کتاب کا نام : محمد امین کھوسہ
قیمت: 500 روپے
صفحات: 150
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کبھی خود پر وفا کا قرض نہیں چھوڑا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی سے ان کی دوستی ہو، تعلق رہا ہو اور وہ اس دوستی اس محبت کا قرض خود پر رہنے دیں بلکہ وہ محبت کا سود بھی ساتھ ادا کرتے ہیں۔ اور یہ سب ان کی کتابوں کے قارئین بخوبی جانتے ہیں۔
‘محمد امین کھوسہ’ اور ان جیسی تاریخ کے بڑی شخصیات کے ہم سب قرض دار ہیں۔ ہم کچھ اور نہیں تو یہ کتابیں پڑھ کر ان کا پیغام گنتی کے چند لوگوں تک پہنچا سکیں تو شاید کچھ سرخرو ہوں سکیں۔
امین کھوسہ پڑھنا شروع کی تو میں اسی جگہ پہنچی جہاں امین کھوسہ اسی قافلے کے مسافر تھے جس میں عبدالعزیز کرد، عبدالصمد اچکزئی، میر یوسف عزیز مگسی، حسین عنقا، نسیم تلوی اور دوسرے بڑے لوگ شامل تھے۔ ان سب کی جدوجہد، ان کی منزل ایک ہی تھی۔ بلوچستان کی آزادی، ان کے باسیوں کے حقوق کے حصول کی جنگ۔
کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ امین کھوسہ صاحب کے سارے سفر کی داستان پر مبنی ہے، دوسرے حصے میں امین کھوسہ صاحب کی تحریریں شامل ہیں جبکہ کتاب کا تیسرا حصہ ہمیں ان کے معاصرین کے بارے میں بتاتا ہے۔
یہ طویل جدوجہد ایک تنظیم "ینگ بلوچ” کے نام سے ایک نوجوان عبدالعزیز کرد نے1920ء میں شروع کی۔اسے نظامانی صاحب نے 1996ءتک جاری رکھا۔ اس زنجیر کی پہلی کڑی ینگ بلوچ ہے اور پھر اس کے بعد قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی، بلوچستان مزدور پارٹی ، کمیونسٹ پارٹی، ورور پشتون، نیشنل پارٹی، انجمن تحریکِ بلوچاں، استمان گل، سندھ بلوچ پشتون فرنٹ کے نام سے ایک طویل زنجیر بنی۔ وقت کے مطابق مطالبات کی تبدیلی کے ساتھ وہ چند بنیادی مطالبات کو لیے یہ سفر طے کرتے رہے۔ وہ مطالبات انگریز سامراج سے آزادی، بلوچستان میں آئینی تحفظ، سرداری نظام کا خاتمہ، ظلم و جبر اور ناانصافی کے خلاف جنگ، بلوچستان میں اصلاحات اور علاقوں کی ریاست قلات میں دوبارہ شمولیت کا مطالبہ وغیرہ شامل تھے۔ اس وقت کے سیاہ و سفید کے مالک ظلم و جبر کے سمبل شمس شاہ کے خلاف "شمس گردی” کے نام سے پمفلٹ جاری ہوا اور یہی ان قومی ہیروز کی پہلی کامیابی تھی کہ جب ان کے مطالبات، عوضانہ خون، زر سر اور زر شاہ کی معافی، بیگار کی بندش اور مالی، پ
رس اور بجار کے خاتمے کے مطالبات منظور ہوئے۔
ان کی دوستی بھی ہم خیال ہونے کے تحت مثالی تھی کہ جب عبدالصمد اچکزئی نے کرد کے بارے میں کہا، "میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ سوائے آزادی وطن کے ایک بے صبر عاشق کے اور کچھ بھی نہیں” اور یہ کہ، "مجھ سے اب بھی میٹھی اور مضبوط دوستی ہے”، تو دوسری طرف امین، عبدالصمد اچکزئی کے بارے میں کہتے ہیں کہ، "عبدالصمد اچکزئی بلوچستان میں نہ ہوتا تو پھر کوئی موافقت کرے یا مخالفت اس قوم بلوچستانی کو گورنری قطعاً نہیں مل سکتی تھی”، اور پھر یہ کہ، "اسے بلوچستان سے پیار ہے، وہ بلوچستان پر عاشق ہے، مجھے صمد خان کی ایمان داری پر یقین کامل ہے۔”
کتاب کے دوسرے حصے میں امین کھوسہ کے مضامین ضمیمے کے طور پر شامل کیے گئے ہیں، جن میں سیاسیاتِ بلوچستان پر مکمل تبصرہ، بلوچستان اور حکومت، سرداری سسٹم، سرداری کی تاریخی حیثیت اور موجودہ صورت، اور بلوچستان کا ایک دیرینہ مسئلہ اور اس کا حل کے عنوانات سے مضامین شامل ہیں۔ ان کی اردو تحریر یوسف عزیز مگسی کی طرح خوبصورت ہے۔ اپنے مضمون ‘بلوچستان اور حکومت’ میں لکھتے ہیں کہ "ہاتھ پر ہاتھ دھرے آنکھ کو کسی گزشتہ "شاندار منظر” دکھانے میں مشغول رکھنا موت کی اولین نشانی ہے۔” پھر آگے لکھتے ہیں: "لیکن میرا ایمان اس پر ضرور ہے کہ "یادِ عہدِ رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے” اور میں بغیر جھجھک کے کہتا ہوں کہ میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے”۔
امین کھوسہ کے مضامین آپ پڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اپنی ملکی سیاست، اپنے لوگوں کی حالت اور اپنی مٹی کے ساتھ دوسروں کی بے ایمانی پر وہ کس قدر گہری نظر رکھتے ہیں اور وہ ان سارے حالات سے کس قدر تکلیف میں ہیں۔
یہیں وہ اپنے ایک اور مضمون میں کہتے ہیں: "میں پوچھتا ہوں کیا یہ بھی جرم ہے کہ اپنی مظلومیت پر توجہ دلانے کے لیے ایک چیخ بلند کی جائے؟وہ چیخ چاہے فلک بوس ہو جائے، آسمان توڑنے والا ایک بے باک نالہ لیکن اس کا مقصد صرف آگاہی اور خبرداری ہے۔”
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ان ساری خوبیوں کے ساتھ ساتھ وہ آخر میں بلا کے پیر پرست نکلے۔ اس کے علاوہ یہ کہ انہیں خود ستائشی کی عادت بھی تھی۔
لیکن اس کے ساتھ ہی وہ سندھ پرست، انقلاب پرست، عورتوں کے حقوق کے علمبردار تھے۔ انھوں نے جی ایم سید کے نام طویل خطوط لکھے جن میں ان کے لیے ان کی محبت و عزت جہاں جھلکتی ہے وہیں ان کے لتے لینے میں بھی پیچھے نہیں رہے۔
کتاب کے آخری حصے میں وہ اپنے ساتھیوں محمد علی، اسلم اچکزئی، محمد حسن نظامی، محمد حسین عنقا، نسیم تلوی، ہاشم خان غلزئی اور ملک فیض محمد یوسفزئی کے بارے میں لکھتے ہیں۔ یہ وہ دوست ہیں جو اس پوری جدوجہد، پورے سفر میں ان کے ساتھ رہے۔
یہ تمام ہیرو، بلوچستان اینڈ آل انڈیا کانفرنس کے سالانہ جیکب آباد اور حیدرآباد اجلاس میں شریک ہوئے۔ بے شمار اخبارات، روزنامے اور ماہنامے شائع کیے گئے جو "آزادی” اور "انقلاب” کی تکرار سے بدکے ہوئے حکمران بند کرتے رہے۔ شمس گردی، بلوچستان جدید، استقلال، ینگ بلوچستان، بلوچ، ندائے بلوچستان، کلمتہ الحق، نجات، کس کس کا نام لیا جائے۔ انگریز سرکار نے صرف محمد حسین عنقا کے 17 اخبارات ضبط کیے۔
یہ لوگ آدھی زندگی جیلوں میں سڑتے رہے۔ پرتشدد اور پر مشقت جیل کاٹی، بم کے دھماکوں میں شہید ہوتے رہے، ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو کر ایڑیاں رگڑتے رگڑتے مرتے رہے، لیکن اپنے مقدس مقصد سے روگردانی نہیں کی۔
امین کھوسہ بلوچستان کی آواز 5 دسمبر 1973 کو رات آٹھ بجے کراچی میں انتقال کر گئے اور اپنی جدوجہد کا عظیم عَلم اپنے ساتھیوں کو سونپ گئے۔
جدوجہد کی ان کڑیوں کو ملانے اور سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ڈاکٹر شاہ محمد مری کی یہ کتاب "محمد امین کھوسہ” ضرور پڑھی جائے۔