برکت آزاد

برکت آزاد کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ سیاسی کارکن تھا،ایک شاعر،ادیب، صحافی، اورتاریخدان تھا۔برکت آزاد 1918میں امرتسر میں پیدا ہوا۔

اس کے والدین و دیگرعزیز و اقارب نے نقل مکانی کی اورجیکب آباد میں رہائش اختیار کی۔دیگر عزیز وں نے کوئٹہ کا رخ کیا۔

برکت علی آزاد نے ابتدائی تعلیم جیکب آباد سے حاصل کی۔ والد نے اسے مدرسہ میں داخل کرایا۔ سعد اللہ (شاہ غازی مُلا)اور ملا عیسیٰ (جت محلا) اُن کے استاد تھے، ملا سعداللہ کی سخت سزاؤں کی وجہ سے مدرسہ چھوڑنے پر مجبور ہوا۔مچھ کے سکول میں داخل ہوا۔ غلام محمد جگرانی اس کااستاد تھا۔ میونسپل ہائی سکول جیکب آباد میں پیرا نفاذ وادھوانی، محمد عثمان پٹھان، عبدالرسول کھوسو اور شیوارام لالہ جیسے محنتی اور ذہین استاد انہیں میسر آئے۔ شیوارام لالہ علم اور ادب دوست استاد تھے، جس نے سکول میں شاہ لطیف کی کلاس شروع کی۔برکت آزاد نے شاہ لطیف کے کلام کا مطالعہ کیا۔ پھر اس نے شاعری کی طرف رخ کیا۔ استادوں سے ادب سے محبت، وطن دوستی، مظلوموں سے پریم، اور سادہ زندگی گزارنے کے درس حاصل کیے۔اس نے پہلا مضمون لکھا۔

برکت آزاد کو لڑکپن سے ہی پڑھنے کا شوق تھا۔ امریکن بوائے اسکاؤٹ کے ممبر بنے، روسی ریاست لیٹو یا کے ریگا شہر میں ریگ سوسائٹی تھی۔ کامریڈ نے اُس سوسائٹی کی ممبر شپ حاصل کی۔ مختلف ملکوں سے شائع ہونے والی میگزین منگا یا کرتے تھے۔ مسٹر آرتھرمی کی جانب سے شائع ہونے والی Children Encyclo pediaکے دس جلد کا مریڈ کے پاس موجود تھے جس میں بچوں کے لٹریچر کی معلومات تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ لڑکپن سے علم کی تلاش میں سر گرداں رہے۔ اور انہی تنظیموں سے متاثر ہو کر جیکب آباد میں ”پریم سبھا“ کے نام سے بچوں کی ایک تنظیم قائم کی اور خود تنظیم کے جنرل سیکرٹری بنے۔ وہ 1927سے سیاست میں داخل ہوا۔ اس وقت انگریز سامراج کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ جیکب آباد سے کراچی اور لاہور کا سفر کیا ”سندہ دیش شعرا منڈل“ کی طرف سے اُسے بمبئی بھیجا گیا۔ مہاتما گاندھی کی جانب سے قائم ”صابروتی آشرم“ میں تربیت حاصل کی۔ اس طرح کامریڈ کو مہاتما گاندھی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔وہاں سے واپسی کے بعد آزاد کوآزادی کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے تھرپار کر بھیجا گیا تاکہ گاؤں سونا بہا میں ایک سکول اور ہندی گھر قائم کیا جاسکے اور تھر کے لوگوں میں تعلیم عام کی جائے۔ کامریڈ وہاں پہنچ کر فرائض کی بجا آوری میں لگ گئے۔ مگر سامراجی حکومت نے گاؤں میں سکول قائم کرنے کی اجازت نہیں دی۔

واپس جیکب آباد لوٹنے کے بعد کامریڈ کو کانگریس کا DICTATORمنتخب کیا گیا تا کہ انگریزوں کے خلاف ہلچل چلائی جاسکے اور مخصوص جگہوں پر قومی جھنڈا لہرایا جائے۔ اُس وقت جیکب آباد کے ایس پی گمبلڈن اور ڈی سی رِڈلے نے قومی جھنڈا لہرانے والوں کو گرفتار کیا۔ کامریڈ برکت آزاد کو گرفتار کیا گیا۔ 1932میں DCرڈ لے کی طرف سے کامریڈ آزاد کی نقل و حرکت اور سیاسی تحریکوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی مگر کامریڈ آزاد بھیس بدل کر تحریکوں میں حصہ لیتے رہے۔

1928میں برٹش پارلیمنٹ کا وفد برطانوی وزیر سرجان سائمن کی رہنمائی میں ہندوستان آیا تھا۔ تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص خلافت کمیٹی اور کانگریس کمیٹی کی طرف سے بائیکاٹ کیا گیا اور ایک جتھا احتجاج کے لیے کراچی بھیجا گیا۔ اُس دستے میں کامریڈ برکت آزاد ایک ننھے رضاکار کے طور پر والنٹیرکا بیج سینے پر سجا کر جھنڈا لے کر اپنے بزرگ ساتھیوں کے ساتھ کراچی روانہ ہوا۔

اس دوران ”ٹیکس نہ دینے“کی تحریک ایک شروع ہوئی تو کامریڈ آزاد کو سکھر کے نزدیک گاؤں بیچانبھی بھیجا گیا۔

جہاں پروفیسر گھنشام، سندھ کے اہم رہنما ترپان پٹیل گجراتی لیڈر اور فتح راجہ جودپور کے انقلابی لیڈر کے ساتھ مل کر کام کیا اور اچھی تربیت حاصل کی۔ بعد میں آزاد کو حیدرآباد روانہ کیا گیا۔ سیاسی جماعت سندھ دیس شیوا منڈل کی طرف سے کامریڈ کو بمبئی کے مشہور شہرا حمد آباد میں مہاتما گاندھی کی طرف سے قائم گردو صابروتی آشرم میں مزید تربیت حاصل کرنے کے لیے بھیجا گیا۔

1942میں برکت آزاد پر فرض عائد کیا گیا کہ Imperial Bank of India جا کر وہاں کے لوگوں کوقائل کرے کہ وہ بنک کے ساتھ لین دین نہ کرے۔ 200 لڑکے اور لڑکیوں کا ایک دستہ بھیجا گیا۔ انگریز سامراج نے دستہ کو گرفتار کرلیا اور کامریڈ برکت آزاد کو 4ماہ سزا ملی۔

برکت آزاد کمیونسٹ تحریک کا حصہ رہے اور تمام عمر سوشلزم کے پر چارک رہے اور اسی نظام کو غریبوں مفلسوں۔ ناداروں کا نجات سمجھا۔

محمد اسلم اچکزئی کو جب کوئٹہ نکالی ملی تو اُسے جیکب آباد میں برکت آزاد جیسا انقلابی شاعر ادیب میسر آیا۔ اور پھر محمد اسلم اچکزئی نے یہاں سے اخبار کمال ہند ”اور نوجوان“ کا اجرا کیا۔

1914میں محمد امین کھوسو کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ کامریڈ آزاد اور اُس کے ساتھیوں نے محمد امین کھوسو کے حق میں آواز بلند کیا۔ اخباروں میں لکھنا شروع کردیا۔ آخر کار ایک سال بعد محمد امین کھوسو کو آزاد کردیا گیا۔

بڑی تگ و دو اور کشٹ کے بعد آمرضیا کے دور میں EXITلسٹ سے اپنا نام خارج کرانے کے بعد ہندوستان یا تراکی۔ ہندوستان کے صدرذیل سنگھ کامریڈ کا استقبال کرنے آئے۔ کامریڈ آزاد کے اعزاز میں بڑی تقریبات منعقد کی گئی۔ کامریڈ کو ہندوستان کے بڑے اعزاز سے نوازا گیا۔ واپسی پر کامریڈ وہ اعزاز اپنے ساتھ نہیں لائے تاکہ چھن نہ جائیں۔ بعد میں وہی اعزاز کا مریڈ تک پہنچا دیا گیا۔

سندھ کے وزیر اعلےٰ شہید اللہ بخش سومرو ان کے دوست تھے۔

کامریڈ برکت آزاد بڑے شاعر اور ادیب تھے۔ سینکڑوں مضامین۔ شاعر سندھ ہند کے اخباروں اور رسالوں میں چھپتے رہے۔ 1942کے دوران میاں جوگوٹھ سے شائع ہونے والے میگزین ”سندھو“ میں اُس کے مضامین اور شاعری شائع ہوتی رہتی تھی۔ کامریڈ برکت آزاد سندھی ادبی سنگت جیکب آباد کے روح رواں رہے۔ کئی سال پہلے وہ جیکب آباد سے نقل مکانی کر کے سکھر میں رہائش پذیر ہوئے۔ بنگالی شاعر نذر اسلام کی شاعری کا سندھی ترجمہ سندھور سالے میں شائع ہوتا رہا۔ پرنس کروپاٹکن روسی ادیب کی کتاب To Youthکا سندھی ترجمہ کیا اور اُس کے 7ایڈیشن مختلف وقتوں پر شائع ہوتے رہے۔

آزاد نامور صحافی بھی تھے۔ مختلف اخباروں میں کام کیا۔ اپنے اخبار بھی جاری کیے۔سرحد۔ صبح سندھ، کانگریس، آزاد، تنظیم وغیرہ۔ ایک اردو اخبار کوئٹہ سے شائع کی۔ بعد میں اسے فصیح اقبال شائع کرتے تھے اور آخر میں سکھر سے سندھی اخبار سندھ با تصویر شائع کی۔ مگر معاشی دشواری کے باعث بند کردی گئی۔ جیکب آباد کے نوجوانوں کو ترقی پسند ادب اُن کی چوکھٹ پر پہنچا کر ان کی ذہنی بیداری میں کردار ادا کیا۔

کتب فروشی ان کا ذریعہ معاش تھا۔ سکھر کے ادیبوں کو بھی کتاب فراہم کرتے تھے۔ کامریڈ برکت آزاد ٹیگور کے نشانتی نکیتن اور گاندھی کے صابروتی آشرم سے اتنا متاثر تھا کہ اس کی خواہش تھی کہ دریائے سندھ ے کنارے سندھو آشرم قائم کر کے نوجوان اور بچوں کی تربیت کی جائے۔ ادب، فنون لطیفہ۔ موسیقی اور دیگر شعبے قائم کر کے سماج کے کار آمد فرد بنانے میں مدد کی جائے مگر آزاد یہ خواہش سینے میں لیے 7مارچ 1998میں ہم سب کوچھوڑ گئے.

 

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*