بچھیڑا

سر آگے کیے اور ٹانگیں پھیلائے ہوئے اپنی ماں کے پیٹ سے روشن دھوپ کی دنیا میں گوبر کے ایک ڈھیر کے پاس برآمد ہوا جس پر ہری ہری مکھیوں کے جھنڈ چھائے ہوئے تھے۔ اس دنیا میں اسے پہلا تجربہ ڈر کا ہوا۔ اوپر کہیں تیزی سے پگھلتے ہوئے سرمئی نیلے بادل میں ایک شرپیفل بم پھٹا اور دھماکے کی ایسی زور کی سیٹی بجی کہ نیا نیا جنم لینے والا بھیگا گیلا بچھیڑااپنی ماں کے پاﺅں کے پاس دبک کر رہ گیا ۔ اصطبل کی کھپریل کی چھت پر شر پیفل کی گولیوں کی بدبودار بوچھاڑ کھڑ کھڑاتی ہوئی سنائی دی۔ کچھ گولیاں زمین پر آئیں اور بچھیڑے کی ماں ، تروفیم کی سرنگ گھوڑی اچک کر کھڑی ہوگئی، لیکن ایک کراہ کے ساتھ پھر برکے ڈھیرسے اپنا پسینے میں تر پہلو ٹکا کر پڑ رہی۔
اس کے بعد جو تکلیف دہ خاموشی چھائی اس میں مکھیاں اور زور زور سے بھنبھنانے لگیں۔ ایک مرغے نے جس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ باڑھ پر چڑھ کر توپوں کا سامنا کرے ، جھاڑیوں کی آڑ میں دو ایک بار اپنے پر پھڑ پھڑائے اور پھر جی کھول کر لیکن ذرا ادبی آواز میں بانگ دی ۔ گھر سے ایک زخمی مشین گنر کی رونے کی کراہنے کی آواز آرہی تھی ، کبھی کبھی وہ پھٹی سی چیخ مارتا یا پھر گالیوں کی بوچھاڑ کردیتا۔ سامنے کے چھوٹے سے باغ میں ریشمیں سرخ لالہ پر شہد کی مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ گاﺅں کے اس سرے کی چراگاہ میں ایک مشین گن تڑ تڑ تڑ تڑ چلے جارہی تھی اور اسی کی پرجوش تال پر سرنگ گھوڑی نے گولوںکے دھماکوں کے درمیان وقفے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی مامتا کے ساتھ اپنے پہلے بچے کو چاٹ چوٹ کر صاف کیا۔ بچھیڑے نے اپنی ماں کا بھرا ہوا تھن ڈھونڈ لیا تھا اور پہلی بار اس نے زندگی کے بھرے پرے پن کا اور مامتا کی اتھاہ مٹھاس کا مزہ جانا۔
جب کھلیان کے ادھر ہی دوسرا گولا پھٹا تو تروفیم گھر سے باہر آیا۔ اپنے پیچھے اس نے دروازہ دھڑسے بند کیا اور اصطبل کی طرف چلا۔ گوبر کے ڈھیر کا چکر کاٹتے ہوئے اس نے دھوپ سے بچنے کے لیے اپنی آنکھوں پر ہاتھ کا سایہ کرلیا اور تب اس کی نظر بچھیڑے پر پڑی جو سارا زور لگا کر تھر تھراتے ہوئے اس کی سرنگ گھوڑی کا دودھ چوس رہا تھا۔ تروفیم کی کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ اس نے جیب میں سے ٹٹول کر تمباکو کا بٹوہ نکالا اور کانپتی انگلیوں سے ایک سگریٹ بنائی۔
آخر جب اس کے منہ سے آواز نکلی تو بولا ” تو تم بیاہ دیں ایں؟ اور وقت کیسا چنا ہے اس کا تو کہنا ہی کیا!“ آخری فقرے سے ایسا لگا جیسے اسے اس بات سے بڑی ٹھیس پہنچی ہو۔
گھوڑی بہت ہی شرمناک حد تک دبلی اور کمزور لگ رہی تھی۔ اس کے سوکھے ہوئے پسینے کی وجہ سے کھر درے پہلوﺅں سے گھاس کی پتیاں اور سوکھی لید کے ٹکڑے چپکے ہوئے تھے ۔لیکن آنکھیں بے انتہا تھکی ہونے کے باوجود فخر اور خوشی سے چمک رہی تھیں اور کم سے کم تروفیم کو ایسا لگا جیسے اس کا چکنا اوپری ہونٹ ایک مسکراہٹ میں اچکا ہوا تھا۔ وہ گھوڑی کو اصطبل میں لے گیا اور جب وہ اپنے سرکو جھٹک جھٹک کر اور تو بڑے میں پھنکار پھنکار کر کھانے لگی تو تروفیم چوکھٹ سے ٹک کر کھڑا ہوگیا اور بچھیڑے کو سردہ بے مہری کی نظر سے دیکھتے ہوئے اس نے گھوڑی سے سوال کیا:
”مزے کر لیے نہ؟“
کوئی جواب نہ ملا تو پھر سے بولا: ”ارے کم سے کم اگنات کے گھوڑے سے لگتی ، اب تو شیطان جانے کس کا ہے ۔۔۔ تو اب میں اس کا کیا کروں؟“
اصطبل کی سایہ دار خاموشی میں بس اناج کے چبنے کی آواز آرہی تھی۔ دروازے کی ایک جھری میں سے سورج کی ایک کرن اندر آرہی تھی اور جس چیز پر پڑ رہی تھی اس پر سونا بکھیر رہی تھی۔ تروفیم کے بائیں گال پر پڑی تو اس کی مونچھیں اور کئی دن کی داڑھی دمکتا تانبا بن گئیں اور اس کے دھانے کے گرد کی تاریک شکنیں اور بھی گہری ہوگئیں۔ بچھیڑاوہیں اپنی پتلی روئیں دار ٹانگوں پر بچے کے لکڑی کے کھلونے کی طرح کھڑا تھا۔
”مار دوں اس کو؟“ تروفیم نے اپنی ٹیڑھی تمباکو سے زرد شدہ انگلی بچھیڑے کی طرف اٹھائی۔
گھوڑی نے اپنی لال لال آنکھیں نچائیں، پلکیں جھپکائیں اور مالک کو مذاق اڑانے کے سے انداز میں دیکھا۔

***
اس شام کو تروفیم نے اپنے سکواڈ رن کمانڈر سے بات کی ۔
”میں نے دھیان دیاکہ میری گھوڑی بڑی احتیاط کرنے لگی ہے ، دلکی دوڑتی ہے نہ سر پٹ بھاگتی ہے ۔ ہمیشہ ہانپتی رہتی ہے ۔ تو میں نے اس کو اچھی طرح دیکھا بھالا اور پتہ یہ چلا کہ وہ تو گابھن ہے ۔ اتنی احتیاط کرنے لگی تھی وہ ، اتنی احتیاط کرنے لگی تھی، کمیت ہے ، بچھیڑا۔ تو اب یہ ہے “ ۔تروفیم نے اپنی بات ختم کی۔
سکواڈرن کمانڈر نے اپنا چائے کا تانبے کا مگ اس طرح پکڑ لیا جیسے حملہ کرنے سے پہلے اپنی تلوار کا قبضہ پکڑتا تھا۔ خوابیدہ نظروں سے وہ لیمپ کو دیکھ رہا تھا جہاں شعلے کی زرد زبان کے گرد پتنگے ناچ رہے تھے۔ وہ کھلی کھڑکی میں سے اندر آتے ، ذرا دیر ناچتے اور پھر گرم شیشے سے ٹکرا کر مر جاتے اور ان کی جگہ لینے کے لیے دوسرے پتنگ آجاتے۔
”کمیت ہے یا مشکی ۔۔۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ، سب برابر ہے ۔ گولی مار دو“ سکواڈرن کمانڈر نے کہا۔”بچھیڑے لے کر چلیں گے تو ہم خانہ بدوشوں جیسے ہو جائیں گے۔ کیوں؟ میں تو کہتا ہوں کہ خانہ بدوش جیسے ہوجائیں گے اور مان لو کہ رجمنٹ کا معائنہ کرنے کے لیے کمانڈر آتا ہے اور بچھیڑا تمہارا کدکڑے لگاتا پھرتا ہے ، صف بندی کو خراب کرتا ہے ، تب کیا ہوگا؟ ساری سرخ فوج میں بدنامی ہوگی۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا تروفیم کہ تم نے یہ ہونے کیوں دیا؟ خانہ جنگی چھڑی ہوئی ہے اور اس کے بیچ میں ایسی بدچلنی ! کس قدر شرم کی بات ہے ! سائیسوں کو سخت حکم ہے کہ گھوڑوں کو الگ رکھیں“۔
اگلی صبح کو جب تروفیم اپنی بندوق لے کر باہر آیا تو سورج ابھی نہیں نکلا تھا اور گھاس کی پتیوں پر اوس کی دمک میںگلابی پن تھا۔ چراگاہ پیدل فوجیوں کے بوٹوں سے روند جاتے اور کھائیوں کے جال بچھ جانے سے ایک ایسی جوان لڑکی کے چہرے کی طرح لگ رہی تھی جس پر آنسو بہہ کر سوکھ گئے ہوں اور غم نے شکنیں ڈال دی ہوں۔صحن میں باورچی خانے والے اردلی ناشتہ تیار کر رہے تھے۔ دروازے کے زینے پر سکواڈرن کمانڈر قمیص پہنے بیٹھا تھا جو بار بار پسینے میں تر ہونے اور سوکھنے کی وجہ سے اکڑ گنی تھی ۔ وہ ایک پتلی شاخ سے ایک خوش وضع ڈوئی بنا رہا تھا ۔ اس کے ہاتھ ادھر کچھ دنوں سے ریوالور کا لوہا پکڑنے کے عادی ہوچکے تھے اور اب گھریلو کاموں کی بھلائی ہوئی عادت بھونڈے پن سے یاد آرہی تھی۔
تروفیم نے پاس سے گزرتے ہوئے پوچھا ۔”کیا ڈوئی بنا رہے ہیں؟“
” ارے یہاں جو عورت ہے نہ ، مالکن ، سارے وقت کہتی رہتی ہے ، بنا دو، ڈوئی بنادو!“ سکواڈرن کمانڈر نے ایک ٹہنی کو دستے کے ادھر سے لے جاتے ہوئے کہا۔ ”میں کبھی اس سب میں استاد تھا مگر اب عادت نہیں رہی ، بنتی ہی نہیں“۔
تروفیم نے تعریف کی ”نہیں ، ٹھیک ہے “۔
سکواڈرن کمانڈر نے بچی ہوئی ٹہنیوں کو اپنے گھٹنوں سے جھاڑا اور پوچھا”تم اس بچھیڑے کو مارنے جارہے ہو؟“
تروفیم نے خاموشی سے ہاتھ کا اشارہ کیا اور اصطبل کی طرف چلا گیا۔
سکواڈرن کمانڈر سر نہوڑائے گولی کی آواز کے انتظار میں بیٹھا رہا۔ منٹ پر منٹ گزرتے گئے لیکن گولی کی آواز تو آئی نہیں اور پھر تروفیم اصطبل کے پیچھے سے نکلا، کچھ گھبرایا گھبرایا سا۔
”کیوں ، کیا ہوا؟“
”شاید گھوڑا خراب ہوگیا ہے ، لبلبی دبتی ہی نہیں“۔
”دینا ذرا دیکھوں تو“۔
تروفیم نے بادل ناخواستہ بندوق اسے دے دی۔ سکواڈرن کمانڈر نے کھٹاک سے گھوڑا کھسکایا۔ آنکھیں بھینچ کر اس نے کہا:
”کارتوس تو ہے نہیں اس میں!“
”یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟“ تروفیم ذرا زیادہ جوش میں چونکا۔
”میں کہہ رہا ہوں ، نہیں ہے “۔
”وہ میں نے نکال دیئے تھے ۔۔۔ اصطبل کے پیچھے۔۔۔۔“
سکواڈرن کمانڈر نے بندوق کو رکھ دیا۔ کچھ دیر تک اس نے کچھ نہیں کہا، ٹہنیوں کی بنی ڈوئی پر انگلیاں پھیرتا رہا جسے اس نے ابھی ابھی ختم کیا تھا ۔ تازہ ٹہنیاں خوشبودار تھیں، پھول آئے ہوئے بید مجنوں کی مہک سے اس کی ناک میں سر سری سی ہورہی تھی جو تازہ جتی ہوئی مٹی کی خوشبو کی سی تھی جس کا جنگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں خیال بھی نہ آیا تھا۔
آخر وہ بولا” سنو!۔۔۔۔ شیطان اس کی خبر لے ! جینے دو اسے بھی اپنی ماں کے پاس ہی ۔ ارے یہی عارضی طور پر ۔ ہوسکتا ہے جب لڑائی ختم ہوجائے تو یہ کسی کا ہل ہی چلائے اور رہی کمانڈر کی بات۔۔۔ ۔تو وہ بھی سمجھ لے گا اس لیے کہ دودھ پیتا بچہ تو ہے ۔ کمانڈر نے بھی چونچی پی ہے اور ہم نے بھی پی ہے ۔ اب دستور ہی ایسا ہے تو کوئی کیا کرے اور تمہاری بندوق کا گھوڑا بالکل ٹھیک ہے “۔

***
کوئی ایک مہینے بعد ادست خو پیر سکایا گاﺅںکے پاس تروفیم کے اسکواڈرن کو کزاکوں کی ایک ٹولی سے لڑنا پڑا۔ سہ پہر ڈھل چکی تھی جب جھڑپیں شروع ہوئیں اورجب تک اسکواڈرن نے زور کا دھاوا بولا تب تک دھند لکا ہو چلا تھا۔ تروفیم جلد ہی اپنے دستے سے بہت بچھڑ گیا۔
چابک سے کام چلانہ لگام کھینچنے سے ، گھوڑی کا منہ لہولہان ہوگیا لیکن اسے دھاوے میں نہ شامل ہونا تھا نہ ہوئی۔ اپنی گردن تان کر وہ زور سے ہنہناتی اور گھبراہٹ کے ساتھ اپنے پاﺅں ٹپکتی رہی جب تک بچھیڑااپنی دم لہراتا ہوا کد کڑے لگاتا ہوا آ نہیں گیا۔ غصے میں تروفیم کا منہ اینٹھ گیا تھا۔ وہ زین سے کود پڑا ، اس نے اپنی تلوار نیام میں ڈال لی اور کندھے سے بندوق اتاری۔ گھاٹی کے سرے پر سکواڈرن کا میمنہ دشمن سے جو جھ رہا تھا۔ گھڑ سواروں کے دل یوں آگے پیچھے ہورہے تھے جیسے ہوا انہیں جھنجھوڑ رہی ہو اور ایسی خاموشی میں تلواریں چلا رہے تھے جو صرف گھوڑوں کی ٹاپوں سے ٹوٹتی تھی۔ تروفیم نے مصروفِ پیکار لوگوں کو دیکھا پھر مڑ کر جلدی میں بچھیڑے کے ترشے ہوئے سر پر نشانہ باندھا۔ لیکن جب اس نے لبلبی دبائی تو پتہ نہیں اس کا ہاتھ کانپ گیا یا کچھ اور ہوا کہ نشانہ خطا ہوگیا اور گولی چلنے کے بعد بچھیڑے نے کھلنڈرے پن سے لات چلائی ، مہین سی آواز میں ہنہنایا اور دھول کے سرمئی بادل اڑاتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا۔ کچھ دور جا کر وہ رکا اور ساکت کھڑا ہوگیا ۔ تروفیم نے اس شیطان پر پوری باڑ خالی کر دی ، لال سروں والے فولاد توڑ کار توس بھی داغے جو تھیلے میں اس کے ہاتھ آگئے تھے ، لیکن گولیوں سے بچھیڑے کو کوئی گزندنہ پہنچی اور گھوڑی کی نسل ختم نہیں ہوئی۔ بری طرح گالیاں دیتا ہوا تروفیم پھر گھوڑی پر سوار ہوا اور اسے جتنا تیز ہوسکا دوڑا کر وہ سکواڈرن کمانڈر اور اس کے تین سواروں کے پاس پہنچا جنہیں داڑھی دار لال چہروں والے کزاک گھیرے ہوئے تھے ۔
اُس رات سکواڈرن نے استیپ میں ایک کھائی میں پڑاﺅ کیا۔ سگریٹ بھی زیاد ہ نہیں پی گئی اور گھوڑوں کے زین بھی نہیں کھولے گئے ۔ دریا کنارے جس گشت کو بھیجا گیا تھا اس نے خبر دی کہ دشمن نے دریاپار کرنے والے گھاٹ پر کافی فوجیں جمع کر رکھی ہیں۔
تروفیم اپنے ننگے پاﺅں برساتی میں لپیٹے لیٹا ہوا اونگھ رہا تھا اور گزرے ہوئے دن کے واقعات کو یاد کر رہا تھا ۔ پھر سے اس نے دیکھا کہ کیسے سکواڈرن کمانڈر نے ڈھلواں کنارے پرسے جست لگائی اور کیسے چیچک رو کزاک نے کمیسار پر وار کیا۔ اس کو چھوٹے سے دبلے پتلے کزاک لڑکے کا خیال آیا جس کے کسی نے ٹکڑے کر دیئے تھے ، کسی کی زین کا دھیان آیا جو خون سے کالا پڑ گیا تھا اور وہاں ، وہ بچھیڑا۔
صبح کے قریب سکواڈرن کمانڈر تروفیم کے پاس آیا اور بیٹھ گیا۔
”تروفیم ، سو رہے ہو؟“
”اونگھ رہا ہوں“
سکواڈرن کمانڈر نے ٹوٹتے ہوئے تاروں کو دیکھتے ہوئے کہا:
“اپنے اس بچھیڑے کو گولی مار دو۔ اس سے کمزوری آجاتی ہے ۔ اس کو دیکھتے ہی میں اتنا نرم پڑ جاتا ہوں کہ تلوارچلانے کا جی ہی نہیں چاہتا ۔ بات یہ ہے کہ اسے دیکھ کر گھر کا خیال آتا ہے ۔لڑائی میں یہ اچھی بات نہیں ہے ۔ اس سے تمہارا دل پتھر کی بجائے دلیا بن جاتا ہے اور تم نے دیکھا کہ وہ شیطان بیچ لڑائی میں تھا لیکن اس کا بال بھی بیکا نہیں ہوا“۔ سکواڈرن کمانڈر ایک لمحے کے لیے رکا اور جیسے خواب میں مسکرایا ، لیکن تروفیم نے اس کی مسکراہٹ نہیں دیکھی ۔ ” اور اس کی دم تروفیم ! دیکھا تم نے کیسے اس کو ہوا میں لہراتا ہوا دوڑ لگاتا ہے ۔بالکل لومڑی کی سی دم ہے ، کس قدر شاندار!“
تروفیم چپ رہا ۔ اس نے سر اپنے فوجی اوور کوٹ سے ڈھک لیا، اوس کی نمی سے جھرجھری لی اور جلد ہی سوگیا۔

***
پرانی خانقاہ کے سامنے دریا کے دائیں کنارے سے نکلی ہوئی ایک پہاڑی نے پیٹے کوتنگ کردیا ہے اور اس میں سے دریائے دون بڑے جوش اور غصے کے ساتھ بہتا ہے ۔ موڑ پر پانی مچلتا ہے ، اس میں بلبلے بنتے ہیں اور سبز جھاگ دار لہریں سفید چٹانوں سے ٹکراتی ہیں جو بہار میں پہاڑی کے ایک حصے کے پھٹ پڑنے کے ساتھ یہاں آگئی تھیں۔
سکواڈرن کمانڈر نے عام حالات میں خانقاہ کے سامنے سے دریاپار کرنے کا حکم کبھی نہ دیا ہوتا لیکن دریا جہاں چوڑا اور پرسکون تھا اور دھارا کمزور تھا وہاں کنارے پر کزاکوں کا قبضہ تھا اور وہ پہاڑیوں کو توپوں کی زد میں لیے تھے ۔
دریا پار اترنے کا کام دوپہر کو شروع کیا گیا ۔ ایک عارضی بیڑے پر مشین گن کی ایک گاڑی ، اس کا عملہ اور تین گھوڑے لادے گئے ۔ بیچ دھارے میں بیڑا یکبار گی بہاﺅ کے خلاف مڑ گیا اور ایک طرف کو ذرا جھک گیا ۔ بائیں طرف کے بازو والے گھوڑے کو دریا پار کرنے کی عادت نہیں تھی۔ وہ بھڑک گیا۔ سکواڈرن کے لوگوں نے جو پہاڑی کی آڑ میں زینیں کھول رہے تھے ۔ اس کو بوکھلائی ہوئی پھنکاریں اور اس کی ٹاپوں کی آواز صاف سنی۔
تروفیم نے افسردگی کے ساتھ کہا:”یہ جانور بیڑے کو لے ڈوبے گا ! اس کا ہاتھ جو گھوڑے کی پسینے میں تر پیٹھ کی طرف اٹھا ہوا تھا ، پہلو میں گر پڑا۔ وحشیانہ ہنہنا ہٹ کے ساتھ سہما ہوا گھوڑا بیڑے پر ادھر ادھر بھاگ رہا تھا اور الف ہورہا تھا ۔
”گولی ماردو ! “ سکواڈرن کمانڈر نے چاب مروڑتے ہوئے چلا کر حکم دیا۔
تروفیم نے دیکھا کہ مشین گُراچھل کر الف ہوتے ہوئے گھوڑے کی گردن پر پہنچا اور اس کے کان میں اس نے ریو الور ٹھونس دیا۔ گولی کی آواز کنارے پر بہت آہستہ سنائی دی جیسے بچے کی کھلونے والی بندوق دغی ہو۔ بیڑے پر دو گھوڑے اور جو تھے وہ ایک دوسرے سے ہٹ کر کھڑے ہوگئے ۔ بیڑے کا توازن برقرار رکھنے کے لیے میشن گن کے عملے نے مردہ گھوڑے کو مشین گن والی گاڑی کے پچھلے حصے سے ٹکا دیا۔ رفتہ رفتہ اس کی اگلی ٹانگیں بیدم ہوگئیں اور سر جھک گیا۔
کوئی دس منٹ بعد سکواڈرن کمانڈر اپنے سمند پر سوار پانی میں اترا اور اس کے پیچھے بڑے زبردست چھپا کے کے ساتھ ایک سو آٹھ ادھ ننگے لوگ اور اتنے ہی رنگ برنگے گھوڑے بھی پانی میں ہل آئے ۔ زینوں کو تین چھوٹی ناﺅں پر لادیا گیا تھا ۔ ان میں سے ایک تروفیم کھے رہا تھا ۔ اپنی گھوڑی اس نے ٹولی کے سرغنہ نچپورینکو کے سپرد کردی تھی۔ آدھے راستے جا کر اس نے مڑ کر دیکھا ۔ آگے والے گھوڑے گھٹنے گھٹنے پانی میں بادل ناخواستہ اپنے سر نیچے کر کے پانی پی رہے تھے ۔ لوگ نیم سرگوشی میں اپنے اپنے گھوڑوں کو بڑھنے کو کہہ رہے تھے ۔ جلد ہی کنارے سے چند گزوں کے فاصلے پر دریا میں گھوڑوں کے پھنکارتے ہوئے سر ہی سر نظر آنے لگے۔ لوگ اپنے اپنے گھوڑوں کے برابر ہی تیر رہے تھے ، گھوڑوں کی ایالیں پکڑے ہوئے اور رائفلیں سروں کے اوپر اٹھائے ہوئے جن کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے کپڑے اور کارتوس کے تھیلے بھی باند رکھے تھے ۔
تروفیم نے چپور کھ دیئے اور ناﺅ میں کھڑا ہوگیا ۔ دھوپ سے آنکھیں میچتے ہوئے اس نے تیرتے ہوئے گھوڑوں پر نظر دوڑائی یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کی سرنگ گھوڑی کہاں ہے ۔ سکواڈرن یوں لگ رہا تھا جیسے جنگلی بطخوں کی ڈار اچانک گولی چلنے سے آسمان میں بکھر گئی ہو۔ سکواڈرن کمانڈر کا سمند سب سے آگے تھا، اس کے چمکتے ہوئے پٹھے پانی سے او پر اٹھے ہوئے تھے اور اس کی دم کے عین پیچھے دو ر و پہلے نقطے اس گھوڑے کے سفید کانوں کا پتہ دے رہے تھے جو پہلے کمیسارکا تھا۔ باقی ایک بہت بڑے سیاہ دل کی طرح پیچھے پیچھے تیرتے جارہے تھے اور سب سے پیچھے ٹولی کے سرغنہ نچیپور ینکو کا جھنڈ والا سر پانی کے او پر نیچے ہورہا تھا اور اس کے بائیں ہاتھ کو تروفیم کی گھوڑی کی کنوتیاں نظر آرہی تھیں۔ اس سے بھی پیچھے بڑی مشکل سے تروفیم کو بچھیڑادکھائی دیا۔ وہ بڑے اٹ پٹے پن سے تیر رہا تھا ، کبھی اس کا آدھ دھڑ پانی سے نکل آتا اور کبھی نتھنوں تک پانی میں ڈوب جاتا ۔
اور پھر دریا پر چلتی ہوئی ہوا کے ساتھ تروفیم کے کانوں میں مدد کے لیے جانور کی کمزور اور بہت ہی مہین پکار پڑی ”ای۔ ای ۔ ، او۔ او !۔
پکار تلوار کی تیز اور دھار نوک کی طرح سیدھے تروفیم کے دل میں اتر گئی ۔اس پر بہت ہی عجیب اثر ہوا۔ پانچ سال وہ جنگ جھیل چکا تھا اور جانے کتنی بار موت سے اس کی آشنائی ہوچکی تھی لیکن کبھی وہ اس طرح بے قابو نہ ہوا تھا۔ اب تو اس کی سرخی مائل چند دنوں کی بڑھی داڑھی کے نیچے اس کا چہرہ راکھ کے سے رنگ کا ہوگیا اور اپنا چپوجھپٹ کر اس نے ناﺅ کو بہاﺅ کاٹتے ہوئے اس بھنور کی طرف موڑا جس میں بیدم بچھیڑاجدوجہد کر رہا تھا گھوڑی بھی بڑے زوروں میں ہنہناتی ہوئی اسے بچانے کے لیے تیر رہی تھی اور ہزار کوششوں کے باوجود نچیورینکو اسے نہ روک سکا۔
تروفیم کا دوست استیشکا یفریموف نائو میں زمینوں کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ چلایا ” بے وقوفی مت کر ، جلدی کنارے کی طرف ! کز اک وہ سامنے آگئے ہیں !
ماردوں گا ! تروفیم نے اپنی بندوق کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
بچھیڑا بہائو میں بہت دور تک بہہ گیا تھا اور ایک چھوٹی سی بھنور میں پھنس گیا تھا جو اسے بغیر کسی کوشش کے چکر دے رہی تھی اور اس کے پہلوئوں کو سبز کلفی والی لہروں سے تھپیڑے لگا رہی تھی۔ تروفیم جنونیوں کی طرح نائو کھے رہا تھا اور اسے دائیں بائیں جھٹکے لگا رہا تھا۔ دریا کے دائیں کنارے پر گھاٹی کی آڑ سے کزاک نکل آئے تھے اور ایک ماکسم مشین گن تڑ تڑانے لگی تھی جس کی گولیاں پانی میں گر کر جلتے انگارے کی طرح چھن سے کرتیں۔ ایک افسر نے جو کرمچ کی پھٹی قمیص پہنے تھا، چلا کر ، اپنار یوالور لہراتے ہوئے کچھ کہا۔
اب بکھیڑے کی چیخیں بہت رک رک کر اور بہت آہستہ سنائی دیتیں اور بھیانک حد تک آدمی کے بچے کی سی لگتیں۔ نچھپورینکو نے گھوڑی کو چھوڑ دیا اور خود تیزی سے بائیں کنارے کی طرف بڑھا۔ کانپتے ہوئے تروفیم نے اپنی بندوق اٹھائی اور بھنور میں گولی چلا دی۔ اس نے بچھڑے کے سرسے ذرا نیچے نشانہ باندھا تھا۔ پھر ایک دبی سی” کراہ کے ساتھ اس نے اپنے بوٹ کھینچ کر اتارے اور دور پانی میں کود پڑا۔
دائیں کنارے پر اس افسر نے جو کرمچ کی قیص پہنے تھا، چلا کرحکم دیا ” فائر بندکردو”
پانچ منٹ میں تر و فیم پھیرے کے پاس پہنچ گیا اور اس نے اپنا ہاتھ اس کے ٹھنڈے پیٹ کے نیچے دے دیا۔ منہ میں بھرتے ہوئے پانی سے گھٹتے اور کلی کرتے وہ بائیں کنارے کی طرف چلا۔ دشمن کے کنارے سے ایک بھی گولی چلتی نہیں سنائی دی۔ آسمان ، جنگل، ریت، ہر چیز سبز اور سایے میں تھی۔ ایک آخری، تقریباً غیر انسانی کوشش کر کے ترو فیم کنارے پر پہنچا اور پانی میں شرابور چھیڑے کو گھسیٹ کر پانی سے نکالا۔ کچھ دیر وہ وہیں پڑا ریت پر ہاتھ پائوں رگڑ تا رہا اور پیٹ میں جو پانی بھر گیا تھا اسے الٹی کر کے نکالتا رہا۔ جنگل سے اس کے ساتھیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور موڑ کے ادھر بہت دور پر تو پیں چل رہی تھیں۔ سرنگ گھوڑی آکر تر و فیم کے برابر کھڑی ہو گئی ، اس نے جھر جھرا کر اپنے بدن سے پانی جھٹکا اور بچھیڑے کو چاٹنے لگی۔ اس کی بھیگی ہوئی دُم سے پانی کی چمکتی ہوئی بوندیں ٹپک کر ریت پر گر رہی تھیں۔
تروفیم ڈگمگاتے قدموں سے اٹھا اور ریت پر چلا۔ لیکن دو ہی ایک قدم لے پایا ہوگا کہ وہ لڑکھڑا کر گر پڑا۔ کسی گرم چیز نے اس کا سینہ چھید دیا تھا۔ گرتے گرتے اس نے گولی کی آواز سنی۔ دائیں کنارے سے آکر پیٹھ پر ایک گولی لگی تھی۔ وہاں دائیں کنارے پر کرنچ کی پھٹی قیص والے افسر نے بڑے سکون کے ساتھ اپنی بندوق سے دھواں دیتے ہوئے خالی کارتوس کو نکال دیا۔ تر و فیم پچھیڑے سے دو ہی قدم کے فاصلے پر ریت پر پڑا دم تو ڑ رہا تھا۔ خون بھرے جھاگ کی وجہ سے اس کے نیلے اور بند ہونٹوں پر ، جنہوں نے پانچ سال سے اپنے بچوں کو پیار نہ کیا تھا، لگتا تھا کہ ایک مسکراہٹ سی ہے۔

ماہتاک سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*