وہ اک آدمی
بن گیا ہے جو خود اک کہانی
اسی کی کمی ہم سے لکھوائے گی جانے کتنے فسانے
فسانے کے آغاز میں ایک ماں ہے
جو اب ہوش سے بھی ہے عاری
نہ جانے وہ محسوس کرتی بھی ہے یا نہیں
پر بتاتی تھی وہ
میرا بچہ ہمیشہ کتابوں کا رسیا
انھی میں پلا اور بڑھا تھا
کوئی کھیل کود اس کو بھاتا نہیں تھا
کتابیں تھیں بس ,اور وہ رات دن
ساتھ ان کے
بسر کرتا اک دن بڑا ہوگیا
خود بھی لکھنے لگا
اسی باب میں ایک والد بھی ہے
جو کہ عالم تھا، استاد تھا
اور شفقت چھپائے
کبھی اس محبت کا اقرار کرتا نہ تھا
اپنی دولت پہ بھی فخر اس کو نہ تھا
وہ جو بیٹے کی صورت میں
اک خاندانی تسلسل تھا علم و فضل کا
اور اس کو وہ سرمایہءزندگی جانتا تھا
مگر اس کا اظہار کرتا نہ تھا
یہ میں جانتی ہوں کہ بیٹے کو اپنے
تحفظ کی زندہ علامت سمجھتا تھا وہ
اسے چھوٹا بھائی بھی یوں سونپ رکھا تھا
کہ جیسے وہی ہو بڑا
وہ اک آدمی
وہ بھائی بھی تھا اور شوہر بھی تھا
اور اک باپ کی حیثیت سے
کیا زیور علم سے اس نے آراستہ بیٹیوں کو
مگر اس نے کوئی توقع
محبت کے رشتوں سے رکھی نہیں تھی
وہ اک آدمی ایک کب تھا
ذرا پوچھیے ان ادیبوں سے
جو اپنے شہروں سے، قصبوں سے اور ملک کی سرحدوں سے بھی آگے
وہ سارے قلم کار
جو آج بھی ہیں فسردہ
جنھیں قیمتی موتیوں کی طرح اس نے چن کے
محبت کی اور علم و دانش کی اک خوب صورت لڑی میں پرویا ہوا تھا
وہ یہ جانتا تھا
کہ اک آدمی صرف ایک آدمی
دوستوں سے
کتابوں سے
اپنوں سے
رشتے نبھاتے ہوئے بھی
سناتا ہے اپنی کہانی
بچاتا ہے اپنے قلم کو
اس اک آدمی کی کتابوں میں
خود اس کا کردار لکھا ہوا ہے
جسے نسل در نسل پڑھ کر
محبت بھری روشنی لینے والے
اس اک آدمی سے
ورق در ورق یوں ہی ملتے رہیں گے
کہ اس عہد کے کتنے ابواب میں
وہ کہیں نہ کہیں اب بھی موجود ہے