ماما عبداللہ جان جمالدینی

گزشتہ دو عشروں سے ماما عبد اللہ جان سے میری نیاز مندی رہی ہے۔ وہ بہت سادہ، منکسر المزاج اور مرنجاں مرنج شخصیت کا مالک تھا۔ وہ ساری زندگی پڑھنے پڑھانے، تصنیف و تحقیق اور محنت کشوں کی جدوجہد سے وابستہ رہا۔ ظلم، جبر اور استحصال کی ہر صورت خواہ وہ انفرادی ہو، قومی ہو، صنفی ہو یا طبقاتی ہو وہ اس کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہا۔ اس نے کم و بیش پون صدی نظریاتی و عملی طور پر سیاسی جدوجہد کی۔ اس کی سیاست نسلی و لسانی تعصب، فرقہ واریت اور تنگ نظر شاونزم سے مبرا تھی۔ اس نے ہمیشہ اپنی سیاسی جدوجہد کو اس قسم کے محدود دائروں میں محدود و مقید نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی محفل میں دور دراز سے مختلف سیاسی پارٹیوں کے رہنما، دانشور، ادیب اور شاعر آکر اس سے اکتسابِ فیض کرتے رہے۔

عبد اللہ جان شریف النفس، حلیم طبع اور وسیع الظرف انسان تھا۔ وہ ایسا ہر دل عزیز شخص تھا کہ اس کی محفل میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ موجود ہوتے تھے۔ ہر قوم، ہر زبان اور ہر علاقے کے لوگ اس کے پاس آتے تھے۔ وہ ہر شخص کو اس کی عمر، زبان، قوم ، مزاج اور نظریے کے مطابق Treat کرتا تھا۔اس کا مصافحہ کرنے کا انداز ہی بے مثال تھا۔وہ ہاتھ ملانے کے بعد ہاتھ ملانے والے کے ہاتھوں کو بوسہ دیتا ۔پھر اس کے ہاتھ اپنی پیشانی پر رکھتا اور آخر میں انہیں اپنے سر کے ساتھ مس کرتا۔پھر وہ اس کا حال جانتا۔ اس نے بلوچستان میں اور دنیا کے دیگر ممالک میں بہت سے محققین پیدا کیے، جنہوں نے بلوچی زبان و ادب، تاریخ و ثقافت اور سیاست میں کئی ایک موضوعات پر تحقیق کی۔ ان محققین میں کارینا جہانی کا نام قابلِ ذکر ہے۔ یہ روایت اب ترقی کرکے بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ اس کے شاگردوں کی تعداد بے شمار ہے، جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں اس سے پیار کرنے والوں کی تعداد ہزاروں لاکھوں میں تھی وہاں اس کے مخالفین کی تعداد بھی کم نہیں تھی۔ بہت سے لوگ تو اس کے نظریاتی مخالف تھے اور کچھ اس کے ذاتی دشمن بھی تھے،جو اس کی قدر و منزلت سے حسد کرتے تھے۔ اس کا پینل جب 1992ءمیں بلوچی اکیڈمی کے انتخابات میں سامنے آیا تو اس کے مخالفین نے ایڑی چوٹی کا زور لگاکر اور ہر غلیظ سے غلیظ حربہ استعمال کرکے اسے مات دے کر بلوچی اکیڈمی کی قیادت پر قبضہ کرلیا، جو آج تک برقرار ہے اور اس سلسلے میں جس شخص نے گھناو¿ نا کردار کیا، وہ ہمیشہ اپنے ضمیر کا قیدی رہا اور وہ ہر اتوار کو سنڈے پارٹی میں عبد اللہ جان کے گھر آتا رہا اور اس نفسیاتی الجھن میں گرفتار رہا کہ شاید اس سے اس کے گناہ کی تلافی ہوجائے گی۔ لیکن عبد اللہ جان نے اس شخص کو بھی معاف کردیا اور اس سے ہمیشہ خندہ پیشانی اور حسنِ سلوک سے ملتا رہا۔ بعد ازاں اس شخص کو بھی بلوچی اکیڈمی پر قابض بیوروکریٹک قیادت نے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے کوڑے دان میں پھینک دیا اور اس کا حشر آخری عمر میں انتہائی ذلت آمیز اور عبرت ناک ہوا۔

عبد اللہ جان جمالدینی کے تعلقات بڑے بڑے سیاستدانوں غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری، سوبھوگیان چندانی بابو عبد الکریم شورش، سی آراسلم ،انیس ہاشمی اور کئی دیگر کے ساتھ تھے۔ دانشوروں میں جن سے اس کے ذاتی مراسم تھے، ان کی فہرست تو بہت طویل ہے۔ مگر یہاں کچھ لوگوں کے نام گنوانا ناگزیر ہے۔ مثال کے طور پر سبط حسن، ابراہیم جلیس، ظہیر کاشمیری، حبیب حالب، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید اور محمد علی صدیقی سے اس کے گہرے دوستانہ مراسم تھے۔ اس نے اپنی کتاب "شمع فروازاں "میں بہت سے دانشوروں کے بارے میں بہت ہی خوب صورت انداز میں تحریر کیا ہے۔ اور ان کے علمی و ادبی اور نظریاتی کام کو سراہا ہے۔ عبد اللہ جان جمالدینی کے منہ سے کسی شخص کے بارے میں میں نے کبھی تنقید، تنقیص اور طنز و استہزا آمیز کلمات نہ سُنے اور نہ ہی اس کی تحریروں میں یہ چیزیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس نے ہمیشہ ہر شخص کے بارے میں کہا اور لکھا کہ بہت اچھا آدمی ہے، شریف آدمی ہے، اچھے خاندان سے تعلق رکھتا ہے وغیرہ۔ اس قسم کے الفاظ اور جملے نہ صرف اس نے اپنے احباب کے لیے استعمال کیے بلکہ اپنے شدید ترین مخالفوں کے لیے بھی اس نے کبھی تنقیدی رویہ اختیار نہیں کیا۔

مجھے آج بھی عبد اللہ جان جمالدینی سے اپنی پہلی ملاقات یاد ہے۔ میں، عبد اللہ، محمد امین اور اعظم زرکون ڈاکٹر خدائے داد کے گھر بیٹھے تھے اورپاکستاں ریلوے ٹریڈ یونین کی طرف سے یومِ مئی منانے کی تیاریوں کے سلسلے میں ایک اجلاس جاری تھا۔ ایک صاحب سائیکل پر ڈاکٹر صاحب کے گھر آیا۔ سلام دعا کے بعد اس نے ڈاکٹر خدائے داد سے پشتو میں بات چیت کرنا شروع کی۔ میرے علاوہ باقی سب لوگ جو وہاں موجود تھے، اسے جانتے تھے۔ اس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر خدائیداد سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ ڈاکٹر خدائے داد نے میرا تعارف کروایا اور پھر ڈاکٹر خدائیداد نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا کہ یہ پروفیسر عبد اللہ جمالدینی ہے۔ بلوچستان یونی ورسٹی کے پاکستان سٹڈیز سنٹر میں بلوچی زبان و ادب کا استاد ہے۔ عبد اللہ جان جمالدینی نے ہم لوگوں سے حالاتِ حاضرہ، محنت کش طبقے کی تحریک اور مارکسزم پر بہت سی باتیں کیںاور جب وہ رخصت ہوا تو مجھ سے کہا کہ جب بھی یونیورسٹی آناتوہو مجھ سے ضرور ملو اور رابطہ رکھو۔

بعد ازاں میں جب بھی یونی ورسٹی جاتا تو اس سے ملاقات کرتا اور اس کی نیاز مندی حاصل کرتا۔ وہ بے حد شفقت سے پیش آتا اور بہت سی کتابیں رسالے اور اخبارات پڑھنے کے لیے دیتا۔ حالاں کہ عبد اللہ جان جمالدینی کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تھا اور میں سوشلسٹ پارٹی سے۔ اور ان دونوں پارٹیوں کے درمیان بہت سے سیاسی اختلافات موجود تھے۔ عبد اللہ جان جمالدینی نے نہ تو کبھی اپنی پارٹی کے بارے میں بحث کی اور نہ ہی دونوں پارٹیوں کے باہمی اختلافات پر گفتگو کی۔ وہ دونوں پارٹیوں کے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مجھ سے بڑی خندہ پیشانی سے ملتا اور مجھے اپنا نظریاتی کامریڈ اور شاگرد تصور کرتا تھا۔ اس سے پہلے عبد اللہ جمالدینی سے میرا غائبانہ تعارف تو تھا لیکن اس سے کبھی ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہواتھا۔ کیوں کہ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے مجھے اس کے بارے میں بہت کچھ بتایا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ اگر تمہاری اس سے دوستی ہوجائے تو اس کے پاس مارکسزم اور مارکسی ادب و تنقید پر بہت سی کتابیں ہیں۔

یہ زمانہ پاکستان میں ضیائی مارشل کا تاریک اور پرتشدد دور تھا اور افغان ثور انقلاب کی مخالف اور حامی سیاسی قوتوں کے درمیان ایک نظریاتی و عملی جنگ اپنے عروج پر تھی اور بلوچستان قومی و عالمی سیاسی قوتوں کا میدانِ جنگ بنا ہوا تھا۔ اس وقت مجھے عبد اللہ جان جمالدینی کا ایک مضمون ملاتھا،جو افغان ثور انقلاب سے متعلق تھا۔ جس نے مجھے بے حد متاثر کیا اور میں نے اس مضمون کے بارے میں ایک دن عبد اللہ جمالدینی سے بحث کی تو وہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا مجھے بہت خوشی ہے کہ تم پڑھنے لکھنے سے مربوط ہو۔ اس ذوق و شوق کو ہمیشہ جاری رکھو۔ میں جب عبد اللہ جان جمالدینی سے ملنے اس کے دفتر جاتا تو وہاں پروفیسر بہادر خان رودینی ،پروفیسر برکت علی اور پروفیسر مجتبیٰ حسین بھی موجود ہوتے۔ ایک روز پروفیسر مجتبیٰ حسین نے مجھے اپنی کتاب” ادب اور آگہی” دی۔ میں نے پڑھ کر کتاب پر اپنی رائے ایک خط میں حب سے لکھ کر ارسال کردی تو کچھ دنوں کے بعد اس نے خط کا جواب بھیجا،جس میں اس نے لکھا تھا کہ میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری کتاب پر بہت مدلل اور قیمتی رائے دی ہے۔ میں جب موسم گرما اور سرماکی چھٹیوں میں لاہور سے کوئٹہ آتا تو عبد اللہ جان جمالدینی کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتا اور اسے شاہ محمد مری ،ظہیر کاشمیری ، سی آر اسلم اور دیگر دوستوں کا سلام پیش کرتا۔ وہ لاہور کے بارے میں مجھ سے تفصیل سے پوچھتا۔ وہاں کے سیاسی حالات کیسے ہیں؟ سوشلسٹ پارٹی کی سرگرمیاں کیا ہیں؟ شاہ محمد مری کا کیا حال ہے؟ وہ آج کل کیا لکھ پڑھ رہا ہے؟ اور کون سی کتاب کا ترجمہ کر رہا ہے؟سی آر اسلم کا کیا حال ہے؟ ظہیر کاشمیری کی صحت کیسی ہے؟ وغیر ہ وغیرہ۔

میں نے ہمیشہ عبد اللہ جان جمالدینی سے اکتساب نور کیا۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے، جب میں نے عبد اللہ جان جمالدینی کو اپنی کتابوں "Marxist Approach to literature” اور "Origin of Speech”کی کاپیاں پیش کیں تو اس نے کتابوں کو اپنی آنکھوں سے لگایا اور مجھے مبارک باد پیش کی اور کہا کہ مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ تم نے بہت اہم موضوعات پر بہت اچھی اور قابلِ قدر کتابیں تحریر کی ہےں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ تم نے بہت سخت محنت کی ہے۔ میں انہیں ضرور پڑھوں گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ تم آئندہ بھی مارکسزم پر اپنا کام جاری رکھو گے۔میں جب اس سے کچھ دنوں بعد ملا تو اس نے کہا کہ میں نے تمہاری کتابیں پڑھی ہےں،جو بہت دلچسپ ہےں ۔ مارکسی تنقید اور مارکسزم پر تمہاری گرفت کا پتہ دیتی ہےں۔ماہنامہ سنگت میں ایک مرتبہ میرا مضمون "فریڈک اینگلز اور مارکسی تنقید کا ارتقائ” شائع ہوا تو اس نے اس پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ میں نے تمہارا مضمون اینگلز اور مارکسی تنقید کا ارتقاءسنگت میں پڑھ لیا ہے، جو مجھے بہت اچھا لگا ہے۔ تم نے بڑی محنت سے اسے لکھا ہے۔

ماما عنداللہ جان اپنی زندگی کے آخری سالوں میں اپنا حافظہ کافی حد تک کھوچکا تھااور بہت سے لوگوں کو تو بالکل بھول گیا تھا۔ایک مرتبہ میں اس سے ملا۔اس سے مصافحہ کیا۔اس کے بعد اس نے مجھ سے براھوئی میں بات چیت شروع کی۔ای نا کل کتاباک خونانٹ۔نی باز جوانو کاریم کریس۔)میں نے آپ کی تمام کتابیں پڑھی ہیں۔آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے۔(اس سے پہلے میں کوئی جواب دیتاشاہ محمد نے اس سے پوچھا ما یہ کون ہے اسے جانتے ہوتو اس نے کہایہ افضل مینگل ہے ۔میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔شاہ محمد نے کہا یہ افضل مینگل نہیں جاوید ہے۔یہ سن کر ماما ایک لمبی سوچ میں گم ہوگیا۔ایک مرتبہ جب میں نے اس سے ہاتھ ملایا تو اس نے مجھ سے پوچھا تم کون ہو؟ میں نے کہا میں جاوید ہوںتو اس نے کہا کہ اچھا اچھا تم انجم قزلباش ک بیٹے ہو۔انجم قزلباش کا لڑکا بھی میرا ہم نام تھا۔ایک مرتبہ سیال کاکڑ اس سے ملنے آیا اور اس نے اپنی کتاب” نقوشِ ادب” اسے پیش کی تو ماما نے اسے اسل وطن یار سمجھا اور وہ سیال کاکڑ کو بالکل بھول چکا تھا۔وہاں موجود دوستوں نے کہا کہ یہ آپ کا پرانا ساتھی سیال کاکڑ ہے۔اسل وطن یار نہیں وہ تو کافی پہلے فوت ہوچکا ہے۔لیکن پھر بھی ماما کے ذہن میں سیال کاکڑ کی تصویر نہیں ابھر سکی اور وہ ایک لمبی سوچ میں کھو کر خاموش ہوگیا۔

ماما عبد اللہ جان جمالدینی کا نام بلوچستان کے معدودے چند دانشوروں میں بھی قابل ذکر اور نمایاںہے۔وہ3 مئی1922ءمیں نوشکی میں پیدا ہوا۔اس نے اپنی تعلیم اسلامیہ کالج پشاور میں مکمل کی جہاں وہ ،اپنے ایک استاد صاحب زادہ ادریس کے زیرِ اثر ترقی پسند اور روشن فکر ہوگیا۔ اس پر اس کے استاد کے اثرات کے بارے میں شاہ محمد مری لکھتا ہے:

”دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بڑے آدمی کے اثر میں آنے سے قبل عبد اللہ جان باقاعدہ ملا بن چکا تھا۔ نمازیں، بحثیں، کپڑوں کا ڈھب سب کچھ جماعت اسلامی والا ہوچکا تھا۔ اور اس کی مبارک ریش پانچ چھ انچ تھی۔ وہ معدے کی تیزابیت اور بے خوابی کا شکار ہوگیا تھا۔ بے قراری، اخلاقی ٹھیکیداری، زہد، عبادت ۔۔۔۔۔ الغرض وہ پکا ملا بن چکا تھا۔“ (1)

ماما تعلیم مکمل کرنے کے بعد تحصیل دار کے منصب پر فائز ہوااور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ملازمت کرتا رہا۔اس نے نصف سے زائد صدی تک نظریاتی و عملی جدوجہد کی اور بلوچستان کے قومی و طبقاتی مسائل کو مارکسزم کے اصولوں کے مطابق حل کرنے کی تگ و دو کی۔

پچاس کی دہائی میںعبداللہ جان نے تحصیل داری کو چھوڑ کر اپنے ساتھیوں ڈاکٹر خدائداد اور سائیں کمال خان شیرانڑیں سے مل کر لٹ خانہ تحریک کی بنیاد رکھی،جس نے ون یونٹ اور ایوبی ماشل لا کے خلاف بہت جدوجہد کی۔لٹ خانہ ایک ترقی پسند سامراج دشمن تحریک کے طور پر ابھرا،جس نے ایک عہد کو متاثر کیا۔اور اس میں جوق در جوق پشتون اور بلوچ دانشور شامل ہوتے گئے،جنہوں نے آگے جاکر قومی،طبقاتی اور صنفی جدوجہد کو جاری رکھا۔ڈاکٹر شاہ محمد مری کے بقول:”چناں چہ ایک نیم کمیونسٹ اور نیم نیشنلسٹ پلیٹ فارم لٹ خانہ کے نام سے کام کرنے لگا۔“2 ))

سیال کاکڑ لکھتا ہے:

”میرِ انسانیت جناب عبد اللہ جان جمالدینی سر زمین بلوچستان کا وہ عظیم فرزند ہے، جوکہ پوری انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپ نے عالمِ جوانی میں اپنے دیگر بلوچ اور پشتون ساتھیوں سے مل کر لٹ خانہ کے ادبی اور ثقافتی مرکز سے علم و آگہی کی قندیلیں روشن کردیں۔“ (3)

سیال کاکڑلٹ خانہ کے بارے میں مزید لکھتا ہے:

”بلوچی سٹریٹ کا لٹ خانہ در حقیقت ڈاکٹر خدائے خان گندہ پور، میر عبد اللہ جان جمالدینی اور سائیں کمال خان شیرانی کے جوان جذبوں سے آباد ہوا تھا۔ ان تین مخلص اور جان نثار ساتھیوںنے سیاست اور ادب کے میدان میں دیگر نوجوانوں کی ذہنی آبیاری کی۔ ان تین ساتھیوں میں ڈاکٹر خدائے داد لٹِ اعظم کے نام سے مشہور ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لٹوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ وجہ شائد یہ تھی کہ اس وقت بلوچ اور پشتون نوجوانوں کے لیے کوئی منظم پلیٹ فارم موجود نہیں تھا۔ چناں چہ لٹ خانہ کے تین مخلص ساتھیوں کے سیاسی اور ادبی کاروان میں دھیرے دھیرے دیگر لوگ شامل ہونے لگے۔“ (4)

لٹ خانہ نے مادری قومی زبانوں کی ترویج واشاعت کے لیے بہت جدوجہد کی اور ان میں پڑھنے لکھنے کی طرف لوگوں کی توجہ دلائی۔بلوچی اور دیگر زبانوں کے اندر ترقی پسند تحریک کے غلبے سے لٹ خانہ نے مادری قومی زبانوں کی ترویج واشاعت کے لیے بہت جدوجہد کی اور ان میں پڑھنے لکھنے کی طرف لوگوں کی توجہ دلائی۔بلوچی اور دیگر زبانوں کے اندر ترقی پسند تحریک کے غلبے سے زمین تیار کر لی گئی۔لٹ خانہ بہ یک وقت قوم پرستوں، جمہوریت پسندوں، کمیونسٹوں اور ترقی پسندوں کا مرکز تھا، جس میں بلوچی، براہوئی، پشتو، اردو اور فارسی کے ادباءو شعراءاور دانشور ہمہ وقت تحریر و تسوید، بحث و تمحیص، اور تالیف و ترجمہ میں محو و مصروف رہتے تھے۔ لٹ خانہ میں اردو کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی بڑی زبانوں بلوچی، براہوئی اور پشتو پر علمی، لسانی اور ادبی کام کیا۔ میر گل خان نصیر کا بلوچی مجموعہِ اشعار 1952 ءمیں شائع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی آزاد جمالدینی کا کتابچہ مستیں توار(للکار) اردو ترجمے کے ساتھ شائع ہوا۔اس طرح بہت سے شاعر،ادیب اور دانشور اپنی مادری قومی زبانوں میں لکھنے پڑھنے لگے۔جیسا کہ سیال کاکڑ لکھتا ہے:

 

”بلوچوں اور پشتونوں کو بلوچی اور پشتو کی جانب راغب کرنے کا سہرا لٹ خانے ہی کے سر ہے اور ان زبانوں کے بولنے والوں کو پہلی مرتبہ لٹ خانے کے عظیم انسانوں نے متوجہ کیا ہے۔“ (5)

”میر صاحب نے ہمیشہ انسان کو انسانی نگاہ سے دیکھا ہے۔ آپ نے ہمیشہ جہالت، غربت اور معاشی ناہمواریوں کے خلاف جدوجہد کی ہے۔، بلوچستان کے حوالے سے آپ نے سیاسی حقوق اور سماجی انصاف کے لیے ایک طویل جنگ لڑی ہے۔ جناب میر عبد اللہ جان جمالدینی کی بھر پور زندگی میں پچاس اور ساٹھ کی دہائیاں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔

انہی عشروں میں آپ نے اپنے وفادار ساتھیوں ڈاکٹر خدائے داد خان گنڈہ پور اور کمال خان شیرانی کے ساتھ مل کر لوگوں میں سیاسی، ادبی، ثقافتی اور طبقاتی شعور اجاگر کیا۔ اس وقت کے نہایت گٹھن کے ماحول میں بھی میر عبد اللہ جان جمالدینی اپنے نظریات اور خیالات پر ثابت قدم رہے۔ جناب جمالدینی کو بلوچیت، پشتونیت یا ان جیسے اور خانوں میں تقسیم کرنا سراسر نا انصافی کے مترادف ہوگا۔ میرے نزدیک میر صاحب پوری انسانیت کا مشترکہ سرمایہ ہے، جن کی ذات پر ہر کوئی فخر کرسکتا ہے۔“ (6)

”یہ 1953ءکی بات ہے کہ ڈاکٹر خدائے داد خان گنڈہ پور اور سائیں کمال خان شیرانی کے ماہنامہ پشتو رسالے کے کسی شمارے میں جناب میر عبد اللہ خان جمالدینی کا ایک خوبصورت مضمون چھپا۔ جب میر صاحب کا یہ مضمون علامہ عبد الحئی حبیبی کی نظروں سے گزرا تو موصوف پشتو ہی کے کسی شمارے میں کچھ یوں رقم راز ہے: میر عبد اللہ جان جمالدینی کا مضمون پڑھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ ایک بلوچ بھی اتنی اچھی اور صاف ستھری پشتو لکھ سکتا ہے۔“ (7)

ا پنے پشتو زبان و ادب کے ذوق کے بارے میں عبد اللہ جان جمالدینی مندرجہ ذیل الفاظ میں تحریر کرتا ہے:

”ہمیں مطالعے کا تو سکول کے زمانے سے شوق تھا۔ تعلیم کے دوران اچھے استادوں کی بدولت اور بڑھا۔ اور پھر ملازمت کے دوران بھی یہ شوق جاری رہا۔ انگریزی اور اردو میں مطالعہ کرتے۔ اب تو خدائے داد صاحب کے پاس پشتو کی کتابیں تھیں۔ ان کا بھی مطالعہ کرتے۔ ویسے تو میں اسلامیہ کالج پشاور میں بھی کمال خان کی وجہ سے اکثر پشتو پڑھتا۔ مگر اس وقت پشتو میں صرف چند کتابیں دستیاب تھیں۔“ (8)

عبداللہ جان لٹ خانہ کی تحریک کے بانیوں میں سے تھا ،جو بلوچستان کی تاریخ کا ایک نیا موڑ ہے، جس نے بلوچستان کی سیاست، ادب، ثقافت اور سماج کو ایک طبقاتی نقطہِ نظر فراہم کیا۔ اس تحریک نے بلوچستان کی سیاست کو درباری، سرداری اور سرکاری ایوانوں سے باہر نکال کر محنت کش عوام تک وسیع کیا۔ لٹ خانہ کے اجڑنے کے بعد اس کے تینوں سرخیل عبد اللہ جمالدینی، خدائید اور کمال خان اپنی اپنی زندگی کے معمولات میں محو و مشغول ہوگئے۔ لیکن ان کی سیاسی وابستگیاں بھی مختلف صورتوں میں برقرار رہیں۔ عبد اللہ جان پاکستان کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگیا اورخدائید ضیائی مارشل لا کے نفاذ کے وقت سے پاکستان سوشلسٹ پارٹی سے وابستہ ہوگیا۔ جب کہ کمال نے پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کا انتخاب کیا۔

تاہم لٹ خانہ کی یہ تحریک ڈاکٹر خدائیداد کے گھر میں جمعہ پارٹی کی شکل میں جاری رہی۔کیوں کہ لٹ خانہ کے احباب جب منتشر ہوگئے تو ان کا ٹھانہ ڈاکٹر خدائیداد کھر بنا،جو ارباب کرم روڈ پر تھا۔اس میں ہر جمعے کو وہ جمع ہوتے اور مختلف موضوعات پر بحث کرتے تھے۔ کیوں کہ اس زمانے میں ہفتہ وار تعلطیل جمعہ کو ہوا کرتی تھی ۔

´ ´جب 1993ء میں عبد اللہ جان جمالدینی پرفالج کا حملہ ہوا تو احباب کا مجمع جو پہلے ہر ہفتہ وار تعطیل جمعے کو ڈاکٹر خدائیداد کے گھر جمع ہوتا تھا،اب وہ عبد اللہ جان جمالدینی کے گھر جمع ہونے لگا،جو صبح ایک کارواں کی صورت میںڈاکٹر خدائے داد کی معیت میں اس کے گھر سے روانہ ہوتا تھا ۔ یہ قافلہ ماما کی مزاج پرسی کے لیے جاتا تھا۔پھر جب جمعے کے بجائے اتوار کو ہفتہ وار تعطیل کا اعلان ہوا تو یہ محفل جمعے کے بجائے اتوار کو عبد اللہ جان جمالدینی کے گھر جمنے لگی۔ اس میں کچھ نئے لوگوں سے بھی ہماری شناسائی ہوئی، جو ڈاکٹر خدائے داد کے گھر نہیں آتے تھے۔ سیال کاکڑ لکھتا ہے:

”واضح رہے کہ میر صاحب کے تمام عقیدت مند ہر اتوار کو بلا ناغہ ان کے گھرجاتے ہیں۔ اور تمام احباب محفل جماکر جناب جمالدینی صاحب کو ذہنی و قلبی خوراک مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔“(9)

اس کے متعلق عبداللہ جان خود لکھتا ہے:

”میں 1993ءمیں جب فالج کے ایک شدید حملے کے سبب بیمار ہوا، تو امیر الدین صاحب، شاہ محمد، پروفیسر بہادر خان، پروفیسر برکت علی، محترم شیام کمار، ڈاکٹر سرور صاحب، ڈاکٹر خدائیداد ، محترم تمکین احمد، محترم بدر الحسن صاحب (جب کوئٹہ میں ہوتے)، جاوید اختر صاحب اور کئی احباب ان کے ہمراہ میرے گھر آتے۔ بیمار پرسی کے علاوہ مجھے حوصلہ دینے کے لیے آتے۔ ان دنوں جمعہ کو چھٹی ہوا کرتی تھی تو ماما کی بیگم نے اسے جمعہ پارٹی کا نام دیا تھا۔ بعد میں اتوار کو چھٹی کا اعلان ہوا۔ چناں چہ ہر اتوار کو باقاعدہ سے یہ پارٹی میرے گھر میں جمع ہوتی۔ نہایت خوشی اور دل افروزی سے یہ محفل برقرار رہتی۔ بہت ہی خوش ہوتی۔“ (10)

یہ سنڈے پارٹی عبد اللہ جان جمالدینی کے گھر ان کی وفات تک منعقد ہوتی رہی۔ اس کی وفات کے بعد احباب کے سامنے سنڈے پارٹی کے مستقبل کا سوال پیش آیا تو اس پر سنگت اکیڈمی آف سائنسز اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ سنڈے پارٹی گزشتہ تین عشروں سے جاری و ساری ہماری قومی روایت ہے۔ اس لیے اسے ہر حالت میں جاری رکھا جائے گا۔ لہٰذا سنگت اکیڈمی آف سائنز نے اس کی ذمہ داری اٹھائی اور سنڈے پارٹی کا اجلاس ہر ماہ کے پہلے اتوار کو پروفیشنل اکیڈمی شیر محمد روڈ کوئٹہ میں باقاعدہ منعقد ہوتا ہے۔

عبد اللہ جان جمالدینی نے ملامزار بدوزی کی چار زبانوں پر مشتمل (بلوچی، براہوئی، سندھی اور اردو ) نظم” لاٹ ئِ بگھی” کو تحقیق کرکے گوشہِ خمول سے باہر نکال کر منظر عام پر لایااور اس کی اشاعت کو ممکن بنایا۔ علاوہ ازیں اس نے ملافاضل کی شاعری کو مدون کرکے شائع کیا۔ عبد اللہ جان جمالدینی نے نوشکی کے شاعر شیر جان کی شاعری کو مدون کیا، جو” مُرگ مینا” کے عنوان سے بلوچی اکیڈمی کوئٹہ سے 1993ءمیں شائع ہوئی۔ اس نے اس شاعر کی شاعری کو 1952ءمیں جمع کیا تھا اور اس کی تدوین و تالیف میں بہت جانفشانی اور محنت کی۔ اس کتاب میں حاشیے، مشکل الفاظ کے معانی اور وضاحتیں بھی شامل کی ہیں۔ علاوہ ازیں اس نے مشرقی بلوچی کے شاعر مست توکلی کے اشعار، ہڑب جنگ اور رنگی شاعری کو بھی تحقیق کرکے ڈھونڈ نکالا۔

عبد اللہ جان نے بالاچ گور گیژکی ایک طویل نظم بھی دریافت کی۔ عبد اللہ جان نے بنگال کے شاعرِ انقلاب نذر الاسلام کی کچھ نظمیں بلوچی میں ترجمہ کیں۔ اس نے میکسم گورکی، لیوٹالسٹائی اور انتون چیخوف کی بہت سی کہانیوں کے بلوچی میں ترجمے کیے۔ اس نے گورکی کی کتاب”My Interviews” میں سے ایک کا ترجمہ بھی کیا۔ علاوہ ازیں اس نے 1950ءمیں لینن کی کتاب” "To The Rural Poor کا اردو میں ترجمہ دیہات کے غریب کے عنوان سے کیا۔ جسے 2003ءمیں شاہ محمد مری نے شائع کیا۔ اب اس کا دوسرا ایڈیشن سنگت اکیڈمی آف سائنسز شائع کررہی ہے۔

عبد اللہ جان جمالدینی کسی زبان کو کمتر نہیں سمجھتا تھا۔ بلکہ وہ دنیا کی ہر زبان کو قد و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔عبداللہ جان نے پوری زندگی زبانوں کے درمیان برابری کے رشتے قائم کرنے کی کوشش کی اور اس نے بلوچی، براہوئی، پشتو ، اردو اور انگریزی میں وقتاً فوقتاً اپنے نظریات کا اظہار کیا۔ کیوں کہ وہ ان زبانوں پر عبور رکھتا تھا اور ان کے ادب کو پڑھتا تھا۔ علاوہ ازیں وہ فارسی اور روسی زبان بھی کماحقہ جانتا تھا اور ان کے ادب کو بہت ذو ق شو ق سے پڑھتا تھا۔ وہ پوری زندگی لسانی تعصب، تنگ نظری اور شاونزم کا کبھی بھی شکار نہیں ہوا۔ڈاکٹر شاہ محمدمری اس کے بارے میں لکھتا ہے:

”میر صاحب بلوچستان میں بالخصوص نسل پرستانہ اورانتہا پسندانہ ماحول کا سخت مخالف تھا۔ وہ اپنے صوبے میں قومی و نسلی اقلیتوں کا علمبردار رہا ہے۔ “ (11)

عبد اللہ جان جمالدینی نے جن زبانوں میں لکھا، ان میں بہت سادہ الفاظ اور اسلوب استعمال کیا تاکہ عوام تک بہ آسانی رسائی حاصل ہوسکے۔ اس طرح اس نے زبانوں کو طبقاتی بندھنوں سے آزاد کرنے کی کوشش کی۔ اس کی تحریروں میں نہ تو بے جا قسم کی اکتاہٹ کا احساس ہوتا ہے اور نہ پڑھنے والوں کی دلچسپی ختم ہوتی ہے۔ اس کی تحریریں بہت سے تاریخی واقعات اور حوالوں سے پر ہیں اور قاری کی توجہ کو اپنی گرفت میں لیتی ہیں۔ اس کی کتابیں "لٹ خانہ”، "شمعِ فروزاں” اور دیگر اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

19 ستمبر 2016 میں ہمارا بزرگ، استاد اور نظریاتی رہنما ماما عبد اللہ جان ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا تھا۔ اس کی تعلیمات، خدمات اور جدوجہد کو خراج تحسین پیش نہ کرنا بہت بڑی نا انصافی ہے۔ لہٰذا ہم ماما کی استحصالی قوتوں کے خلاف نظریاتی و عملی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ماما عبد اللہ جان محض ایک شخص ہی نہیں تھا ۔بلکہ ایک تحریک تھا۔اس کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ ایک دانشور، صحافی ،استاد، سیاسی رہنما ، ادبی نقاد اور ماہر لسانیات تھا۔

 

References

 

1۔شاہ محمد مری ۔ عبد اللہ جان جمالدینی۔ عشاق کے قافلے ۔جلد نمبر 25۔کوئٹہ: سنگت اکیڈمی آف سائنسز، اشاعتِ دوم، 2017ئ۔ ص 24۔

2۔ڈاکٹر شاہ محمد مری۔ بلوچ قوم عہدِ قدیم سے عصرِ حاضر تک۔ لاہور: تحلیقات ، 2005ئ۔ ص 314

3۔سیال کاکڑ۔ نقوشِ ادب۔کوئٹہ: افغانستان اکیڈمی، 2015ءص 73۔

4.Ibid. P.76

5.Ibid. 78.

6.Ibid. Pp.80-81.

7.Ibid. P.85.

8۔عبد اللہ جان جمالدینی۔لٹ خانہ، کوئٹہ: سنگت اکیڈمی آف سائنسز، شاعت سوم، 2017ئ۔ص36

9۔سیال کاکڑ۔ نقوشِ ادب۔ ص89.

10۔عبد اللہ جان جمالدینی۔شمعِ فروزاں: یادیں، یادداشتیں۔ کوئٹہ: سنگت اکیڈمی آف سائنسز، 2017ئ، ص 79. ۔

11۔شاہ محمد مری ۔ عبد اللہ جان جمالدینی۔ عشاق کے قافلے ۔جلد نمبر 25۔ ص 164۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*