آرزو

اُس کا نام ناصر تھا ۔۔۔۔
اُس کا باپ ایک ادنیٰ ساموچی تھا، جس کی جہالت اور قدامت پسندی کا یہ عالم تھا کہ اُس نے کبھی بھی اپنے خول سے نکل کر نئے دور کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو تعلیم دلانے کی بجائے اپنا ہُنر سکھا کر اپنا جانشین بنانا چاہتا تھا ۔۔۔ لیکن ناصر کی ماں ایک سمجھدار خاتون تھی ۔ اور کسی حد تک نئے دور کے تقاضوں سے باخبر تھی ۔ اس لیے اپنے خاوند کی مرضی کے برخلاف ناصر کو باقاعدہ سکول بھیجاکرتی تھی۔۔۔۔ اُسی کو کوششوں کے نتیجے میں اُس نے پرائمری پاس کر لی۔ لیکن ابھی وہ چھٹی جماعت ہی میں پڑھ رہا تھا ، کہ اُس کی پیاری ماں اُسے داغِ مفارقت دے گئی۔۔۔ اب اِس دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں تھا ، جو اُس کے باپ کی مرضی کے برخلاف ، اُس کی تعلیم جاری رکھوا سکتا ۔۔۔ وہ خود تو صرف دس برس کا کمسن لڑکا تھا۔ ۔۔۔ اُسے تعلیم کا اتنا زیادہ شوق تو تھا نہیں، جو اُسے باپ کی مرضی کے خلاف ترغیب دلا سکتا ، اس لیے وہ اپنے جاہل باپ کے جاہلانہ خیالات اور غلط اِرادوں کا شکار ہوگیا۔ اُس کی مرضی کے مطابق سکول چھوڑ کر کام میں اُس کا ہاتھ بٹانے لگا ۔ اور اکثر غریب گھرانوں کے بچوں کی طرح اُس کا مستقبل بھی تاریکیوں میں ڈوب کر رہ گیا۔
اُس کی زندگی کے لیل و نہار اِسی طرح گزرتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ پندرہ برس کا ہوگیا۔۔
ایک صبح وہ اکیلا کام پر جارہا تھا ۔ ایک پُر رونق شاہراہ سے گزرتے ہوئے اُس کی نگاہ فُت پاتھ پر بیٹھے ہوئے اُس جواں سال پامسٹ پر پڑی، جو کچھ ہی دنوں سے وہاں نظر آرہا تھا۔۔۔۔اُس کے دل میں ازراہِ شغل اپنا ہاتھ دکھانے کا خیال پیدا ہوا۔ ۔۔۔اور دوسرے لمحہ وہ پامسٹ کے سامنے ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔۔۔ پامسٹ نے اُس کی ہتھیلی کی لکیروں کو بغور دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
”نوجوان! تم بڑے خوش نصیب ہو۔ بڑے ہو کر حاکم بنو گے۔۔۔۔“
پامسٹ کے اِن ابتدائی الفاظ ہی نے اُس پر ایسا جادو کیا کہ آگے وہ اور کچھ نہ سُن سکا۔ وہاں سے اُٹھنے کے بعد، اُس پر عجیب سی کیفیت طاری ہورہی تھی۔ اور اُسے ایسا محسوس ہورہا تھا ، جیسے پامسٹ کے الفاظ اُس کے ذہن میں جم کر رہ گئے ہوں۔
”نوجوان! تم بڑے خوش نصیب ہو۔۔۔ بڑے ہو کر حاکم بنو گے۔۔۔“ یہ الفاظ بار بار اُس کے کانوں میں گونج رہے تھے ۔۔۔ اور وہ سوچ رہا تھا۔۔
’کہاں ایک ادنیٰ موچی کا بیٹا اور کہاں حاکمی؟۔
اُس وقت اُس کے نزدیک یہ ایک مضحکہ خیز سی بات تھی۔۔۔۔ سارا دن پامسٹ کے الفاظ اُس کے کانوں میں گونجتے رہے اور وہ مسرت ، اُمید اور تفکر کے ملے جلے جذبات کے تحت خیالات کی انجان اڑانوں میں اُرتا رہا۔۔۔رات کو جب کھانا کھا کے بستر پر لیٹ گیا ، تو وہ الفاظ نیند میں بھی مُخل ہونے لگے ۔ اور وہ ٹھنڈے دل سے غور وخوض کرنے پر مجبور ہوا، اُن الفاظ کے بارے میں ، اُن کے تقاضوں کے بارے میں، اور اپنے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں!۔۔۔ بالآخراُس نے ایک حسین منزل کی طرف بڑھنے کے لیے تعلیم حاصل کرنے کا تہیہ کر ہی لیا۔۔۔
اگلی صبح اُس نے اپنا فیصلہ باپ کے گوش گزار کیا۔ پہلے پہل تو اُس کا باپ اُس کے اِس ننے اِرادے پر متعجب ہوا۔ اور رضامند ہونے میں پس و پیش کرنے لگا۔۔۔ لیکن اب وہ روزانہ باقاعدگی سے سکول جاتا رہا۔ اپنی انتھک محنت کی بدولت ہر جماعت میں امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوتا رہا ۔ میٹرک کے بعد اُس نے کالج میں داخلہ لیا۔
اب اُس کی تعلیم کے ضمن میں باپ کے رویے میں خوشگوار تبدیلی آگئی تھی۔ اور وہ بڑی خوشی کے ساتھ اس کی تعلیم کے اخراجات برداشت کر رہا تھا ، کہ یکا یک حالات نے پلٹا کھایا۔ چند روز کی علالت کے بعد، باپ اسے بے سہارا چھوڑ کر ، ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہو گیا۔ یہ اس کے لئے ایک عظیم سانحہ تھا۔ لیکن صبر وشکر کے سوا اور چارہ ہی کیا تھا؟ وہ دل پر پتھر رکھ کر زندگی کا سفر طے کرتا رہا۔۔۔
باپ کی مفارقت کے بعد ، اسے اخراجات پورے کرنے کے لئے سخت محنت مشقت کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ لیکن وہ اپنی منزل مقصود کی خاطر کسی بھی آزمائش کے لئے تیار تھا۔ اب اس نے اپنے روز مرہ کا معمول یہ بنایا کہ صبح پڑھنے جایا کرتا تھا اور شام کو محنت مزدوری کیا کرتا تھا۔ گریجویشن کرنے کے بعد اس نے یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں داخلہ لیا۔ اور دو سال بعد سیکنڈ ڈویڑن میں ایم اے پاس کر لیا۔ ایم اے کے بعد، پہلے تو اس نے کسی کالج میں لیکچرار کی پوسٹ حاصل کی، اور پھر اپنی پسند کی جگہ رشتہ تلاش کر کے شادی کر لی۔
محکمہ تعلیم کی ملازمت میں آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے وہ پروفیسر بن گیا۔ اور اپنی ذہانت، ہوشیاری اور فرض شناسی کی بدولت کسی ڈگری کالج میں بطور پرنسپل تعینات ہوا۔۔۔
چونکہ وہ ایک دردمند دل کا مالک تھا اور عوام کی خدمت کرنے کا از حد شوقین تھا۔ اس لئے پچیس سال کی ملازمت کے بعد ، اس نے ریٹائر منٹ حاصل کی۔ اور ایک سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر کے، سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے عوام کی خدمت میں مصروف ہو گیا۔
جب ملک میں نئی حکومت کے قیام کے لئے عام انتخابات منعقد ہوئے تو اس نے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر الیکشن لڑا۔ متعلقہ حلقے کے عوام میں ہر دلعزیز ہونے کی بناءپر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوا۔ اور پھر صوبے کا وزیر اعلیٰ منتخب ہو گیا۔
مختلف میدانوں میں ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے اسے پامسٹ اور اس کے الفاظ رہ رہ کر یاد آتے رہتے تھے۔ اس کی بڑی خواہش تھی کہ کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں اس کا محسن اسے مل جائے، تا کہ وہ اسے اپنی کامیابیوں سے آگاہ کر کے اس کی صحیح پیشگوئی کا شکریہ ادا کرے۔
اس شام وہ صوبے کے صدر مقام میں ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہا تھا، کہ اچانک ا±س کی نظر ایک انتہائی سن رسیدہ، مگر تنومند شخص پر پڑی۔۔۔ اس نے غور سے دیکھا۔۔۔ اگر چہ ا±س کے چہرے کی بوڑھی جھریوں نے کافی حد تک ا±س کی شکل کو مسخ کر دیا تھا۔ تا ہم ا±س نے ا±سے پہچان لیا۔
جب وہ واپس وزیر اعلیٰ ہائوس پہنچا، تو وہ شخص اس کے ہمراہ تھا۔ کچھ حیران سا،کچھ پریشان سا۔۔۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھتے ہی وزیر اعلی ناصر نے کہا۔۔۔
”شاید آپ نہیں جانتے کہ آپ کو یہاں تک کس غرض سے ساتھ لایا ہوں!“
وہ سہم گیا۔۔۔اور کچھ ہچکچاتے ہوئے بولا۔
جی۔۔۔ جی نہیں۔۔ تو۔۔”
اور یہ یاد بھی نہ ہو گا کہ مجھے پہلی بار کب اور کہاں دیکھا تھا !
انتخابات کے دوران۔۔۔”
” جی نہیں ، آج سے پورے چالیس برس پہلے۔۔۔‘ ناصر نے جملہ کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔اس کی حیرت اور بڑھ گئی۔ ناصر اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ ان دنوں میں صرف پندرہ برس کا لڑکا تھا۔ میرا باپ ایک غریب آدمی تھا۔ میرے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی ، کہ میں بھی دنیا میں کچھ بن سکوں گا۔۔ لیکن ایک دن آپ نے میرا ہاتھ دیکھ کر کہا تھا۔۔۔
نوجوان ! تم بڑے خوش نصیب ہو۔۔۔ بڑے ہو کر حاکم بنو گے۔۔۔“ آپ کے یہ الفاظ مجھے آج بھی پہلے دن کی طرح یاد ہیں۔ آپ واقعی ایک بہت بڑے پامسٹ ہیں۔ میں آپ کو اس صحیح پیشگوئی کا شکریہ ادا کرنے کی غرض سے ساتھ لایا ہوں۔“ بات پوری کر کے وہ اپنی تمام تر توجہ کے ساتھ مستحسن نگاہوں سے ا±س کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ سر جھکائے کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔ کچھ دیر تک کمرے کی فضا پر مکمل خاموشی چھائی رہی۔ پھر پامسٹ نے اپنا جھکا ہوا سر او پر اٹھایا اور خاموشی کا سحر توڑتے ہوئے کہا۔۔۔
”معاف کیجئے گا ، جہاں تک شکریے کی ادائیگی کا تعلق ہے، تو وہ تو خیر آپ کی اپنی مرضی پر منحصر ہے۔ لیکن آپ یہ سچی بات سن کر یقینا متحیر ہونگے کہ میں پامسٹری سے قطعی ناواقف ہوں۔۔۔ اور اس پر یقین بھی نہیں رکھتا۔“
کیا ؟ وہ متحیر ہو گیا۔ ” اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پامسٹ کوئی اور تھا ؟“
”جی یہ بات نہیں۔۔۔ “وہ نہایت مطمئن لہجے میں کہہ رہا تھا۔ وہ آدمی تو یقینا میں ہی ہوں گا۔۔۔ میرا مطلب یہ ہے کہ میں دراصل پامسٹ نہ اس وقت تھا ، نہ اب ہوں اور نہ ہی پامسٹری پر یقین رکھتا ہوں۔۔۔ بلکہ ان دنوں بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر مجھے مجبوراً جھوٹ موٹ کا پامسٹ بننا پڑا تھا۔۔۔ اور جہاں تک میری پیشگوئی کے درست ثابت ہونے کا تعلق ہے، اس کی وجہ یہ ہو گی کہ میں اپنے مقناطیسی الفاظ کے ذریعے آپ کے دل میں ترقی کی شدید آرزو پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا ہوں گا۔۔۔ اور اس شدید آرزو نے آپ میں ایک شاندار مستقبل کی جانب بڑھنے کے لئے خود اعتمادی، عزم صمیم، بلند ہمتی ، استقلال، اور انتھک محنت کے جو ہر پیدا کئے ہوں گے۔۔۔ اور یہی وہ لاثانی طاقتیں ہیں، جو انسان کو زندگی کی عظیم کامیابیوں سے ہم کنار کر دیا کرتی ہیں۔۔۔“
اور ناصر حیران نظروں سے اپنے سے زیادہ بوڑھے اور جہاندیدہ شخص کے جھریوں بھرے چہرے کو تک رہا تھا۔۔۔!!

ماہتاک سنگت کوئٹہ

0Shares
[sharethis-inline-buttons]

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*