خیالِ نو کے پرانے سوداگر اور تعمیرِ نو

 

فکری کنگالی کے دور میں آج کل بڑا چرچا ہے پاکستان بارے خیال نو کے (Reimagining Pakistan) پرانے سوداگروں کی درفنطنیوںکا۔ معاشی دیوالیے کے آگے فکری بے بسی کا عالم یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے گھسے پٹے نسخے کے سوا کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ خواص کے قبضے کا ذکر تو بہت ہے، لیکن ”اصلاح احوال“ غریبوں کیلئےبوندوں کے چند خیراتی ٹپکوں سے آگے نہیں جاتی۔ معاشی سلامتی کے گلے پڑے ڈھول کو بجانے والوں میں اتنی جرا ت بھی نہیں کہ وہ سلامتی کے بوجھ کو اُتارنے کا سرسری ذکر ہی کردیں۔ اب پاکستان کو دوبارہ تصور کرنے والے طائفے( جس میں آئی ایم ایف کے حامی مفتاح اسماعیل اور جنرل ضیا کے شیدائی خاقان عباسی وغیرہ شامل باجہ ہیں) کے پاس کوئی نسخہ ہے تو عالمی سرمائے کے ساتھ دست نگری کے رشتے کو پھر سے استوار کرنے کا تاکہ پاکستانی خواص اپنے ہی پیدا کردہ بحران سے نکل پائیں۔ ممکنہ ٹیکنو کریٹس رجیم (جو ہائبرڈ رجیم ہی کا تسلسل ہے) کے ان نئے درخواست گزاروں کے پاس عوامی خوشحالی کا کوئی پروگرام ہے، نہ حقیقی ڈائنامک معیشت کا کوئی لائحہ عمل۔ اگر یہ پاکستان کی نام نہاد ”قومی بورژوازی“ ہی کی نمائندگی کررہے ہوتے تو کم از کم مفت خور ریاست کا بار ہلکا کرنے کی کچھ تو سعی کرتے۔ خیال نو کے ان مبلغین کے پاس تو عوام کی منشاؤں اور قومی ترقی کا کوئی راہ عمل نہیں ہے۔ تعلیم ہو یا صحت یا روزگار، غرض تمام تر سماجی خدمات کو وہ نجی منافع خوروں کی سیج پر قربانی کا بکرا بنانے کی ہوشیاری پہ نازاں ہیں۔ سارے میڈیا میں اگر آئی ایم ایف کے گھسے پٹے نسخے پہ کسی نے تنقید کی بھی ہے تو ڈاکٹر اکبر زیدی ، تیمور الرحمان اور ڈاکٹر اکمل حسین نے یا پھر پاکستانی اُمرا کی سوشیالوجی کا پردہ اگر کسی نے چاک کیا ہے تو صرف ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے۔ باقی سب منافقت کا شکار ہیں۔ رہی بات پاکستانی معیشت کے آزمودہ کار مستری اسحاق ڈار کی وہ بیچارے ڈالر کی کمیابی کی ، اس لئے نذر ہوگئے کہ دوست ملکوں کی مدد کی پائپ لائن پر آئی ایم ایف کی ٹوٹی لگ گئی ان کا پیارا روپیہ دھڑام سے نیچے آن گرا۔ جبکہ تینوں جماعتوں نے میثاق معیشت تو کبھی کا آئی ایم ایف کے پاس رہن رکھ چھوڑا ہے۔ اب آئی ایم ایف کی چُھری چلنے کا وقت ہے، یہی مفتاح اسمعیل چاہتے تھے اور پاکستان کے عوام جو پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں نڈھال ہیں بڑے برقی جھٹکوںکیلئےتیار رہیں۔ ایسے میں ن لیگ کی سپر ہیرو مریم نواز اُمید کی لو جگائیں گی بھی تو کیسے کہ چچا جان کی حکومت کی تمام پھرتیاں بالآخر آئی ایم ایف کی دہلیز پہ ہمت ہار بیٹھیں۔

جب تک بیباک ترقی پسند سیاسی معیشت دان اور انقلابی سیاستدان ایک سماجی کایا پلٹ، چین کی مدد سے معاشی چھلانگ اور عوامی ترقی و سلامتی کے نظریہ کے ساتھ سامنے نہیں آئیں گے پاکستان کی دست نگری کی قرض خوار اور کرایہ خور معیشت اور اُس پر عذاب بنی سلامتی کی نوآبادیاتی ریاست اور اس کے دائمی امراض سے نجات ممکن نہیں۔ مالیاتی و تجارتی اور مالی خسارے بیماری کی علامات ہیں جس کا وقتی حل صرف آئی ایم ایف کے پاس ہے جو بیماری کی جڑ کو دائمی بنائے رکھنے کا نسخہ ہے۔ ایک خوشحالی، عوامی لحاظ سے ترقی یافتہ اور جدید پاکستان کے لئے ذیل میں تخریب اور تعمیر کے دو لائحہ عمل پیش خدمت ہیں۔سب سے پہلے تو سیاسی معیشت کا سوال ہے۔ بیماری کی اصل وجہ خواص کے ناجائز قبضہ کو ختم کرنے کا ہے جس کا تعلق موجود ہ پاور اسٹرکچر سے ہے۔ اُسے توڑے بنا خواص کا قبضہ ختم ہوگا نہ انکی عیاشیاں اور مفت خوریاں جان چھوڑیں گی۔ عمران خان مفت خوروں کو ساتھ ملا کر محض دوسروں کی مفت خوریاں ختم کرنے سے مڈل کلاس کی غیر سیاسی منشاؤں کی تشفی چاہتے ہیں اور وہ بھی سب سے مفت خور اداروں کی آشیر باد حاصل کرکے۔ ایک زراعت پیشہ ملک چند ہزار بڑے زمینداروں اور نکمی کھیتی باڑی سے غذائی کفالت کے قابل بھی نہیں۔ ہمہ گیر زرعی اصلاحات، زمین کی کم از کم ملکیت کے تعین اور کسانوں کے جم غفیر کو زمین و زراعت کی جدید سہولیات فراہم کئے بنا زراعت معاشی بوجھ بنی رہے گی۔ پاکستان کی سرمایہ داری بنیادی طورپر مفت خور اور کرایہ خور ہے جن کا فائدہ صرف مافیاز اٹھاتی ہیں جو اس وقت بھی اپنے تہہ خانوں میں اربوں ڈالرز کے ذخیرے چھپائے بیٹھی ہیں۔ انکا سب سے بڑا مسکن اسٹیٹ بزنس ہے یا تجارت اور اس پر پھلتا پھولتا لائف اسٹائل اور پھیلتی ہاؤسنگ سوسائٹیز۔ معیشت کی دستاویزیت سے فرار، ٹیکس چوری اور کالے دھن کا فروغ ان کا شیوہ ہے۔ صرف یہی ٹھیک کردیا جائے اور غیر پیداواری اخراجات کم تر کردئیے جائیں تو بجٹ خسارہ تو ختم کیا جاسکتا ہے۔ ساری گماشتہ بورژوا ی معیشت کا ڈھانچہ درآمدی ، اشیا پرستی اور عیاشانہ کھپت پہ مبنی ہے اور برآمدات فقط خام مال یا کم قدر کی اشیا کے محدود دائرے میں مقید ہیں۔ ایک پسماندہ صنعتی و تکنیکی و سائنسی بنیاد پر آپ آج کے زمانے میں برآمدی معیشت نہیں بن سکتے، بھلے برآمد کنندگان کو کتنی ہی مراعات دیا کریں۔ نوجوانوں کے جم غفیر پہ نازاں حضرات نے کبھی سوچا ہے کہ تعلیم و تربیت، جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے حصول کے بنا یہ نوجوان نسل سوہان روح بننے جارہی ہے ۔ جب سارے تعلیمی نظام کو دقیانوسیت اور جہالت کے حوالے کردیا جائے تو وہ نونہال کہاں سے پیدا ہوں گے جو اس ملک کو بام عروج پہ پہنچا سکتے ہوں۔

ہمارے حکمران جس اینٹی کلچر ، فرسودگی اور نمائش پسندی کو فروغ دے رہے ہیں، اُس کا حاصل ہر طرف چھائی ہوئی یا سیت اور بیگانگی میںنظر آتا ہے۔ خیال نو کے علمبرداروں کے پاس اس مسئلے کا کیا حل ہے کہ ایک نحیف و مقروض دست نگر معیشت کے اوپر جو اتنا بڑا غیر پیداواری اور مفت خور ریاستی سپر سٹرکچر کا ناقابل برداشت بوجھ لدا ہے، اسے اتارے بنا معاشی نمو اور قرضوں سے خلاصی کیسے ہوگی؟

کوئی یہ کیوں کہنے کو تیار نہیں کہ 75 سال سے جاری ”سلامتی کی ریاست“ اور اس کے ناقابل حصول تزویراتی اہداف کے ہوتے ہوئے پاکستان اپنے وجودی بحران سے نہیں نکل سکتا۔ ایک غریب ایٹمی پاور ، جو پیسے پیسے کی محتاج ہو کیسے چل سکتی ہے۔ کوئی یہ ماننے کو بھی تیار نہیں کہ بھارت سے اسلحے کی دوڑ میں ہم مات کھاچکے، سوائے اس کے کہ برصغیر کی باہمی تباہی کے اسباب سے دل بہلاتے رہیں۔ کشمیر حاصل کرتے کرتے، ہم مشرقی پاکستان گنوا بیٹھے اور افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بناتے بناتے ہم کھنڈرات کے وارث اور دہشت گردوں کے رحم و کرم کی نذر ہونے جارہے ہیں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*