پروفیسر جاوید اختر کی علمی و ادبی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اس کا نام بلوچستان کے نامورادیب محقق اور دانشوروں میں ہوتاہے۔براہوئی زبان وادب کےلیے اس کی خدمات قابل تحسین ہیں۔سنگت پوہ زانت اکیڈمی آف سائنسز کے بھی اہم عہدوں پر فائز رہا ہے۔جاوید اختر کی اُردو براہوئی اور انگریزی
کتابیں اور تراجم پر مشتمل کم و بیش درجن کے قریب کتب شائع ہوچکی ہیں۔ وہ مختلف موضوعات پر بہتر انداز میں لیکچر دیتا ہے۔ پاکستانی زبانیں و ادب پر اسکو اچھا خاصا عبور حاصل ہے۔ وہ براہوئی ادب و زبان پر حیران کن تحقیق سامنے لایا ہے۔
وہ بلا خوف و خطر اپنی قلم کی سچائی سے ادبی، سیاسی، سماجی لسانی اور تاریخی مواد ثبوتوں اور حوالوں کے ساتھ لاتا ہے۔اس کی ادبی تحقیق اپنی مثال آپ ہے۔ وہ مستند تحقیق میں اپنا لوہا منوانے میں کامیاب رہا ہے۔
جاوید اختر 15جنوری1967ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوا۔ اس نے ابتدائی تعلیم پنجاب میں حاصل کی۔ اس نے’’گلستان‘‘’،’بوستان‘‘، پنجکتاب’’ دیوان حافظ’’ , کلیات غالب‘’’, کلیات نظیری’’, اخلاق جلالی’’ ,اخلاقی محسنی‘‘، اخلاق ناصری،’’ چہارمقالہ‘‘، رقعات عالمگیری اور کئی دیگر کتابیں مولانا غلام حسین سرمد، نورمحمدں سرگانڑیں، ڈاکٹر خیال امروھوئی
ایسے اساتذہ سے پڑھیں۔
پھر صرف و نحو، منطق، عربی ادب، فلسفہ اور حدیث مولانا غلام حسین سرمد اور مولانا امام بخش اعظمی سے پڑھے۔
ایم اے انگریزی پنجاب یونیورسٹی لاہور، ایم فل بلوچستان یونیورسٹی سے کیا اور پی ایچ ڈی اسی یونیورسٹی سے کر رہاہے۔ جاوید اختر تحقیق و تنقید کے میدان میں ایک مستند شخصیت کا حاصل ہے۔ جاوید اختر کی علمی و ادبی خدمات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ براہوئی زبان و ادب کے بارے میں اسکی تحقیقی و تنقیدی کتب کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ براہوئی زبان و ادب کے بارے میں اسکے مختلف مضامین بلوچستان اور ملک کے مختلف اخبارات میں اور رسائل میں ہمیشہ چھپتے رہتے ہیں۔
نوکری کی غرض سے جاوید اختر قلات تشریف لے گیا، جہاں وہ گورنمنٹ ڈگری کالج قلات میں بحیثیت لیکچرار تعینات ہوا تو اسکے طفیل سے قلات کی ادبی رونقیں سج گئیں قلات کے ادیبوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے ادب کے میدان میں ان کے لہو کو خوب گرما دیا انکی سرپرستی میں کام کرنے کا طریقہ و سلیقہ بتایا قلات میں ادبی
سلسلہ شروع کروایا اس نے قلات کے ادبیوں کو ادبی میدان میں پہلے سے زیادہ متعارف کرانے میں دستہ اول کا کردار ادا کیا۔ وہ ادبی پروگراموں میں حصہ لےکر اپنا اور اپنے دوستوں کا نام روشن کرتا رہا اس نے قلات میں دس سال رہ کر براہوئی زبان و ادب کے لیے جو مستند ادبی کام سرانجام دیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اسکا تبادلہ قلات کالج سے گورنمنٹ کالج سائنس کالج کوئٹہ ہواتو اسکے جانے
کے بعد قلات کی ادبی رونقیں بھی قلات کے یخ بستہ موسم کی طرح ٹھنڈی پڑگئیں اب ہم اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قلات میں ادبی محافل کا ماند پڑنا جاوید صاحب کی عدم موجودگی اور اسکی کمی کی وجہ سے ہے۔کوئٹہ کے معروف
و مشہور اعلیٰ پائے کے ادیبوں ڈاکٹر شاہ محمد مری، جنید خان جمالدینی، گل بنگلزئی، ڈاکٹر منیررئیسانی اور ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو جیسے عظیم ادبی
شخصیات سے اسکے تعلقات رہے ہیں۔ وہ بھی جاوید اختر صاحب کے ادبی کام اور حُسن و اخلاص سے متاثر ہیں۔ اسے اپنے ادبی کاروان میں شامل کر دیا اور جاوید سنگت اکیڈمی آف سائنسز میں ایک روح رواں کا کردار ادا کر رہا ہے ۔
جاوید اختر پوہ زانت سنگت اکیڈمی آف سائنسز میں بحیثیت سیکریٹری جنرل کے عہدہ پر بھی کام کر چکا ہے جاوید اختر سنگت اکیڈمی کی ادارت سے ماہوار شائع ہونے والا ادبی رسالہ’’سنگت‘‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ کا بھی ممبر ہے۔ جاوید اختر کے ساتھ میں (جوہر بنگلزئی) نے مختلف جگہوں کی سیر و تفریح کی ہے۔اور مختلف جگہوں پر اسکے ساتھ کام کرنے کا بھی مجھے اعزاز حاصل ہے۔مثال کے طور پر ہم دونوں نے کئی سالوں تک بلوچستان یونیورسٹی اور بلوچستان بورڈ آف انٹر میڈیٹ میں اکٹھے پیپر مارکنگ کی ہے۔اور بہت سے امتحانات میں بحیثیت ایگزامینر امتحانات میں کام کیاہے۔ اسکی رفاقت میں میں
نے کبھی بھی بوریت محسوس نہیں کی ہے۔کیونکہ جاوید صاحب اپنے دوستوں اور ہم محفلوں کو کبھی بھی بور ہونے نہیں دیتا۔
جاوید اختر کو ہر موضوع اور ہر موقع محل کی مناسبت سے گفتگو کرنے کا ڈھنگ اور رنگ آتا ہے۔وہ کبھی بھی اپنی طبیعت
کی ناسازی کی بھی پرواہ کئے بغیر مجلس کو خوب گرما ہے۔دلائل کے ساتھ بحث مباحثہ کرتا ہے۔ تمام ادبی ٹاپکس پر اسے
عبور حاصل ہے۔ خاص کر لسانیات اور ادب، سیاست، فلسفہ اور تحقیق اسکے پسندیدہ مضامین ہیں۔ جاوید اختر اپنی معلومات
کو بڑھانے کےلیے مجلسوں میں مختلف قسم کے سوالات اٹھاتا ہے ۔مدلل اور جامع جواب ملنے کے بعد وہ خاموش رہتاہے۔
ورنہ زَیر و زَ بر کو ختم کرنے کا نام تک نہیں لیتا۔
تحقیق کے میدان میں وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ادب میں انوکھے اور معیاری ادب تخلیق کر ر ہا ہے۔ تحقیق
کے میدان میں جاوید اختر کو میں اپنا اُستاد تسلیم کرتا ہوں کیونکہ جب بھی میں ان سے کوئی سوال پوچھتا ہوں تو وہ مجھے پیار
اور شفقت سے اسکا جواب دیتا ہے اور اس قدر باریک بینی سے ہر مسئلے کو سمجھاتا ہے کہ میں اسکی زبان سے نکلنے والے الفاظ کو کبھی بھی بھولتا نہیں ہوں۔ حالانکہ وہ مجھ سےکہتا ہےکہ جو سوال مجھ سے پوچھتے ہو اسے لکھ لو تاکہ بوقت ضرورت اس سے استفادہ کرسکو۔
جاوید اختر کے مجھ سمیت تمام براہوئی بولنے والوں پر بڑے احسانات ہیں۔وہ اپنی مادری زبان بلوچی کے ساتھ ساتھ براہوئی
زبان و ادب کے لیے اپنی خدمات انجام دے رہاہے۔ براہوئی زبان و ادب کے لیے کام کرنے والے غیر براہوئی دانشور ادیبوں کا
جب تذکرہ ہوتا ہے تو اُسمیں جاوید اختر کانام ہمیں بلندیوں کی چوٹیوں پر نظر آتاہے۔مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ جاوید
اختر براہوئی ادب اور لسانیات میں کام کرنے والے تمام غیر براہوئی کا ریکارڈ توڑ دےگا، جسکا اندازہ مجھے انکی تیز رفتار اور مخلصانہ کام سے ہو رہا ہے۔ جاوید اختر کی دعا سلام تو سب کے ساتھ ہوتی رہتی ہے مگر اسکے دلی دوست اور
راز دان لوگ بہت کم ہیں، جن میں میرا شمار بھی ہے۔ بقول اسکے کہ عزت سبکی کرو لیکن اپنے لیے چند صحیح اور مخلص دوست بنائو جنکو تم سنبھال سکو۔ موصوف کے ہمارے ساتھ بہت گہرے اور دیرینہ تعلقات ہیں۔ہم دونوں ہرکام میں
ایک دوسرے سے مشورے کرتے رہتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کی رہنمائی کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ کیونکہ کہتے ہیں کہ
ایک نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے۔ جاوید صاحب ایک دانا سیانا اور مخلص دوست ہے۔ میں اس کی دوستی پر فخر
محسوس کرتا ہوں۔جاوید سمجھدار ہونے کے باوجود بھی بہت سادہ لوح اور مخلص دوست ہے۔
جاوید اختر سے جب بھی ادباء اسکے ادبی کام کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ آج کل کیا کر رہے ہو تو وہ جواب دیتا ہے کہ بس
بے کار بیٹھا ہوں۔جببکسی کو اسکے کام کے بارے میں پتہ ہوتا ہے تو جاوید صاحب سے پوچھتے ہیں کہ بھائی وہ ترجمے
والے یا لسانیات پر تحقیق والے کام کا کیا ہوا تو جواب جاوید صاحب جواب دیتا ہے کہ فالحال تو خاموشی ہے۔ دیکھتا ہوں ٹائم بھی نہیں مل رہا ہے۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ جاوید اختر کی ایک نئی کتاب مارکیٹ میں پہنچ چکی ہے۔
جاوید اختر ہمیشہ اردو،انگریزی،براہوئی، بلوچی، سندھی اور سرائیکی زبانوں کے ادب اور لسانیات کا باریک بینی سے مطالعہ
کرتا ہے۔اور اسکے ساتھ ساتھ ان زبانوں کے ادب، ثقافت اور لسانیات پر طبع آزمائی بھی کرتا ہے۔ انگریزی، اردو بلوچی اور
براہوئی تو اسکا اپنا فیلڈ ہے۔ اس نے سرائکی اور سندھی جیسی عظیم زبانوں میں بھی ہاتھ ڈالا ہے۔ ان زبانوں کے
ادب کے بارے میں بھی موصوف کو خوب معلومات اور علم حاصل ہے۔
ان زبانوں میں بھی ترجمے کا کام کر رہاہے۔ سرائی کی زبان تو جاوید اختر کی پدری زبان ہے اور بلوچی اسکی مادری زبان ہے۔
وہ مجھ سےںبلوچی میں، اپنے بچوں کے ساتھ براہوئی میں اور شریک حیات سے سرائیکی میں بات کرتاہے۔ کالج اور
یونیورسٹی کی پروفیسر برادری سے اردو اور انگریزی میں بات کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
جب براہوئی زبان وادب میں کام کرنے والے غیر براہوئیوں کا تذکرہ ہوتا ہے تو انبمیں جاوید اختر کا کام بہت معیاری اور تسلی
بخش نظر آتاہے۔
پروفیسر جاوید اخترنے تھوڑے سے عرصے میں براھوئی زبان وادب کے مختلف پہلوئوں پر طبع آزمائی کرکے معیاری کتابیں شائع کروائی ہیں۔ براہوئی زبان و ادب کے بارے میں اسکے لکھی گئی کتابوں میں براہوئی ادب کا نیا تناظر’’ براہوئی ادب کا
سماجی پس منظر‘‘ براہوئی آبادکاری، سیاسی سیاق وسباق (‘‘ترجمہ)،’’ براہوئی ادب میں مطالعے‘‘ براہوئی لسانیات‘‘ اور
’’براہوئیات‘‘ شامل ہیں۔ اسکے علاوہ اس نے انگریزی اُردو اور بلوچی ادب پر بہت سی تحقیقی کتابیں لکھی ہیں۔ جاوید اختر
خود انگریزی کا پروفیسر ہے مگر اپنی مادری و پدری زبان کے ساتھ ساتھ اس نے براہوئی زبان و ادب میں کام کیاہے۔ جاوید
اختر مختلف موضوعات پر بہتر انداز میں لیکچر دیتا ہے۔پاکستانی زبانیں وادب پر اسکو اچھا خاصا عبور حاصل ہے۔ وہ
براہوئی ادب و زبان پر حیران کن تحقیق سامنے لایا ہے۔
جاوید اختر نے اردو میں بھی بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔اسکی کتاب’’ لینن اور جمالیات‘‘ کا پہلا ایڈیشن 2014ء میں غزنوی پبلشرز
کوئٹہ نے اور 2018ء میں دوسرا ایڈیشن سنگت اکیڈمی آف سائنسز کویٹہ نےشائع کیا۔2022ء میں اسکی کتاب’’ لیونٹراٹسکی کے
نظریات‘‘ گوشہ ادب کوءئٹہ نے شائع کی ہے۔اسکی دو انگریزی کتابیں” “Marxist Approach to Literature” “Origin of
Speech”
; قلات” پبلشرز کوئٹہ نے 1994ء میں شائع کیں۔ اسکی کتابیں جو جرمنی سے شائع ہوئی ہیں، مندرجہذیل ہیں;
“Waiting for Godot: A Post-structuralist Perspecti