ماہتاک سنگت کوئٹہ کے مدیر محترم ڈاکٹر شاہ محمد مری شیخ ایاز میلے میں اظہارِ خیال ( مضمون پڑھنے ) کے لیے حیدر آباد تشریف لائے۔ وہاں اُن کی ملاقات سندھی ادبی سنگت ، سانگھڑ کے وفد سے ہوئی ۔ ڈاکٹر صاحب نے اُن سے صوبہ سندھ کی بنیاد پہ ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کی تنظیموں میں قربت اور الائنس کی ضرورت پہ گفتگو کی۔ اُن دوستوں نے ایسے کسی بھی امکان کو خوش آمدید کہا۔
ڈاکٹر مری نے حیدر آباد آئے ہوئے کراچی کے نامور شاعر وحید نور سے ، اور فون پہ عیسیٰ بلوچ ( شاعر) سے خواہش کااظہار کیا کہ وہ کراچی آنا چاہتے ہیں اور وہاں اپنے شاعر و دانشور دوستوں سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے تاریخ اور مقام کا تعین کریں“۔ ”کراچی آرٹس کونسل“ پہ اتفاق کیا گیا ۔
سہ پہر تک سارے احباب آگئے ۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری بھی پہلے ہی پہنچ چکے تھے ۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن اور وحید نور میزبان تھے ۔ اجلاس کی کاروائی شروع ہوئی ۔ فاطمہ حسن نے نظامت کی ۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری مہمان ِ خاص ، وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہِ اردو کی چیئر پرسن محترمہ ڈاکٹر یاسمیں سلطانہ اعزازی مہمانِ خاص جبکہ کرسیِ صدارت پر ، عوامی ادبی انجمن کے سیکرٹری نور محمد شیخ کو بٹھایا گیا۔
ناظمِ نشست ڈاکٹر فاطمہ حسن نے تعارفی کلمات کہے ۔ اور پھر جناب صدر کے توسط سے شاہ محمد مری سے اظہار خیال کی گزارش کی ۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کا کہنا تھا کہ میں آج آپ دوستوں سے ملنے آیا ہوں۔ بہت دن ہوگئے ہمیں ملے ہوئے ۔ہمارے سماج میں عدم رواداری بہت ہے ۔ یہاں ٹالرینس نہیں ہے ۔ سب ہی ایک دوسرے سے بیزار ہیں۔ کوئی بھی ایک دوسرے کو سہہ نہیں رہا ہے ۔
”ہم سب مختلف اصنافِ ادب کا تخلیقی کام کرتے ہیں۔ ہمارے دانشور اور تخلیق کار جدید ترین خیالات سے لیس ہیں۔ اس صورت میں اُن کا ہر وقت ساتھ بیٹھنا اور آپسی گفتگو کرنا بہت ضروری ہے ۔ ہماری بزرگ انٹلیکچوئل نسل چلی گئی ہے ۔ آج لیاری میں دو تین ادبی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ میں بھائی کی حیثیت سے آپ سے التماس کرتا ہوں کہ آپ سب مشترکہ طور پر ماہانہ اجلاس منعقد کیا کریں۔ آپ کی اچھی باتیں اور خیالات ہم تک آئیں گے ۔ ڈیرہ غازی خان سے لے کر کوئٹہ تک یہ خیالات اچھی قدروں کو مضبوط کریں گے ۔ آپ جو تین چار گروپ ہیں، وہ ترقی پسند شعور والے ہیں، مل کر بیٹھیں اور افہام و تفہیم سے مسائل حل کریں اور ادب کی طرف بھرپور توجہ دیں “
بعدازاں صدر ِاجلاس نے حاضرین کو سوالات کرنے اور اپنی رائے پیش کرنے کی دعوت دی۔
سب سے پہلے تین شعری مجموعوں کے خالق جناب عیسیٰ بلوچ نے اظہار خیال کیا۔ ان کا کہنا تھاکہ لیاری میں اس وقت نصف درجن ادبی تنظیمیں کام کر رہی ہیں: رژن لفظانکی چاگرد ، عوامی ادبی انجمن، لیاری ریڈرز کلب ( جس کے سرپرست لطیف بلوچ ہیں)، لیاری عوامی محاذ اور جناب وحید نور کی قیادت میں ادبی تنظیم ۔ ہم میں سے ہر ایک ادب کی ترقی کے لیے کوشاں ہے ۔ اس کے علاوہ کامریڈ واحد بلوچ اور اس کی بیٹیاں خواتین محاذ پہ کام کر رہی ہیں۔ سعید بلوچ“ فِشر فوک “ میں مچھیروں کی بہبود کا کام کر رہے ہیں۔لیاری فورم بھی لیاری کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے ۔ ملیر میں سید ریفرنس کتابجاہ کی توسط سے دوست کام کر رہے ہیں۔
کامریڈ واحد نے اپنی رائے پیش کرتے ہوئے اس بات پہ زور دیا کہ علمی اور ادبی کام میں لگن اور سچائی ہونی چاہیے ۔
لیاری میں علمی اور ادبی کام اب پہلے کی طرح نہیں ہورہا ہے ۔ پہلے میوزک کلب تھے ، ڈرامہ کلب تھے اور ہر جگہ مشاعرے ہوتے تھے۔ لیکن اب سناٹا جیسا ہے ۔ ہمارے ادبی ساتھیوں کا فرض ہے کہ وہ اس گھمبیر صورت حال کا نوٹس لیں اور ادبی علمی کام زور شور سے شروع کریں۔
مشہور شاعر و دانشور وحید نور نے لیاری میں ادبی سرگرمیوں میں سست روی کا تجزیہ کرتے ہوئے لیاری میں بد امنی کے سالوں کو یاد رکھتے ہوئے کہا کہ اُس زمانے میں ہر روز لاشیں اٹھائی جاتی تھیں۔ اب آہستہ آہستہ ادبی سرگرمیاں بھی آگے بڑھ رہی ہیں۔ وحید نور نے کہا کہ فائن آرٹس کے دو سو طلبہ و طالبات میں ساٹھ لیاری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں لڑکیاں زیادہ ہیں ۔ادبی اجلاس ہوتے رہتے ہیں۔ رمضان بلوچ اور عیسیٰ بلوچ ہر اجلاس میں شریک ہوتے ہیں۔
رمضان بلوچ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ وہ لیاری سے مایوس نہیں ہیں۔ ایک فضا قائم ہوگئی ہے ۔ لیاری کراچی کا ایک حصہ ہے ۔ کراچی میں ہر طرح کی نشستیں منعقد ہورہی ہیں۔ نوجوانوں کو روشن خیال بنانے کی ضرورت ہے ۔
اللہ بخش راٹھور نے کہا ”لیاری میں مسائل کا اداراک رکھنے والے لوگ کام کر رہے ہیں۔ حالات پہ سوچ رہے ہیں ، کام بھی ہورہا ہے ، ادارے بھی ہیں۔ امید ہے کہ احباب اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے ۔
وفاقی اردو یونیورسٹی میں استاد پروفیسر ڈاکٹر اصغر علی دشتی نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ” مایوسی کی کوئی بات نہیں۔ ادارے ہیں ، کام ہورہا ہے ۔ ہم نشستیں کرتے ہیں جہاں افسانے اور شاعری پڑھی جاتی ہے ۔ البتہ ضرورت ہے کہ اپنی چھتری کو بڑی کرلیں اور سب کو ساتھ لے کر چلیں ۔
سعید بلوچ نے کہا کہ زیادہ تر ہم وہ لوگ ہیں جو پہلے سیاسی پارٹیوں سے وابستہ تھے ۔ تب ہم نظریاتی باتیں کرتے تھے لیکن اب نظریاتی بحثیں نہیں ہوتیں۔ ہماری نظریں یورپ اور امریکہ کی ترقی کی طرف جاتی ہیں۔ انہیں دراصل ترقی کا ماحول دیا گیا ۔ جبکہ ہمارے ہاں اس کے برعکس ہے ۔ آج ہمیں مجتمع ہوکر ادبی سماجی کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ہم متحد ہوں گے تو کوئی ہمیں اپنے راستے سے نہیں ہٹا سکتا ۔
کراچی ، لیاری کے احباب کی آرا سننے کے بعد رسالہ سنگت کے ایڈیٹر اور کوئٹہ سے تشریف لائے ہوئے مصنف اور اجلاس کے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اپنی رائے پیش کی۔
ان کا کہنا تھا کہ آج اس اجلاس میں آپ سب نمایاں شخصیتوں کی شرکت سے میرا حوصلہ بڑھا ہے میں آج یہاں صرف اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ سے ملاقات کروں۔ آپ بلوچی سندھی براہوئی اور اردو کے لکھنے والے ادیبوں اور شاعروں اور ادیبات کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کریں۔اور اپنی اپنی زبانوں کے ادب کو ترقی دیں ۔ آپس میں تنظیمی سرگرمیوں کے ذرہعے ایک تعلق استوار کریں۔۔ آپ نظریاتی لحاظ سے نوجوانوں کو مضبوط بنائیں، انہیں پاپولرزام اور آزاد خیالی یعنی لبرلزم کی طرف نہ جانے دیں ۔ ہمارا مشن ادب ہے ۔ کوئی افسانہ پڑھے ، غزل پڑھے یا نظم پڑھے ۔ اسے رد نہ کریں بلکہ تعمیری رائے دیں، حوصلہ افزائی کریں۔ ہمارے پاس ادب اور بس ادب ہے ۔
اچھی خاصی گفتگو کے بعد فیصلہ کیاگیا کہ ہر ماہ ایک مشترک ادبی نشست منعقد کی جائے ۔ یہ نشستیں ”سنگت ادبی فورم لیاری “کے تحت ہوں گی ۔ اس تنظیم کی ایک عبوری سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ محترم رمضان بلوچ سربراہ ہوں گے ۔ اصغر لال ان کی معاونت کریں گے ۔ کمیٹی میں دوسرے احباب نورمحمد شیخ،اسحاق خاموش، عیسیٰ بلوچ ، وحید نور اور چراغ سحری شامل ہوں گے۔
ہر مہینے کے آخر ی اتوار کو نشست منعقد ہوگی ۔ اس بات کا خاص خیال رکھا جائے گا کہ یہ تنظیم ادب و زبان کی ترقی کے لیے وقف ہوگی۔اس سلسلے میں متفقہ رائے تھی کہ یہ نشست تنظیم کی پہلی نشست تصور ہوگی۔ دوسری نشست 29جنوری کو منعقد ہوگی۔
اندرونِ سندھ کی تنظیموں سے دوستی کے بارے میں احباب نے گرمجوشی کا اظہار کیا۔ (میٹنگ کے بعد سانگڑھ کے دوستوں کو فیصلوں سے آگاہ کیا گیا ۔ وہاں کی تنظیم نے اپنی کمیٹی میں لیاری تنظیم کے دوستی کے پیغام کا خیر مقدم کیا۔ اس سلسلے میں میر پور خاص کے تنظیمی دوستوں سے بھی رابطہ کرنے کا عہد کیا)۔
اجلاس کے اس مرحلے کی تکمیل کے بعد محترمہ ڈاکٹر یاسمیں سلطانہ، اعزازی مہمان نے مختصر اظہارِ خیال کیا: ”مجھے یہاں آکر بڑی مسرت اور اطمینان حاصل ہوا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ مری صاحب اور اُن کے رسالے ” سنگت“ سے باخبر ہوں اور ان کے روشن خیال نقطہِ نظر کو مستحسن سمجھتی ہوں ۔ امید ہے کہ آئندہ بھی ڈاکٹر مری صاحب کراچی تشریف لاتے رہیں گے اور ہمیں اُن کے اعلیٰ خیالات سننے کے مواقع ملتے رہیں گے “ ۔
منتظمِ اجلاس ڈاکٹر فاطمہ حسن نے وحید نور کے تعاون پہ ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد انہوں نے صدر جلسہ سے اپنے خیالات پیش کرنے کی گزارش کی۔
صدرِ نشست ، نور محمد شیخ نے کہا : ” آج کے مہمانِ خاص ، محترم ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب ، ناظم نشست محترمہ ڈاکٹر فاطمہ حسن صاحبہ ، اور اعزازی مہمان، محترمہ پروفیسر ڈاکٹر یاسمین سلطانہ صاحبہ اور محترمہ رمضان بلوچ، محترم وحید نور ، محترم عیسیٰ بلوچ اکرم بلوچ ، حارث انور، چراگ سحری ، اسحاق خاموش، عبدالمجید بلوچ، سازین راشد، انجینئر عبدالرشید اور روﺅف روفی جیسے علم و ادب دوست اہلِ قلم !، آپ کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے کہ ، آپ پوری کارروائی میں شریک رہے ۔ تو جہ سے سنا اور اپنی آرا ءنذرِ سامعین کیں۔
خاص طور پہ ہم سب سے ملاقات کرنے اپنے خیالات کا اظہار کرنے اور ہم کراچی یا اہلِ لیاری کے خیالات سننے کے لیے کوئٹہ سے آئے ہوئے رسالہ ”سنگت “ کوئٹہ کے ایڈیٹر و پبلشر ، محترم ڈاکٹر پروفیسر شاہ محمد مری صاحب ، ہماری خوش قسمتی سے اس وقت ہمارے درمیان موجود ہیں۔ کئی برسوں کے بعد، آج یہ موقع آیا ہے !
انہوں نے ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب اور ڈاکٹر فاطمہ حسن کا شکریہ ادا کرتےہوئے کہا کہ آج کے اتنے اہم اجلاس کی صدارت کا اعزاز ، مجھ ناچیز کو بخشا ! سب کی زندگانی و سلامتی اور مسرتیں قائم رہیں۔
جلسے کے اختتام سے پہلے ، میں فیض احمد فیض ، گل خان نصیر، عبداللہ جان جمالدینی، ڈاکٹر حسان، لالہ لال بخش رند اور انور احسن صدیقی کو یاد کرنا اور آپ سب کو یاد دلانا چاہتا ہوں۔ ان کی سہانی یادوں کے سہارے میرا دلِ مغموم ہر پَل زندہ ہے !۔“