قومی تضاد بالآخر طبقاتی تضاد ثابت ہوتے ہیں۔ ایک قوم کا دوسری قوم پر حملہ حقیقت میںکیا ہے ؟۔ غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ چڑھائی کرنے والی قوم کے مختلف اور مخالف طبقوں کے کچھ لوگ ( مثلاً سردار ، چوہدری ، وڈیرے ، سرمایہ دار، بیوپاری ، دانشور ، کسان ، مزدور اور سپاہی وغیرہ ) عارضی طور پر اپنے سارے طبقاتی تضاد اور مقابلے ٹھنڈے کر کے انہیں ایک طرف رکھ کر دوسری قوم کے سارے مختلف اور مخالف طبقوں کے لوگوں، گھروں ، زمینوں اور ملکیتوں پر حملہ کرتے ہیں۔ حملے کے شکار مختلف اور مخالف طبقوں کے لوگ بھی عارضی طور پر اپنے طبقاتی تضاد ، مقابلے اور اختلاف ٹھنڈے اور ایک طرف کر کے دشمن سے مقابلہ کرتے ہیں۔ اگر حملہ کرنے والے کامیاب ہوتے ہیں تو لوٹ کے مال سے حملہ آور قوم کے سارے افراد اور (میدان جنگ سے) پیچھے بیٹھے ہوئے لوگ براہ راست یا بالواسطہ فائدہ حاصل کرتے ہیں ، خواہ وہ چڑھائی میں شامل ہوں یا گھر بیٹھے ہوں اور خواہ ان کی نیت کیسی ہی ہو۔ (در حقیقت اگر حملہ آور ظالم اور لوٹ مار کرنے والی قوم کا کوئی بھی فرد یہ نہ چاہے اور کوشش کرے کہ اسے مظلوم قوم کی لوٹ
کھسوٹ کے مال سے حصہ نہ ملے تو بھی وہ ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ یہ لوٹ کھسوٹ آہستہ آہستہ اتنے سینکڑوں ، ہزاروں ظاہری اور باطنی واضح اور غیر واضح روپ اختیار کر لیتی ہے اور دوسری کئی لا محدود باتوں، چیزوں، نفعوں ، نقصانوں سے خلط ملط اور مل جل کر ایک ہو جاتی ہے کہ اس کو دوسری چیزوں سے الگ کرنا پہچاننا اور قبول کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔)۔
لیکن باوجود اس کے مغلوب اور لٹی ہوئی قوم سے کی گئی لوٹ کھسوٹ کے مال میں حملہ آور قوم کے سارے طبقوں کے لوگ براہ راست یا بالواسطہ شامل اور حصہ دار ہوتے ہیں ۔پھر بھی ہر طبقے کا حصہ ایک جتنا نہیں ہوتا ۔حملہ آور اور بالا دست قوم کے اوپر والے (یعنی زمیندار اور سرمایہ دار طبقے )لوٹ کھسوٹ کے مال کا مکھن اوپر ہی اوپر سے کھا جاتے ہیں اور باقی دوسرے طبقوں خصوصاً محنت کش طبقے کو بچی کھچی کھٹی چھاچھ کا ایک گھونٹ جا کر نصیب ہوتا ہے۔ اسی طرح مظلوم اور حملے کی شکار قوم کے اوپر والے طبقوں کو اس لوٹ کھسوٹ میں سب سے کم نقصان پہنچتا ہے اور دشمن کے ساتھ نباہ بھی سب سے پہلے وہی کرتے ہیں۔ وہ جلد ہی شکست تسلیم کر کے دشمن کے آگے سرخم کر لیتے ہیں اور جلد ہی اس کے ساتھ صلح کر لیتے ہیں، اور اپنی مظلوم اورلٹی ہوئی قوم کی لوٹ کھسوٹ کے عمل اور مال میں دشمن کے چھوٹے حصے دار بن جاتے ہیں۔ اس طرح وہ عام طرح غلامی کی حیثیت میں رہتے ہوئے اور عام قومی غلامی کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی پہلے کی طرح کسی نہ کسی صورت میں اپنی قوم کے حاکم رہتے ہیں۔ اسی طرح ان کی حیثیت اور کردار دو ہرا، بہروپیا اور متضاد رہتا ہے۔ وہ ایک طرف اپنی قوم کے دوسرے طبقوں کی طرح لٹے ہوئے ، غلام اور مظلوم ہوتے ہیں، تو ساتھ ہی دوسری طرف ظالم قوم کے لٹیروں اور ڈاکوو¿ں کے گماشتے اور حصہ دار بن کر اپنی مظلوم قوم پر ظلم کرنے والے ظالم بھی۔ پہلی حیثیت میں وہ ایک طرف کچھ باتوں میں کسی حد تک اپنی قوم کے دوسرے طبقوں سے اتحاد کر کے بیرونی حملہ آوروں کا کسی نہ کسی قسم کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو دوسری حیثیت میں اس کے برعکس کچھ باتوں میں بیرونی لٹیروں سے اتحاد کر کے اپنی قوم پر ظلم کرتے رہتے ہیں۔
اسی طرح قومی مقابلے میں مجموعی طرح برابر ایک ساری قوم دوسری ساری قوم سے لڑتی ہے اور لٹے ہوئے خواہ لیٹرے سارے طبقے کسی نہ کسی حد تک کسی نہ کسی طرح اس قومی مقابلے میں حصہ لیتے ہیں۔ لیکن بنیادی فیصلہ کن ،آخری اور زندگی اور موت کا مقابلہ پھر بھی طبقاتی نوعیت کا ہوتا ہے۔ کیونکہ طویل اور کھینچا تانی والی جنگ کے بعد مظلوم قوم کی کچھ کامیابیوں کے بعد ظالم اور حملہ آور قوم کی کسی قدر شکست وریخت کے بعد ظالم قوم کے نچلے طبقے جنہیں لوٹ کے مال سے معمولی حصہ ملتا ہے اور جنہیں جنگ میں سب سے زیادہ نقصان ا±ٹھانا پڑتا ہے وہ اور مظلوم قوم کے اوپر والے مفت خور طبقے جن کی ویسے تو بہت معمولی لوٹ کھسوٹ ہوتی ہے۔ لیکن اس طویل قومی جنگ کی وجہ سے انہیں بڑا نقصان ہوتا ہے۔ وہ اکثر اس جنگ میں اپنے طبقاتی فائدے کم ہونے کی وجہ سے زیادہ دیر تک نہیں لڑتے اور لڑائی میں ان کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے اور وہ بد دل اور بیزار ہو جاتے ہیں۔ ان کے جو اپنی قوم کے دوسرے طبقوں سے داخلی تضاد اور اختلاف ہوتے ہیں۔ انہیں وہ دوسری قوم سے قومی جنگ کے شروعاتی دور میں کوشش کرکے مدھم اور ٹھنڈا کر کے ایک طرف رکھتے ہیں لیکن آگے چل کر یہ طبقاتی اختلاف تضاد اور دشمنیاں زیادہ دیر مدھم اور ٹھنڈے نہیں رہتے۔ اور اچانک کسی منزل پر ظالم قوم کے محنت کش طبقے اپنی قوم سے اور مظلوم قوم کے مفت خور اوپر والے طبقے اپنی قوم سے دلی اور بھر پور ساتھ دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر بالآخران دو مخالف قوموں کے مابین چلتی ہوئی یہ قومی جنگ ظاہری طرح اور مجموعی طرح تو قومی جنگ ہی رہے گی لیکن حقیقت میں وہ طبقاتی جنگ بن جائے گی۔ یعنی پہلے کی طرح ایک ساری کی ساری قوم کے سارے طبقات ایک طرف اور دوسری ساری کی ساری قوم کے سارے طبقات دوسری طرف ہوں اور آپس میں لڑیں۔ ایسا نہیں رہے گا۔ اب اصل مقابلہ جا کر ہر قوم کے فقط کچھ طبقوں کا دوسری قوم کے فقط کچھ طبقوں کے ساتھ رہے گا۔ یعنی ایک طرف مظلوم قوم کے محنت کش طبقات اور ان کے مددگار ہوں گے تو دوسری طرف ظالم قوم کے اوپر والے لٹیرے طبقات اور ان کے مددگار ہوں گے ، اور اس طرح یہ قومی جنگ ایک طبقاتی جنگ بن جائے گی اس کا روپ تو قومی ہوگا لیکن اس کا حقیقی جوہر طبقاتی ہوگا۔
ماہتاک سنگت کوئٹہ فروری 2023