میں جاوید صدیقی کو نہیں جانتا تھا۔ اب بھی افسانوں کی ایک کتاب جتنا ہی جان پایا ہوں یا شاید جاننے کی کوشش کی ہے ۔ فن سے فن کار کے خدوخال ابھرنا اگر چہ لازمی تو نہیں پھر بھی کچھ نہ کچھ نقوش ابھر آتے ہیں۔
اگر کسی لکھنے والے کی شخصیت کی ایک سے زیادہ جہات ہوں اور جدا جدا شعبوں اور لوگوں سے ربط رہتا ہو تو یہ چیز اس کی تخلیقات کو رنگا رنگی عطا کرتی ہے ، اور اس کا فن جدا گانہ انداز لیے نظر آتا ہے ۔
بعض اوقات خیال آتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے کہ جو کسی خاص تہذیب اور زمان و مکاں میں لکھی گئی کہانیوں کو ایک مختلف تہذیب اور زمان و مکاں میں سانس لینے والوں کے دل کے قریب کردیتی ہے ۔ اس سوال کا جواب ہے کہ یہ وہ چیز ہے کہ جسے فیض صاحب نے ”درد کا رشتہ “ کہا تھا ۔
جاوید صدیقی صاحب کی یہ کہانیاں اگر مٹھی بھرہیں تو پھر یہ مٹھی دیوہیکل ہے ۔ ان کے موضوعات جدا جدا ، اور مختلف پرتیں لیے ہوئے ہیں۔ کہیں کہیں ایک دوسرے سے اجنبی بھی ، لیکن ان سب میں انسان دوستی وہ یکساں جذبہ ہے کہ جو ان تمام کہانیوں کو ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہے ۔ ان کہانیوں میں جہاں نوعمری کے عشق کے نشے کو ساعتِ واپسیں تک طاری رکھنے کا جنون ہے تو ساتھ ساتھ ہرجائی پن ، نفسیاتی مسائل ، نظریے کے لیے جیون تیاگ دینا ، مفاد کے لیے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنا اور دیگر پہلو شامل ہیں۔
ان افسانوں یا کہانیوں کی ایک اہم خاصیت کہانی پن ہے ۔ واقعات کا سادہ و پرکار اظہار ۔ انسان کے محسوسات ، مجبوریوں ، چالاکیوں ، چالبازیوں ، اخلاص ، مروت اور ہر طرح کے جذبوں سے شناسائی ہی وہ کچھ لکھواتی ہے کہ سب سچ نظر آئے ۔ ایسا لگے کہ شپ کچھ واقعتا ہوا ہوگا ( اور ہوا بھی ہوگا) ۔ کرافٹسمین شپ کوئی عیب نہیں بلکہ ہنر ہے لیکن بے روح کہانیوں کو سجانے کے لیے آرائش کے نامناسب استعمال سے جی او بنے لگتا ہے۔ ساختیات ، پس ساختیات ، ماڈرنزم ، پوسٹ ماڈرنزم، پوسٹ ۔ پوسٹ ماڈر نززم اور نہ جانے کیا الم غلم ۔ اس کے مقابلے میں مواد کے اعتبار سے مضبوط افسانے دامن خیال کو مقناطیس کی طرح کھینچتے ہیں اور ان میں آرائش بھی ہو تو جمال خیال دو چند ہوجاتا ہے ۔ جیسا کہ ”مٹھی بھرکہانیاں“ میں ہوا ہے۔
مجموعے کی پہلی کہانی” چاہنے والے “ ایک ایسے موضوع پر ہے کہ جو آج کے عہد میں (خصوصاً کچھ طبقات میں ) اجنبی یا آﺅٹ ڈیٹڈ سالگ سکتا ہے ۔ ڈیٹنگ لو اِن ، بریک اپ وغیرہ کی ٹیوشن میں مصروف میڈیا کو یہ بات عجیب تو لگے گی کہ ایک خوبصورت تعلیم یافتہ اور امیر کبیر باپ کی اکلوتی بیٹی ایک جنسی نامرد کے لیے اپنی پوری زندگی تیاگ دیتی ہے ۔ اپنی خوشی سے ۔ کوئی شکایت کیے بغیر۔
دوسری کہانی” چھوٹا بابو، بڑا بابو“ ہمارے دور کے ایک مہلک ناسور دہشت گردی کے بارے میں ہے ۔ اس عذاب کا ایندھن فراہم کرنے میں بڑا کردار معاشی اور سماجی محرومیوں کا بھی ہے ۔ اس کھیل کے انتظام کار لوگ ، محروم طبقات کے لوگوں ، خصوصاً نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں کو طرح طرح کے جال ڈال کر دہشت گردی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پیسے کا لالچ ، نوکری کا لالچ، نشے کی لت، جنت کی بشارت ، اور حور و غلمان کا منتظر ہونا ، نوجوانوں سے کچھ بھی کروا لیتا ہے ۔ اس افسانے میں منظر نگاری بہت باریک مشاہدے کے ساتھ ہوئی ہے ۔ مثلاً
” بابو نے مٹکی میں مگ ڈال کر پانی نکالا، کچھ پیا باقی سر پر ڈال لیا۔ پیسے میں بھیگا ہوا کرتہ تکیے کے پاس رکھا اور بنیان کو پیٹ کے اوپر چڑھا کے چٹائی پر لیٹ گیا“
” جھل جھل سفید شلوار کرتے پر کالی واسکٹ ، آنکھوں پر سنہری فریم کا چشمہ ، سرپر گول ٹوپی اور کندھوں پر چار خانوں کا رومال اس رات بڑے بابو کے خواب میں سنہری فریم کے چشمے اور کالی واسکٹ ناچتے رہے “۔
”اسے لگتا کہ وہ ریت کا بنا ہوا ہے اور ایک دم سے بکھر گیا ہو۔ آنکھوں میں ایک عجیب سی تھکن تھی۔ جیسے سونا چاہتی ہوں مگر سونہ سکتی ہوں“۔
” برسوں کی پیاسی زمین سے سوندھی مٹی کا جھونکا اس طرح اٹھا جیسے مٹی نے ایک لمبی ٹھنڈی سانس لی ہو“۔
افسانہ ”شب“ ایک مکمل رومانی کہانی ہے ۔ ایک طویل کہانی جس میں کوئی جھول نہیں۔ جو قاری کو آخر تک اپنے ساتھ باندھے رکھتی ہے ۔ دور نہیں جانے دیتی ۔ کہیں دبی دبی سی محبت ، کہیں واشگاف اظہار،شوخی ، شرارت، مستی ، شیرینی ، کسیلا پن، طبقاتی مجبوریاں، قربانی کی خواہش اور شدید رویوں بھری کہانی۔
”وہی کا جل سے بھری ہوئی بڑی بڑی آنکھیں جنہیں دیکھ کر ڈر لگتا تھا کہ کہیں نظر نہ لگ جائے ۔ وہ ہی ادھ کھلے ہونٹ جیسے ہنسی آتے آتے رک گئی ہو۔۔۔ وہ اس ادا سے میرے سامنے کھڑی تھی کہ جسے دیکھ کر نبض تیز ہوجایا کرتی تھی“۔
”چھپکلی کی طرح پتلی، بانس کی طرح لمبی، اور زبان اتنی تیز کہ بلیڈ بھی شرما جائے “۔
”پھر ملو گی میں یہاں چار دن اور ٹہروں گا ۔ ”نہیں “ اس نے کہا اور سڑک پار کر کے ان ہزاروں لوگوں کی بھیڑ میں گم ہوگئی جو پتہ نہیں آرہے تھے یا جارہے تھے “۔
”ماٹی کہے کمہار سے ‘ ‘ ”شب“ کے مقابلے میں بہ یک وقت وفا اور بے وفائی کی کہانی ہے ۔ مرکزی کردار روی ہے کہ جو گاﺅں میںموجود اپنی پہلی بیوی کو مسلسل نظر انداز کیے ہوئے ہے اور وہ ہے کہ اس کے نام کی مالا جپتی رہتی ہے ۔دوسری طرف اس کی دوسری بیوی ہے کہ جو بمبئی کی پروردہ ہے اور روشنی میں ہے ۔ کہانی کا اختتام بہت مثبت ہے ۔ جو تعلیم اور خاص کر عورت کی تعلیم کی اہمیت جتاتا ہے ۔
”میں ان لوگوں کو اکثر پہچاننا سکھاﺅں گی کیوں کہ وہ جو اکثر نہیں پہچانتے ، ناخود کو پہچانتے ہیں نہ اپنے ادھی کار کو“
تعلیم اپنا حق پہنچاننا اور مانگنا سکھاتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر غاصب ہر وحشی، عورت کی تعلیم کے خلاف ہوتا ہے۔ افسانہ ” رونے والا کتا“ دو پیغام دیتا ہے ۔ پہلا یہ کہ انسانوں کے گروہوں کے درمیان فساد عموماً کچھ مفاد پرست پھیلاتے ہیں ۔ کیونکہ اسی فساد کے نتیجے میں وہ صورت حال جنم لیتی ہے کہ جو اُن کی سیاست کو چمکا کر انہیں اقتدار میں لاتی ہے۔ دوسرا پیغام یہ ہے کہ اس تو ہم کے کار خانے میں ہمیشہ وہ نہیں ہوتا کہ جو اعتبار کیا۔
” سب راج نیتی ہے بھیا ۔ راج نیتی ۔ پہلے خون خرابہ کراتے ہیں ۔ پھر آنسو پونچھنے کو آجاتے ہیں ۔ اور کان میں کہتے ہیں کہ ووٹ ہم کو دینا ۔ ہم نے تمہارے آنسو پونچھے ہیں“۔
اس کہانی کا ایک اور متوجہ کرنے والا پہلو ، لکھاری کا مشاہدہ اور افتاد گانِ خاک کو قریب سے جاننا ہے ۔
” نور محمد کے پاس دکان میں سونے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔۔۔۔ اس نے کارڈ بورڈ کے ڈبوں میں جھانک کر دیکھا ۔پرانے سوئچ بورڈ ، وائر کے بنڈل ، کیبل کے ٹکڑے، زنگ لگے ہوئے ہولڈر ، ٹوٹے ہوئے پلاسٹک کے لمپ شیڈز ، اور نہ جانے کیا الم غلم بھرا ہوا تھا“۔ اس کے علاوہ مناظر کو بیان کرتے خوبصورت جملے ملیں گے ۔
“ڈھائی تین لاکھ کی آبادی والے چھوٹے سے شہر کی زندگی اس اونگھتے ہوئے بچے کی طرح تھی جو باپ کی انگلی تھامے چپ چاپ چلتا رہتا ہے “۔
”ہرے جنگل کے بیچ کسی سر کی مانگ کی طرح لمبی سیدھی سڑک چمک رہی تھی۔ مندا کنی کی شیشے جیسی لہروں میں سورج ناچ رہے تھے “۔
جاوید صدیقی کی کہانیوں کے بہت سے کردار ایسے لگتے ہیں کہ جیسے کہیں اساطیر سے نکل کر آگئے ہوں ۔ ان کے افسانے ، کیسریا بالم“کا کردار بلکہ خوشبودار کردار، راجہ ہرش وردھن سنگھ آف گجیندر گڑھ عرف راجہ حیدر علی خان اسی نوع کا کردار ہے ۔ ناقابل یقین۔ ناقابل فراموش ۔ یہ افسانہ اس بازار سے متعلق ہے کہ جس کے کرداروں کے بارے میں لکھ لکھ کر سعادت حسن منٹو نے اپنی مختصر سی زندگی پھونک ڈالی ۔ وہ بازار کہ جہاں انسان کی زر پرستی، مطلب پرستی، موقع پرستی والی فطرت پوری طرح ننگی ہو کر سامنے آتی ہے ۔ یہاں آنے والے ”شرفائ“بھی نیچ اور غلیظ ہوتے ہیں لیکن راجہ حیدر علی جیسا والی ریاست یہاں کی ایک ایسی عورت کے لیے سب کچھ لٹا کر فقیری اختیار کر لیتا ہے کہ جو ایک مرحلے پر بہت عرصے تک اس کی دسترس میں ہونے کے باوجود پوری طرح اس کی نہیں ہوپاتی ۔
”پیٹ سے زیادہ کاسمو پولٹین جگہ اور کوئی نہیں ہوسکتی وہاں پہنچ کر سب ایک ہوجاتے ہیں“۔
” ان کی ہنسی بھی عجیب تھی ۔ ہونٹ پھیل جاتے ، آنکھیں چھوٹی ہوکر تقریباً بند ہوجاتیں اور جسم دوچار جھٹکے اس طرح لیتا جیسے گلے میں کچھ اٹک گیا ہو“
” پوچھا یہ کس کا گھر ہے ۔ فرمایا ، جس کے وجود سے خوشبو آتی ہے “
”گانے والیوں پر بُرا وقت آیا۔ انگریزوں نے انہیں جسم فروش قرار دے کر لائسنس لینے اور چھاتی پر نمبر گودنے کا سلسلہ شروع کیا“
”حلو دیوانی“ ہوشمندوں کے سبب دیوانگی پروان چڑھنے کی کہانی ہے ۔ حلّو وہ عورت ہے کہ جس نے ایک ایسے گھر میں آنکھ کھولی کہ جہاں ضرورت کی چھت ہوتی ہے ، بھوک کی دیواریں اور مجبوری کا مضبوط دروازہ کہ جو کبھی نہیں کھلتا۔ پہلے اس کا باپ مرتا ہے اور پھر ماں ، حلو دیوانی بن کر محلے کی گلیوں میں پھرتی ہے ۔ پھر محلے کے ایک نیک دل مولوی صاحب اور دوسرے محلے دار مِل کر حلو کی شادی کروا دیتے ہیں۔ لیکن شادی کے بعد ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ حلو پھر سے دیوانگی کا نقاب اوڑھ لیتی ہے ۔
”کامریڈ کی شادی“ ایک گھمبیر تا لیے ہوئے ماحول کا ہلکے پھلکے انداز میں بیان ہے ۔ کامریڈز کو بتایا گیا ہے کہ اگر چہ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا لیکن محبت اور شادی بھی وجود رکھتے ہیں۔
”لینن نے کہا تھا کہ یہاں انقلاب آئے گا لیکن گولی سے نہیں“
”کامریڈ ! غلام ہندوستان سے آزاد ہندوستان اور آزاد ہندوستان سے سوشلسٹ ہندوستان کا سفر الگ الگ راستوں سے طے ہورہا ہے “۔
”اب تم بالکل دھرم پتنی لگ رہی ہو کامریڈ“
نور جہاں کچھ شرمائی اور بولی
”تھینک یو کامریڈ پتی دیو“
کہانی ”دلبر جانی“ خالصتاً بالی وڈ کی کہانی ہے ۔ فلمی کہانی کی اصطلاح اگر چہ معاشرے میں معنی خیز انداز میں استعمال ہوتی ہے لیکن زندگی کا تجربہ بتاتا ہے کہ جن کہانیوں کو ہم فلمی کہانیاں کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں حقیقی دنیا میں ان سے زیادہ ناقابل یقین کہانیاں جنم لیتی ہیں۔”دلبر جانی میں“ ایک چلتر ، چالاک ، مکار اداکار نام آور فلم ڈائریکٹر ، ایک ساہوکار اور انڈر ورلڈ کے رشتے ناطوں کو بیان کیا گیا ہے ۔
”مہرو“ کے عنوان سے جو افسانہ تحریر کیا گیا ہے وہ اگر چہ کثیر ”پہلو ہے تاہم اس میں بنیادی بات لوگوں کی زندگیوں پر برصغیر کی تقسیم کے اثرات کی ہے ۔ کہانی کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ انسان اگر چاہیں تو مذہب ، رنگ ، نسل کے فرق کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ جیون بتا سکتے ہیں ۔
”آم کے لمبے پتوں والی شاخوں نے آگے آکر قبر اور سمادھی پر سائبان سابنا دیا ہے ۔ جن میں سے سورج کی چاندی کے چھوٹے بڑے ٹکڑے گرتے رہتے ، ہیں“۔
” ابا جان ذرا الگ ہی قسم کے بزرگ تھے ہنسنے، مسکرانے اور خوش رہنے یا خوش رکھنے سے اُس طرح بچتے تھے جیسے نیک مسلمان کتوں سے بچتے ہیں“۔
”بے حد د لآویز مسکراہٹ کہ جسے دیکھ کر ڈر لگتا تھا کہ کہیں ہونٹوں سے نہ گر پڑے“
”گڑ مبا“ افسانہ مزاحیہ انداز لیے ہوئے ہے ۔زندگی کی چھوٹی بڑی سچائیوں کو ہلکے پھلکے انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ مجموعے کے باقی افسانوں کے برعکس ہنسی ہنسی میں زندگی کو ہنسی خوشی برداشت کرنے کا سبق دیا گیا ہے ۔ سچ پوچھیے تو مشتاق احمد یوسفی یاد آنے لگے۔
” جھانسی کی رہنے والی تھیں ۔ اس لیے تیور بھی رانی جھانسی والے تھے “
” میں نے انہیں کبھی کچھ دیتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے دعاﺅں کے “
”کتا کتنی ہی اچھی نسل کا نہ ہو کھمبا سونگھنا نہیں چھوڑتا “
” زندگی وہی اچھی ہوتی ہے جس میں سب کچھ ہو ۔ جس میں گڑ کی مٹھاس کے ساتھ کیری کی کھٹاس بھی ہو“
”موگرا“ اس مجموعے کا آخری افسانہ یا طویل کہانی ہے ۔ ایسا افسانہ جس نے دیر تک مجھے اپنے سحر میں جکڑے رکھا اور شاید دیر تک جکڑے رکھے ۔ اس کہانی کو پڑھتے ہوئے ذہن بار بار افسانہ، حقیقت ، افسانہ ، حقیقت کی گردان کرتا رہا ۔ اس افسانے میں افسانہ نگار کا فن اپنے کمال کو چھوتا نظر آتا ہے ۔ تو ہم پرستی، جہالت ،بے وقوفی ، کھٹور پن کے بارے میں لکھا گیا یہ افسانہ طلسمی فضا لیے ہوئے ہے ۔ گاہے گماں ، گاہے یقیں ۔ کردار پراسراریت سے مادی وجود کی سمت آتے ہوئے یہ بتاتے ہوئے کہ انسان انسان پر کیسے کیسے ظلم ڈھاتا ہے اور ظلم ڈھانے کے کیسے جواز ڈھونڈ لیتا ہے ، کسی کو چڑیل ڈائن قرار دے کر ، رنگ کو بنیاد بنا کر۔ نسل کو بنیاد بنا کر، مذہب اور فرقے کو بنیاد بنا کر ، مرکزی کردار کہانی کو خود کلامی کے انداز میں بیان کرتے ہوئے آہستہ آہستہ دوسرے کرداروں کا تعارف کرواتا ہے اور اپنا بھی۔ بہت آہستگی سے کیوں کیا اور کیسے کے بھید کھلتے ہیں۔
”موگرا“ کے چند اقتباسات دیکھیں۔
” آج چیت کی چودھویں ہے ۔ چاند شام ہی سے نکل آیا ہے ۔ ابھی سفید ہے ۔ جیسے کاغذ کا ٹکڑ ا ۔ جس پر کسی نے کچھ نہ لکھا ہو“۔
”ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسا مقام ہو۔ وقت کا کوئی موڑ ہو جہاں سے ہم واپس مڑ جاتے ہوں اور ہمیں پتہ ہی نہ چلتا ہو کہ زندگی نے کب U.Turnمار دیا اور پھر اسی سمت میں واپس چل پڑی ہو جدھر سے آرہی تھی۔
”زمین پر جگہ جگہ دھوپ کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے “
”یہ جپسی لوگوں کی پر مپرا ہے کہ جب آگے جاتے ہیں تو چولہا توڑ دیتے ہیں اور موگرا کی نانی بھی توجپسی تھی “
” انتظار کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں سیکھنا پڑتا ہے ۔ جو لوگ ستار بجاتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ انتظار کیسے سیکھا جاتا ہے ۔ جب انگلی تار پر گھستے گھستے خون دینے لگے ، پھر خون جم کر پتھر بن جائے اور پھر ہیرے کی طرح چمکنے لگے تب انگلیاں بولنے لگتی ہیں اور ستار سنگت کرتا ہے “۔
ماہتاک سنگت کوئٹہ