کیچ ڈیکلریشن

تربت (کیچ ) کی ساری سیاسی پارٹیاں ، ادبی و سماجی تنظیمیں اور متحرک شخصیات بلوچستان اکیڈمی کی مدد کے لیے تیار ہوگئیں جس کے پلیٹ فارم سے عطا شاد لٹریری فسٹیول منعقد ہونا تھا۔یہ تین روزہ فسٹیول بلوچستان میں بہت وجوہات کی بنا پر ایک سنگِ میل بنا۔ یہ فیسٹیول نہ صرف کیچ ضلع یا ڈویژن کی سطح پہ اہم تھا بلکہ یہ بلوچ اور بلوچستان کے لیے اس بڑے پیمانے کا اولین اور شاندار اقدام تھا۔
یہ فیسٹیول اس لحاظ سے تو عظیم ترین تھا کہ اس کی ساری کاروائی بلوچی زبان میں تھی۔ ساری ڈسکشن ، اناﺅنسمنٹ، سوال و جواب اور کمنٹس بلوچی زبان میں تھے ۔ تین دن تک بیس کے قریب سیشنز میں بلوچی نہ جاننے والے ایک آدھ مقرر کے علاوہ ساری کارروائی بلوچوں کی اپنی بڑی قومی اور مادری زبان میں تھی۔ قابلِ رشک تھی یہ بات ۔
مشاعرہ اور دیگر کئی سیشنز میں جدید ادب تو تھا ہی مگر یہاں بلوچی کی قدیم اور کلاسیکل شاعری کے لیے ایک پوری شام وقف کی گئی تھی جہاں روایتی گلوکار ”پہلوان“ سریندا اور دمبیر و نامی موسیقی کے ساتھ روایتی طرز پہ رات گئے تک گاتے رہے۔
یہ فیسٹیول 13فروری سے 15فروری تک چلا ۔
جو سب سے پہلا تاثر ملا وہ یہ تھا کہ بلوچ تاریخ میں پہلی بار مکران سیاسی، ثقافتی اور ادبی میدانوں میں لیڈر شپ رول ادا کرنے پر تیار ہے۔ اور یہ انتہائی مثبت بات ہے ۔ بلوچ قوم کی قیادت بالخصوص ماہی گیری ، کھجور کاشت کاری اور ان کی صنعت سے وابستہ مزدوروں کے شعور یافتہ بیٹوں بیٹیوں ہی کو کرنی چاہیے۔ یہ بچے اپنی تاریخ کو Ownکرتے ملے ، بلوچ مائتھالوجی کو اپنا مانتے نظر آئے ، انقلابی اور پراگریسو سیاست کے تقاضوں پہ پورا اترنے کی کوششوں میں سخت محنت کرتے نظر آئے ۔ میں نے ادبی میدان میں انہیں درست سمت گھڑ سواری کرتے دیکھا۔ وہاں آرٹ کے سارے شعبوں میں عالمی لیول کی تخلیقات کی گواہی اب میں اعتماد کے ساتھ دے سکتا ہوں۔
مکران میں بلوچ سیاسی ورثے نے تعلیم اور تعلیمی اداروں کو شاندار بنانے میں جو کردار ادا کیا وہ میں نے ایک ایک قدم پہ محسوس کیا ۔ میں نے ہر فرد کو لاف زنی ، بلند بانگی، تاریخ پرستی اور شاونزم کے خلاف خود سے لڑتے دیکھا۔ دلیل، ریفرنس اور ثبوت مانگتا اور دیتا معاشرہ جس خوبصورتی سے پنپ رہا تھا، دنگ رہنے کو لے جاتا ہے ۔ کتاب کے لیے بھوک ، مکالمہ کے لیے پیاس، اورعمل کے لیے تیار نئی نسل کی امتیازی بات یہ تھی کہ اس نے بلوچستان کی حکمران کلاس کی مسلط کردہ فیوڈل ثقافت کو پاﺅں تلے رکھا ہوا تھا۔ سائنس اور بالخصوص سوشل سائنسز کے ہر شعبے میں عورتوں کا تناسب بلامبالغہ 50فیصد کے آس پاس تھا ۔
ایک بھی سیشن ، ایک بھی سپیکر ،ایک بھی سوال ، اور ایک بھی کمنٹ رجعتی نہ تھا، کنز رویٹو نہ تھا ۔ روشن فکری کا سرچشمہ علاقہ۔ یہ ایک ایسا فسٹیول تھاجو واقعتا عوامی تھا ۔ اپر مڈل کلاس کے کوئی چونچلے یہاں موجود نہ تھے ۔ ایسا علمی ادبی میلہ جو inclusiveتھا، روادار تھا ، فارورڈ لکنگ تھا ، اور سکالرلی تھا۔
کتابوں کے بے شمار سٹال تھے ، کلچرل اشیا کے سٹال الگ موجود تھے ، روٹی روزگار کے کام میں مصروف بچیاں چائے بیچ رہی تھیں۔ بی ایس او کے ہر گروپ نے بغیر لڑائی دنگے کے جمہوری انداز میں اپنے اپنے الگ سٹال لگا رکھے تھے ۔
کتابوں کی ریکارڈ فروخت ہوئی۔ شاید پاکستان بھر کا ریکارڈ توڑ دیا ہو مکران نے ۔صرف یہ نہیں کہ کتابیں زیادہ بکیں بلکہ اُس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ”اچھی کتابیں“ بکیں۔ یہ واحد و یکتا فسٹیول تھا جس میں دکاندار کو بھی پتہ تھا کہ کونسی کتابیں رکھنی ہیں اور خریدار کو بھی معلوم تھا کہ کونسی کتاب پڑھنی ہے ۔ یقین کرنے کی بات ہے کہ وہاں کوئی چیپ کتاب موجود نہ تھی۔ قدامت پسندی کی طرف کھینچنے والی کوئی کتاب موجود نہیں تھی۔ لچر، غیر سنجیدہ ، بے ہودہ ، لغو اور مبالغہ والی کتاب موجود نہ تھی۔ وہاں روشن فکری اور نظریاتی کتاب ہی بکی، اور ڈھیروں میں بکی ۔ عوامی تاریخ پہ کتاب خوب بکی ۔وہاں آخری شام عوامی کلچر، عوامی تحریکوں اور سائنسی سوچ والی کتابیں ہی آﺅٹ آف سٹاک ہوگئی تھیں۔
عطا شاد کے نام سے منسوب اس فیسٹیول میں عطا کی شخصیت اور اُس کے فن کے مختلف پہلوﺅں پہ سیشن تو تھے ہی ۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ بلوچی زبان، ثقافت ، سیاست ، بلوچ سماجی ساخت و تشکیل اور بلوچ تاریخ پرسکالرز نے مفصل بات کی ۔
اور سچ پوچھیے تو اہم ترین سیشن تو عورتوں کے بارے میں تھا۔ وہاں عورت سکالر ہی میز بان تھی ،پینلسٹ بھی خواتین تھیں۔اور سامعین کی اکثریت بھی عورتیں تھیں۔اور زبان بھی بلوچی تھی۔ بہت ہی معلوماتی ، معروضی اور مدلل گفتگو تھی۔ فخر سے تنا ہوا سینہ کس کو کہتے ہیں آپ ؟۔
شرق و غرب کے بلوچوں کی موجودگی تھی یہاں ۔ ہر جگہ سے آئے سکالرز باہم چائے اور کھانے کے وقفوں میں ، کارروائی کی شروعات سے قبل اور دن کے سیشنز ختم ہونے کے بعد باہمی دلچسپی کے موضوعات پہ نتیجہ خیز مباحث کرتے۔ متفق ہونے کی نیت سے مل بیٹھتے۔ زبان و ادب سے لے کر کلچر اور بلوچ ہسٹری تک، اور سیاست سے لے کر بلوچستان کے مستقبل کے امکانات تک ہر موضوع پہ مشترکات تلاش کی جاتی رہیں۔
فسٹیول میں جو کمزوریاں تھیں وہ وقت ، وسائل ،اور کہیں کہیں تجربے کی کمی کے سبب تھیں۔ مثلاً وہاں سمندری حیات اور ماہی گیروں سے متعلق کوئی ادبی اور علمی سیشن نہیں تھا ۔ کھجور پیدا کرنے والے اس علاقے میں اس فصل سے وابستہ کسانوں کے بارے میں سیشن نہ تھے۔ بلوچستان کے دو اہم ترین شعبوں بلوچ مائتھالوجی اور ، آرکیالوجی کے بارے میں سیشن نہ تھے ۔ فسٹیول کو آڈیو وژوئل سپورٹ میسر نہ تھی ۔
یہ تو ہمیں وہیں احساس ہوگیا کہ ایسا علمی ، ثقافتی اور ادبی فسٹیول وہاں موجود بے شمار تعلیمی وثقافتی اداروں کے ہالوں میں منعقد کرنا ممکن نہ تھا ۔ بلا مبالغہ کوئی سیشن ہزارافراد سے کم کا نہ تھا۔اس قدر بڑی تعداد سوائے ٹینٹ و کنات اور پلاسٹکی کرسیوں کے کہیں سما نہیں سکتی تھی۔
اور شاید ایک اور کمزوری یہ رہی کہ ضرورت کے شدید احساس کے پیش نظر، اور ایک لمبے چوڑے بحث و مباحثے کے باوجود ، اور عمومی اتفاق رائے کے باوجود فسٹیول میں آئے ہوئے سپیکرز اور دانشوروں کا ایک مستقل نیٹ ورک قائم نہ ہوسکا۔
ایک بڑی کامیابی البتہ یہ رہی کہ سپیکرز اور سکالرز کا مرتب کردہ اور تقریباً ایک متفقہ ڈیکلریشن مرتب ہوا۔ یہ نئی روایت اس سے قبل ”گوادر ڈیکلریشن “جاری ہونے کے درجن بھر سالوں بعد سامنے آئی ۔
وہ شاندار ”کیچ ڈیکلریشن“ یوں تھا:

1۔ یہ فیسٹیول ہر سال منعقد کیا جائے گا ۔

2۔ بلوچستان میں آرکیالوجی کے انتہائی اہم رول کے سبب مہرگڑھ میں آرکیالوجی کی ایک الگ یونیورسٹی قائم کی جائے ۔ جس کے کیمپس دیگر آرکیالوجیکل سائٹس کے علاقوں میں کھولے جائیں۔ کالجوں میں بطور سبجیکٹ آرکیالوجی پڑھائی جائے ۔

3۔ دنیا کی کچھ اہم ترین مائتھالوجیکل سائٹس بلوچستان میں واقع ہیں۔ اُن سائٹس کی حفاظت ، اُن کی تشہیر، اور اُن کی سیاحت کے لیے آنے والے لاکھوں ملکی وغیر ملکی سیاحوں /زائرین کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں۔

4۔ سمندر بلوچوں کی روٹی روزگار کا ایک بڑا ذریعہ ہے ۔ بحیرہ ِ بلوچ ہماری شناخت اور افتخار ہے ۔مگرسمندر، سمندری حیات اور ماہی گیری کی صنعت بے انتہا فرسودگی اور تباہ حالی میں ہیں۔ متعلقہ سارے محکموں کے ہیڈ کوارٹرز کی کوئٹہ میں موجود گی کا کوئی جواز نہیں۔ اس لیے یہ ہیڈ کوارٹرز گوادر منتقل کیے جائیں۔

5۔ مچھلی کی قیمتی اقسام بھی پورے خطے کی بہ نسبت بلوچستان میں موجود ہیں۔ اس لیے یہاں ماہی گیری کی صنعت کو ترقی دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ بڑے پیمانے پہ ماہی گیروں کی کشتیوں کو ماڈرن بنایا جائے ۔ ماہی گیروں کی پیداوار کے لیے کولڈ سٹوریج قائم کیے جائیں۔ اہلکاروں کی طرف سے ماہی گیروں کو تنگ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے ۔ ماہی گیر بستیوں میں بنیادی انسانی سہولتیں دی جائیں ۔ اُن کی پیداوار کو حکومت خود خریدے۔ ایکسپورٹ کوالٹی کے لیے ساری ضروری انفراسٹرکچر کراچی کے بجائے یہیں مہیا کیا جائے ۔ کوسٹ گارڈ، نیوی، اور فشریز سے متعلق تمام محکموں کے اعلیٰ عہدوں پہ ماہی گیروں کو تعین کیا جائے۔

6۔ سمندر سے متعلق زبردست آرٹ تخلیق ہورہی ہے ۔ ان آرٹسٹوں کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ انہیں جدید تر سہولتیں دی جائیں۔اور ان کے مالی استحکام کا بندوبست کیا جائے۔

7۔ مکران میں زراعت کا اہم ترین پراڈکٹ کھجور ہے ۔ اس کی پیکنگ اور مارکٹنگ کے انتظامات کیے جائیں ۔ کھجور سے وابستہ صنعت کے کارخانے یہاں لگائے جائیں ۔ کسانوں کو جدید ترین ٹکنالوجی فراہم کی جائے۔

8۔تربت میں قائم پبلک لائبریری کو بند نہ کیا جائے ۔ نئی لائبریریاں کھولنے کی ضرورت والے اس علاقے میں برسوں سے موجود لائبریری کو بند کرنا انتہائی علم مخالفت ہے ۔ اسے فوری طور پر بحال کیا جائے ۔ علاوہ ازیں لائبریریوں میں ریڈنگ روم بنائے جائیں ۔
9۔ مکران شاعروں ،دانشوروں اور مصنفوں کا علاقہ ہے ۔ یہاں سرکاری طور پر ان تخلیق کاروں کے کام کی اشاعت اور مارکیٹنگ کا انتظام کیا جائے ۔ بیمار اور معمر آرٹسٹوں ادیبوں اور تخلیق کاروں کی مدد کے لیے مستقل وظائف دیے جائیں۔

10۔ پڑوسی ایران کے ساتھ تجارت کو وسیع کیا جائے ۔ اس تجارت سے وابستہ رکاوٹوں کو دور کیا جائے ۔ تاکہ سمگلنگ کی ضرورت ہی نہ ہو ۔

11۔ سرحد پہ حکام کے ہتک آمیز اور بشر مخالف رویوں کو ترک کیا جائے ۔

12۔ مختلف شعبوں میں ریسرچ کے لیے یہ بہت امیر علاقہ ہے ۔ اسے فروغ دیا جائے۔ ریسرچ سکالرز کو مطلوب سہولتیں دی جائیں۔

13۔ تعلیم مفت ، سائنسی ، لازمی ،اور مادری زبان میں دی جائے ۔

14۔ بلوچستان میں زندگی کو معمول پر لانے کے لیے آئین اور قانون کے تقاضوں کا احترام لازم ہے ۔ گمشدہ افراد کی برآمدگی اور سیاسی معاملات پر مذاکرات فوری طور پر شروع کیے جائیں۔ سیاسی عمل میں مداخلت بند کر کے لوگوں کے نمائندوں کو آگے آنے کا موقع فراہم ہونا چاہیے ۔

15 ۔ تیز ہوا اور توانا سورج کی موجود قدرتی سہولت سے فائدہ اٹھایا جائے ۔ اور مقامی ضرورت کی ساری بجلی خود پیدا کی جائے ۔

16۔ بلوچستان کے سکولوں میں اساتذہ کی کمی کو دور کیاجائے ۔ جھونپڑی سکولوں کو پختہ عمارتوں میں منتقل کیا جائے ۔

17۔ گوادر یونیورسٹی میں بلوچی ڈیپارٹمنٹ کا موجود نہ ہونا تعلیم کے بارے میں ہمارے حاکموں کے نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے۔ گوادر یونیورسٹی میں بلوچی ڈیپارٹمنٹ فوری طور پر کھولا جائے ۔

18۔ بلوچستان بالخصوص مکران کے نوجوانوں میں منشیات کے استعمال نے ایک وبا کی صورت اختیار کی ہے ۔ اس کے تدارک کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں ۔منشیات کے اڈوں کو ختم کیا جائے اور منشیات کے عادی افراد کے علاج معالجہ کے لیے ٹرسٹ قائم کیے جائیں۔

19۔ بلوچستان امیر کبیر ثقافتی ورثہ کا وارث ہے ۔مگرتربت میں یہ ادارہ برسوں سے زبوں حالی کا شکار ہے ۔ اس محکمہ کی سرگرمیوں میں اضافہ کیا جائے اور بلوچستان کے ثقافتی اداروں کوسہولتوں اور جدید ترین ٹکنالوجی سے لیس کیا جائے۔

20۔ ایئرپورٹ چوک تربت سے سرکٹ ہاﺅس تک کے روڈ کا نام عطاشاد روڈ رکھا جائے۔

21۔ بلوچ عورت اپنے لیے سیاسی سماجی اور معاشی میدانوں میں جو سپیس پیدا کر رہی ہے ، وہ نہایت حوصلہ افزا ہے ۔ یہ من حیث القوم بلوچ کا افتخار ہے ۔ ترقی و ارتقا کی جانب اُس کے اِس سفر میں اس کا ساتھ دیا جائے ۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*