ایک سنگت کانفرنس کی رپورٹ

 

عرصہ ہوا ہمارے خطے میں رحمت کے فرشتوں نے بولنا بند کردیا۔ غیر فطری کر خت آ وازوں نے حسن و جما ل کی گفتار گلو گیر کر کے رکھ دی ہے۔ پستول اور بندوق تو اب کسی کھاتے میں نہیں ، یہاں توبارود اب حیرتیں و حشتیں پھیلانے کو سرنگوں میں، جیکٹوں کے اندراور ، راکٹوں لانچروں میں ٹھسا گھات میں ہے۔کب سے یہاں کان میوزک سے ، ناک خوشبو سے ، آ نکھ منا ظر سے اور پیر چہل قدمی سے منع کر دیے گئے ہیں ۔ اب تو دھماکے سنو ، بارود سونگھو ، انسانی بکھرے چیتھڑے دیکھو ،ماتمیں،اور جنازے اٹھانے اِدھر اُدھربھاگو ۔

مگر انسان کمال مخلوق ہے،ایسے مسلط شدہ حالات میں بھی انسانا نہ مواقع ڈھونڈ تا رہتا ہے۔ اسی آ ہن و آ تش کی برسات میں، آنسوؤں کی کشتی میں بھی وہ شادیاں کرتا ہے، عید مناتا ہے، ٹور نا منٹیں کرتا ہے، سیمناریں کانفرنسیں کرتا ہے۔ انسان اکٹھ اور اجتماع کا شیدائی ہے۔ ڈھونڈتا رہتا ہے گپ شپ کو، مجلس محفل کو اور گفت و شنید کو۔

زندگی تو موت کا تریاق ہوتی ہے۔ حیات کو ثبات ہے۔ زندگی کبھی نہیں مرتی ۔ اور اکٹھ و اجتماع زندگی کا خاصہ ہیں ۔ زندگی سے اُس کے اِس خاصہ کو الگ نہیں کیا جا سکتا ۔

سنگت اکیڈمی آ ف سائنسز نے اپنی چھٹی دو سالہ کانفرنس منعقد کی، نومبر 2015کو ۔اپنی جڑوں سے پیوستہ،اور اپنے ماضی سے سختی سے وابستہ یہ تنظیم 1997کو موجودہ صورت لے کر آ گے بڑھنا شروع ہوئی تھی۔ شکل پذیر ہوتے ہوتے اس نے بالآخر ایک جمہوری اور کثیر الشراکتی ادبی ثقافتی اور سماجی تنظیم کا روپ دھار ہی لیا اور انیس برس کی اس کی عمر میں یہ اس کے چھٹے دوسالہ انتخابات ،تقریب حلف برداری اور اوپن سیشن تھا۔

ایک پیچیدہ دنیا ، اورایک حساس خطے میں دانشوروں کی کسی سنجیدہ تنظیم کو بہت سوچ کر ، منظم انداز میں کام کرنا پڑتا ہے۔اور ہماری تنظیم کو اِس بار اپنی کانفرنس میں انتخابات ، سمینار اور مشاعرہ کے اہم کام کرنے تھے ۔

سنگت اکیڈمی کا انتخابی عمل بہت دلچسپ ہوتا ہے۔ ہم نے اوپن ووٹنگ کا راستہ بھی کھلا چھوڑا ہے، اور ہم نے اپنی روایت پر چلنے کی عادت بھی ترک نہ کی ۔ دوسالہ مدت پوری ہونے کے بعد سنگت اکیڈمی کا سب سے بڑا عہدہ یعنی سیکرٹری جنرل کا عہدہ خالی ہو جاتا ہے ۔ اگر مقابلہ میں امیدوار موجود ہو تو الیکشن منعقد ہوتے ہیں وگرنہ آ ٹو میٹک انداز میں ڈپٹی سیکریٹری ایک زینہ ترقی کر کے سیکرٹری جنرل بن جاتا ہے ۔ خالی شدہ ڈپٹی سیکرٹری کے پوسٹ پر الیکشن نہیں ہوتے بلکہ وہ پوسٹ کوئٹہ کا ضلعی سربراہ (سیکرٹری جنرل) پُر کر لیتا ہے اور پھر،وہاں کا ڈپٹی سیکرٹری خوبخودکوئٹہ کا سیکرٹری جنرل بن جاتا ہے۔اسی طرح کوئٹہ کا سیکرٹری پوہ زانت، کوئٹہ کا خالی شدہ ڈپٹی سیکرٹری جنرل بن جاتا ہے۔ یوں پوہ زانت کے سیکرٹری کو ہر دوسال بعد نیا کرنا ہوتا ہے۔ یعنی الیکشن دو عہدوں پر ہوتے ہیں: مرکزی سیکرٹری جنرل اور کوئٹہ کا سیکریٹری پوہ زانت ۔ اس کے علاوہ مرکزی کمیٹی کے تین نئے ارکان بھی منتخب کرنے ہوتے ہیں ۔

اس بار فیس بک، ایس ایم ایس، اور ماہنامہ سنگت کے ذریعے ممبرز کوتین ہفتے کا ٹائم دیا گیا تھا تا کہ ارکان الیکشن کمیشن (جس کی سربراہی محترم سرور آ غا کر رہاتھا ) کو اپنے نامینیشن کاغذات داخل کر ادیں۔ ہفتہ وار یادہانیاں کراتے رہنے کے باوجود جب مقررہ تاریخ تک کوئی نامینیشن پیپرزداخل نہ ہوئے تو کابینہ ہی نے ایک پینل تجویز کر دی جس کی منظوری مرکزی کمیٹی سے تو لی گئی ، مگر جنرل باڈی میں جاکر اس کی سو فیصد منظوری نہ مل سکی۔ دو تین احباب کے نام جنرل باڈی نے ڈراپ کر دیے اور اُن کی جگہ دوسرے دوستوں کو لیا گیا ۔

مقالہ جات کے عنوانات پر کابینہ کی دو میٹنگوں کے بعد فیصلہ ہو پایا۔ اسی طرح مقالہ نگاروں کے نام حتمی شکل پا گئے ۔ طے یہ پایا کہ مقالہ جات کی کمیٹی، کانفرنس میں پیش کرنے سے قبل اِن مقالوں کو ایک بار دیکھے گی۔۔۔اور یہ سارا عمل حسب پروگرام تکمیل پایا۔

تنظیم کی سابقہ دوسالہ رپورٹ تنظیمی ، مالیاتی ، ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی تفصیلی رپورٹ ہوتی ہے جو کہ سیکریٹری جنرل نے پیش کرنی ہوتی ہے ۔ رپورٹ کی تیاری دراصل ایک گروپ سرگرمی ہوتی ہے مگر ظاہر ہے کہ اسے آخری شکل سیکرٹری جنرل ہی دیتاہے۔

حسب پروگرام کانفرنس سے کئی دن پہلے سنگت اکیڈمی کی جنرل باڈی میں رپورٹ پر بحث ہوئی ۔ ترمیم و تحریف و اضافے ہوئے اور اس کی منظوری دی گئی۔

عابدمیر اور عطاء اللہ بزنجو نے نہ صرف بلوچی اکیڈمی کا ہال، ساؤنڈ سسٹم ، سیٹنگ ارینجمنٹ کا کام کیا بلکہ چائے بسکٹ تک کے انتطامات کر ڈالے۔ عا بدمیر اور جاوید اختر نے ایس ایم ایس اور فیس بک پہ اطلاعات کی بی بی سی گیری کی ۔ جیند خان پینا فلیکس بینربنوالایا۔ سنگت اکیڈمی کے پورے لشکر کو اس بار پینٹنگ نمائش کا اپنا لازمی جزو بھول گیا تھا۔ اسی طرح ایک ’’ون ایکٹ پلے‘‘ والا پروگرام بھی کہیں ’’آبِ گم ‘‘ ہو گیا ۔اس سب پر طرہ یہ کہ سریندا اور دمبرو پر مشتمل موسیقی کے آ ئیٹم بھی تار پیڈو ہوگئے ۔

مقررہ دن بارہ بجے ’’بُک فیئر ‘‘ سے یہ میلہ شروع ہوا۔کتاب میلہ سنگت محفلوں کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ فیس بک پہ کسی نے سنگت اکیڈمی کے اس مستقل کام کو ’’دکانداری ‘‘ کہا مگر پتہ نہ چل سکا کہ اس نے دوستی میں ازراہِ مذاق ایسا کہایا تلخ دشمنی میں ۔یا پھر ہماری روایتی قبائلی طعن و شغان کی قبیح عادت نے اسے مجبور کیا تھا۔ بس چلے تو بلوچستان میں’’شغان لگانے‘‘ کی بدبخت عادت پر پابندی لگادی جائے۔

’’نئی کتاب نصف قیمت ‘‘ والا ہمارا ازلی ابدی کام خواہ جو بھی نام پائے اسلحہ کی نمائش سے بہر حال بہتر ہے ۔

کتابوں کا اچھاخریدار بلوچ نوجوان ہے۔ پتہ نہیں کیسا پیارا دنبہ فروخت کر کے باپ نے تعلیم کے لیے اُسے چند ہزار بھیجے ہونگے ۔اور اس بچے نے اپنی کس کس اہم ضروریات کے پیسے کتاب پہ تج دیے! ۔ سنگت اکیڈمی تم بہت اچھے کام کرتے ہو!!

دو بجے کانفرنس نے باقاعدہ شروع ہونا تھا اور سائیڈ والے ہال کے صوفوں کو ہم ساڑھے بارہ بجے ہی بھر چکے تھے ۔ کوئی انتظامات میں سرگرداں تھا تو کسی کو اپنے مقالے میں کا مافل سٹاپ کی استری برابر کرنے کی پڑی تھی۔ کوئی قراردادوں کو ترتیب وار کرنے میں لگا تھا اور کسی کو ’’ارے یہ کتاب تومیں نے سٹال پر دیکھی نہ تھی، ابھی جاتاہوں کہیں ختم نہ ہوجائے ‘‘ کی پلٹ جھپٹ بیماری لگی ہوئی تھی ۔ پناہ بلوچ دو بڑے تھرماسوں کی طرف اشارہ کرتے سب کو ’’سبز یاکالی چائے ‘‘‘ ؟ کا پوچھ رہا تھا ۔ موبائل فونوں کے کیمرے مسلسل چمک دمک میں تھے ۔

ایک بجا تو اس چھوٹے ہال کا پیمانہ چھلکا اور ’’اضافی ‘‘ لوگ مین ہال کی سیٹوں کو اکاد کا بھر رہے تھے جیسے بلوچستان کے مہیب بڑے پہاڑ پر یہاں وہاں اکا دکا درخت !!۔ دو، چار ، آ ٹھ ، دس۔ کسی کو قریب ہی کام یاد آ تا تو وقت کااچھا استعمال کرتے ہوئے وہاں دوڑ آ تا ۔ کوئی نشستوں ، سٹیج اور ساؤنڈ سسٹم پر مشورے دے رہا تھا۔

سچی بات ہے کہ ہمارا انقلاب تواس وقت آ چکا تھا جب ہال کی اگلی نشستیں بلوچ بیٹیوں نے بھر دیں ۔ کارواں کی کامیابی کی ضمانت ہے عورتوں کی شمولیت ۔ خدا ان کے با پ، بھائیوں ، اور شوہروں کو اس کا اجر دے گا ۔

پہلا نشانہ ہی غلط گیا۔ یوں کہ اس کانفرنس کی ابتدا ’’ دعا ‘‘ سے ہونی تھی جو میر گل خان نصیر نے ہمارے لیے نصف صدی قبل لکھ چھوڑی تھی:

 

یا خداوندا بلوچانا چشیں مردم بدئے

پُردماغو جان نثار و زندہ دل روشن خیال

سر بہ بیت خالی چہ کہن و گندغیں رسم و رواج

دپ بہ بیت کندوخ آوانی پہ ہر رنج و ملال

پکر آوانی بہ بیت روژنا تراچ مہر منیر

کورمہ بیت چوشے و ملایاں ہما وانی ضمیر

ساز آوانی بہ بیت ہمسازی سازِ زندگی

نئے چشیں سازے کہ ہم آواز بہ بیت گوں خان و میر

ترس آوانی دلا بے شک بہ بیت پہ بیوسان

نیں چشیں تُرسے کہ مرد سجدہ بکنت شاہ و وزیر

یا خداوندا بلوچاں مں جہانا زندہ کں

مئے دوارا ، گوچشیں مرداں وثی تابندہ کں

اِسے محترمہ نوشین قمبرانی کی کہنی گھمر جیسی دلکش آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ مگر عین وقت پہ لیپ ٹاپ نے لاؤڈ سپیکر کے ساتھ ہم آہنگ ہونے سے انکار کردیا۔بلو چ ماما نا کامی کی خفت کو ڈھٹائی میں بدل لیتا ہے تو دل میں خود کے لیے، سائنس کے لیے ،اور حتیٰ کہ موقع و میلہ کے لیے گالیاں ہی نکلتی ہیں۔

سنگت کی اپنی روایت کے مطابق اس کے اپنے سربراہ کو کانفرنس کی صدارت کے لیے بلایا گیا ۔ جیند خان جمالدینی جب صدر نشین ہوا تو سنگت اکیڈمی کی نزدیک ترین دوست تنظیم آماچ ادبی دیوان مستنگ کے سربراہ کو اعزازی مہمان کے بطور جیند خان کے برابر بٹھایا گیا۔ ایک اور خیر کا کام یہ کیا گیا کہ ڈاکٹر لیاقت سنی کو مہمانِ خاص کے بطور جیند خان کے دوسرے پہلو میں بٹھایا گیا۔ ڈاکٹر سنی بلوچستان کی اُن پندرہ ادبی تنظیموں کے اتحاد ’’ بلوچستان ادبی فورم‘‘ کے سربراہ ہیں، جس کا ایک ممبر سنگت اکیڈمی بھی ہے ۔ سنگت اکیڈمی کو خیر سگالی کا یہ جذبہ جاری ہی رکھنا ہے ۔ برادر تنظیموں پہ قبضہ کیے بغیر، اور اُن کی داخلی تنظیمی ساخت میں مداخلت کیے بغیر، برابری کی بنیاد پر اتحاد و تعاون کیے رکھنا۔ حتیٰ کہ ادغام و انضمام کی بھی کوشش کیے بغیر۔۔۔۔۔۔مستقبل بعید میں بھی۔

اس بات پہ اصرار کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ اس لیے کہ پاکستان میں افہام و تفہیم نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔ بس قبضہ کرو۔ بد بخت لوگوں نے انسانوں اور اس کی تنظیموں پارٹیوں کو بھی کلیم کی جائیدادیں سمجھ رکھا ہے۔ ادیب تو بالخصوص اس معاملے میں بدعادت رہتے ہیں۔ اور پھر پروگریسو ادیب!! الحفیظ الامان۔’’ بلوچستان برانچ‘‘ کھولنے کے شوق میں جو گلا سڑا مال ملے لے لو، نگ پورے کرو۔ ہم تو گذشتہ دس سال سے ایک سہ پایہ مہیب درندے کی طرف سے اپنی تنظیم ’’ سنگت اکیڈمی‘‘ پر قبضہ نہ کرنے دینے کی جدوجہد میں پسینہ پسینہ ہیں۔قبضہ گر قبضہ میں ناکام ہوتے ہیں تو متوازی تنظیمیں بناتے ہیں اور ترقی پسندی میں سی آئی اے گیری کرتے ہیں۔ زمین ایسے ’’ میر و سلطاں‘‘ سے بیزار ہے۔ یہ ہتھکنڈہ ہی منحوس ہے۔ اس لیے ہمیشہ احباب سے اصرار رہتا ہے کہ تنظیموں سے انڈر سٹینڈنگ رکھو۔ ادغام ، انضمام کا سوچو ہی نہیں۔

محترمہ فرخندہ جمالدینی نے شرکا کو خوش آمدید کہا۔ ( کیسی خوبصورت روایت ہے یہ !)۔

سنگت کانفرنس کی دوسالہ کارکردگی کی رپورٹ پیش کرنے جیند خان جمالدینی کو بلایا گیا۔ کسی تنظیم کے اوپن سیشن میں سیکرٹری رپورٹ ایک طویل اور اکتادینے والا کام ہوتا ہے ۔مگر چونکہ ہماری اس ادبی تنظیم کی یہ رپورٹ عموماًادب کی چاشنی لیے ہوتی ہے ، اس لیے سامعین مزے لے لے کر اُسے سنتے ہیں۔

جیند خان کی کابینہ نومبر2013 سے لے کر نومبر2015 تک یہ تنظیم چلاتی رہی۔اِن دو سالوں میں ماہانہ پوہ زانت کی کل اٹھارہ تقریبات منعقد ہوئیں۔(جبکہ انہیں24 ہونا چاہیے تھا )۔ 2014 کا پورا سال میر گل خان نصیر کے لیے وقف رہا۔ یہ اس بڑے اور قادر الکلام شاعر کی صد سالہ جشنِ ولادت کا سال تھا ۔

بلوچ اپنے شاعروں کی بے پناہ تکریم کرتے ہیں۔ بالکل ولی اللہ کی طرح ۔ہم جب اپنے شاعر سے مخاطب ہوتے ہیں تو اُس کا نام نہیں لیتے، اُسے شاعر کے خوبصورت بنائے گئے محبت آمیز لفظ ’’ شاہ یار ‘‘ سے پکارتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور لوگو! جب بھی بلوچ کے منہ سے شاہ کا لفظ آئے تو سمجھو وہ علم و دلیل و منطق کے بادشاہ علیؓ کے پس منظر میں بول رہا ہے۔ حلم و شجاعت و توکل و عشق و کمٹ منٹ وگفت و شنید کا مجموعہ سا۔

جیند خان بتارہا تھا کہ 2014 کی ساری پوہ زانت نشستوں کا پہلا نصف حصہ ہمارے اِس شاہِ یار، گل خان کے لیے وقف رہا اور دوسرا حصہ دیگر ادبی سیاسی اورمعاشی مضامین ،ڈرامہ، سفر نامے اور شاعری کے لیے۔

جیند خان کی رپورٹ کے مطابق اِن پورے دو سالوں میں کابینہ کے محض دو اجلاس منعقد ہوئے۔ یہ بھی کہ جنرل باڈی کے بھی صرف دو اجلاس ہوئے ۔۔۔۔۔۔ تنظیمی اداروں کے اجلاس تو تنظیموں کی جان ہوا کرتے ہیں!!

سیکرٹری جنرل رپورٹ میں بلوچستان کی دیگر ادبی تنظیموں کے ساتھ اتفاق و ہمکاری کے فروغ میں سنگت اکیڈمی کی پہل کاریوں کا خوش آئندذکر خاص طور پرموجود تھا۔

جیند خان نے اُس بڑے پروگرام کا خصوصی طور پر ذکر کیا جس کے تحت بین الاقوامی کلاسیکی ادب کے بلوچی میں تراجم کیے جائیں گے۔ یہ ایک بہت ہی دیرینہ خواہش تھی۔ اس اہم کام کی اہمیت بہت عرصے تک نظر انداز کی گئی۔ بلکہ اُسے مذاق کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا۔ سیکرٹری جنرل رپورٹ میں اس سلسلے کی اب تک سات کتب کی اشاعت کی عظیم کارکردگی کی تفصیل موجود تھی۔

ہال میں موجود سنگت اکیڈمی سے دلچسپی رکھنے والے ادیبوں، شاعروں، دانشوروں اور فنکاروں نے کارکردگی رپورٹ بہت انہماک سے سنی اور ’’ ماشاء اللہ‘‘ کہنے جیسی تالیاں بجائیں۔

سیکرٹری رپورٹ کے بعد نو منتخب کابینہ سے حلف لیا گیا۔ سبکدوش ہونے والے سربراہ جناب جیند خان نے نئی قیادت سے یہ حلف لیا ۔ تنظیم کا نیا لیڈر عابد میر بنا اور غلام نبی ساجد بزدار اس کا ہمکارونائب ۔ تنظیم کے مالی امور اگلے دو سال تک، جناب سرور آغا کی ذمہ داری ٹھہرے۔ضلع کوئٹہ کے لیے جاوید اختر کو بطور سربراہ حلف دیا گیا اور ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو کو بطور ڈپٹی سیکرٹری ۔ کلا خان خروٹی کو کوئٹہ کے پوہ زانت کی ماہانہ نشستوں کے انچارج کا سوگند دیا گیا۔ کابینہ کے نئے چہروں میں خیر جان بلوچ، آزات جمالدینی جونیئر، نورین لہڑی ، اور فرخندہ جمالدینی شامل تھیں۔

حلف برداری کے بعد کاروائی کے اگلے حصے کی صدارت نئے قائد عابد میر نے سنبھالی ، اور جیند خان واپس ہم ’’ عوام ‘‘ میں آگیا۔

پہلا پیپر جناب سعید کوڑد کا تھا۔ جس کا عنوان تھا :’’ سنگت تراجم کے سلسلے کی کتابوں پر تبصرہ‘‘۔ کوڑد صاحب نے اس سلسلے کی سات شائع شدہ کتابوں پر تبصرے کی تلخیص پیش کی جن کے نام ہیں: جینی مارکس کے خطوط ، گندم کی روٹی، دز ءُ کچک، آزادی ، جہاں جسکیں دہ روش، کرنلا کس کا گد نبشتہ نہ کنت ، او ر، بزغر نا مسٹر۔

ظاہر ہے سات کتابوں پہ ایک مقالے میں مختصر بات ہی ہوسکتی ہے ۔ اس لیے تشنگی تورہنی تھی۔

محترمہ نورین لہڑی نے براہوی زبان میں اپنا تحقیقی مقالہ پڑھا: گلوبلائزیشن او براہوی زبان۔

اپنےcontents کے اعتبار سے یہ اس کانفرنس کا سب سے پُر مغز مقالہ تھا۔ گلوبلائزیشن میں ہماری زبانوں کی بقا اور امکانات پہ یہ خوبصورت تحقیق تھی۔ہم سب اپنے اس ایقان میں اور پکے ہوگئے کہ اگرمواقع ملیں تو علم و تحقیق کے شعبوں میں بھی عورت اپنا مقام بنا سکتی ہے۔

اس کے بعد وحید زہیر نے اپنا مقالہ پڑھا جس کا عنوان تھا : سماج مخالف رویہ‘‘۔

وحید جان کو کوئی موضوع دیدو، وہ اپنی شاعرانہ نثر میں اسے اچھا نباہتا ہے۔ چٹکلوں، چونڈیوں، شرارتوں ، کہنی بازیوں کو ایک مصلحانہ لفافے میں ملفوف کردہ شعری نثر۔سویہ مقالہ بھی سامعین کا پسندیدہ مقالہ قرار پایا۔

غلام نبی ساجد بزدار نے ’’ عہدِ حاضر۔۔۔ ادب و سماج‘‘ کے موضوع پہ اپنا پیپر پڑھا۔بزدارانتہائی بولڈ اور بلا واسطہ لکھتا ہے ۔

وہ سرقبیلوی نظام اور بنیاد پرستی کا حلف اٹھایا مخالف ہے۔ اس کے ہر پیراگراف کے بعد ہمارے قریب بیٹھا دانشور کہہ اٹھتا: باپ رے باپ۔

مقالوں کے بیچ بیچ میں ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں شعرا کو اپنے شعر سنانے کا موقع دیتا رہا۔ غریب شاہ انجم ، آزات جمالدینی جونیئر، عبداللہ بلال، خیام ثناء ، خالد میر ، عجب خان سائل، سرجن اعظم بلوچ، افضل مراد، لیاقت صغیر، بارکوال میاں خیل، محمود ایاز، صائمہ خان، عبدالحمید، اور شاہ بیگ شیدا نے شاعری سنائی۔ یہ حصہ سنگت اکیڈمی کے معزز ممبر دانیال طریر مرحوم کے نام سے منسوب تھا۔ اور واقعتاً یہ حصہ اُسی متانت ،احترام اور سنجیدگی سے چلا ۔ انتہائی ڈسپلن کے ساتھ۔

قراردادیں منظور ہوئیں۔ اور بلوچستان کی قرارداد کیا ہوگی؟ ۔ یہی کہ بلوچستان ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ اور سیاسی مسائل کا حل سیاسی ہی ہوتا ہے۔ کوئی دَم چھو، بم بارود، قتل دھمکی، منت سماجت، اورحاکمی تابعداری سیاسی مسائل کا حل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے فی الفور مذاکرات شروع کیے جائیں۔

قراردادوں میں گوادر کو بلوچ عوام ہی کی ملکیت قرار دیا گیا۔ خواتین کی حالتِ زار کی طرف دانشوروں اور سرکار کی توجہ مبذول کرائی گئی۔ بلوچستان کے ماہی گیروں اور کسانوں کے مسائل کی نشاندہی کی گئی۔ بلوچ عوام کی سیاست کو سرداروں اور جاگیرداروں کے چنگل سے نجات کا عہد کیا گیا۔اور یہاں فنونِ لطیفہ، نصابِ تعلیم اور تعلیمی ماحول کی بہتری اور ترویج کا مطالبہ کیا گیا۔

کانفرنس کا اختتام نو منتخب لیڈر جناب  کے صدارتی کلمات اور خوش کن و خوش آئند عزائم سے ہوا۔چائے بسکٹ پر غیررسمی گفتگو اور موبائل فوٹوگرافی ہماری کانفرنسوں کے ہمیشہ سے خوبصورت حاشیے اورمفصل ضمیمے رہے ہیں۔

ماہتاک سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*