یہ سولہویں صدی کے اوائل کا زمانہ ہے۔ ایک تھا بادشاہ ۔اصل بادشاہ تو خدا ہے جس نے سات آسمان بغیر ستون کے کھڑے کر رکھے ہیں۔ دنیاوی بادشاہ تو بس زمین کے اپنے اپنے ٹکڑے پر بادشاہی کرتے ہیں۔ نام تھا اس بادشاہ کا جام آدم۔ زمین کا اس کا ٹکرا بھمبھر(بھمبور) تھا جو سہون کے جنوب کی طرف کوٹری کے گردونواح میں دریا کے کنارے آباد تھا۔ کرنا خدا کا ،بادشاہ کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ حسن میں یکتا ، ایسی کہ چندا شرماجائے۔ خوشی اور جشن بپاہو اپورے ملک میں۔ چراغ جلائے گئے ، ڈھول پتاشے پیٹے گئے ، رقص وسرود ہوئے ، مٹھائیاں تقسیم ہوئیں۔ ہر طرف میلے کاسماں تھا ۔
مگر آسمان کو یہ سب کچھ منظور نہ تھا۔ بادشاہ کے دربار کے بڑے جوتشی نے ڈرتے کانپتے رازداری میں بادشاہ کو بتادیا کہ شہزادی جب جوان اور سیانی ہوجائے گی تو بے پناہ محبت میں مبتلا ہوگی۔ اور وہ ایک ایسے شخص سے محبت کرے گی جو اِس قوم سے تعلق نہ رکھتا ہوگا۔ شہزادی دردِ فراق کے باعث صحراﺅں کے اندر مستی اور بے ہوشی کے عالم میں جان دے دے گی۔ اور چار چودھار اس کی کہانی پھیل جائے گی۔
بادشاہ کا چہرہ بجھ گیا۔ بے انت خوشی غم میں بدل گئی۔ دربار پہ کالے بادل چھا گئے اور موت کا سا سکوت طاری ہوگیا پورے بھمبور پہ۔ وزیروں ، مشیروں اور داناﺅں سے طویل صلاح مشورے ہوئے ۔ اور بالآخر خاموشی سے نوزائید بچی کو سنہری ، بیل بوٹوں سے مرصع اور لعل وجواہر جڑے صندل کے صندوق میں ڈال دیا گیا۔ صندوق کو دریا میں ڈال کر بہادیا گیا(1)۔
چھوڑیں بادشاہ اور اس کے دربار کو ، اورآئیے مضافات کی بات کریں ۔ قدرت خدا کی ، شہر سے باہر”اَٹے“ نامی ایک نیک دل دھوبی کپڑے دھوتا تھا ۔ ایک روزِ حسب معمول وہ اپنے کام میں مصروف ومستغرق تھا کہ اُسے پانی میں بہتا ہوا ایک صندق نظر آیا۔دریا کے بہائو میں بہتی پیٹی دور بھنبھور کے بے اولاد دھوبی کی گھاٹ پر لنگر انداز ہوئی۔بھنبھور کا قصبہ کوٹری اور کراچی کے درمیان موجود ہ جنگشاہی سٹیشن کے قریب واقع تھا۔ دھوبی نے ڈرتے ڈرتے صندوق کو پانی سے باہر نکالا ۔ اُسے کھول کر دیکھا تو اس میں ایک بہت ہی پیاری خوبصورت بچی لیٹی اپنا انگوٹھا چوس رہی تھی۔ اَٹے بے اولاد تھا، اسے گھر لے گیا۔
میاں بیوی نے اسے بیٹی بنا لیا اور بہت ناز اور لاڈ سے اس کی پرورش شروع کردی۔ اسے نور ِ بصر کی مانند عزیز رکھا اور جوانی تک ہر لحاظ سے اس کا خیال رکھا۔ ماہ رُخ بچی کوسسی یعنی چاند کا نام دیا گیا۔ بے اولاد میاں بیوی نے اس پرنازو نعم کی بارشیں برسادیں۔ بچی اُن میں ایسے پلی کہ حسن و جمال کی تمثیل بن کر جوان ہوئی۔ایسے جیسے تاریک رات میں کہکشاں،بدرِ کامل۔ ابرو جیسے مہینے کا نیا نیا نکلا چاند، فسوں ساز حسن، آہو چشم، سرمگیں نگاہ، عارض روشن تر ازماہ، تابانِ سحر گاہ کی طرح پُر نور۔(2)
اس کے حسن وزیبائی کے چرچے چہار اطراف پھیلتے گئے ۔ کئی امیر زادے ، شمشیر کے دھنی اور گھڑ سوار اس چندے ماہتاب سے عقد کے طالب ہوئے ۔ مگر شہزادی کسی سے بھی شادی پر تیار نہ ہوئی۔ اٹے اور اس کی بیوی تو شہزادی کی رضامندی کے بغیر کھانا تک نہ کھاتے تھے ۔ ۔۔ خاموش رہے۔
اس سولہویں صدی کے اوائل ہی میں دور، شمال مغرب میں ایک اور بڑی ریاست تھی، کیچھم(کیچ ) نام کی ۔ وہاں ایک ہوت سردار کی حکمرانی تھی۔ اس کی رعایا بہت خوش خوشحال اپنی زندگی بسر کرتی تھی۔ حاکم کے بیٹوں میں سب سے بڑا بیٹا نہ صرف لاڈلا، خوبصورت اور سجیلا نوجوان تھا بلکہ بے انتہا بہادر بھی تھا۔ ایک دن باپ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اب وہ شادی کرنے کے بارے میں غور و فکر کرنا شروع کردے۔ شہزادے نے باپ سے کہا: ” اس ریاست میں تومیرے لائق کوئی لڑکی ہے نہیں۔ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنی سلطنت سے باہر جا کر اپنا مناسب جوڑ تلاش کروں“۔ چنانچہ کئی گھڑ سوار اصفہان سے لاڑ تک اور پھر سر سبز قندہار تک دوڑتے پھرے۔ انہوں نے دور دراز کے تمام علاقے چھان مارے۔
بھنبھورکا حسن‘ رابعہ خضداری کی شاعری کی طرح مشہور ہوا۔ اس زمانے کے تجارتی کاروانوں کے شتر بان ”رودکیوں “نے سسی کودیکھا، آنکھیں چندھیاگئیں، اورزبانیں گویا ہوگئیں۔۔۔اور خلقِ خدا کی گویائی توبرا عظمیںپھلانگتی ہے۔اُسے دریاکیا روکیں گے اور صحرا کیا تھکائیں گے۔چنانچہ پہاڑوں کے بیچ بل کھاتی ہوئی یہ آوازیں بلوچستان واردہوگئیں۔شہزادے کو خبر کردی گئی۔
کیچ کے حاکم زادے پنہوںکے کانوں کے بھاگ میں عشق کا رسیونگ سٹیشن ہونا لکھا گیاتھا۔
حاکم زادہ نے سوداگر کا روپ دھار لیا،ایک عطر فروش قافلہ تشکیل دےا اور دل کے ریڈسکوائر بھنبھور کوعشق کا دارالحکومت بنانے چل پڑا ۔(سندھ بلوچستان کے بیچ عطر فروشی، تاریخ دانوں کے لئے دلچسپی سے خالی نہ ہوگی)۔بہرحال طُور، تجلی کھانے، خود بھنبھور کی طرف چل پڑا۔ وہ ریشمی کپڑوں، کھانے پینے کی اشیا اور سونے چاندی سے لدے بیسیوں اونٹ لے کر چٹیل میدانوں ، کو ہستانوں ، ریگستانوں ، صحراﺅں اور جنگلوں سے ہوتا ہوا بھمبور پہنچا۔ اور شہر کے بیچ خیمے نصب کر کے ڈیرے ڈال دیے۔ اس لیے کہ دھوبی اٹا کے گھر، انہیں ایک متوالی چال چلتی ، حیائے مجسم اور زیورِ حسن سے آراستہ پری پیکر شہزادی کی جھلک دیکھنی تھی۔
پنوں کے حکم پر غلاموں نے مشک اور زباد کو آٹے میں ملا کر گوندھا اور تمام اونٹوں کو کھلا دیا، اور رات بھران کا منہ باندھے رکھا۔ صبح کو جب سورج طلوع ہوا تو اونٹوں کے منہ کھول دیے گئے ۔ اونٹوں نے جب جگالی کرنی شروع کردی تو ہر طرف مشک و زباد کی خوشبو مہک اٹھی۔ جو کوئی اس راستے سے گزرتا اس خوشبو سے اس کا دماغ معطر ہوجاتا۔حتیٰ کہ یہ خوشبو شہزادی تک بھی پہنچی اور لوگوں نے اُسے شہزادے کے بارے میں بتایا۔ پنوںکی امارت، حسن، سخاوت اور بہادری نے شہزادی کا دل چھین لیا اور اُس نے ماں باپ سے ضد کی کہ وہ اسی شہزادے سے شادی کرے گی۔
شہزادہ جب دھوبی سے رشتے کا خواستگار ہوا تواٹے دھوبی اس شرط پہ مان گیا کہ ایک تو وہ شہزادہ شہر بھر کے کپڑے اپنے ہاتھوں سے دھو دے گا۔ اور دوسرا یہ کہ وہ مستقل طور پر وہیں بھمبور میں رہے گا (2)۔
اس جادو نگری نے سردار زادہ کو ایک ملائکہ جیسی دوشیزہ کی آنکھ کی سرخ ڈوریوںسے باندھ لیا۔دھوبن نے سردار زادے کے ” پیشے “ کو ایک دھوبی کے پیشے میں ڈھال دیا۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ انگلینڈ کا ایک بادشاہ اپنی محبوبہ سے شادی کی خاطرتخت کو لات مار کر ایک عام آدمی بن جاتا ہے۔ہمارا سردار پنہوں تو عام آدمی بھی نہیں رہ جاتا۔ وہ تو دھوبی بن جاتا ہے ۔۔۔ مقدس بن جاتا ہے ۔
مگراس کھیل میں صرف طُور بھسم نہیں ہوتا، خود تجلی بھی جل کر خاکستر ہوگئی۔خاکستر خاکستر سے ملی، سارے تضاد تحلیل ہوگئے ۔سسی پنہوں میں ڈھل جاتی ہے، پنہوں سسی بن جاتا ہے، ہر طرح کی دوئی ختم۔عشق اپنے ساتھ عالمگیر مساوات لایا۔
پہلے دھوبی دھوبن کا بن چکا تھا ،اب دھوبن دھوبی کی بن گئی۔ شادی ہوگئی۔اسباب و علل کو ضدین کا اجتماع جومقصود تھا۔
کھینچنے والے نے اُسے بھمبور کھینچا تھا ، بھیجنے والے نے اُسے کیچ سے سندھ کو دھکیلا تھا تو پھر کیا تخت کیا تاج ، کیاناز کیا نخرے ۔دونوں شرائط منظور کرلیں اور لگا کپڑے دھونے ۔ شہزادہ تھا ، کپڑے کیا دھوتا ، اس کی مضحکہ خیز دھوبی گیری میں کپڑوں کا جو حشر ہونا تھا ، ہوا۔ مگر کفارے کے بطور وہ ہر جوڑے کے اندر سونے کا ایک سکہ باندھ دیتا ۔ اٹے کے گاہکوں نے کپڑے پھٹنے کی شکایت کرنے کے بجائے اس کے نئے کاریگر کی تعریف کی۔بالآخر دھوم دھام سے شہزادے کی شادی اُس خوبصورت شہزادی سے ہوئی اور وہ دونوں وہیں اٹے کے گھر ہنسی خوشی رہنے لگے۔
مگر، بڑے فنکار کی صناعی دیکھناتو ابھی باقی ہے کہ اس نے وصل وفصل کے درمیان ایک باریک لکیر تو قائم رکھنی تھی، حصولِ محبت اور تلاشِ محبت کے مکاتیب کو الگ الگ تو رکھنا تھا، منزل اور جدوجہد میں بالشت بھر کا فاصلہ تو رکھنا تھا۔
ویسے بھی یہ جو فطرت ہے ناں، یہ پسماندہ سماجوں میں انسانی حیات کو سہل ، مسرور اور مطمئن کبھی نہیں چھوڑتی۔ قہقہوں اور سسکیوں کے بیچ ٹانگ کے رکھتی ہے اُسے۔
پنہوں تو دھوبی بن چکا تھا۔ اس لیے اب اُس کے قافلے نے وہاں کیا کرنا تھا۔ انہیں واپس ہی جانا تھا۔ چنانچہ عطر کا قافلہ پنہوں کی شکل میں اپنے مکران کی ساری خوشبو بھنبھور کے قدموں میں انڈیل کربِن سردارزادے کے کیچ واپس پہنچا۔ سردار زادے کے دھوبی میں ڈھلنے کا معجزہ سنایا ۔ردِ انقلاب سردار کو بچانے،اورسرداریت کو بازیاب کرنے کے لیے غرّاتی و بڑبڑاتی تیز رفتار مہاریوں پہ بیٹھ کر اُس کے بھائیوں کی صورت بھنبھور پہنچا۔انہوں نے سسی پنہوں کو بظاہر شادی کے جشن میں مشغول رکھا اور رات کے آخری پہر تک نائو نوش چلایا۔ اِدھرپنہوں کا انتظار کرتے کرتے سسی کی آنکھ لگ گئی ، اُدھر دھوکے بازوں نے نشے میں دُھت پنہوں کو مہاری پہ باندھ لیا اورکیچ کی جانب یہ جاوہ جاروانہ ہوا۔
دلہن جب پچھلے پہر نیند سے بیدار ہوئی تو نامعقول منظر سامنے تھا۔پنہوں نا موجود۔ نہ کیچی نہ کارواں ۔نہ خیمے ، نہ اونٹ ، نہ عشق ، نہ بلوچ ۔اچانک جیسے پجاری کا مندر ڈھے جائے ،جیسے کمیونسٹ کا سوویت یونین ٹوٹ جائے، جیسے پتھروں کو ناطق بنا نے والی سمو گُنگ ہوجائے ۔ کیچی سسی کے دوپٹے، یعنی پنہوں کو اغواءکرکے اُس کاپاک سر ننگا کرچکے تھے،اُس کی دنیا اندھیر کرچکے تھے۔ بس ایک، خواب ِ گراںکی خلش کی حکمرانی رہ جاتی ہے، فراق کی ازلی ابدی سلگ قائم ہوجاتی ہے۔
اس نے خود کو خوب برا بھلا کہا۔ سسی اے بے خبرے!!۔
پنہوں تو سسی کی رگ رگ میں نغمہ زن ہے۔ وہ بھلا ”اور “ کیا دیکھے گی ،و ہ بھلا ” اور کو“ کیا دیکھے گی ۔دید بیکار کہ اُس میں منظر یعنی پنہوں کے جلوے نہیں ہیں۔ حسن و جمال کی ملکہ کو چاہنے والے تو بے شمارمگر اُسے پنہوں سا کوئی کہاں ملے گا۔ پنہوں تو اُس کے لےے چراغ ِ زیر داماں ہے۔سسی کی افسردہ حال تنہائی پیٹر اور پال قلعے کی قید بامشقت سے زیادہ اذیت ناک بن جاتی ہے۔البیلا پنہوں،سسی کی سعیِ پیہم کی منتہا ہے ۔وہ اس کے سوگ ا ور روگ میں دن رات روتی ہے۔بھنبھور کی رنگینی تو بلوچ کے دم سے تھی، اور بے رنگ دنیا شاہ لطیف کی تعریفوں کی مرکز سسی کو ہر گز قبول نہ تھی۔ بھنبھور کی صبا میں جب بوئے پنہوں نہ ہو تو پھر اُس کی شام کیا صبح کیا۔ آدیسی تو اٹھ گیا تھا ،بھنبھور کا خالی پن تو موت بن چکا تھا۔بھنبھور اندھیر ہے، جہنم ہے، آگ ہے۔ پنہوں نہیں تو گھر گھر نہیں بلکہ میّت گاہ ہے، محبوب بنا بھنبھور بھنبھور نہیں ماتمستان ہے۔۔۔۔ اور شاہ کی سسی ماتمستان کی شہری تھی ہی نہیں۔
سسی کا بنیادی انسانی حق چھن گیا تھا۔اُس کے وفا شعار جذبے کو دغا سے بے وقار کردیا گیا تھا۔ اُس کے عشق کی توہین ہوچکی تھی۔چنانچہ کیچ اوربھنبھور مقناطیس کے قطبین بن جاتے ہیں۔ وہ اپنی اشک آلود آنکھ کی قسم کھاتی ہے کہ پنہوں کو نہیں بھولے گی۔ آئین ِ مہرو وفا کیا ہے ؟: یہ کہ ترکِ محبت نہ کی جائے (شاہ)۔اور پھر یہی کمٹ منٹ کیچ کی آشا سے معمور،سسی کوسراسر باغی بناتی ہے ۔اب مطلوب ترین ہستی کا طالب اوطاق میں بیٹھ کر کیوں روئے۔وہ گھر بیٹھ کر مقدر کی کٹھ پتلی نہیں بنتی ۔ عشاق مقدر کی کٹھ پتلی کبھی نہیں بنتے ۔ وہ تقدیر کا معروض ہی بدل ڈالتے ہیں۔ اور اس کی جگہ اسباب و علل کا پورا نصاب نافذ کرتے ہیں ۔ سسی الفت کا نام لے کر محبوب کی تلاش میں نکل پڑتی ہے ۔ ا ُسی کی تلاش میں ہر افتاد سہنی ہے ۔ پنہوں کی خاطر اسے ساری عمر بلوچستان کا بیاباں دربیاباں سرکرنا ہے۔وہ پنہوں آشنا سے خود آشنا بن جاتی ہے اور تب یہ پنہوںآشنا ، یہ خود آشنا منزل آشنا بن جاتی ہے ، وندر آشنا بن جاتی ہے ۔چنانچہ فریدالدین عطار کی ”منطق الطیر“کے انعقاد کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔
محبت اور وارفتگی تو مورچے تبدیل کرتی ہے۔ وہ یہاں ایک میدان زادی کو کوہ پیمائی کے انجانے فریضے پر لا پٹختی ہے۔ اور پھر، بلوچوں کی یہ داسی، ان کے چرنوں کی دھول ، دکھی ، بے ہمدرد ، اور بے کس، بے سہارا انقلابن‘ بھنبھور سے کیچ چل پڑتی ہے۔ناترس محبت ،سسی سے بھنبھور کا دودھ چھڑوالیتی ہے اوریہ جو گن عزمِ بے کراں بن کر جوشِ جنون سے مسلح ہوکر، پس ِ کوہ ہائے گراں کی جانب رواںہوجاتی ہے۔
ساری دنیا چھوڑکر،جسم و جاں کی پابندی کو جھٹک کر ، سسی اونٹوں کے قدموں کے نشان ٹٹولتی چلی گئی۔ کیا صحرا کیا کوہ ، شاہد و مشہود کے وصل کی تانگ ہر انسانی جذبے سے قوی تر ہے۔ جان چلی جائے بس خوں بہا میں نگاہِ دوست میسر ہو۔
ذرا سا دماغ کو گرفت میں لینے والی کہانی کے بہاﺅسے باہرنکلتے ہیں ۔ تب معلوم ہوگا کہ داستانِ سسی پنہوں ایک اور لحاظ سے بھی مختلف داستان ہے۔ ہم صدیوں سے سنتے چلے آرہے ہےں کہ حسن کا دیس تو کوہستان ہے، کوہِ قاف ہے۔ اور عشق میدانوں کا باسی ہوتا ہے ۔ یوں میدان (عشق ) پہاڑ (حسن ) کی طرف جاتا ہے۔ مگر یہاں حسن کی رانی میدان زادی ہے،قاف کی باسی نہیں۔ اور عشق کوہِ قاف (کیچ ) سے ہوتا ہے ۔ اس داستان میں عشق حسن کے پیچھے نہیں جاتا بلکہ حسن عشق کے حصول کا مسافر بنتاہے ۔دوسری بات بھی نوٹ کر لیجئے ، پراسیس کی بات ۔کہ یہاں پنہوں کی صورت میں عشق پری کی تلاش میں کوہِ قاف نہیں بلکہ اس کے برعکس اس کی تلاش میں پہاڑ سے میدان اترتا ہے ۔ کچھ ہی عرصہ بعد کیچ سے آیا ہوا rescue فوجی دستہ حسن کو نہیں بلکہ عشق یعنی پنہوں کو حسن میں بدل دیتا ہے ۔ اور اب سابقہ حسن یعنی سسی عشق بن جاتی ہے۔ اور یہ عشق بنا ہوا حسن ،حسن بنے عشق سے وصال کی تڑپ میںپہاڑ پہ چڑھتی ہے۔ بلوچستان تُو کیا چیز ہے یار!!۔
سسی پنہوں کی داستان ایک اور طرح سے بھی اب تک کی ساری روایات کی نفی کرتی ہے۔ یہاں ایک مرد ،عورت کے پیچھے نہیں جارہا بلکہ ایک عورت مرد کے پیچھے جاتی ہے۔بلاشبہ سسی پنہوں کی داستان فلسفہ سے بھری داستان ہے۔
مگرکمٹ منٹ تو genderless ہے ۔ پھر ہم سسی پنہوں کے مقدس ومعتبرمیدان کے اندر مذکر مونث کی لکیر کیوں پیٹ رہے ہیں؟۔دل کرتا ہے اگلے سارے صفحے مذکر مونٹ کے پخ سے پاک، بلوچی زبان میں لکھوں!۔
سسی ،بھنبھور چھوڑ جاتی ہے ۔منہ جانب کیچ کے ۔تشنگیِ روح کا سفر جاری ہے۔سفر بھی جہاز وموٹر گھوڑے پہ نہیں ،سسی نے یہ سفر اپنے پیروں کے چھالوں پر کیا ، ان کے زخموں پر، اُن سے بہتے خون پہ۔ایسے ہی ہوتا ہے جب کسی پہ یہ کھلے کہ اس کی تو دنیا لٹ چکی ہے۔ سسی کی زندگی کا سارا متاع کیچ کی طرف چُرایا جارہا تھا ۔متاع کی مالکن تھی ، بھاگی پیچھے۔ نہ پاپوش کا ہوش ،نہ تو شہِ سفر کا وقت۔ منزل انجانی، راہیں نا آشنا۔ نصیبہ بھی کیا کیا کرشمات کرتا ہے ، سلطانوں کو تخت سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیتا ہے اور لگاتا ہے انہیں سرابوں کے پیچھے !!۔
دن چڑھ آیا تو شہزادی کو اونٹوں کے پاﺅں کے نشان مل گئے ۔تپشِ عشق سے جلتا دل اور دیدارِ محبوب کو ترستی نگاہیں لیے سسی نامی یہ پیکرِ مہر ووفا اونٹوں کے پاﺅں کے نشانوں کے پیچھے دوڑتی گئی۔ نشانات آگے بڑھتے گئے، ناقابل ِ رسائی وسعتوں تک۔ کیا نقش، کیا نشان، ارے بابا سراب ، سراب اور صرف سراب ۔ اُس نے بے بسی میں لپٹے عزم کے ہونٹ کاٹے ، کائنات کا چہرہ اشکوں سے بھگودیا ، اپنے سر کے بال نوچ نوچ کر بلوچ دھرتی پہ بکھیر دیے ، اس کا رشتہِ جان جُڑجُڑ کر ٹوٹتا تھا۔ مگر چلتے ہی رہنا، فیصلے کی گھڑی تک۔ عشق سے بغل گیری تک !۔انت تک ۔
وہ مکمل طورپر اسباب و علل کے حوالے ہوگئی ۔ اور اسباب و علل تو اکلوتے بیٹوں جیسے نخرے کرتے ہیں۔ اور انتہائی ناترسی کے ساتھ سسی کے سامنے راستے میں( لسبیلہ کے علاقے منہیار پہاڑ کے چار میل مشرق میں)ایک خیمہ ،کھڑا کرتے ہیں ۔سسی خیمہ والے سے کیچی قافلے کا پوچھتی ہے۔خیمہ والے نے اس کے حسن و جمال کو دیکھا ،توآپے سے باہر ہوگیا۔اُ س کا شیطان جاگ گیا ۔ اس نے پاکیزگی پہ دست درازی کی کوشش کی ۔
عشق کے اگلے درجوں پہ فائز شہزادی نے محبت سے نا آشنا اس درندے کی بڑی منت سماجت کی۔ مگر شیطان و رحمان کی فریکوئنسی ایک نہ تھی۔ سو وحشت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اور محبت بچاتے بچاتے شہزادی اپنی عصمت کھو دینے کے خطرے سے دو چار ہوئی۔
مگر جو محبت دُکھ دے سکتی ہے علاج بھی تو اسی کے پاس ہوتا ہے ۔ عشق دیوتا فراق ووصال کا گھناﺅنا کھیل کھلاتے کھلاتے اپنے گلیڈییٹرز کے بارے میں بھی مکمل جانکاری رکھتا ہے ۔
محبت کی بازی میں غرق شہزادی نے عصمت کی حفاظت کے لیے پکارا تو محبت دیوتا نے اس کی ناموس بچانے کا فیصلہ کرلیا۔اس کے لیے اُس نے گل زمین ہی کو شق کردیا۔ زمین پھٹ گئی اور شہزادی اُس میں زندہ سما گئی۔ پورا ملک اِس مقدسہ کے پاک سر کا دوپٹہ بنا۔ سرخ دوپٹے کا پلوالبتہ سرخ پرچم بننے باہر رہا۔
اس داستان کا ایک اور خوبصورت موڑ دیکھیے:اُسی لمحے سے، بلوچستان سسی کی قبر نہ رہا، محبت کاویٹیکن بن گیا ۔
پوری دھرتی تھرا گئی توخیمے والے شیطان کی کیا حیثیت ؟۔ وہ عشق کے اِس معجزے سے کانپ اٹھا۔وہ اس ناقابلِ بیاں جرم کا کفارہ ہی ادا کرسکتا تھا۔ چنانچہ وہ اس قبر کے خدام کا سربراہ بنا۔ولّن عشق کے خزانے کے اولین مجاورمیں ڈھل گیا۔
اُدھر مغوی پنّوں کے جب ہوش و حواس بحال ہوئے تو خود کو اونٹ کے کوہان چٹان پہ بندھا پایا۔ بے بسی کا کرگس اس کی عاشق روح کا گوشت نوچتا تھا۔ دُہائیاں چیخیں صدا بہ صحرا ہوئیں۔ ہر کارے اُسے کیچ پہنچاگئے۔
مگر وہ توکام سے جا چکا تھا۔ روح تو بھنبھور کی ملازمت میں جا چکی تھی ، اب اُسے کیچ میں کون بند کرسکتا تھا۔ بلوچستان کی جان تو سندھ میںتھی۔ بالآخرجبر کوجذبے کے آگے جھکنا پڑا۔ کوہِ شاشان کوشاہی زنجیریں کیا جکڑسکتی ہیں۔ ”جبل“ رسے رسیاں توڑ، ”پٹ“ کی طرف سرپٹ بھاگا ۔ آواز سے تیز ، بس بلوچی لفظ ”شیمو ش“ کی تجسیم۔ راستہ مسافر کو کاٹ کھا تا تھا ، ایک ہی رات سارا سنسار ویری بن چکا تھا۔ آسمان ، ہوا ، کا ئنات کچھ بھی اپنا نہ رہا، اچھا نہ رہا۔ سرپٹ بھاگتے بھگت کا بخت تو کب کا ساتھ چھوڑ گیا تھا۔
راستے میں کیچ سے بہت دور لسبیلہ میں بیت اللحم بناایک مقبرہ اس کی توجہ کا طالب ہوا ۔منزل کیا ملتی راستے میں کائنات کے مرکزے کی قبرمل گئی۔ مجاورسے مقبرے میں مدفون ولی کے بارے میں پوچھا۔ مجاور نے درجے پائی مقدس عورت کے خدوخال بیان کیے۔ بتایا کہ وہ دردِ محبت کی ماری اورتیغِ ہجر کی کٹی، بار بار اپنے محبوب کا نام جپتی تھی ۔شہزادے کے لیے یہ خبر نہ تھی، یہ تو اس کے لیے ڈیزی کٹربم تھا ۔
ہر تلافی سے بعید اور ہر واپسی سے ماورا نقصان ہو چکا تھا۔ گراں ناز اپنے پیرک کی وفا کی چادر اوڑھ ، عدم کی سلطنت کی ملکہ بن چکی تھی۔ معلوم ہوا انقلاب اپنی جون بدل کر زیرِ زمین چلا گیا تھا ۔
بلوچ نے کیا پیچھے رہنا تھا کہ رفاقت میں بھی ازلی مقابلہ چلتا رہتا ہے ، رفیقانہ مقابلہ………وفا میں سبقت تو نہیں ہم سری کی جنگ ضرور ہوتی ہے۔ چنانچہ نسخہ وہی ،حکیم وہی ،مرض وہی ، بس مریض کا نام بدلا تھا۔ شہزادے نے بھی اسی محبت دیوتا کو تکلیف دی۔ اُس نے زمین کو شگاف پڑنے کا کہا۔ اور یہ تو ہم جانتے ہیں کہ بلوچستان کو صرف عشق کا ملتجی حکم ہی شق کر سکتا ہے ۔ چنانچہ پیار کا حکم سر آنکھوں پہ۔ گل زمین دوسری بار کریک ہوگئی۔ پنہوں بغیر کسی پس و پیش کے شان بان کے ساتھ وہیں انڈرگرائونڈ ہوگیا۔دونوں کی مرادیں برآئیں اور وہ دنیا سے بے نیاز ہو گئے۔۔۔یہ جگہ ہے شاہ بلاول اور اوتھل کے درمیان جنگل میں۔(3)
داستان بنی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنے کو ۔
حوالہ جات
1۔ ٹمپل ۔ آرسی ۔ میاں عبدالرشید”حکایات پنجاب“ حصہ سوئم ۔ 1992مجلس ترقی ادب لاہورصفحہ97
2۔ ہتورام ”تاریخ بلوچستان“ 1973۔ باردوئم۔ بلوچی اکیڈمی کوئٹہ۔ صفحہ41۔
3۔ نصیر ، گل خان ”بلوچستان کی کہانی شاعروں کی زبانی 1976بلوچی اکیڈمی کوئٹہ ۔ صفحہ285۔