شیخ ایاز کی شاعری میں فطرت 

 

شیخ ایاز نے کلاسیکی اور صوفی شاعروں کے ساتھ مغربی شاعری اور ادب کا وسیع مطالعہ کیا تھا۔ اس  کی شاعری میں موضوعات کی وسعت دکھائی دیتی ہے۔ ان موضوعات میں دھرتی ،  فطرت ، محبت ، جمالیات ، ماورائی جمالیات ، طبقاتی کشمکش، سماجی مسائل اور مزاحمت کے رنگ جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ دھرتی ، فطرت اور محبت نے ان کے فن کو دوام بخشا۔ اپنی نوع کے یہ جامع اور بہت گھرے موضوعات ہیں۔

سندھ کی صوفی شاعری کے دو حوالے مربوط ہیں۔ ایک اس شاعری کا ڈکشن ہے  اور دوسرا لوک دانشمندی کا پہلو ہے۔ صوفی شعراءنے سندھی زبان کو مظبوط بنیاد فراہم کی اور دانشمندی کے لازوال  زاویے عطا کئے۔

دھرتی اور فطرت سے جڑے یہ لوک سمجھ اور عقل و دانش اپنی وسعتوں میں توازن ، انکساری اور ربط باہمی سے بہرہ ور تھے۔ ایاز نے سندھ ،ایشیا اور مغرب کے قدیم علمی ذخائر  سے خود کو سیراب کیا۔ خاص طور پر شاہ عبد الطیف بھٹائی کے مطالعے نے ان کے فن و فکر کو وسعت بخشی۔ ان کے گیت، غزل  ، وائی و دیگر اصناف میں بھٹائی کا رنگ دیکھا جاسکتا ہے۔

سندھ ایک فطری توانائی سے  مالامال خطہ ہے۔ اس خطے میں دریا، سمندر، سبزہ اور پہاڑ خوبصورت مناظر پائے جاتے ہیں۔ یہ فطری و قدرتی حسن ہے ، جس کی مصنوعیت نے تراش خراش نہیںکی لہذا اس کے اندر سادگی ، عاجزی اور مقامی  لوگوں کی  کسر نفسی کے عجب رنگ  دکھائی دیتے ہیں ۔ شاعر نے دھرتی کو جابجا سراہا ہے۔

 

ایاز اپنی نظم میں کہتا ہے :

"آج ایکبار پھر میں دھرتی کو اپنے اندر دیکھتا ہوں

دھرتی جو میرے خون میں گردش کر رہی ہے

اور اس سورج کے اردگرد گھوم رہی ہے

جو میرے اندر ہے جو مجھ سے باہر نہیں ہے

شیخ ایاز کی فطرت پرستی سندھ کے حسین مناظر کی تصویر کشی ہے۔ شکارپور اور سکھر کی ثقافت ، طعام ، سردیوں کے منفرد رنگ ، کچہریاں ، مچ کچہری کی روایات و دیگر لوازمات حسین ہیں۔ دریا کا کنارا ، سبز کھیتوں  کی مہک، ان پر کہرے کی آنکھ مچولی اور ماحول کی خوشبو ایسی کہ سانس تک مہکنے لگے !

میں ماضی کی بات کررہی ہوں۔ وہ ماضی جس میں شیخ ایاز نے فطرت کا حسن دیکھا۔ کسی حد تک میں نے بھی وہ مشاہدات کئے جو ان کی شاعری کا انمول حصہ ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ بہت سال پہلے یونیورسٹی کے دن تھے اور میں نے ان کی کتاب، "کاک ککوریا کاپڑی” کا مطالعہ کیا جس کے ایک خط میں شیخ ایاز نے "سادھو بیلے "کا ذکر کیا ہے۔ وہ اس حد  تک سحر انگیز تھا کہ میں خود سادھ بیلے جا پہنچی اور وہیں کی ہوکر رہ گئی۔ جو تنہائی ، گیان ودھیان ، سندھو دریا کے پانی میں گھرے،  اس چھوٹے سے جزیرے پر محسوس کیا وہ کہیں نہیں نظر آیا۔ سری لنکا کے دارچینی کے جزیرے میں بھی ویسی ہی سادگی ، پراسراریت تھی مگر سادھو بیلے کی خاموشی میں کئی ان کہے رازوں کو منکشف ہوتے دیکھا۔

تنہائی کے پیروں میں پائل تھی اور وہ لمحے بیخودرقص کرتے تھے۔

فہمیدہ ریاض کہتی ہیں :

"ایاز کی شاعری سندھ کی مخصوص دھرتی، اس کے منفرد بیل بوٹوں، پھل پات، پنچھیوں اور ندی نالوں سے سنگھاری ہوئی ہے۔ ”

 

تو نے کب دیکھا ہے مجھ میں آدھی رات اروڑ

جس پر کرے نچھاور چندا جگمگ کرن کروڑ

میں سندھو کی دھار ، نہ جس کو روکے کوئی گھاٹ

لہر لہر تلوار چمکتی، بھنور بھنور کو کاٹ

شیخ ایاز کامیاب وکیل تھے ، گھر بار ، دوستی یاری اور وسیع حلقہ احباب تھا۔ کئی زلفوں کے اسیر تھے۔ پھر آخر  کیسے لکھ لیتے تھے دل کے تاروں کو چھیڑ دینے والی شاعری ! یہ راز میں آپ کو بتانے لگی ہوں۔بات دراصل یہ ہے کہ  وہ ٹائم شفٹ سے آشنا تھے۔ جہاں جاتے وہیں کے ہوکر رہ جاتے ۔ سب سے بڑا تحرک انہیں سندھو دریا ، قدیم درختوں اور سمندر سے ملتا۔  فطرت کا کام ہے عطا کرنا ، نوازنا اور توازن قائم رکھنا۔ فطرت تخلیق اور تخیل کا سرچشمہ بھی ہے۔ فطرت ہم آھنگی چاہتی ہے۔

فطرت ربط باہمی کا حسن ہے۔ ایاز کا سفر دھرتی کی محبت سے شروع ہوا اور کائنات کے بے کراں شعور کی دریافت تک ،  نئی دنیاﺅں سے روشناس ہوا۔

محبت رابطے کا حسن ہے۔ شیخ ایاز فطرت میں محبوب کا حسن تو کبھی خالق کائنات کا عکس کھوجتے نظر آتے ہیں۔کہتے ہیں :

تیرے بعد بھی بارش ہوئی ہے

برکھا کی  رت آئی ہے

قوس وقزح کی بانہوں میں پر

وہ پہلے سی رعنائی نہیں

تیرے بعد بھی مہتابی میں

محبوبیت کا جادو ہے

تیرے بعد بھی گلاب کھلتے ہیں

ان میں وہی خوشبو ہے

 

ولیم ورڈز ورتھ کہتا ہے فطرت اور انسان الگ نہیں ہیں۔ وہ فطرت کو رہبر کہتا ہے۔ اسے مظاہر فطرت میں خالق کائنات کا عکس دکھائی دیتا ہے، جسے پینتھی ازم کہتے ہیں ۔

لہذا فطرت میں ایاز کو محبوب کی جھلک آتی ہے . تمامتر موسم محبوب کے وجود کا پرتو ہیں۔

ایاز کی شاعری میں جمالیات کا رنگ جابجا بکھرا ہے۔ تھر کا ریگستان بار بار اس کے قدم روک لیتا ہے۔ کارونجھر پہاڑ کی خاموشی اور پراسراریت اسے حسن بے کراں سے جوڑ دیتی ہے۔ سندھ کے مناظر اسے کائنات کے شعور سے جوڑ دیتے ہیں:

جو ازل سے نہ ہو اور نہ امکان میں

اب تو ہے بات ایسی کچھ انسان میں

میں نے زنجیر پہنی پرآزاد ہوں

تو تو ظالم سدا ہے زندان میں

میں نے جانا نہ تھا ، چاند گائک بھی ہے

چاندنی راگ ہے ، رات سنسان میں

 

بقول ایاز کے :

” ویسے تو شاعر کی صحیح معنی میں تخلیق شاعری ہے۔جس کے محرک جذبے اور اس کی ماحول سے شناسائی ضروری ہے۔ خود سے زیادہ مجھے اپنا ماحول پیارا ہے۔ واپس لوٹتے ہیں اس مٹی کی طرف جس مٹی نے مجھے اور میرے آباو اجداد کو جنم دیا۔ اتنے عرصے کی جدائی کے باوجود وہ میری روح میں رچی ہوئی ہے کہ میری سطر سطر  موجود ہے۔ ہر شہر اور دیس کسی نہ کسی فاتح نے تعمیر کیا ہے۔ اصل حقیقت محلہ ہے۔جو فرد کی نفسیات میں شامل ہے۔ انسان کو اپنے محلے کو آغوش میں بسا کر اس کے بعد شہر ، دیس اور ساری کائنات کو آغوش میں سمیٹ لینا چاہئے۔”

ایاز ہمیشہ بنیاد کی بات کرتا ہے۔ وہ وجود کی خالص پن  کو اہمیت دیتا ہے۔ یہ خالص پن اپنی جڑوں سے تعلق جوڑنے کے بعد نصیب ہوتا ہے۔ اپنی ماں بولی ، اپنی ثقافت اور تہذیب کا دامن چھوڑنے والے کاغذی پھولوں کی طرح رہ جاتے ہیں۔

ولیم بلیک شاعر کو صوفی اور پیغمبر کا لقب دیتا ہے۔ جو ماضی ، حال اور مستقبل کو سمجھ اور دیکھ سکتا ہے۔ ایاز نے اپنی شاعری کی توسط سے جن خطرات کی نشاندہی کی وہ اب سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ آپ بنیاد سے ہٹ گئے ،  اپنی زبان سے منہ موڑ لیا اور باطنی غلام بن گئے۔ ایاز نے ماضی کی ہر اس تحریک میں حصہ لیا جو سندھ کی بقا کے لئے خطرہ تھی۔ اس کے کلام نے باغیوں کو تحرک عطا کیا۔ اور وہ لوگ بھی کیا لوگ تھے ، جن دانشوروں نے علم و  آگہی کی شمعیں فروزاں کیں۔ ان میں   سوبھو گیان چندانی، حیدر بخش جتوئی ، رسول بخش پلیجو ، جی۔ایم۔ سید ، فاضل راہو ، حفیظ قریشی ، عطا محمد بھمبھرو،ابراھیم جویو، ایم۔ایچ پنھور، حسام الدین راشدی  و دیگر دانشور شامل ہیں ،  جو سندھ دھرتی کی مظبوط آواز بنے۔ دور حاضر میں تو مصلحت و سودے بازی کی سیاست میں دانشور اپنا منصب کھو بیٹھے ہیں۔ اب ایاز جیسی آواز کیوں نہیں سنائی دیتی :

 

میرے دیدہ ورو، میرے دانشورو،

پاو¿ں زخمی سہی ڈگمگاتے چلو،

راہ میں سنگ و آہن کے ٹکراو¿ سے

اپنی زنجیر کو جگمگاتے چلو،

رود کش نیک و بد کتنے کوتاہ قد،

سر میں بادل لیے ہیں تہیہ کیے،

بارش زہر کا اک نئے قہر کا،

میرے دیدہ ورو، میرے دانشورو،

اپنی تحریر سے اپنی تقدیر کو نقش کرتے چلو،

تھام لو اک دم یہ عصائے قلم،

ایک فرعون کیا لاکھ فرعون ہوں

ڈوب ہی جائیں گے !

 

ماہتاک سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*