”میرا انگ انگ دُکھ رہا ہے ، میری روح بلبلا رہی ہے ، میرے جسم پر ابھی تک نشان موجود ہیں، گہرے گہرے ، کالے سیاہ نشان! مجھے کوڑے مارے گئے ، کیوں؟ میں نے کیا گناہ کیا تھا؟۔ اپنے ننگ و ناموس کو بچایا ، اس لیے ۔ اپنی عزت داغدار ہونے سے بچائی ، اس لیے !! ۔دو حصے افسروں کے ، دو حصے کامداروں کے ، دو حصے پیر فقیر ۔ اوپر سے تین حصے اٹھا کرلے گیا زمیندار ، رہ گیا ایک حصہ ، اُس کے ہتھیانے کے لیے بھی ناٹک رچا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ سال بھر بیگار لیتے رہے ، وڈیرے کی اوطاق کی صفائی ستھرائی کی ، لکڑیاں پہنچائیں، مارکیٹ تک اناج پہنچایا ۔ اس کے باوجود بھوسہ کا پورا حصہ ملانہ قرضہ میں کچھ کمی ہوئی۔ پھر بھی ہم زہر کا گھونٹ پی کر چپ رہے، جیسے منہ میں زبان ہی نہ ہو۔ جیسے کسی نے بیل کا منہ باندھ دیا ہو۔ لیکن آخر ہم بھی انسان ہیں۔ خون پسینہ ایک کریں گے ، پیٹ پر پتھر باندھیں گے ، روکھی سوکھی پر راضی رہیں گے ، لیکن ، غیرت کا سودا گوارانہ کریں گے، زن اور زمین پر سر بھی قربان ۔ ہر ایک ماں بہن والا ہے ۔ وڈیرہ تو ہمارے لیے مائی باپ ہے ! وہ کس منہ سے ہمارے گھروں پر بری نظر ڈالتا ہے ! وہ تو ہماری پشت پناہ ہے ، وہ کس طرح ہماری عزت پہ ڈاکہ ڈالتا ہے !“
”میری غلطی یہ تھی کہ میں نے وڈیرہ کریم بخش کو کہا کہ وہ میری بیوی کو پیغام ویغام مت بھیجا کرے ۔ ہم بلوچ ہیں اور اس طرح کی باتوں کو ہم کیا جانیں ؟ بس پھر تو قیامت بپا ہوگئی۔ وڈیرے نے اپنے لفنگوں کی رسی کھول دی۔ میری بیوی جہاں جاتی ، وہاں وہ بھی اسے ستانے پہنچ جاتے ۔ وہ کانوں پر ہاتھ رکھے گیت گانے لگتے۔ اسے خواہ مخواہ طعنے دینے لگے ۔ میں نے وڈیرے کی بہت منت سماجت کی، بہت گڑ گڑایا، لیکن اس پر رتی بھر اثر نہیں ہوا۔ او پر سے میرا بیل بھی اس کے اشارے پر چوری ہوگیا۔ میں غریب آدمی ! روزانہ روپیہ ڈیڑھ تو بھاڑے پر اٹھ جاتا ۔ اب ایک بیل سے بھلا کس طرح کام چلتا ۔“
”میں نے کئی مرتبہ اس کے پاﺅں پکڑے ، قرآن مصحف کے واسطے دیے۔ لیکن وہ کہاں باز آنے والا تھا ! مٹکا بھرتے بھرتے ، آخر ایک دن چھلک پڑتا ہے ۔ میرے صبر کا پیالہ بھی لبریز ہوچکا تھا۔ تین دن پہلے کی بات ہے، میں بلم اٹھا کر اس کی اوطاق پر گیا، میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب آریا پار۔ میرا قصور یہ تھا کہ میں نے غصہ میں آکر اسے برا بھلا کہہ دیا۔ لیکن تمہی کہو کہ کیا سچ مچ اس میں میرا دوش تھا؟ آخر میں تو انسان ہوں۔ گھوڑے پر بھی زیادہ بوجھ ڈالا جاتا ہے تو وہ بھی اَڑجاتا ہے ۔ بس پھر تھانہ دار نے ناک میں دم کردیا۔ میری تو کسی نے بھی نہیں سنی۔ گواہ بھی وڈیرے کے ، سرکار بھی وڈیرے کی ، پولیس کو دیا گیا خرچہ بھی وڈیرے کا۔ ہمارا تو بس خدا ہے ! لیکن جب مجھے کوڑے لگے ، تب شاید خدا کو بھی رحم نہیں آیا“۔
صالح کی بات سن کر میرا دل بھر آیا۔ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا، ” وہ وقت دُور نہیں جب زمیندار رہے گا نہ اس کا ظلم ۔ پیالہ بھر چکا ہے ، اب اس کے چھلکنے کی دیر ہے ۔“
صالح مسکرایا۔ ”مٹکا چھلکے گا تو کیا سیلاب لائے گا؟“ ۔صالح اپنے گھر چلا گیا۔ رات کا پچھلا پہر تھا ۔ پورا عمر کوٹ اندھیرے میں ڈوب چکا تھا۔ آسمان پر اُن گنت تارے ٹمٹمارہے تھے ۔ انسان کے دل کے زخم شاید ان تاروں سے بھی زیادہ تھے ، اُس نے جو چوٹیں کھائی تھیں ، جو زخم کھائے اور ستم اٹھائے تھے، ان کا کوئی شمار نہ تھا۔ کروٹیں بدلتے بدلتے میری آنکھ لگ گئی۔
”چیلیں چیختی ہوئی فضا میں اُڑیں ، اندھیرے کی تہیں چَھٹنے لگیں اور پھیکی زرد روشنی پھیلتی چلی گئی ۔ صبح کا وقت پوتر اور پریم بھرا ہوتا ہے ۔ میں گھروںسے کوئی گزبھر فاصلہ پر تھا کہ میرا پاﺅں رَپٹ گیا اور میں دھڑام سے نیچے گرا۔ چور نے بھی اسی وقت کھٹاک سے بلم میری پشت پر دے مارا۔ میری تو جیسے ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔“
صالح پاﺅں کا ٹخنہ دکھانے لگا۔ اس کے ٹخنے کو ہاتھ لگاﺅ تو وہ بلبلا اُٹھتا۔
”میں دنیا میں دو چیزوں پر جی جان سے فدا تھا ، ایک بیوی دوسرا میرا بیل۔ بیل نہیں تھا، پرندہ تھا پرندہ ! جب دوڑ میں دوڑتا تب لوگوں کی انگلیاں دانتوں تلے ہوئی تھیں۔ واہ ڑے پکھی ! جیسے شہابِ ثاقب ! ہوا سے باتیں کرتا جاتا، ہوا سے !۔ مجھے بیوی سے زیادہ بیل عزیز تھا۔ میں نے بیٹی کا رشتہ اور دو سو روپے بھی دیے تھے ، تب یہ بیل مجھے ملا تھا۔ تین مہینے بھی نہیں ہوئے تھے کہ وڈیرے نے دشمنی کا ڈول ڈال دیا اور میرے بیل کے پاﺅں کو رات کے اندھیرے میں ناکارہ کروا دیا۔ بیچارہ معصوم دو مہینے تک لنگڑاتا رہا۔ میں قرضے لے کر ، بھاگ دوڑ کر کے ہی اسے چنگا بھلا کر سکا۔ میں بھوکا پیاسا گزارہ کر لیتا لیکن بیلوں کو روزانہ ایک چھٹا نک مکھن کھلاتا تھا۔ بھئی ! وہ بیل تو نہیں تھا نا!۔ دوڑ میں بھاگتا تو سیکڑوں لوگ اس پر شرطیں بَدتے تھے ۔ ایک آدمی نے تو شرط بد کر اپنی بیوی گنوادی تھی ۔ لیکن آج اس لنگڑے بیل کے باعث میں اپنے پاﺅں سے لنگڑا ہو کر تمہارے سامنے کھڑا ہوں۔ ہاں، میری یہ بات پلے باندھ لو کہ مجھے چوروں کا پتہ چلے اور میں نے بدلہ نہ لیا تو مجھے اپنے باپ کی اولادنہ سمجھنا۔“
صالح روزانہ اپنے پاﺅں کا مساج کراتا رہا، لیکن اسے ٹھیک ہونے میں تین مہینے لگ گئے ۔ اس دوران صالح اپنی بیوی کی نتھ ، چاندی کی چوڑی ، جھمکے ، بالیاں اور کچھ پرانے گہنے بیچ کر خرچہ پورا کرتا رہا، میں ہفتہ ڈیڑھ میں ایک مرتبہ صالح کی مزاج پرسی کرنے جاتا ۔ وہ ہمیشہ یہی بات کہتا کہ مجھے اپنے بیل سے اتنی ہی محبت تھی ، جتنی اپنی بیوی سے ! وہ بیل نہیں تھا ! ۔ زر ، زمین اور زن پر تو سر بھی قربان!!
میں کل ہوٹل میں بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ دُوری پر لوگوں کا ایک ہجوم گزرا۔ وہ کسی کو چار پائی پر اٹھائے جارہے تھے ۔ میں نے دریافت کیا، ” کیا بات ہے ؟“ جواب ملا، ” صالح کو بلموں سے پیٹا گیا ہے اور وہ بے ہوش ہے “۔
میں اس شورو غل سے الگ ہو کر حکیم عبدالغفور کی دُکان پر آگیا ۔ جتنے منہ اتنی باتیں ! بالآخر شاہُو نے مجھے پورا قصہ کہہ سنایا۔ کہنے لگا ، ”کل رات صالح کو پتہ چلا کہ اس کا چوری شدہ بیل فلاں حُر کے پاس ہے ۔ اس نے آگا دیکھا نہ پیچھا ، ایک ہی رات میں جا کر اپنا بیل اڑا لایا اس نے صبح اٹھ کر بیل کو خوب نہلایا دھلایا، اسے مکھن کھلایا، پھر اس کی رسی پکڑے شہر کے گشت کو نکل آیا۔ تمہیں تو شمن موچی کا پتہ ہے ، کس طرح کا منہ پھٹ آدمی ہے ۔ صالح ہوٹل سے گزر رہا تھا کہ شمن موچی نے مجھے کہا ، ”مال مویشی لوٹا نا تو بڑی بات ہے ، لیکن جوان تو وہ ہے جو اپنی بیوی واپس لے آئے ، پر کسی میں غیرت بھی ہونا ؟ بھئی آخری زمانہ ہے ، آخری !!“۔ صالح نے سن کر اُس کی طرف دیکھا تو سہی لیکن سنی اُن سنی کردی ۔ شمن نے بات آگے بڑھائی ، ”واہ ڈیرہ کریم بخش ! کس چیز پر ہاتھ ڈالا ہے تم نے بھی ! بے شک سائیں ! بے شک ۔ زر پھینکو تو عشق اُسی دم۔ ہمارے پاس بھی پیسہ ہو تو ہم بھی وہ حور پریاں لا کر دکھائیں۔۔۔ یہ تو صرف آدم زاد ہے “۔ شمن نے میری طرف دیکھا اور صالح کی طرف آنکھوں سے اشارہ کردیا۔ صالح نے اشارہ ہوتے دیکھ لیا اور زقند لگا کر شمن کی گردن دبوچ لی۔ شمن تو پیدائشی حرامی ہے ، اس نے صالح کو کھری سنا دی: اڑے ! اتنی غیرت تمہیں تب کیوں نہیں آرہی تھی۔ جب تمہاری بیوی وڈیرے کے بغل میں پڑی رہتی تھی ، تم جو یہ تین وہ تک اپنا پاﺅں پکڑے پڑے رہے ، مساج اور علاج کرواتے رہے ۔ کمانے سے تو رہے ، تو تیری بیوی گھر کا خرچہ کہاں سے چلاتی رہی؟“ صالح کا چہرہ پتھر کی مورت بن گیا ، اس نے کہا” سوئر کے بچے ! میری بیوی لکڑیاں بیچتی ،مزدوری پر بوائی کرتی، دو تین گھروں میں چکی پیستی تھی۔۔۔“
”لکڑیاں بیچتی تھی یا اپنا آپ؟ اس کا پتہ ایک منٹ میں لگ جائے گا۔ چل میرے ساتھ ، میری آنکھوں سے چل کر دیکھ لے ۔ “ شمن اسے ڈنل شاہ کے ڈیرے پر لے گیا۔ مسجد کے عقب میں مجاور کا کمرہ تھا جسے ، وڈیرہ خرچہ دیتا اور اس کے کمرے کو اپنے کالے کر توتوں کا اڈہ بنالیا تھا۔ صالح نے راستہ میں ہی خیرو بلوچ کے گھر سے تیز دھار کلہاڑی اٹھائی ۔ چلتے چلتے شمن نے اسے بتایا کہ کس طرح اس کی بیوی اس کمرے میں وڈیرے کے ساتھ ملا کرتی ہے ۔
”بھئی ! وہ بیچاری تو بے بس اور لاچار تھی “شمن نے اس کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا، پہلے تو کئی دن وہ اپنی عزت بچاتی رہی اور وڈیرے کے دام میں نہیں آئی لیکن جب تمہارا پاﺅں زخمی ہوا، تب مارے بھوک کے اس نے یہ کام کیا۔ ویسے تو عورت ذات پر لعنت ہو، لیکن وہ بیچاری بہت حیلے بہانے کرتی رہی کہ بچ جائے ۔ آخر کار کھوپرہ اور کھجور اس نے کھاہی لیے اور معجون کا مزہ چکھ لیا تو عادی بن گئی ۔ تم نے مال (مویشی ، بیل ) کے پیچھے لگ کر زال ( بیوی ) گنوادی۔ بیل کے پیچھے لگتے نہ تمہارا پاﺅں زخمی ہوتا اور نہ ہی تمہاری بیوی خراب ہوتی۔“
صالح نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ دونوں مجاور کے کمرے تک پہنچے ۔ سبحان تیری قدرت کمرے کا دروازہ بند تھا۔ صالح نے دھکا دے کر دروازہ کھولا، اندر گھس گیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی وڈیرے کی بانہوں میں تھی۔ اس نے کلہاڑی سے بیوی کی گردن پر وار کیا اور اس کا سر مولی کی طرح کٹ کر دُور جا گرا۔ صالح نے پھر کلہاڑی بلند کی کہ وڈیرے کو بھی سیاہ کاری کے جرم میں قتل کرے لیکن عقب سے شمن نے بلم کا کاری وار کیا۔ شمن کو صالح سے دشمنی پہلے سے تھی ، پھر وڈیرے کو بھی حساب کتاب دینا تھا ۔ وڈیرہ بچ گیا ۔ صالح بے چارہ نیم مردہ پڑ ا ہوا ہے ۔“
شاہُو بات کرتے ہوئے رو پڑا،” جس نے گناہ کیا وہ تو بچ گیا ، مرگئے صالح اور اس کی بیوی ! اندھیر نگری ہے یہ دنیا ! چوپٹ راج ہے یہاں!!” شاہُو نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا، ”صالح کا بیل بھی وڈیرے کے آدمی چرا کر لے گئے تھے اور اس کا پاﺅں بھی انہوں نے زخمی کیا تھا ۔“
میں اگلے دن حکیم کے پاس صالح کو دیکھنے گیا۔ اس پر کاری وار ہوا تھا ۔ زخم گہرا تھا اور صالح قرب المرگ تھا ۔ اس کے بچنے کی امید نہیں تھی ۔ صالح بہک رہا تھا ، ”میری بیوی کی شادی میرے بیل سے کرو ، بیل مجھے بیوی سے زیادہ عزیز ہے ۔ بیل نہیں وہ تو پرندہ ہے پرندہ!! ۔زر، زمین اور زن پر تو جان بھی قربان۔۔۔ وڈیرے ۔۔۔سوئر کے بچے “
ماہتاک سنگت کوئٹہ