اداریہ عورت ایڈیشن

بارکھان کا لرزہ خیز واقعہ

سوشل میڈیا موجود نہ ہوتا تو بلوچستان میں سرکاری سردار کے غلیظ ادارے پہ دبیز پردہ ابھی مزید کئی برسوں تک پڑا رہنا تھا۔
انسان دلچسپ انداز میں اور عجیب مواقع پر ردعمل دیتا ہے ۔ بارکھان کے سانحہ کا عروج دو نوجوان کے قتل، اور ایک خاتون کے ریپ اور قتل کے تلخ ترین خبر کا پھیلنا تھا جنہیں تیزاب سے مسخ کر کے ایک کنوئیں میں پھینک دیا گیا تھا ۔ وگر نہ یہ لوگ تین سال سے سردار کے نجی جیل میں پڑے تھے اور سوشل میڈیا میںان کی طرف سے اپنی رہائی کی اپیلیں آتی رہتی تھیں۔ آخری ویڈیو وہ تھی جس میں گراناز نامی خاتون قرآن شریف تھامے اپنی اور اپنے خاندان کی رہائی کے واسطے دے رہی تھی۔ مگر تب کوئی بہت بڑا عوامی ریسپانس نہیں آیا۔ مگر جب تیزاب سے ان کی مسخ کردہ لاشوں کی خبر آئی تو سمجھو کائنات تھرّا اٹھی۔ بلوچستان اِس زلزلے کا ایپی سنٹر بنا۔
حیران کردینے والی خبر یہ تھی کہ پہلا جلسہ اور جلوس سردار کے اپنے بارکھان میں ہوا۔ کھیتران عوام نے ہی اپنے سردار کو مسترد کیا اور انتہائی باشعورانہ انداز میں اُسے قبائلی شکل دینے کے لیے کوشاں بُرے لوگوں کو ناکام کر کے اسے طبقاتی شکل دے دی۔ یہ گھر کی طرف سے ابلسیت کا استرداد تھا۔
۔۔۔ اور پھر کوہلو جاگا، سبی اور مچ اٹھے ،اور کوئٹہ تواُبل پڑا۔عوام غصہ سے بپھر اٹھے ۔ ایک پروقار دھرنا سرداروں بیوروکریٹوںوالے نام نہاد ریڈ زون پہ بیٹھ گیا۔ ایک ہفتہ تک کوئٹہ شہر اس سرداری ظلم پہ بلبلاتا رہا۔ اس دھرنے میں مختلف زبانیں بولنے والے لوگ تھے، مختلف قوموں کے لوگ ظلم کے خلاف تحریک کے ساتھ وابستگی دکھا رہے تھے ، مختلف فرقوں اور مذاہب کے نمائندے باوقار طور پر دھاڑرہے تھے ،اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے سرکردگان منطق بھری دلیلیں دے رہے تھے۔ ایک ایسی فوری یکجہتی کی پُر بہار ہوا چلی کہ عوام کے درمیان نفرتیں پیدا کرنے والوں کی برسوں کی محنت خاک میں مل گئی۔ مرد عورتیں ، مزدور ماسٹر، صحافی مورخ ، ٹیچر ڈاکٹر امڈ امڈ کر آتے رہے اور عمیق احترام کے ساتھ زندہ انسانوں کو میتوں میں بدلنے کے گھناﺅنے فعل پہ پھٹکار بھیجتے رہے ۔ دانشوروں ادیبوں اور شاعروں نے انفرادی صورت میں بھی حاضری بھری اور سنگت اکیڈمی کے پلیٹ فارم سے بھی وہاں پہنچے۔
اُنہی دنوںملک بھر میں موجود روشن فکر دانشوروں نے زبردست ہوم ورک کیا۔ اور طویل بحث مباحثے کے بعد ایک متفقہ بیان مرتب اور جاری کیا۔ اس بروقت موقف نے تحریک کو انتہا پسند قبائلیت کی طرف جانے نہ دیا۔ اس سنگین جرم پہ سردار ہی کو نشانے پر رکھا اور اس کے اتحادی سرداری نظام اور ایسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا۔ بار بار سوشل میڈیا پہ نشر ہونے والا وہ متفقہ بیان یوں تھا:
"میں بارکھان میں خاتون کو ریپ کر کے قتل کرنے اور دو نوجوانوں کو گولیاں مار کر قتل کرکے ، اُن پہ تیزاب پھینکنے کے بعد انہیں کنوئیں میں پھینکے جانے والے لرزہ خیز واقعہ پہ بہت غصے میں ہوں۔
” میں سمجھتاہوں کہ بارکھان کے ڈپٹی کمشنر ، ضلع کے عدالتی اور پولیس سربراہ وہاں انسانی زندگی کے حق کی حفاظت کے ذمے دار تھے۔
” میں کھیتران قبیلے کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ اس قہرناک ظلم پہ اپنے ہی سردار کے خلاف جلسہ جلوس کررہے ہیں۔
” میں مذکورہ وزیر کی معطلی اور گرفتاری چاہتاہوں۔اور چاہتاہوں کہ اس پہ تہرے قتل اور بہت سوں کے اغوا اور نجی جیل رکھنے پہ مقدمہ بھی درج ہو ۔
"میں یہ بھی چاہتاہوں کہ ڈپٹی کمشنر اور پولیس ڈی پی او نہ صرف معطل ہوں بلکہ ان پہ ان جرائم میں سہولت کاری کامقدمہ درج کیا جائے
” میں جانبدارنام نہاد جے آئی ٹی مسترد کرتاہوں۔
” میں اگر کوئٹہ میں موجود ہوں تو مظلوموں کی میتوں والے دھرنے میں وہاں ضرورجاﺅں گا”
بلوچستان بھر میں شہری مراکز نفرت بھرا ریسپانس دیتے رہے۔ حیدرآباد ، ساہیوال ، اوکاڑہ ، اور کراچی بالخصوص لیاری کے جاگے ہوئے عوام اس بہیمانہ قصاب گیری کو مسترد کرتے رہے۔ سوشل میڈیا ہر جگہ جگمگ کرتا رہا اور یوں روایتی طور پر ہمیشہ سے مقامی قرار دیے جانے والے لرزہ خیز واقعہ نے بین الاقوامی برادری کی آنکھیں چند ھیادیں۔
کوئی حیرت نہ ہوئی کہ ایک بھی سردار نے اس چنگیز یت کی مذمت نہیں کی۔ وجہ یہ کہ سرداروں کو مشترکہ مفاد اور یکساں ذہنیت اس کی مذمت کرنے نہیں دے رہی تھی ۔ سرداروں کی پشت پناہی کرنے والی صوبائی اور وفاقی حکومتی بھی خاموش رہیں ۔ کوئی پیر ، کوئی امام ، کوئی جج ، کوئی جرنیل ، کوئی جاگیردار اور کوئی سرمایہ دار اس انسان سوز واقعہ کی مذمت کے لیے نہ بولا۔ بلکہ وہ سب الٹا اِس سارے معاملے میں ابہام اور غلط فہمی پیدا کرنے کی مذموم حرکتیں کرنے لگے۔
سرکار تو اپنے کابینہ کے ساتھی کو بچانے حرکت میں آئی ہی، اُس کے ادارے بھی اپنی طبقاتی ڈیوٹی میں مصروف تھے۔ ملزم کو گرفتاری کے نام پہ محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔ سرکاری سرداروں اور سرکاری خانِ کلات نے بھیڑوں والی کھال پہن کر بہ ظاہر یک جہتی مگر در پر دہ اپنے بھائی بند سردار کی زندگی، وزارت اور حیثیت کی بحالی کے لیے ایک بے بنیاد اور بے رواج سرکاری جرگہ منعقد کیا۔
۔۔۔۔ اور سردار بچ گیا، سردار بچ جائے گا۔ مگر اُس کا ادارہ سلامت نہ بچا۔ قرآن پاک اٹھا کر زندگی کی بھیک مانگنے والی قید عورت کی اولاد کی لرزہ خیز ہلاکت ریاست ،اُس کے اداروں ، عدالت اور حکومت کے پالے ہوئے سرداروں کو رسوا کر کے عوام کے مخالف سمت میں دھکیل چکی تھی۔
سانحہِ بارکھان نے سرداری نظام کے سفاک چہرے کے ہر نقاب کو نوچ پھینکا ۔ مبینہ قاتل سردار کو جس طرح ملامت اور مذمت کا نشانہ بنایا گیا وہ اپنی جگہ قابلِ تعریف تھا۔ مگر عوام میں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ یہ سردار واحد سردار نہیں ہے جس کی نجی جیلیں ہیں۔ عوام کو شعور ملا کہ دراصل ہر سردار کی نجی جیل موجود ہے ۔ ان نجی جیلوں کے بارے میں ڈپٹی کمشنر ، پولیس ایس پی، لوئر کورٹ کے مقامی جج اور ایف سی کے مقامی افسر کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے ۔ یہ عقل بھی آئی کہ یہ لوگ سردار اور اُس کے جیل کی حفاظت کرتے ہیں۔ ریاست سرداروں کی سہولت کار ہے ۔
سانحہِ بارکھان کی لاشوں کے گرد جوتحریک بنی ہے ، اس نے بلاشبہ سرداروں کے مکروہ چہروں کو عیاں کردیا ہے ۔ عوام جان گئے کہ بلوچستان میں ایک بھی سردار ایسا نہیں ہے جو باڈی گارڈ کے بغیر اپنے علاقے میں جاسکے، تو پھر اُس کی طاقت آتی کہاں سے ہے ۔ اصلی الیکشن ہوں تو ہر سردار کی ضمانت ضبط ہوجائے تو یہ وزیر کیسے بنتے ہیں۔ عوام سب جان چکی ہے۔
ہم نے دیکھا کہ بارکھان کے سردار کی اتحادی یعنی ریاست اُسے بچانے یکدم حرکت میں آگئی ۔ اس نے اپنے پالتو سردار کو گرفتاری کے نام پر محفوظ جگہ فراہم کی ۔ اسی طرح دیگر سرداروں کے جُھنڈ نے بھی اپنا نام نہاد جرگہ بلا کر اپنے فرسودہ نظام کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی ۔ یہ سارے مہرے آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور انہیں چلانے والی قوت براہِ راست خود ریاست ہے ۔
اس قدر دلخراش واقعے پر چیف جسٹس کا سو او موٹو نہ لینا اس امر کی دلیل ہے کہ طبقاتی معاشرے میں انصاف بھی طبقاتی ہوتا ہے ۔
سردار مخالفت کا یہ مطلب نہیں کہ صوبائی حکومت کے خلاف بات نہ کی جائے۔ ہر سردار کی حفاظتی چھتری ہماری صوبائی حکومت ہے ۔ یہ ایک دوسرے کے حلیف اور اتحادی ہیں۔ سارے سردار صوبائی حکومت کے بھائی بند ہیں اور صوبائی حکومت ہر سردار کے مفادات کی نگہبان ہے۔
اور صوبائی حکومت کو نشانے پر رکھنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس کے مالک اور محافظ وفاقی حکومت ( ریاست ) کو بخشا جائے ۔ سچی بات یہ ہے کہ سردار کو تحفظ صوبائی حکومت دیتی ہی اس لیے ہے کہ اُسے وفاقی ریاست یا وفاقی اسٹیبلشمنٹ کا حکم ہوتا ہے ۔ یہ ایک مربوط و مضبوط nexusہے ۔ سرداروں سے ہی بلوچستان کی حکومت تشکیل ہوتی ہے ۔ یہی سردار اور یہی صوبائی حکومت براہِ راست وفاقی اداروں اور حکومت کے آلہ کار ہیں۔ سردار کے خلاف بات کرنے کا مطلب وفاقی حکومت کو بچانا نہیں ہے بلکہ اُس پورے nexusکو بے نقاب کرنا ہے ۔ اب یوسف عزیز مگسی اور پرنس عبدالکریم جیسے عوامی تحریک کے رہبر وں کا زمانہ چلا گیا۔ اب سارے سردار Collaboratorsہیں۔ اصل ”خراب خانہ “وفاق اور اس کے ادارے ہیں جنہوں نے بلوچستان میں انڈے بچے بلوچ سرداروں کی صورت میں دے رکھے ہیں۔ چنانچہ انڈہ اور مرغی دونوں عوام دشمن ہیں۔ ان میں اول نمبر دشمن اور دوئم نمبر دشمن نہیں ہوتا۔ قبائلیت ، قبائلی سوچ اور سرداریت کو مخاطب کیے بغیر آپ بڑے مخالف سے نمٹ ہی نہیں سکتے۔ سرکاری سردار بلوچ عوام کے لیے مہلک ہے ۔ قبائلی تنظیمیں اور برادری اتحاد عوامی اور قومی تحریک کے لیے بلاﺅں کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ ڈکٹیٹر شپ کی پیداوار بھی ہیں اور ڈکٹیٹر شپ کی طرف لے بھی جاتے ہیں۔ یہ سماج کو غیر سیاسی بناتے ہیں۔
سردار قوم کے نمائندے نہیں ہوتے ۔ وہ اپنے قبیلے کے بالائی طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ سرداریت کی نشو ونما ، رسم و رواج اور نظام کی تشکیل وترکیب ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ صرف اپنے بالائی طبقے کے مراعات کا تحفظ کرتی ہے۔ یہ کوئی رضا کارانہ ڈھانچہ بھی نہ رہا بلکہ ریاست کی طرح یہ بھی مسلح جتھوں پر مشتمل جبر کا ایک آلہ ہوتی ہے ۔
مگر زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ سردار کا ادارہ بھی کمزور ہوتا چلا گیا ۔ ایک دلچسپ صورتحال ہے ۔ ایک فیوڈل ریاست اِس پری فیوڈل سردار ادارے کی زبردست حفاظت کرتی رہی ۔ مگر اکیسویں صدی کا عالمی کپٹلزم اس قلعے میں گھس کر اِن دونوں اداروں کو کھوکھلا کرتا جارہا ہے ۔ پارلیمنٹ ، عدلیہ ، پریس، سوشل میڈیا، ہاسپٹل ، سکول سسٹم اور روڈ زسب کا سب کپٹلزم والے ہیں جو خواہ جتنے بھی پالتو اور ناقص ہوں اس قدر طاقتور ضرور ہیں کہ فیوڈل اور ماقبل فیوڈل رشتوں کو مکّے مارتے رہیں۔ لہذاہم دیکھ رہے ہیں کہ نہ تو ہماری فیوڈل ریاست چل رہی ہے اور نہ ہی بلوچ پری فیوڈل سردار سالم سلامت رہے ہیں۔ سارے سردار مذہبی پارٹیوں میں شامل ہو رہے ہیں یا اُن سے اتحاد بنا رہے ہیں۔ عوامی پذیرائی سے محروم یہ بس سرکاری لیویز کے دبدبے میں ، اور سرکاری خرد برد کردہ ، رشوت اور پے رول والے پیسوں پہ کروفر کر رہے ہیں۔
سرداریت کے ادارے کے ختم ہوجانے سے ایک مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ اُس خلا کو ریاست اور ریاستی ادارے پُر نہیں کر رہے ۔ ریاست ابھی تک انگریز کا لونیل طرز پہ امور کو چلا رہی ہے۔ اُس کی اپنی فرسودگی اسے خالی جگہ کو پُر کرنے نہیں دے رہی۔ یوں ایک انارکی میں فاشزم اور مافیا ہی پھلتے پھولتے ہیں۔ چنانچہ بلوچستان آج مافیاﺅں کی زد میں ہے ۔
اس پیچیدہ صورت حال کو ابھی درست طور پر سمجھا نہیں جارہا ۔ ہم جن اخلاقی ، سماجی اور چاکر کے عہد کی روایات اور قدروں کو من وعن اکیسویں صدی کے کپٹلزم میں لاگو کرنا چاہ رہے ہیں، وہ اب ناممکن ہے ۔ اِس صدی میں رہ کر اِس صدی ہی کے ہتھیاروں سے شیطان کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
جس عوامی شعور کی وجہ سے سرداریت اب اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے، اُس وسعت پاتے عوامی شعور نے سماج کو ایک مضبوط سیاسی پارٹی کی تشکیل کی جانب ہی لے جانا ہے ۔ایک مضبوط عوامی سیاسی پارٹی جو ماہی گیروں کی نمائندگی بھی کرتی ہو، اور پٹ فیڈر کے کسان بھی اسے اپناتے ہوں۔ ایک ایسی سیاسی پارٹی جو قبائلی بنیاد پہ نہ ہو بلکہ جس میں معدنی مزدور، چرواہا اور عورتیں اپنی نجات دیکھیں ۔ وہ قومی عوامی جمہوریت کی ترجمان انقلابی پارٹی ہی عوامی قوت کو یکجا کر کے ماقبل جاگیرداری نظام کی مکمل بیخ کنی کر سکے گی۔

ماہتاک سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*