لبرل ازم ایک بورژوا فلسفہ ہے،جو انفرادیت پسندی، روشن خیالی اور فرد کے حقوق کی وکالت کرتا ہے۔نیز یہ ذاتی ملکیت ، مارکیٹ اکانومی ، جمہوریت ،سیکولرازم اور فرد کی سیاسی و معاشی آزادی کی بھی حمایت کرتا ہے۔ لبرل ازم بورژو طبقے کی آئیڈیالوجی ہے۔یہ کمیونزم دشمن نظریہ ہے۔یہ انقلاب مخالف ہے اور ارتقا کی بات کرتا ہے۔اور اس کے مطابق یہ ارتقا صرف اور صرف سرمایہ داری میں ممکن ہے۔یہ اجتماعیت کے بجائے فرد کے انسانی حقوق کا علم بردار ہے۔یہ فرد کی لامحدود آزادی کی بات کرتا ہے اور اسے دوسرے افراد کا استحصال کرنے اور ناجائز منافع خوری کی اجازت دیتا ہے۔غالب قوم کو مغلوب قوم پر ظلم و تشدد روا رکھنے کی آزادی دیتا ہے۔یہ عورت کو کماڈٹی کے روپ میں بازار ِ ہوس میں لانے اور سیکس انڈسٹری قائم کرنے کی آزادی دیتا ہے۔یہ فرد ،طبقے اور قوم کو ذاتی ملکیت کا اتنا حق دیتا ہے کہ وہ پورا کرہِ ارض خرید بھی سکتے ہیں اور فروخت بھی کرسکتے ہیں۔لبرل ازم مزدور اور سرمایہ دار کے درمیان طبقاتی تفریق پر پردہ پوشی کرتا ہے۔موجودہ دور میں یہ رجعت پسند نظریہ کیپٹلزم کا جواز فراہم کرنے اور سٹیٹس کو کو قائم رکھنے کے لیے ہر حکمران طبقے کا ہتھیار ہے۔
لبرل ازم کا ظہور بورژوازی کے ظہور کے ساتھ ہوا اور بورژوازی کا ظہور تاریخ میں اچانک نہیں ہوا بلکہ یہ طبقہ تاریخی ارتقا کے مختلف مراحل سے گزر کر بحیثیت ایک طبقہ مستحکم ہوا۔ قرون وسظیٰ سے رینیساں عہد تک اس طبقے کے ابتدائی خدوخال واضح ہونا شروع ہوئے۔قرونِ وسطیٰ کا یورپ سیاسی مطلق العنانی اور کلیسا کے زیرِ غلبہ تھا۔اس میں گلڈ ماسٹر اور کاریگر کا طبقہ گھریلو دستکاری کی صنعت میں سرگرمِ عمل تھا۔ اس وقت گھریلو دستکاری کی صنعت گلڈ ماسٹر کی ملکیت ہوتی تھی،جس میں اجرت پیشہ شاگرد،مزدور وںکی حیثیت سے کام کرتے تھے۔گلڈ ماسٹر مصنوعات تیار کرکے تاجروں کے حوالے کرتے ،جو انہیں شہر شہر اور گاﺅں گاﺅں جاکر مختلف منڈیوں میں فروخت کرتے تھے۔تاجروں کا یہی طبقہ ،جو برگر کہلاتا تھا،آہستہ آہستہ بورژوا طبقے میں ڈھلتا گیا۔ رینیساں دور میں بورژوازی کی پہلی لہر ارتقا پذیر ہوئی،جب سماجی تعلقات اتنے زیادہ واضح نہیں ہوئے تھے۔اور ابھی تک تقسیم محنت نے ٹھوس اور مخصوص صورتیں اختیار نہیں کی تھیں۔
اس وقت جاگیردار اشرافیہ نئی کامیاب بورژوازی سے تعاون کررہی تھی اور بہت سے معاملات میں اس کی سرپرستی بھی کررہی تھی۔ بورژوازی کی راہ میں کلیسا ئے روم ہی ایک رکاوٹ تھا،جس کے خلاف اس نے عوام کو انسان دوستی اور عقلیت یا روشن خیالی پر مبنی نعروں پر بغاوت کروائی۔اس نے پروٹسٹنٹ تحریک کے ذریعے رومن کیتھولک چرچ کے خلاف ایک طویل جدوجہد کی اور آخرکار اس کے سیاسی غلبے سے اپنے اپنے ملکوں کی حکومتوں کو نجات دلائی۔اس نے رومن کیتھولک چرچ کی جگہ اپنے نیشنل چرچ قائم کیے۔چرچ آف انگلینڈ،چرچ آف فرانس اور چرچ آف جرمنی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس وقت بورژوازی کی پہلی لہر کے ارتقا کے ساتھ ساتھ لبرل ازم کی بھی پہلی لہر ارتقا پذیر ہوئی ،جس میں انفرادیت پسندی، خردافروزی اور انسان دوستی کے عناصر اپنی ابتدائی صورت میں ظاہر ہوئے،جو بعد کے ترقی یافتہ لبرل ازم کے اجزائے ترکیبی کا درجہ رکھتے ہیں۔
بعدازاں امریکہ کی دریافت نے بورژوازی اور سرمایہ داری کے ارتقاکے لیے راہ ہموار کی ۔امریکہ سے تجارت کے فروغ، چین اور ہندوستان کی منڈیوں تک یورپی بورژوازی کی رسائی نے بری اور بحری مواصلاتی نظام کو ترقی دی،جس سے صنعتی پیداوار کی طلب میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ظاہر ہے کہ اتنی بڑی طلب کی تکمیل چھوٹی گھریلو صنعت نہیں کرسکتی تھی۔اس کے لیے بڑی انڈسٹری کی ضرورت تھی، جس میں مزدوروں کی بہت بڑی تعد ادکام کرتی ہو اورمصنوعات سازی کے لیے خام مال اور ایندھن بھی بڑی مقدار میں درکار ہو۔ لہذا بورژوازی نے کارخانہ داری کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔اور آہستہ آہستہ کارخانوں، فیکٹریوں اور ملوں کی تعمیر شروع ہوئی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے یورپ کے مختلف ملکوں میں صنعتی انقلاب برپا ہوگیا۔تجارتی سرمایہ صنعتی سرمائے میں تبدیل ہوگیا۔ مرکنٹائل کیپٹل ازم انڈسٹریل کیپٹل ازم میں تبدیل ہوگیا۔اورگلڈماسٹروں اور برگروںکا طبقہ نئے کارخانہ دار بورژوا طبقے کی صور ت میں ارتقا پذیر ہوا۔
اس صورِت حال نے طریقِ پیداوار میں انقلاب برپا کردیا۔ نئی پہداوای قوتوں کو ترقی دی ، جس سے پرانے جاگیردارانہ ادارے تبدیل ہونے لگے۔بورژوازی خام مال کی منڈیوں ،فیکٹریوں، جائنٹ سٹاک ، انشورنس کمپنیوں اور بینکوںکے ذریعے اپنے اپنے ملکوں کی معیشت پر قابض ہوگئی، جس کے تحفظ کے لیے اسے سیاسی قوت کی ضرورت تھی۔جب بورژوازی نے رومن کیتھولک چرچ کی سیاسی مداخلت کو دور کردیا تو اب وہ اپنے راستے کی دوسری بڑی رکاوٹ بادشاہت اور جاگیرداری کو بھی ختم کرنا چاہتی تھی۔اس لیے کہ اب وہ بادشاہت کی تابع داری نہیں کرنا چاہتی تھی۔کیوں کہ اب وہ پرانی جاگیردار ریاستوں کی سیاسی مداخلت کی مزیدمتحمل نہیں ہوسکتی تھی۔اور انہیں مزید ٹیکس نہیں دینا چاہتی تھی۔اس لیے اس نے عوام کو جمہوریت، انفرادی آزادی ، انسان دوستی، سیکولرازم، آئین سازی اور انسانی حقوق کے نعرے دے کر جاگیرداری ،اور بادشاہت کے خلاف بغاوت اور جنگ پر آمادہ کیا۔تاکہ تجارت میں ریاست کی کوئی مداخلت نہ ہو۔
بورژوازی کے ساتھ ساتھ لبرل ازم بھی ترقی کرتا گیا اور ایک وقت ایسا آیا جب یہ ایک تحریک کی صورت میں ابھرا۔بہت سے فلسفیوں نے اسے ایک نظریہ کی صورت دینے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ مثال کے طور پربرطانوی فلسفی ہابس نے سوشل کنٹریکٹ کا نظریہ پیش کیا،جس کے مطابق حکومت کو قانون سازی عوام کی مرضی کے مطابق کرنی چاہیے۔اس نظریے کو جان لاک نے مزید ترقی دی ۔اس نے چرچ کو ریاست سے علیحدہ کرنے کی تجویز دی ،بادشاہ کے الوہی حق کو چیلنج کیا اور ذاتی ملکیت کی وکالت کی۔لاک نے اپنی کتاب "Second Treatise of Government”: میں لکھا:” :ہر شخص کوزندگی ،آزادی اور جائیداد رکھنے کا فطری حق حاصل ہے۔ ”
بعدازاں والٹئیر، مونٹیسکو اورروسو نے بھی لبرل ازم کے ارتقا میں بہت اہم کردارادا کیا۔روسو نے سوشل کنٹریکٹ کے نظریے کو مزید وسعت د ی۔ اس نے مطلق العنان بادشاہت اور جاگیرداری کے خلاف سخت احتجاج کیا اور جمہوری بنیادوں پر فرد کے ذاتی و شہری حقوق کی وکالت کی۔روسو نے تو انسان کی آزادی کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا ” :انسان آزاد پیدا ہوتا ہے مگر ہر طرف زنجیریں ہیں۔”
1779ءکے انقلابِ فرانس میں بورژوازی کا نعرہ "Liberty, equalit and fraternity” تھا،جسے بلند کرکے اس نے عوام کو بادشاہت اور جاگیرداری کے خلاف ابھارا۔یورپ میںتیس سالہ جنگ (1618-1648)سے بوسیدہ جاگیرداری کو بہت بڑا دھچکا لگا۔اور اس کی بنیادیں ہل گئیں۔المختصر برطانیہ کی خانہ جنگی (1642-1652) ، جو ایک طبقاتی جنگ تھی،نے بھی جاگیرداری کا خاتمہ کرنے کے لیے سرمایہ داری کا راستہ ہموار کیا۔ یہ جنگ آگے جاکر Glorious Revolution ایسے بورژوا جمہوری انقلاب پر منتج ہوئی،جس میں شاہ پرست جاگیردار اشرافیہ طبقہ ختم ہوگیا ۔اور سیاسی طور پر بورژوازی مکمل طور پر ریاست پر چھا گئی۔1783ءکے امریکی انقلاب میں بھی یہی ہوا۔1779ءکے انقلابِ فرانس میںبھی جاگیردار اشرافیہ پر بورژوازی کو فتح حاصل ہوئی ۔اور مئی 1771ءمیں پیرس کمیون کے انہدام کے بعدبھی یہی ہوا۔ اور فرانس میں جاگیردارانہ سیاست کی جگہ مکمل طور پر بورژوا سیاست نے لے لی۔1830 ءکے انقلابات کا بھی یہی نتیجہ برآمد ہوا۔ اٹلی میں بھی1870ءمیں بورژوازی اور جاگیردار اشرافیہ کے درمیان طبقاتی جنگ کا بھی یہی نتیجہ برآمد ہوا۔انیسویں صدی کے وسط میں1848ءکے ناکام جرمن انقلاب کے بعد جرمنی میں بھی بورژوازی نے سیاسی باگ ڈور سنبھال لی۔1861ءکی اصلاحات کے بعدروس بھی سرمایہ داری اور صنعتی عہد میں داخل ہوگیا۔اس طرح بورژوازی نے لبرل ازم کو ہتھیار بنا کرجاگیردار ریاستوں کو مسلح جدوجہد اور بورژوا جمہوری انقلابات کے ذریعے اکھاڑپھینکنے کا جواز پیش کیا۔
بورژوازی کے ظہور اور سرمایہ داری کی ترویج سے بادشاہت کی جگہ آئین پسندی، کلیسا کی جگہ سیکولرازم ،بادشاہ کی مرضی کی جگہ شخصی آزادی، شاہی دربار کی جگہ پارلیمنٹ ،قبائلیت کی جگہ انفرادیت پسندی اورخرددشمنی کی جگہ روشن فکری وجود میں آئی۔ سرمایہ داری جاگیرداری کے مقابلے میں ترقی یافتہ اور انقلابی نظام تھا۔اس دور میں ذرائع آمدورفت اوربری و بحری مواصلات میں بے پناہ ترقی ہوئی۔کارخانوں، کمپنیوں اور بینکوں کے قیام سے تعلیم عام ہوئی۔روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔بھاپ کی نئی دریافتوں نے سائنس کو مقبول بنایا۔ریل، ٹیلی گراف اور ڈاک کا نظام وجود میں آیا۔اس نظام میں بورژوازی نے بے پناہ ترقی کی مگر وہ اپنے تضادات سے نہ بچ سکا اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے گورکن طبقے پرولتاریہ کو بھی ترقی دیتا گیا۔انیسویں صدی کے آخری عشرے میں سرمایہ داری میں بے حد وسعت کے ساتھ ساتھ محنت کش طبقے کی تعداد میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔اور وہ سرمایہ داری کے خلاف لڑنے کے لیے خود کو ٹریڈیونین ازم کے ہتھیاوں سے لیس کرنے لگا۔
اسی طرح لبرل ازم بھی ان ادوار کے تناظر میں ایک انقلابی فلسفہ تھا۔لیکن جب اس کے مقاصد پورے ہوگئے تو وہ ایک رجعت پسند اور ردِ انقلابی نظریے میں تبدیل ہوگیا۔اس نے پیرس کمیون کی ڈھائی ماہ پر مبنی محنت کش ریاست کو فوجی قوت سے کچل کر اسے سبوتاژ کرنے کو جائز قراردیا۔محنت کش طبقے کی بہت سی ہڑتالوں کو تشدد کے ذریعے دبانے کا جواز پیش کیا۔ یکم مئی کا دن اس کی زندہ مثال ہے،جب یکم مئی 1886 ءمیں شکاگو میں مزدوروں کے پرامن جلوس پر گولیاں برساکر انہیں شہید کیا گیا تو اس کا جواز بھی لبرل ازم نے بورژوازی کو فراہم کیا۔مارکس نے اس دور میں پیدا ہونے والے لبرل ازم اور لبرل معیشت دانوںکی تردید کی اور اپنی کتاب” کپیٹل "میں لبرل معیشت دانوں تھامس مالتھس، ایڈم سمتھ،ریکارڈو، سٹورٹ مل اور دیگر کے نظریات کی تردید کی ۔
انیسویں صدی کے آخری عشرے میں سیکنڈ انٹرنیشنل کے دانشوروں نے لبرل اکانومزم کے نظریے کو ترقی دی۔اور مارکسزم میں ترمیم پسندی کا نظریہ پیش کیا۔یہ رجحان دراصل معیشت پسندی پر مبنی تھا،جسے برنسٹائین اور ملراں نے رواج دیا تھا۔انہوں نے یہ دلیل پیش کی کہ اب سوشلسٹ انقلاب کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور سرمایہ داری میں اصلاحات کے ذریعے بورژوا اور پرولتاریہ کے درمیان طبقاتی تفریق کو ختم کیا جاسکتا ہے۔پلیخانوف نے اس نظریے پر سخت تنقید کی۔بعدازاں لینن نے اپنی کتاب "What is to be Done?”میں اس ترمیم پسند ی کو ہدفِ تنقید بنایا۔ اس وقت روس میں بھی لبرل دانشور وں کا ایک گروہ پیدا ہوا،جس نے برنسٹائین اور ملراں کے ترمیم پسند نظریے کو رواج دیا۔ اس گروہ کی ایک خاتون یکترینہ دیمیریفنا کوسکووفا نے1899 ءمیں”ہمارا کریڈو "کے نام سے ایک منشور تحریر کیا،جس میں بیان کیا گیا کہ محنت کشوں کی دلچسپی زیادہ سے زیادہ اجرت کمانے میں ہے اور انہیں انقلاب کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کو ختم کرنے کا مارکسسٹ نظریہ غلط ثابت ہوچکاہے اور روس میں سرمایہ داری میں درجہ بدرجہ اصلاحات کے ذریعے سوشلزم کی منزل تک رسائی کی جاسکتی ہے ۔ لینن نے "کریڈو "کا جواب "Protest by Russian Social Democrats” کے عنوان سے تحریر کیا ۔(1) دوسری جگہ لینن نے لبرل ازم پر تنقید کرتے ہوئے لکھا:”مارکسز م کے برعکس لبرل سائنس اجرتی غلامی کا دفاع کرتی ہے۔(2) ” لینن نے روسی لبرل پارٹی کیڈٹ(Constitutional Democratic Party)کے لبرل ازم کی بھی مخالفت کی اوراس کے مجموعہِ مضامین ” ویخی” کو بھی ہدفِ تنقید بنایا۔لینن نے لبرل ازم کے خلاف ایک طویل نظریاتی و عملی جنگ لڑی۔لبرل ازم کے خلاف لینن کی تحریریں ہر مارکسسٹ کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
سرمایہ داری کا آغاز بہت ہی روشن خیال اور انقلابی تھا۔صنعتی انقلاب کے ساتھ بہت سی مادی ایجادات ہوئیں۔سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت ترقی ہوئی،جس کے نتیجے میں قومی دولت، قومی ارتقا، انفرادی آزادی اور تعلیم کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ مگر سرمایہ داری کی تکمیل کے بعداس کے نقصان دہ پہلو سامنے آنے لگے۔اور اس کے فوائدختم ہونے لگے۔ ابتدا میں کارخانے،کمپنیاں اور بینک اتنے زیادہ تھے کہ ان کا ہر طرف جال بچھا ہوا تھا۔سرمایہ ہر طرف گردش کررہا تھا اور بے روزگاری کم از کم تھی۔لیکن جب سرمایہ داروں کے درمیان باہمی مقابلہ شروع ہوا تو اس جدوجہد میں چھوٹے چھوٹے کارخانہ دار ،کمپنیاں اور بینک ختم ہوتے گئے اور سرمایہ چند بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں مرکوز ہوتا گیا،جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوتا گیااور ہر ملک میں اس کی اکانومی پر چند بڑے سرمایہ داروں کا تسلط ہوگیا۔سرمایہ داروں نے جب اپنے اپنے ملکوں کی معیشت پر قبضہ جما لیا تو انہوں نے اپنی منڈیوں کو دوسرے ملکوں تک پھیلانا شروع کردیا۔کیوں کہ اس سے ان کی خام مال، سستی محنت اور مصنوعات کی کھپت کے لیے منڈی کی ضروریات کی تکمیل ہوسکتی تھی۔
یہیں سے سرمایہ داری نے سامراجیت کی شکل اختیار کی۔ بڑے بڑے یورپی ملکوں میں بے حد معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ اجارہ داری کے غلبے اور سامراجی توسیع پسندی سے صنعت اور ٹیکنالوجی کی وسعت، منافع کے نرخوں اور ارتکازِ سرمایہ میں مسلسل اضافہ ہوا، جس نے بڑی بڑی سامراجی قوتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی جنگی رقابتوں کے نئے دور کا آغاز کردیا۔ یہ معروضی حالات 1874ءتا 1894ء(پیرس کمیون کے انہدام کے بعد اور اینگلو۔ بوئر میں داخلی سامراجی کشمکشوں اور ہسپانوی، امریکی اور روس و جاپان جنگوں کے آغاز سے پیشتر) کے سرمایہ داری ارتقاءکے نسبتاً پرسکون مرحلے کے تاریخی معروضی حالات سے مکمل طور پر مختلف تھے۔ انیسویں صدی کے آخری عشرے اور بیسویں صدی کے اولیں عشرے میں سامراجیت کی ترقی نے بڑے بڑے سرمایہ دار ملکوں کے درمیان جن خطرناک رقابتوں اور دشمنیوں کو پیدا کیا۔ انہوں نے ارتقاءکے ایک خاص نکتے پر پہنچ کر سامراجی پہلی عالمی جنگ کی صورت میں خود کو ظاہر کیا۔ اور ابھی پہلی عالمی جنگ کی تباہیوں سے دنیا باہر نہیں نکلی تھی کہ دوسری عالمی جنگ کی صورت میں قیامت ٹوٹ پڑی۔اس طرح لبرل بورژوازی نے نوآبادیاتی منڈیوں کی تقسیم پر دو عالمی جنگوں میں دنیا کو جہنم کی آگ جھونک دیا تھا۔اورروس میں اکتوبر انقلاب سے لے کر 1991ءتک لبرل بورژوازی نے کمیونزم کے خلاف جنگ لڑی۔کولڈ وار کے زمانے میں عالمی بورژوازی نے سوشلسٹ بلاک کو لبرل ازم کے ذریعے گرانے کی کوشش کی۔
تاریخ میں بورژوازی کی طرح لبرل ازم نے بھی بہت سے روپ دھارے ہیں۔ بیسویں صدی میں وجودیت کی تحریک بھی لبرل ازم پر مبنی تھی جو ہیومنزم اور فرد کی شخصی آزادی پر زور دیتی ہے،۔ماڈرن ازم اور پوسٹ ماڈرن ازم کی تحریکوں کے اکثر دبستانِ فکر بھی لبرل ازم کی مختلف صورتیں ہیں۔لبرل ازم لبرل اکانومزم کے روپ میں بھی سامنے آیا اور میکارتھی ازم کی صورت میں ظاہر ہوا۔بعدازاںلبرل ازم نے تھیچر ازم کی صورت میں نیو لبرل ازم کا روپ بھی دھارا۔فوکو یاما اور ہٹنگٹن کے نظریات اور بش کا نیو ورلڈ آرڈر بھی نیولبرل ازم پر مبنی ہیں،جو بورژوا ڈیموکریسی اور سرمایہ دارانہ مارکیٹ اکانومی کو حتمی تصور کرتے ہیں۔یہ نظریات اپنے جوہر میں مارکسزم مخالف ہیں۔نیو لبرل ازم کا کمیونزم مخالف پروپیگنڈہ کرنے کے لیے دنیا بھر میں مختلف ذرائع ابلاغ استعمال کیے جاتے رہے ہیں ،اور اب بھی کیے جارہے ہیں،جس میں سوشل میڈیا سرِ فہرست ہے۔
پاکستان میں سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ ساتھ بہت سے ترقی پسند دانشوروں نے بھی نیو لبرل ازم میں پناہ لی اور سرمایہ داری اور بورژوا جمہوریت کے حامی ہوگئے،جوہیومن رائٹس کمیشن میں کام کرتے ہیں۔ان میں کچھ گرامچین اور ٹراٹسکائیٹس سوشل ڈیموکریسی کی وکالت کرتے ہیں اور کچھ این جی اوز میں سرگرمِ عمل ہیں۔یہ سب دانشور سٹیٹس کو کو قائم رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس وقت ان سب کے سب گروہوں اور دھڑوں میں دانشور اور ادیب سرمایہ داری کی حاشیہ برداری اور کمیونزم دشمنی میں سرگرمِ عمل ہیں۔ان کی ایک نیو لبرل ویب سائیٹ "ہم سب "کے نام سے بھی موجود ہے،جس کے ارد گر د درباری پیٹی بورژوادانشور،صحافی اور ادیب جمع ہیں۔ان کی تحریروں میں جہاں سرمایہ داری کی وکالت ہوتی ہے وہاں ان میں کمیونزم دشمنی بھی لازمی ہوتی ہے۔اس سلسلے میں یہ جھوٹ اور مبالغہ آرائی کو بروئے کار لاتے ہوئے مارکسزم کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ان کی سرپرستی حکمران طبقے کی مختلف پرتیں کرتی ہیں۔
اسی طرح فیمنزم کے اکثر مکاتیب ِ فکر لبرل ازم پر مبنی ہیں،اس میں تو ایک لبرل فیمنزم کے نام سے بھی مشہور ہے،جو عورت کو کماڈیٹی بنانے کی وکالت کرتی ہے۔اور سیکس انڈسٹری کے لیے جواز فراہم کرتی ہے۔کیوں کہ انیسویں صدی کی فن برائے فن کی سب تحریکوں کا نظریہ بذاتِ خود لبرل ازم پر مبنی ہے۔اس میں ہمیشہ ایسا فن و ادب سامنے لایا جاتا رہاہے،جو صرف فرد اور اس کی مادر پدر آزادی کی وکالت کرتا ہے۔اس تحریک نے تمام اخلاقی، ثقافتی اور سماجی قدروں کا تمسخر اڑایا۔ اس کے ایک مشہور فرینچ رہنما تھیوفائل گاتئیر نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ "میں برہنہ عورت کی صرف ایک جھلک کے بدلے فرانس کی شہریت سے بھی دستبردار ہونے کو تیار ہوں” یہ لبرل ازم کی ایک ایسی شکل ہے،جسے جنسی لبرل ازم سے موسوم کیاجاتا ہے ،جس کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں سگمنڈ فرائیڈ کی Psycho-analysis Theoryسے جاکر ملتے ہیں۔کیوں کہ فرائیڈ نے بھی اپنے اس نظریے کی بنیاد فرد کی جنسی جبلت کی آزادی پر استوار کی تھی۔اس کے مطابق فرد کی جنسی خواہش کی تکمیل میں مذہب، سماج اور اخلاقیات رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔فرائیڈ کا نظریہ پورنو گرافی کی بھی بنیاد بنا۔اس لیے پورنوگرافی کا ساراادب فرائیڈ کے مذکورہ بالا نظریے کے گرد گھومتا ہے۔
پورنو گرافی دو طرح کی ہوتی ہے۔Erotic Pornography اور Exotic Pornography۔اول الذکر میں مخالف جنس کی جسمانی محبت کے پہلوﺅں اور خدوخال کا بیان ہوتا ہے۔جب کہ ثانی الذکر میں ابنارمل جنسی سرگرمیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔حال ہی میں میری نظر سے ابنارمل جنسی سرگرمیوں اور حرکتوں پر مبنی کچھ ایسی کہانیاں بھی گزری ہیں،جو Exotic Pornography کے زمرے میں آتی ہیں۔ان میں مصنف کی شیزو فرینک شخصیت کی نفسیاتی و اعصابی کجرویاں، الجھنیں اور بیماریاں ظاہر ہوتی ہیں۔کیوں کہ ہمارے ہاں تو جنسی لبرل ادیب پورنوگرافی کی آخری حد تک گئے ہیں جہاں فرانس کے مشہور پورنوگرافر مارکوس ڈی صیڈ کی پورنو گرافک تحریرں بھی شرمندہ ہیں ،فلابیر کی مادام باوری بھی حیرت سے انگشت بدنداں ہے ۔ ڈی ایچ لارنس کی لیڈی چیٹر لی بھی شرم سے پانی پانی ہے ۔اور نیبکوف کی Lolita کا ناطقہ بھی سر بگریباں ہے۔پورنوگرافی کی اس داستان کا ہیرو خود اس کا مصنف ہے،جو ڈان کیوکزوٹ کی طرح جنسی مہم جوئی پر گامزن ہے۔ اور مسلسل جنسی معرکے سرانجام دیتا جاتا ہے۔اس کی جنسی مہم جوئی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ہے۔باراتِ عاشقاں بر ہر شاخِ آہو کے مصداق وہ ہر تتلی کا تعاقب کرتا ہے ۔اس کی ہوس ختم ہی نہیں ہوتی ہے اور وہ بقول شاعر”دنیا بھر کی لڑکیو میری ہوجاﺅ۔” کی خواہش کی تکمیل کے لیے ہر عورت سے متمتع ہونا چاہتا ہے۔اس کی مہم جوئی میںکچھ عورتیں جو اس کے ہاتھ نہیں آئی ہیں،اس نے انہیں زبردستی استعمال کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ایسے ادیب عورت کو صرف ایک کماڈیٹی کا درجہ دیتے ہیں، جو محض سامانِ تعیش ہی فراہم کرسکتی ہے۔وہ اس میں محبوبہ کی محبت،بیوی کا پیار، ماں کی ممتا،بہن کی شفقت اور بیٹی کی انسیت نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ عورت کی اس قسم کی تذلیل و تحقیر کے خلاف جدوجہد کی ضرورت ہے۔کیوں کہ ایسا ادب نہ صرف فرد کی ہمہ جہت شخصیت کے لیے مضر ہے بلکہ سماج کے لیے بھی سخت نقصان دہ ہے۔ایسا ادب محنت کش طبقے کو بھی گمراہ کرتا ہے اور نوجوان طلبہ اور کم سن لڑکے اور لڑکیوں کوبھی۔
لینن نے اس قسم کی غلط نگاری کو سختی سے ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ جب مشہور بالشویک خاتون آنیسہ آرمنڈ محبت کو موضوع بنا کر محنت کش لڑکیوں پر ایک کتابچہ لکھنے لگی،جس میں وہ محنت کش لڑکیوں کے لیے آزاد محبت کا مطالبہ اورDirty Kisses کا ذکر کرنا چاہتی تھی تو لینن نے اسے تنبیہ کرتے ہوئے ایک خط میں لکھا کہ آزاد محبت کا مطالبہ پرولتاری نہیں بلکہ بورژوا ہے۔اور Dirty Kisses کا ذکر یہاں بالکل نامناسب ہے۔ (3)
اسی طرح لینن نے گلاس تھیوری کو بھی بورژوا نظریہ قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی،جس کے مطابق جنسی پیاس کو ایسے بجھانا چاہیے ،جیسے ایک پیاسا پانی کا گلاس پی کر اپنی پیاس بجھاتا ہے۔لینن نے اس تھیوری کی تردید کرتے ہوئے کہا :
جنس کا جذبہ صرف فطری نہیں ہے بلکہ ثقافتی بھی ہے۔۔۔۔کیاکوئی شخص ایسے گلاس میں پانی پینا پسند کرے گا،جوپہلے سے ہی مختلف لبوں کے غلظ نشانات سے آلودہ ہو۔؟(4)
المختصر لبرل ازم اپنی تمام صورتوں میں ایک رجعت پسند اور کمیونزم دشمن نظریہ ہے، جو کیپٹلزم اور مارکیٹ اکانومی کی حتمیت اور آفاقیت کا پرچار کرتا ہے اور فردکے ہاتھوں دوسرے افراد کا استحصال،قوم کے ہاتھوں دوسری قوموں پر ظلم وجبراور مرد کی عورت پر بالادستی کو جائز قراردیتا ہے۔یہ نہ صرف فرد کے ہمہ جہت شخصی ارتقا کے راستے میں دیوارِ چین کھڑی کرتا ہے،بلکہ قومی اور صنفی غلامی کو بھی قائم رکھنا چاہتا ہے۔یہ محنت کش طبقے کو بھی سوشلسٹ انقلاب کی طرف بڑھنے سے روکتا ہے۔ اس لیے لبرل ازم اور اس کی ہر صورت کے خلاف جدوجہد کرنا ہر مارکسسٹ کا فریضہِ اولیں ہے۔
References
1. Lenin, V. I. Collected Works. Moscow: Progress Publishers, 1970. Vol. 4. Pp.167-182
2. Lenin, V. I. On Culture and Cultural Revolution. Moscow: Progress Publishers, 1966. P. 34
3. Lenin, V. I. Collected Works.Vol. 35. Pp.180-184
4. Zetkin, C. My Recollections of Lenin. Moscow: Foreign Languages
Publishing House, 1956. P. 58
ماہتاک سنگت کوئٹہ