کتابوں کی دکانوں پر جانا اور وہاں گھنٹوں نئی کتابوں کی ورق گردانی کرنا میری پرانی عادت ہے۔ کتابوں کی خریداری ایک ادیب اور شاعر کے لئے ضرورت بھی ہے اور عیاشی بھی اور دونوں کے لئے جیب میں روپیہ ہونا ضروری ہے۔ روپے کی کمی کی وجہ سے اپنے ذوق کی تسکین، میں کتابوں کی دکانوں میں مفت کتابیں پڑھ کر کرتا رہا ہوں۔
یہ غالباً 1947ءکا واقعہ ہے۔ بمبئی میں کمیونسٹ پارٹی کے ہیڈکوارٹر راج بھون میں عوامی دارالاشاعت کی دکان تھی۔ ایک دن میں اس میں داخل ہوا تو سیکڑوں کتابوں میں سے ایک انگریزی کتاب نے میری نظر اپنی طرف کھینچ لیا۔ اس کا نام EARTH ON RESIDENCE تھا۔ لکھنے والے کا نام بالکل نیا تھا۔ پابلونرودا۔۔۔ اوریہ نام میں نے پہلے نہیں سنا تھا اور دلچسپ بات یہ تھی کہ عام روش سے ہٹ کر اس کتاب پر مصنف کا نام بڑے بڑے حرفوں میں پورے گرد پوش پر ترچھا لکھا تھا اور کتاب کا نام اوپربائیں طرف ایک کونے میں چھوٹے چھوٹے حرفوں میں چھپا تھا۔ یہ نظموں کا ایک انتخاب تھا جس میں اصل نظمیں ہسپانوی زبان میں تھیں اور سامنے کے صفحے پر ان کا ترجمہ انگریزی زبان میں تھا۔
پابلونرودا کا نام اجنبی ہونے کے باوجود مجھے اجنبی نہیں لگا کیوں کہ اس کا پہلا لفظ پکاسو کے نام کا حصہ تھا اور دوسرا لفظ چیکوسلواکیہ کے ایک پرانے ادیب کی یاد دلا رہا تھا۔ مجھے اب یاد نہیں کہ گردپوش پرکچھ لکھا تھا یا نہیں، لیکن کتاب میں کوئی دیباچہ نہیں تھا۔ میں نے اندازہ لگایاکہ یہ شاعر اپنے چیک نام کے باوجود ہسپانوی ہے۔ یہ بعد میں پتہ چلا کہ وہ چلی کا باشندہ ہے۔ اب میں نے کتاب بیچ سے کھولی توسب سے پہلی نظم جس پر نگاہ پڑی اس کا عنوان تھا۔
ODE TO FEDRICO GARCIA LORCA
لورکا میرا محبوب شاعر ہے، جس کی نظمیں میں نے نرودا کانام سننے سے دس سال پہلے پڑھی تھیں۔ وہ سپین کی خانہ جنگی کے دوران فرانکو کے فاشسٹ سپاہیوں کے ہاتھوں غرناطہ میں قتل کیا گیا اور میں نے اپنے احباب کے ساتھ اس کی موت کا ماتم کیا تھا۔ میں بارہا اس کا نام اپنے مضامین میں لکھ چکا تھا۔ جس طرح دو اجنبی ایک مشترک دوست کے واسطے سے دوست بن جاتے ہیں، اسی طرح لورکا پرنرودا کی نظم نے اس کی اجنبیت دور کر دی اور نظم کے آخری مصرعوں میں، میں نے اس نئے شاعر کو دیکھنے کی کوشش کی۔
(ترجمہ، یہ ہے زندگی فیڈریکو۔ یہی کچھ ہے جو ایک اداس لیکن مرد انسان کی محبت تمہیں پیش کر سکتی ہے)
لیکن اس کاچہرہ اب بھی نقاب میں چھپا رہا۔ میں نے ابھی تک کتاب خریدنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ بس اس کے اوراق الٹ رہا تھا اور نظمیں پڑھ رہا تھا۔ شروع کی نظمیں اپنے حساس الفا ظ اور خوبصورت امیجری کے باوجود کچھ الجھی الجھی لگیں۔ کئی نظموں میں موت اس طرح جھانکتی دکھائی دی جیسے وہ شاعر کی محبوبہ ہو۔ ایک نظم پڑھ کرگمان ہوا کہ شاعر ہندوستان یا اس کے قرب وجوار کے ممالک کی سیر کر چکا ہے لیکن جب میں نے کتاب کے درمیانی حصے کی نظمیں پڑھیں جو سپین کی خانہ جنگی سے متعلق تھیں اور خاص طور سے،
(چند باتیں بین الاقوامی بریگیڈ کی آمد میڈرڈ میں)
توشاعر کی ساری شخصیت بے نقاب ہوکر سامنے آگئی اور وہ اپنے ہی قبیلے کا ایک انقلابی شاعر نکلا۔ اور جب میں نے اس کی کتاب کی آخری نظم کے آخری مصرعے پڑھے۔
(ترجمہ، اس نئے دل کو دیکھو جو تمہیں تہنیت دے رہا ہے۔ تمہیں ایک خوبصورت پھول پیش کر رہا ہے، حوصلہ مندی اور سنہری)
تومجھے ایسا محسوس ہوا کہ دیوان حافظ سے فال نکل آئی ہے۔ پابلونرودا میرا نیادوست ہے جوکسی نہ کسی دن، کسی نہ کسی طرف سے ضرور آئےگا۔
لورکا اور پابلونرودا ہسپانوی خانہ جنگی کے زمانے میں ایک دوسرے کے دوست ہو گئے تھے۔ یہ آگ، بارود، خون اور شاعری کا رشتہ تھا۔ یہیں سے پابلونرودا کی شاعری میں نیا موڑ آیا اور وہ انقلابی اورعوامی آہنگ پیدا ہوا جو نرودا کا طرہ امتیاز ہے۔ سپین کی خانہ جنگی سے سٹالن گراڈ کے مورچے تک اور وہاں سے ایٹم بم کی وحشت ناکی اور پھرعالمی امن تحریک کے شباب تک پابلونرودا صرف ایک شاعر اور مغنی ہی نہیں تھا بلکہ ایک انقلابی سپاہی اور مجاہد بھی تھا جو پورے امریکی خطے کا ضمیر بن چکا تھا اور انسانیت کے ضمیر کو بیدار کر رہا تھا۔
1942 میں وہ میکسیکو میں چلی کا سفیر تھا۔ ایک دن لوگوں نے کیا دیکھا کہ سارے شہر پر عجیب وغریب پوسٹر لگے ہوئے ہیں، جن پر نرودا کی نئی نظم ”سٹالن گراڈ“ چھپی ہوئی تھی۔ ان میں امریکہ اور انگلستان کے رویے کے خلاف احتجاج کی آواز تھی جو سٹالن گراڈ کے مورچے پر لڑنے والے بہادروں کی امداد کرنے سے گریز کر رہے تھے اور ہٹلر کے خلاف دوسرا جنگی محاذ کھولنے میں تاخیر سے کام لے رہے تھے:
جب تیرا دل ہزاروں گولیوں سے زخمی ہے
جب اے سٹالن گراڈ
زہریلے بچھو تیرے دل پر ڈنک مارنے کو تیار ہیں
اس وقت نیویارک ناچ رہا ہے
لندن سوچ رہا ہے
لیکن میں صرف ایک لفظ کہتا ہوں
بدمعاش
اب میں اس دنیا کو زیادہ برداشت نہیں کر سکتا
اب ہم اس دنیا کو زیادہ برداشت نہیں کر سکتے
جہاں سورما تنہا جان دے رہے ہوں
یہ ایک شاندار نظم تھی:
رات کے وقت سویا ہوا مزدور اپنی نیند سے جاگتا ہے
اور اندھیرے کے دل میں اپنا ہاتھ ڈال دیتا ہے
وہ پوچھتا ہے
ا ے صبح، اے صبح کے سورج،
اے تھرتھراتی ہوئی جھلملاتی ہوئی روشنی
اپنے روشن ہونٹوں سے یہ بتا
کیا عوام کے بے داغ ہاتھ پہلے کی طرح
اپنی عزت اور غرور کے قلعے کی حفاظت کر رہے ہیں؟
جواب دے اے صبح
کیا لوہا پہلے کی طرح اپنی طاقت کے شعلے کو تیرے چہرے کے سامنے لہرا رہا ہے؟
سٹالن گراڈ پرنرودا کی ایک اور نظم ہے جو اس زمانے کی یادگار ہے اور اتنی ہی شاندار ہے۔
دیوان غالب اور دیوان حافظ کی طرح پابلونرودا کی نظمیں برسوں میری رفیق رہیں اور ایک دن میں حیران رہ گیا جب میں نے چین کی آزادی کے مجاہدوں اور انقلابیوں کو تہنیت دیتے ہوئے بہت سے قدیم اور جدید شاعروں کے ساتھ پابلونرودا کا نام بھی نظم کر دیا۔ وہ میرے شعور کا حصہ بن چکا تھا اورخون میں تحلیل ہوکر نظموں اور شعروں میں ڈھلنے لگا تھا۔
میرے اور پابلونرودا کے قدوقامت میں فرق تھا۔ وہ مجھ سے بہت بڑا شاعر تھا۔ جو فرق اقبال نے اپنی ذات میں اور گوئٹے کی ذات میں محسوس کیا تھا، وہی فرق میں نے اپنے اور نرودا کے درمیان پایا۔ لیکن میری اورچلی کے اس دل نواز شاعری کی دھڑکنیں ایک تھیں۔ اورمیں نے محسوس کیا کہ ہمارے درمیان مشترکہ قدر صرف سپین اور چین کی تحریک آزادی اور فاشسٹ دشمنی ہی نہیں ہے، جس کا بھرپور احساس جواہرلال نہرو نے ہندوستان کو دلایا تھا، صرف سوویت یونین اور کمیونزم کی محبت ہی نہیں ہے بلکہ ہمارے درمیان شاعری کی ایک مشترکہ روایت بھی ہے یعنی والٹ وہٹ مین 1 اور مایا کوفسکی 2 کی وراثت، جن سے دونوں نے اپنے ظرف کے مطابق فیض حاصل کیا ہے۔
اب میں پابلونرودا کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی فکرمیں تھا اور ایک دن 1948میں خبر آئی کہ پولینڈ کے شہر وراسلا (Wroclaw) میں فرانس کے مشہور نوبل انعام یافتہ سائنس دان جیولیوکیوری کی رہنمائی میں ایک بین الاقوامی امن کانفرنس منعقد ہوئی ہے، جس میں پکاسو 3 نے اپنے پرانے دوست اور عظیم شاعر پابلونرودا کو خراج تہنیت ادا کیا اور ان لوگوں کی مذمت کی جن کے ظلم کی وجہ سے یہ شاعرڈیڑھ سال سے روپوش ہے۔ پکاسو کی خواہش کے مطابق اس کانفرنس نے پابلونرودا کو تہنیت بھیجی اور اس کے اعزاز میں کھڑے ہوکر تالیاں بجائیں۔
اس زمانے میں شاعرکی شاندار طویل نظم چھپی جس کا عنوان تھا، ”امن آنے والی شفق کے نام۔“ اس نظم میں شاعر کی غنائی شخصیت ایک رزمیہ ہیروکی شخصیت میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اسے پڑھ کراندازہ ہوتا تھا کہ اس نے فرانس کے انحطاط پسند شاعر بودلیئر (Baudelaire) اور آرتھر ریمبود (Arthur Rimbaud) کی روایت اور سرریل ازم (Surrealism) سے والٹ وہٹ مین اور مایا کوفسکی کے انداز تک کتنا طویل سفر کیا ہے۔ نرودا کے اپنے بیان کے مطابق وہ نوجوانی میں ہی مایا کو فسکی کی آواز سے متاثر ہو چکا تھا۔ لیکن یہ آواز اس کے ساز سے تلوار کی دھار بن کر اس وقت نکلی جب شاعر نے اپنی شخصیت کو اپنے عوام کی تقدیر کے ساتھ ڈھال لیا اور جگمگاتے ہوئے فانوس کی روشنی کو چھوڑ کر وہ تانبے کی کانوں کے اندھیرے میں اترکر مزدوروں کے ساتھ ایک ہو گیا۔
یہ نظم اس وقت لکھی گئی تھی جب نرودا اپنے ملک سے جلا وطن تھا اور چلی کے ڈکٹیٹر گون زالیز وڈیلا کی فوج اور پولس کی نگاہوں سے روپوش تھا اورموت کی سزا اس کو تلاش کر رہی تھی۔ اس نے چلی کی سینٹ میں وڈیلا پر غدار ہونے کا الزام لگایا تھا۔ یہ بات موت کی سزا، روپوشی اور جلاوطنی کے لئے کافی تھی۔ نرودا کو پہلے میکسیکو نے پناہ دی اور پھر کئی اور ملکوں کے عوام نے جن کا شکریہ اس نے اپنی متعدد نظموں میں ادا کیا ہے۔ اس طویل نظم نے ساری دنیا میں دھوم مچادی۔ پولس اور فوج سے روپوش شاعر اپنی نظم کی شکل میں چلی اور امریکہ کے عوام ے ساتھ گا رہا تھا،
امن، آنے والی ہرشفق کے لئے
امن، پلوں کے لئے، امن شراب کے لئے
امن، ان شعروں کے لئے جو میرا تعاقب کر رہے ہیں
جو میرے خون کی لہروں سے اٹھتے ہیں
اور میرے اگلے گیتوں کو
زمین اور محبت کے ساتھ ہم آہنگ کر دیتے ہیں
اور یہ نغمہ ان مصرعوں پر ختم ہوتا ہے:
امن ان سب کے لئے جو زندہ ہیں
امن ہر سرزمین کے لئے، ہر بہتے ہوئے پانی کے لیے
یہ نظم جوامن عالم کا ایک شاندار قصیدہ ہے، جلا وطن شاعر کی حب الوطنی سے سرشار ہے،
مگرمجھے اپنے چھوٹے سے سرد ملک کی سرزمین سے
اگنے والے پیڑوں کی جڑوں تک سے محبت ہے
اگر مجھے ہزار بار مرنا پڑے
تو میں اس سرزمین پر مروں گا
اگر مجھے ہزار بار پیدا ہونا پڑے
تو میں اس سرزمین پر پیدا ہوں گا
بلند قامت صنوبروں کے قریب
وہاں جہاں جنوبی ہوائیں طوفان خیز ہیں
اور نئی خرید ی ہوئی گھنٹیاں بج رہی ہیں
اور پھر یہ حب الوطنی ساری دنیا کی محبت کے سمندر کی ایک لہر بن جاتی ہے،
کسی کو میرے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے
ہمیں سارے کرہ ارض کے بارے میں سوچنا ہے
آو¿ میزوں پر محبت کے ڈھیر لگادیں
میں نہیں چاہتا کہ خون دوبارہ
روٹیوں کو اور اناج کو اور موسیقی کو شرابور کر دے
میری خواہش ہے کہ سب میرے ساتھ آئیں
کان کن، ننھی سی لڑکی
وکیل، ملاح، گڑیاں بنانے والے
سب میرے ساتھ آئیں اور ہم مل کر سنیما دیکھیں
اور سرخ سے سرخ تر شراب پئیں
میں کوئی مسئلہ حل کرنے نہیں آیا ہوں
میں تو یہاں گانے آیا ہوں
اور چاہتا ہوں کہ تم بھی میرے ساتھ گاو¿
اب میرا شوق ملاقات بہت بڑھ چکا تھا اور ایک دن ایسا آیا جس میں ملاقات کے امکانات پوشیدہ تھے۔ 1949 کا سال شروع ہو رہا تھا۔ ہندوستان کے کئی ادیبوں کے ساتھ میرے پاس بھی بین الاقوامی امن تحریک کی طرف سے پیرس میں منعقد ہونے والی امن کانفرنس کادعوت نامہ آیا۔ میں جانے کے منصوبے بنا رہا تھا کہ 21 جنوری کو مرارجی ڈیسائی کی حکومت بمبئی نے مجھے بغیر کسی الزام کے گرفتار کر لیا اور بغیر مقدمہ چلائے جیل میں بند کر دیا۔ وہ زمانہ ہندوستان میں افراتفری اور انتہاپسندی کا تھا۔ کانگریس حکومت اور کمیونسٹ تحریک دونوں ایک دوسرے کو ٹیڑھی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ میری گرفتاری پر ہندوستان کے مختلف گوشوں سے ادیبوں اور شاعروں نے احتجاج کیا اور یکایک 15 دن کے بعد میں رہا کر دیا گیا۔ اس فضا میں پاسپورٹ حاصل کرنے اور پیرس جانے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔
مجھے اپریل 1949 میں دوبارہ گرفتار کرکے آرتھر روڈ جیل بھیج دیا گیا۔ جہاں سے ڈیڑھ ماہ بعد میرا تبادلہ سنٹرل جیل ناسک ہو گیا، اس جیل یاترا میں جو کتابیں میری رفیق رہیں ان میں نرودا کی Residence on earth بھی تھی۔ جس پر آج تک آرتھر روڈ اور ناسک سنٹرل جیل کے جیلروں کے دستخط ہیں۔
پیرس کی امن کانفرنس آخر اپریل 1949ءمیں منعقد ہوئی اور مئی میں یہ اطلاع ملی کہ پابلونرودا اپنی روپوشی سے باہر نکل آیا ہے، جس کا ذکر بعد کو سوویت ادیب ایلیا اہرن برگ نے اپنے ایک مضمون میں اس طرح کیا ہے:
”پیرس کی امن کانگریس ختم ہو رہی تھی، یہ اس کاآخری اجلاس تھا۔ 25 اپریل 1949 یکایک ہال کے اندر ایک لہرسی دوڑ گئی۔ پابلونرودا اسٹیج کی سیڑھیوں پرچڑھ رہا تھا۔ وہ امریکہ کی پولس کی نگرانی سے بچ کر نکل آیا تھا۔ وہ پلیٹ فارم پراس طرح چڑھ رہا تھا جیسے سپاہی میدان جنگ میں آگے بڑھتا ہے۔ اسے احساس تھا کہ امن عالم کے لئے، انسانی وقار کے لئے اور شاعری کے حسن کے لئے انسانیت کی بڑی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اس نے اپنی ایک نئی نظم سنائی اور اسکاٹ لینڈ کے کان کنوں نے اور کوریا کی ایک استانی نے اور جیولیوکیوری نے اور پولینڈ کے ایک ریل مزدور نے اور سوویت یونین کے مشہور ہواباز مرساایو نے، غرض مختلف ملکوں اور مختلف پیشوں کے لوگوں نے بڑے شوق سے کانوں کی سمجھ میں نہ آنے والی لیکن دل کی سمجھ میں آنے والی زبان سنی۔ پھر فرانس کا ایک مزدور ضبط نہ کرسکا اور اس نے مسرت کا نعرہ بلند کیا۔۔۔ پابلونرودا۔۔۔ یہ واقعی پابلونرودا ہے۔“
جب میں پہلی بار 1949 میں جیل گیا تو مجھے ایک حسین معشوقہ سے بچھڑنے کا غم تھا۔ یہ جیل کا آخری سفر تھا جس میں نرودا سے نہ مل سکنے کا افسوس رہا۔ اگر میں پیرس جانے میں کامیاب ہو جاتا تو اپنے ایک پسندیدہ شاعر کو دیکھ لیتا۔ میں جولائی 1950 تک جیل میں رہا اور عید سے ایک دن پہلے رہائی کا پروانہ ملا۔ یہ رہائی اتنی اچانک تھی کہ میں گھر پراطلاع بھی نہ دے سکا تھا۔ جب میں نے عید کے دن صبح ہی صبح دروازہ کھٹکھٹایا توسلطانہ مجھے دیکھ کر حیران رہ گئی اور سب سے پہلے جو چیز انہوں نے مجھے دی وہ ترکی کے شاعر ناظم حکمت کی نظمیں تھیں، جن کا ترجمہ ہماری ایک دوست صابرہ زیدی نے امریکہ سے بھیجا تھا۔
ناظم حکمت کا نام میں 1939 سے جانتا تھا اور اس بار جیل کے زمانے میں میں نے اس کے نام ایک نظم ”زنداں بہ زنداں“ کے عنوان سے لکھی تھی۔ وہ برسوں سے ترکی کی ایک جیل میں بند تھا اور دل کا مریض تھا۔ چونکہ وہ آزادی کا مجاہد اور نہایت بانکا شاعر تھا، اس لئے ساری دنیا کے ترقی پسند حلقوں میں اس کی رہائی کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ یہ بات میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک دن ناظم حکمت سے میری ملاقات پابلونرودا کے کمرے میں ہوگی اور پھر اس سے اتنی دوستی ہو جائےگی کہ اس کا نام میرے بیٹوں میں تقسیم ہوکر علی ناظم اور علی حکمت بن جائےگا۔
میری رہائی کے دو تین مہینوں بعد یکایک یہ اطلاع ملی کہ پابلونرودا پیرس سے پنڈت جواہرلال نہرو کے نام عالمی امن کونسل کے صدر جولیوکیوری کا خط لے کر آ رہا ہے۔ جب میں نے کئی احباب کے ساتھ سانتاکروز کے ہوائی اڈے پر نرودا کا خیرمقدم کیا تو اسے پہچاننے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ اس کی تصویر چھپ چکی تھی اور اس کا حلیہ اہرن برگ نے ان لفظوں میں بیان کر دیا تھا،
”میں پہلی بار نرودا سے سپین کے شہر میڈرڈ میں ملا تھا جو ایک بہادر شہر تھا، لیکن اس کے اوپر موت کا سایہ تھا۔ سب سے پہلے میری نظر نرودا کے خدوخال پر پڑی جو ایک اداس اور سوچتے ہوئے انڈولوشین اور ایک مفرور اراکینین کے خط وخال تھے، اس کی حرکات وسکنات میں ہم آہنگی تھی۔ اس کی ا?واز نرم تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ آدمی مراقبہ اور شاعری کے لئے پیدا ہوا ہے لیکن اس کی آنکھوں میں ایک آگ روشن تھی جس کا شعلہ کبھی نرم ونازک ہو جاتا تھا اور کبھی تیز، وہ صرف جدوجہد کی بات کرتا تھا۔“ 4
لیکن مجھے نرودا کے چہرے میں ایک ایسی کیفیت نظر آئی جیسے وہ گوتم بدھ کا تراشا ہوا کوئی مجسمہ ہو۔ چند سال بعد میں نے اپنے ایک مضمون میں اس کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں یہ لکھا کہ:
”پابلونرودا ایک کھوئی کھوئی سی دلآویز شخصیت کا مالک اور ہسپانوی زبان کا سب سے بڑا شاعر ہے اور پکاسو کی تصویروں، اپنے ملک کے پہاڑوں، سمندروں، پھلوں اور ہندوستانی حسن کا عاشق ہے۔ اس کی شاعری بے حد حسین اور مترنم ہے اوراتنی ہی انقلابی۔ چلی کے کان کھودنے والے مزدوروں سے لے کر سوویت یونین کے عوام تک ہرشخص اسے جانتا ہے۔ کسی زمانے میں اس کے سر پر موت کی تلوار لٹک رہی تھی اور وہ دیس بدیس مارا مارا پھر رہا تھا۔ اب اس کے سر پر شہرت اور عظمت کا تاج ہے اور وہ خواب آلود لہجے میں بات کرتا ہے، جیسے کہیں دور پانی برس رہا ہو یا صنوبر اور چیر کے درختوں سے ہوا آہستہ آہستہ گزر رہی ہو۔ وہ سپین کی خانہ جنگی میں بارود کی بو سونگھ چکا ہے اور خون کا رنگ دیکھ چکا ہے لیکن اس کا سانس دنیا کے نہ جانے کتنے ملکوں کے پھولوں کی خوشبو سے بسا ہوا ہے اور یہ خوشبو اس کے نغموں میں منتقل ہوتی جا رہی ہے۔“
نرودا نے بمبئی میں کئی دن قیام کیا اور بہت سے جلسوں میں تقریریں کیں اور اپنی نظمیں سنائیں۔ اس کو اپنے شعر زبانی یاد نہیں تھے، اس لئے اس کی بغل میں نظموں کا ایک بڑا سا مجموعہ رہتا تھا جو بہت خوبصورت چھپا ہوا تھا اور اس کی آرائش میکسیکو کے کسی بڑے مصور نے کی تھی جس کا نام اب مجھے یاد نہیں۔
نرودا کو محفل آرائی کا بہت شوق تھا، چنانچہ رمیش تھا پر کے گھر پر اردو شاعروں کے ساتھ بیٹھ کر وہ گھنٹوں شعر سنتا تھا اور سناتا تھا۔ ان محفلوں میں ترجمے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس کا خیال تھا کہ شاعری میں مترنم آوازیں کافی ہیں اور اردو کی آوازیں بہت خوبصورت ہیں۔ میں نے کہا ہسپانوی زبان کی آوازیں شاید زیادہ خوبصورت ہیں۔ ایسی ہی ایک محفل میں، میں نے اس کو اس کی نظموں کی کتاب Resicence on earth کا وہ نسخہ دکھایا جو جیل میں میرے ساتھ تھا۔ نرودا نے اس کتاب کی بعض غلطیاں اپنے ہاتھ سے ٹھیک کیں اور پھراس کے پہلے صفحے پر یہ لکھ کر کتاب مجھے واپس کر دی۔
ترجمہ: سردار! یہ کتاب قیدخانے میں تمہارے ساتھ تھی۔ میں چاہتاہوں کہ تم اسے آزادی کی منزل تک اپنے ساتھ لے جائو۔
نرودا کے یہاں شاعری کا تصور جدوجہد سے الگ نہیں ہے۔ وہ کبھی اس کا ذکر امن اور آزادی کے نام سے بھی کرتا ہے۔ چنانچہ نرودا کی ایک اور کتاب میرے پاس ہے جس میں اس نے یہ الفاظ لکھے ہیں:
ترجمہ: ”سردار جعفری کے لئے جو شاعری اور جدوجہد حیات میں میرا چھوٹا بھائی ہے، پابلونرودا کاخراج عقیدت۔“
نرودا نے کبھی اپنی محبت کا اظہار امن کی تحریک اور انقلابی جدوجہد سے الگ کرکے نہیں کیا ہے۔ ایک بار کسی ہوٹل کے کاغذی نیکپن پر لکھا ہوا برلن سے ایک خط آیا۔ اس پرنرودا کے ساتھ ناظم حکمت کے بھی دستخط تھے۔ اس پر لکھا تھا:
ترجمہ: ”جعفری ہمیں شاعری سے محبت ہے، امن سے محبت ہے، تم سے محبت ہے، یہ محبت ہم تمہیں بھیج رہے ہیں۔“
یہ خط سرخ روشنائی میں لکھا ہے۔ اس کی دوسری تحریریں سبز روشنائی میں ہیں۔ نرودا کو سیاہ یا معمولی نیلے رنگ کی روشنائی پسند نہیں تھی۔
بمبئی اور دہلی کے متعدد جلسوں اور مشاعروں میں نرودا نے باربار اس خیال کا اظہار کیا کہ ہمیں چڑچڑی اور قنوطی شاعری کے ذریعے سے اس دنیا کو اور زیادہ زہر آلود کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، جس میں عوام پہلے ہی سے مصائب میں مبتلا ہیں۔ میں دہلی کے سفر میں نرودا کے ساتھ تھا لیکن جواہر لال نہرو سے ان کی ملاقات تنہا ہوئی۔ مجھے معلوم نہیں کہ جیوکیولیوری کے خط میں کیا لکھا تھا اور نرودا نے نہرو سے کیا باتیں کیں لیکن اس ملاقات کے بعدوہ غلط فہمیاں آہستہ آہستہ دور ہونے لگیں، جو ہندوستان کی امن تحریک اور نہرو حکومت کے درمیان پھیلی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلو سے اپنی ملاقات میں نرودا نے یہ کہا کہ غیر سوشلسٹ حکومتوں میں ہندوستان سب سے اہم ملک ہے جس میں حکومت اور عوام دونوں امن کے خواہشمند ہیں۔ دہلی میں ان کی ملاقات بہت سے ادیبوں سے ہوئی جن میں شیام لعل، امرتا پریتم، نوتیج سنگھ وغیرہ شامل ہیں۔
ایک دن نرودا نے مجھ سے پوچھا کہ اردوکا سب سے بڑا شاعر کون ہے۔ میں نے جوش ملیح آبادی کا نام بتادیا تواس نے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا۔ دونوں گرم جوشی سے گلے ملے۔ نرودا نے نہایت پرتکلف انداز سے پوچھا کہ آپ نے کوئی نئی نظم کہی ہے؟ اس پرجوش صاحب نے مسکراکر مجھ سے کہا ”گویا یہ میری پرانی نظمیں سن چکے ہیں۔“ پھر جوش صاحب نے ایک نظم سنائی اور جواب میں نرودا نے اپنی نظم سنائی۔
نرودا کے اعزازمیں ایک جلسہ اور مشاعرہ بھی ہوا جس میں امرتا پریتم بھی شریک تھیں۔ انہو ں نے اپنی مشہور نظم ”وارث شاہ سے خطاب“ سنائی اور نرودا نے اپنی کتاب RESIDENCE ON EARTH ہسپانوی زبان میں اپنی نظم ”چندباتوں کی وضاحت“ سنائی اور یہ کتاب امرتا پریتم کے ہاتھ میں دے دی جس کی پشت پرامرتا پریتم نے اپنی نظم ”گرمکھی“ میں لکھ دی۔ یہ کتاب میری ملکیت تھی اور اس لئے آج بھی ایک قیمتی لمحے کی یادگارکی طرح میرے پاس ہے۔
ایک روزمیں بیٹھا ہوا خط لکھ رہا تھا۔ نرودا نے دا ہنی سے بائیں طرف کی تحریر بڑی حیرت سے دیکھی اور پھر چند گھنٹوں کے بعدکچھ تصویروں کے پوسٹ کارڈ مجھے اردو میں دستخط کرنے کے لئے دیے۔ میں نے پوچھا، ”ان کا آپ کیا کریں گے؟“ توجواب دیا، ”پکاسو اور لوئی آرگوان( 5) کو تحفہ بھیجوں گا کیونکہ اردو تحریر بڑی خوبصورت ہے اور داہنے سے بائیں طرف لکھی جاتی ہے۔“ حالانکہ میں نہایت بد خط ہوں۔
نئی دہلی سے نرودا کو دلچسپی نہیں تھی، وہ روزانہ جامع مسجد کے گرد کے علاقے اور دریبے کی سیر کرتے تھے۔ ایک دن ہندوستانی ہوٹل میں کباب اور پلاو¿ کھانے کی فرمائش کی لیکن مجھے افسوس ہے کہ جس ہوٹل میں میں نے کھانا کھلایا وہ اچھے کباب اور پلاو¿ پکانا نہیں جانتا تھا۔
نرودا ایک نہایت منجھا ہوا ڈپلومیٹ اور بہت سنجیدہ شاعر ہونے کے باوجود سینے میں ایک معصوم دل رکھتا تھا۔ ایک دن کناٹ پلیس کی ایک دکان پر شیرکی کھال دیکھی اور اسے خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے کہا کہ آپ کو دام زیادہ بتائے جائیں گے، اس لئے میں جاکر پوچھتا ہوں، لیکن جب میں دکاندار سے بات کر رہاتھا تو وہ یکایک مجھے چھوڑ کر نرودا سے مخاطب ہو گیا جو میری پیٹھ کے پیچھے کھڑا ہوا شیر کی کھال کو چھوکر دیکھ رہاتھا اور سوئی ہوئی سی نیم و آنکھوں میں مسرت چمک رہی تھی۔
اس کو ہندوستان کے حسن نے بہت متاثر کیا۔ اس کا ذکر اس نے کئی بار یہاں کیا اور جب چارسال بعد مجھ سے ماسکو میں ملاقات ہوئی تو تمام ہندوستانی دوستوں کی خیریت پوچھی۔ اس کو سب نام یاد تھے اور پھر جنوبی امریکہ کے ناول نگار امادہ اور ترکی کے ناظم حکمت سے مخاطب ہوکر نہایت خواب آلود لہجے میں کہا، ”ہندوستان میں ہر قدم پرحسن ہی حسن ہے۔“
میں نے اس کی دل نواز شخصیت اور اتنی ہی دل نوازشاعر ی کے تاثرات کو ایک نظم میں محفوظ کر لیا ہے۔ یہ نظم ایک سلسلہ کی کڑی ہے، جس میں میں نے اپنے عہد کے چند مجاہد شاعروں اور دانشوروں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ اس میں جولیوکیوری، پال روبسن، لوئی آرگوان کی طرح کے کچھ محض شناساہیں اور پابلونرودا، ناظم حکمت، فیض احمد فیض، کرشن چندر اور سجادظہیر کی طرح کے کچھ نہایت عزیز دوست ہیں۔
پابلونرودا
ارض مشرق کا کنول وادی مغر ب کا گلاب
سوزمیں ڈوبا ہوا تار رگ جاں کارباب
دشت و کہسار کاشہزادہ گلستاں کا امیر
محفل انجم ومہتاب میں انساں کا سفیر
شب تاریک کے سینے سے ابھرنے والا
چاند کی طرح سے تابندہ گزرنے والا
اس کو معلوم ہے دریاکی روانی کیا ہے
عشق کیا چیز ہے، مے کیا ہے، جوانی کیا ہے
آسماں پر کبھی بادل ہے، کبھی تارا ہے
سطح گیتی پہ نئی صبح کا نظارا ہے
ایک شمشیر بھی، ایک جام بھی، اک ساز بھی ہے
اور پرستانوں میں کھوئی ہوئی آواز بھی ہے
بارغم سب کا اٹھاتا ہے سفینے کی طرح
دل انساں میں دمکتا ہے نگینے کی طرح
دوست روٹی کا چمکتے ہوئے پانی کا رقیق
اپنی نفرت میں عمیق اپنی محبت میں شفیق
لرزہ گل چینوں پہ طار ی ہے وہ گلشن ہے یہی
بجلیوں سے جو بنا ہے وہ نشیمن ہے یہی
نرودا کی شہرت اورمقبولیت برابر بڑھتی گئی اور یہ بے پناہ تھی۔ وہ 1934ءمیں چلی کی کمیونسٹ پارٹی کا ممبر بنا اور آخر دم تک پارٹی کا ممبر رہا۔ سامراجی ملکوں کے حکمراں اور امریکی لیڈر اس سے ڈرتے تھے لیکن اس کی شاعری کا معجزہ تھا کہ ان ملکوں کے ادیب اور شاعر، نرودا سے انسپریشن حاصل کر رہے تھے اور ایک دن نرودا کو امریکہ کے ادیبوں نے مدعو کیا اور امریکی حکومت ایک کارڈ ہولڈر کو ویزا دینے پر مجبور ہو گئی۔ اس امریکی سفر پر دنیا کے بعض انقلابی حلقوں میں چہ میگوئیاں بھی ہوئیں لیکن نرودا کی روح پاکیزہ تھی اور اس کے دل ودماغ انقلاب کی آگ سے دہک رہے تھے۔ امریکی سفر بھی اس کی شاعری کی فتح کی علامت ہے۔
عمرکی ترقی اور بیماری کے باوجود اس کی تخلیقی قوتوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ آخر تک شعر کہتا رہا اور انقلاب کے لئے لڑتا رہا۔ چلی میں ”آلندے“ کی صدارت ایک طرح سے نرودا کی شاعری کی جیت تھی اور وہ اپنی مرضی کے خلاف اپنے دوست آلندے اور انقلاب کی خاطر پھر سے سفیر بن کر فرانس چلا گیا۔ اس زمانے میں نرودا کی شاعری اور اس کی عظمت کا سب سے بڑا اعتراف نوبل انعام کی شکل میں کیا گیا (اس سے پہلے اسے بین الاقوامی امن انعام اور لینن انعام مل چکا تھا۔) میں اس وقت لندن میں تھا اور میں نے نرودا کو مبارکباد کا تار بھیجا تو معلوم ہوا کہ وہ بہت بیمار ہے لیکن کچھ مشترک دوستوں نے مجھے بتایا کہ وہ فرانس سے چلی جانے کے لئے بے تاب ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ صدرآلندے کو اپنے رفیقوں کی بہت ضرورت ہے۔ اس کا شاعرانہ دل آنے والی قیامت کو محسوس کر رہا تھا اور دشمنوں کی سازش سے واقف تھا۔ ستمبر 1973 میں وہ سازش کامیاب ہو گئی۔ مجھے آلندے کے قتل کے ساتھ نہ جانے کیوں ایک دم سے پابلونرواد کا خیال آیا:
چلی کے سرخ شہیدو! سلام لو میرا
میرے عزیز نرودا کے ہم وطن یارو
تمہارے خون کی سرخی میں وہ اجالا ہے
کہ قاتل اپنے اندھیرے میں چھپ نہیں سکتے
ہزار جنگ کی سازش ہزار قتل کے وار
تمہارا خون مگر رائیگاں نہ جائےگا
زمانہ جسم سے ملبوس زخم اتارےگا
حیات پیرہن گل کے انتظار میں ہے
لیکن ملبوس زخم سے پیرہن گل تک پہنچنے کے لئے اسے خون کی ضرورت تھی اور وہ خون نرودا کا تھا۔ نرودا کی موت ایک فطری حادثہ نہیں ہے بلکہ چلی کی ٹریجڈی کا لازمی حصہ ہے۔ نرودا اب زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ اسے مر جانے کے بعد اور زیادہ طاقتور بننا تھا اور سار ی دنیا نے دیکھ لیا کہ جب اس کا جنازہ اٹھ رہا تھا تو چلی کے فاشسٹ فوجی سپاہی بے بسی سے عوام کے انقلابی مظاہرے کو دیکھ رہے تھے جو بندوقوں اور سنگینوں سے بے نیاز ہوکر اپنے محبوب شاعر پابلونرودا کو خراج عقیدت کے ساتھ چلی کے انقلاب کو طاقت عطا کر رہے تھے۔
(ماہنامہ ”افکار“ کراچی، علی سردار جعفری نمبر1919)
حاشیے
1۔ انیسویں صدی کا مشہور امریکی شاعر WALT WHITMAN
2۔ بیسویں صدی کا روسی شاعر MAYA KOVSKY
3۔ فرانسیسی اور ہسپانوی مصور جو دنیا کاسب سے بڑا مصور سمجھا جاتا ہے۔
4۔ اسپین میں 1934 میں ایک خانہ جنگی ہوئی تھی۔ جس میں ایک طرف وہاں کی جمہوری طاقت تھی اور دوسری طرف فرانکو کی فوجی طاقت۔ فوجی طاقت کے طرف دار جرمنی اور اٹلی کے نازی اور فاشسٹ تھے، جن کو سامراج کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اور جمہوری طاقت کے طرفدار دنیا کے ترقی پسند تھے جن میں جواہر لال نہرو کا نام سب سے نمایاں تھا۔ ساری دنیا کے ادیب اور شاعر اور دانشورسپین میں فاشزم کے خلاف لڑ رہے تھے۔ ان میں نرودا اور اہرن برگ بھی تھے۔
5۔ فرانسیسی زبان کا عظیم شاعر اور نرودا کا دوست۔
ماہنامہ سنگت کوئٹہ