8مارچ سے ہم کیوں خوفزدہ ہیں؟

عورت حقوق کی ایک مشہور کارکن اپنے سوانح عمری میں لکھتی ہے کہ جب میں آٹھویں جماعت میں تھی تو میں سکول میں چہل قدمی کر رہی تھی تو دو اوباش لڑکوں نے میرے ساتھ بد تمیزی کی ۔جب میں نے محترم پرنسپل سے شکایت کی تو اس نے الٹا مجھے ڈانٹا کہ آپکا دوپٹہ اور لباس صحیح اور مکمل نہیں ہیں یہ تو ہوگا۔ یہ میری زندگی کی خشت اول تھی کہ میں نے سوچا حق بھیک مانگنے سے نہیں بلکہ حق چھیننے سے ملتے ہیں۔
میں یہ بات واضح کرتا ہوں کہ گھر سے نکلنے والی عورت عزت نیلام کرنے والی نہیں۔ ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم بچیوں کو شروع دن سے نظر انداز کرنے کی درس دیتے ہیں۔
8 مارچ ایک احتجاج ہے بقول ڈاکٹر شاہ محمد مری کے ایک سٹرگل ہے بہتری اور انصاف کے لیے، ایک احتجاج ہے اس رویہ کے خلاف۔ جب میں ایک دن اپنے عزیزہ کے ساتھ خوش گپی کر رہا تھا کہ آپ ٹیوشن پڑھنے کیوں نہیں جا رہی تو اس نے ایسا عذر پیش کیا کہ تو میں بے اختیارچیخ اٹھا کہ پہلے 8 مارچ کا دن منا نا پہلے اگر اختیاری تھا تو آج لازمی ہے۔ ہم نہیں تو کون آج نہیں تو کب۔
8 مارچ اُن عورتوں کے لیے منانا ضروری ہے جو گھروں میں عمر قید قیدیوں کے طرح مسلسل بند رہنے کی وجہ سے ہڈیوں کے امراض میں مبتلا ہو کر ساری زندگی محتاجی کی لعنت میں گزار کر موت کے لیے دعا کرتی رہتی ہیں۔میری اپنے رشتے دار شہزادیاں بستر پر موت کے لیے دعا کر رہی ہیں۔ 8 مارچ اس لیے مناتے ہیں کہ عورت ذات صرف بہن یا بیٹی نہیں بلکہ خود ایک جیتی جاگتی انسان ہے۔ اس کی الگ شناخت ہے ۔
حقوق نسواں والوں کے بہت آسان اور سادہ مطالبے ہیں :
1۔ عورت کو معاشرے میں جائز حقوق دیے جائیں
2- برتری نہیں بلکہ برابری
3۔ تعلیم ملازمت مساوی حقوق کے لیے جدوجہد ( دیہی علاقوں میں عورت تعلیم کا کوئی تصور نہیں )
4۔ پسند کی شادی کو جرم تصور کرنے اور کاروکاری کی قبیح رسومات کا خاتمہ کرنا۔
5۔پبلک مقامات پر حراساں نہیں اور ہمارے پیسوں سے بنے ہوئے سٹرک پر گھومنے کی آزادی چاہیے۔

جب ایک عورت اپنے منہ میں زبان لے کے نکلتی ہے تو ہمارے ریت کے بنے ہوئے قلعوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں جب کہ ہم عورت کو صنف انسان نہیں صنف نازک سمجھتے ہیں۔ حالانکہ حالیہ کرونا وبا کے دوران 70 فیصد ورکر عورتیں تھیںاور ہم مردوں کو اپنے جان کے ایسی لالے پڑے تھے کہیں اس کرہ ارض سے نا پید نہ ہوجائیں۔ منافقت کی انتہا دیکھیں جب کوئی مصیبت ہو تو عورتیں فرنٹ لائین آف ڈفینس ، مگر حقوق اور مساوات کے حوالے سے عورت کی گاڑی مسلسل ریورس گیر میں جا رہی ہے۔
بعض لوگ ان کو کبھی کبھار کسی شادی یا فوتگی پر لے جاتے ہیں تو ان کو ایسے مسخر اپن طریقے سے بٹھاتے ہیں جیسے کوئی ایلین کرہ انسانیت کے مختصر دورہ پر آیا ہو۔ یہ وقت ہے کہ گھڑی کلاک وائز حرکت کرے اگر واقعی ہم اپنے سیارہ زمین کو خوش و خوشحال رکھنا چاہتے ہیں ۔ ہم عورت کی ذہانت اور قابلیت سے فائدہ نہیں لے رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب ایک عورت اپنے لاڈلے کے تربیت کی ذمہ داری اٹھاتی ہے تو اس انداز سے کہ کوئی بھی قابلیت بغیر پالش کے نہ رہے سکے گی۔
مسئلہ یہ ہے کہ اگر عوت کو زراعت سے نکال دیا جائے تو بقول ڈاکٹر شمع اسحاق ہم ایک چنک گندم تیار نہیں کر سکتے اور تقی صاحب کہتا ہے کہ گرم علاقوں کے مرد خود درخت کے سائے میں بیٹھ کر تاش کھیلتے ہیں عورت بے چاری سارا دن کھیتوں میں کام کرکے بھی ان کے ناز و نخرے اٹھاتی ہیں۔ اینتینو گوتریس یو این کے جنرل سیکریٹری نے کہا ہے کہ ہم موسمی تبدیلی پر قابو نہیں پا سکتے جب تک ہم جینڈر ایکوٹیلٹی پر قابو نہ پا لیں ۔
ایک عورت اپنے خواب اس لیے پورا نہیں کر سکتی کہ وہ عورت ہے۔ اس نے پورے راج کی لاج رکھنی ہوتی ہے۔ جب کہ اسے حق میراث سے محروم کیا جاتاہے بڑے معصومانہ انداز میں بولا جاتا ہے“۔تم بنائی گئی ہو دوسروں کے گھر آباد کرنے کے لیے ۔
اوشو جو ایک پر اثر لکھاری اور فلاسفر تھا اس کے بقول عورت کو ہم نے بچے پیدا کرنے والے فیکٹری اور پراسیسنگ پلانٹ سمجھا ہے۔ حالانکہ ہر اس میدان میں عورت نے مرد کو مات دی ہے جس میں مکمل آزادی کے ساتھ عورت کو مقابلے کا موقع میسر ہو ۔چاہے وہ سیاست ہو یا وکالت ،کھیل ہو یا کھلاڑی یا خدمت ۔ مختصر اَ عورت ہر میدان میں مرد کے نہ صرف شانہ بشانہ بلکہ ایک قدم آگے ہوتی ہیں۔ پھر وہی بات بشرطیکہ انہیں صنف نازک سے نکال کر برابری کی صف میں کام کا موقع دیا جائے۔
ہم ان کے لیے سال میں ایک دن مقرر کرنے میں شش و پنچ کا شکار ہیں۔ جبکہ وہ ہمارے لیے پورا سال بلکہ پوری زندگی وقف کرتی ہے۔ میں ملالہ یوسفزئی کا انٹریو دیکھ رہا تھا ۔وہ کہہ رہی تھی کہ وہ کبھی یہ توقع نہیں کر سکتی تھی کہ میں وہ سب کچھ کر لو نگی جو میں چاہ رہی ہوں۔
حال ہی کا واقعہ ہے کہ پنجاب میں ایک سنگ دل باپ نے نومولود بچی کو اس لیے نشانہ بنایا کہ اسے لڑکی نہیں چاہیے تھی ۔ہم بچی کو اس لیے بھی نہیں مارتے کہ وہ بڑی ہو جائے تو اسے بیچ دیتے ہیں کہیں ولور کہیں لب کی صورت میں۔ قصہ مختصر عورت تحریک کے مقاصد:
1۔ سرمایہ دارانہ نظا م کا خاتمہ
2۔ برتری نہیں برابری
3۔ انسانیت جگانا
ہم عورت کو عزت دیں تو وہ ہمیں عزت دے گی دونوں مل کر گھر چلائیں تو گھر جنت سے کم نہیں لگے گا۔

ماہتاک سنگت کوئٹہ

0Shares
[sharethis-inline-buttons]

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*