جاتے ہیں۔
ایک مہینہ کے بعد وہی چوکیدار ملا۔ اس نے بتایا کہ وہ کل بیماری کے سبب چل بسی۔ کئی بیماریوں کے ساتھ اسے کوڑھ بھی لگ چکا تھا اور وہ سرتا پا سفید ہو چکی تھی۔ اس کا سیاہ رنگ مٹ چکا تھا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے