بلوچستان کی کوئلہ کانیں

 

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں کام کار اور گزر بسر کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے 16سے 19نومبر کے دوران ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن کا اہتمام کیا۔ مشن نے مچھ میں دوکانوں ( دونوں نجی ہاتھوں میں ہیں) اور کوئٹہ کے قریب سورنج میں کوئلہ کانوں کے تین مقامات کا دورہ کیا۔ مشن سے ملنے والے لوگوں نے جن تحفظات کا اظہار کیا وہ پورے شعبے کے مسائل کا احاطہ کرتے معلوم ہیں ۔

بنیادی نتائج

یونین کے نمائندوں نے الزام لگایا کہ کمپنیاں صرف اور صرف منافع کی بنیاد پرچلتی ہیں اور یہ نہیں دیکھتیں کہ آیا ٹھیکیدار کان کنوں کی صحت سلامتی اور معاوضے کے حوالے سے اپنے فرائض پورا کریں گے کہ نہیں۔

ایک انداز ے کے مطابق ، لگ بھگ سولہ ہزار مزدوروں میں سے صرف سات سے آٹھ ہزار مزدور ای او بی آئی کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ زیادہ دور دراز علاقوں میں تقریباً کوئی بھی مزدور رجسٹرڈ نہیں ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہزاروں مزدور جب بڑھاپے کی وجہ سے کام کرنے کے قابل نہیں رہتے تو انہیں کسی قسم کا سماجی تحفظ میسر نہیں ہوتا۔

کانوں یا ان کے قریب ترین علاقوں کو بھی غیر رسمی کام میں شامل کیے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، مگر یہ تعین نہیں ہوسکا کہ آیا کانوں میں کام کرنے والے افغان محنت کشوں میں کم عمر مزدور بھی شامل ہیں کہ نہیں کیونکہ ان کے پاس شناختی کارڈز نہیں ہیں۔

کان کنوں کے پاس یونین کی موثر نمائندگی نہیں ہے ۔ قدرے بڑی کان کمپنیوں کی خود ساختہ جعلی یونینیں ہیں، اور اگر کان کن اپنی یونین بنانے کی کوشش کریں تو انہیں ملازمت سے برطرفی یا بیدخلی کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

زیادہ تر مزدور حفاظتی معیارات سے لاعلم ہیں۔ 2021میں کانوں میں حادثات کی بدولت کم از کم 176کان کن ہلاک اور 180زخمی ہوئے۔ اس کی ایک وجہ یوکلپٹس کی لکڑی کا استعمال بھی ہے جو کانوں کی دیواروں اور چھتوں کو سہارا دینے کی غرض سے کھمبے بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔

موت اور زخمی ہونے کی صورت میں معاوضے کا ریٹ ، جس کا کان کن کاخاندان اس کی موت کی صورت میں مستحق بنتا ہے ، دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان میں کم ہے ۔

جہاں تک لیبر انسپکشن کا معاملہ ہے ، ایک اندازے کے مطابق، ایک انسپکٹر سینکڑوں کانوں کی انسپکشن کا ذمہ دار ہے اور یوں وہ سینکڑوں کانوں کی انسپکشن کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ایک سرکاری مائنز انسپکٹر کے مطابق ، بلوچستان میں کانوں کے ساڑھے چھ ہزار سے زائد مقامات کی انسپکشن کے لیے صرف 27انسپکٹر ہیں۔

کان کنوں کو جنگجوﺅں ، زیادہ تر انتہائی دائیں بازو کے قوم پرستوں یا مذہبی شدت پسند گروہوں کے ہاتھوں ہاتھوں اغواءاور قتل جیسے واقعات کا سامنا بھی رہتا ہے ۔

سفارشات

چونکہ کان کنی عالمی سطح پر ایک خطرناک پیشہ قرار دیا گیا ہے لہذا کان مالکان اور ٹھیکیدار کو چاہیے کہ وہ ہر ایک کان میں فعال ایمبولنس سروس کی فراہمی اور موقع پر ہنگامی مدد کے لیے ہر وقت ہیلتھ ورکرز کی موجودگی یقینی بنائیں اور یہ کہ مستقل بنیادوں پر حفاظتی اقدامات کا جائزہ لیا جاتا رہے۔

کان مالکان یقینی بنائیں کہ کانوں کی سرنگیں عالمی قانون کی مطابقت میں کم از کم چھ فٹ اونچی اور چوڑی ہوں ۔ سرنگیں ہوا دارہوں جن میں صاف ہوا کا با آسانی و خول اور خطرناک گیسوں کا اخراج ہوسکے تاکہ میتھین جمع نہ ہونے پائے۔

تمام کان کنوں کو رجسٹر کیا جائے اور ای او بی آئی سوشل سیکیورٹی اور ورکرز ویلفیئر فنڈ بینیفٹس کا مستحق قرار دیا جائے ، بشمول ان کے بچوں کو سکول تک رسائی ، پڑھا پاپنشن، صحت کی سہولت اور زندگی کا بیمہ جسی سہولتیں میسر ہوں۔

ورکرز ویلفیئر بورڈ، لیبر ڈیپارٹمنٹ اور مائنز ڈیپارٹمنٹ تمام مشاورتوں میں تمام لیبر فیڈریشنوں اور کوئلہ کانوں کی یونینوں کی نمائندگی یقینی بنائیں تاکہ فیلڈ کے تجربے کی بنیاد پرسامنے آنے والی آراءسے مستفید ہوا جاسکے۔

ورکرز کو لیبر یونینوں کا حصہ بننے اور ٹھیکیداروں کی بجائے ورکروں سے نمائندے چُننے کی حوصلہ افزائی کر کے یونینوں کو مضبوط کیا جائے تاکہ اجتماعی سودا کاری اور کام کے بہتر حالات کے لیے جدوجہد ہوسکے ۔ مزدوروں کو یونین سازی سے ڈرا نے والے کان مالکان اور ٹھیکیداروں کو بے نقاب کیا جائے اور ان کے خلاف لیبر عدالتوں میں مقدمے چلائے جائیں ۔

تربیت یافتہ سیفٹی انسپکٹرز اور ان کے انسپکشن دوروں کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ حفاظتی معیارات کی پاسداری ہو اور دکانوں کے حادثات میں کمی آئے ۔

مناسب حفاظتی معیارات کی پاسداری میں ناکام ہونے والے کان مالکان اور ٹھیکیداروں کے خلاف مائنز ایکٹ 1923کے تحت فوجداری غفلت کا مقدمہ درج کیا جائے ۔

حادثاتی اموات کے واقعات میں کان کنوں کے ورثا کو ملنے والے معاوضے کو فی الفور بڑھا کر دوسرے صوبوں کے برابر لایا جائے ۔ ڈیتھ گرانٹ بھی تین ماہ یا اس سے کم عرصہ کے دوران ادا کی جائے ۔

فرنٹیئر کور کانوںکے مقامات ، خاص طورپر جنگجوﺅں کے حملوں کے خطرات سے پہچانے جانے والے دور دراز علاقوں میں چوبیس گھنٹے سیکورٹی کا بندوبست کرے ۔

کان کنوں کے بچوں کے لیے قائم ہونے والے سکول کا بندوبست و نگرانی محکمہ تعلیم کے ہاتھ میں ہوتاکہ وہاں تعلیم دینے کے لیے تعلیم و تربیت یافتہ اساتذہ دستیاب ہوسکیں۔

محکمہ کان کُنی مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دے تاکہ کانوں کے مقامات یا کان کالونیوں میں بچوں سے مشقت کا خاتمہ یقینی ہو۔

مہاجر کان کُنوں ، خاص طور پر خیبر پختونخوا یا افغانستان سے آنے والوں کی پُر خطر حالت پر توجہ دی جائے ۔ ان کی رجسٹریشن یقینی بنائی جائے تاکہ انہیں کم معاوضہ نہ ملے یا صحت کی سہولت اور دیگر ایسے حقوق سے محروم نہ رہیں جن کے وہ بالترتیب بطور شہری اور باشندے مستحق ہیں۔

حکومت کانوں کے شعبہ کو ترقی دے کر صنعت کا درجہ دے اور کان مالکان اور ٹھیکیداروں کو مائنز ایکٹ 1923کی دفعات اور بعد ازاں ہونے والی ترامیم کی مطابقت میں اپنی کانیں چلانے پر مجبور کرے۔

حکومت کو کانوں میں جدید ٹیکنالوجی متعارف کرنے پر بھی خاص توجہ دینی ہوگی اور کانوں کے منتظمیں اور مالکان کو ترغیب دینی ہوگی کہ وہ کان کنی کے متروک اور خطرناک طور طریقوں کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالیں۔

وفاقی حکومت کو کان کنوں کے تحفظ کے لیے عالمی مدد میں وسائل لگانے چاہییں ، بشمول تربیتی پروگراموں اور سرمایہ کاروں پر تاکہ پوری صنعت کی سطح پر صحت ، تحفظ کا ساز و سامان جیسے کہ گیس کا سراغ لگانے والے آلات ، از خود ریسکیورز اور سانس لینے کے آلات دستیاب ہوسکیں۔

وفاقی حکومت کو جتنی جلدی ممکن ہوسکے آئی ایل او کنونشن سی۔ 176کی توثیق کرنی چاہیے تا کہ کانوں میں پیشہ ورانہ حفاظت و صحت کے کم از کم معیارات بشمول زیادہ سے زیادہ، گہرائی کا تعین ہو۔

ریاست کو خاص طور پر کانوں اور ان کے قریبی مقامات پر، اور عام طور پر پورے صوبے میں صحت ، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں وسائل صرف کرنے چاہئیں۔

ذرائع ابلاغ کو کانوں سے متعلقہ حادثات پر گہری نظر رکھنی نظر رکھنی اور تو اتر کے ساتھ ایسے واقعات کی رپورٹنگ کرنی چاہیے تاکہ پیشہ ورانہ صحت و سلامتی کے متعلق شعور اجاگر ہو اور کوئلہ کانوں کے مالکان کو عوام کے سامنے جوابدہ ٹھہرایاجاسکے۔

 

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

0Shares
[sharethis-inline-buttons]

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*