میرے گرین زون دوست ڈاکٹر صاحب
میں پہلی یا د
وسری جماعت میں تھی جب ہمارے گھر سے دو گھر آگے رہنے والے صاحب کی موت واقع ہو گئی۔ میری والدہ اور محلے کی دوسری خواتین ان کے گھر گئیں۔ میری والدہ کی اچھی بات یہ ہے کہ وہ مجھے ہر جگہ اپنے ساتھ گھسیٹ کے نہیں لے جاتی تھیں لیکن محلے کی خواتین کی باتیں میرے کانوں میں پڑیں اور مجھے یوں لگا کہ مرنے کے بعد بھی لوگ آپ کو جج کرنا نہیں بند کرتے اور مرنا آپ کے اور خدا کے درمیان کا معاملہ نہیں بلکہ رزلٹ، نوکری، شادی، بچے اور بچوں کی زندگی کے تمام ایونٹ جن کو ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ بازی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جیسا کوئی ایونٹ ہے جیسے کوئی خاتون ان کا مرنے کے بعد چہرے کے رنگ کو ڈسکس کر رہیں تھیں اور کچھ لوگ وزن کے کم زیادہ ہونے کو گناہ ثواب سے جوڑ رہی تھیں۔
قبر کشادہ تھی یا نہیں، جنازے میں کتنی صفیں تھیں کہ جتنا بڑا جنازہ ہو وہ انسان ڈائریکٹ جنت میں جاتا ہے اس لحاظ سے کوئین الزبتھ کا جنازہ سب سے بڑا تھا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ پوچھوں کہ یہاں جنت کا جنازے کا اصول لاگو ہو گا یا مسلمان ہونا لازمی ہے والا، ایسے جیسے ان کے گھر والے پتھر کے ہیں اور ساتھ میں گونگے بہرے بھی اور یہ پڑھی لکھی مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد تھے یا شاید ہم نے پڑھنے کا غلط مطلب لیا ہے میں نے کہیں بہت اچھا جملہ پڑھا تھا آپ کے ساتھ شیئر کر رہی ہوں
”never confuse education with intelligence, you can have a PhD and still be an idiot“ by Richard P Fenyman .
مجھے لگا فن مین بچارے کو بھی اسی طرح کے لوگوں سے واسطہ رہا ہے،
اسی طرح کافی لوگوں کو تو یقین نہیں آ رہا تھا کہ کل تو وہ کھانا کھا رہے تھے اور باہر چہل قدمی کر رہے تھے اور آج کھڑے کھڑے مر گئے یعنی کہ مرنے کے بھی کچھ آداب ہیں آپ کو پہلے سے کافی عرصہ بیمار رہ کر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا چاہیے لیکن اس میں ڈلیما یہ ہے کہ بیماری بھی ہمارے ہاں گناہوں کو ناپنے کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ کینسر اور اس طرح کے دوسرے موذی امراض میں مبتلا لوگوں کو جس طرح کی ہمدردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اپنے اندر اتنی ججمنٹ رکھتا ہے کہ آدھا مریض اس سے ختم ہو جاتا ہے۔ ہمدردی کے نام پر توبہ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہوتا ہے باقی کسر بھانت بھانت کے مشورے اور رنگین حکایتیں پوری کر دیتے ہیں۔
امراض میں مبتلا ہونا گناہ یا عذاب سمجھا جاتا ہے جو پہلے سے جسمانی بیمار آدمی کی دماغی صحت خراب کرنے کے لیے کافی ہے اور اگر کوئی یک دم مر جائے تو اس ناگہانی موت کے اسباب اور اثرات کی ایک اور لمبی فہرست ان ظاہری ہمدردوں کے پاس موجود ہوتی ہے۔ بتاتے جاتے ہیں اور ساتھ توبہ توبہ کرتے جاتے ہیں۔ عقل کے اندھے کو بھی علم ہو جاتا ہے کہ ان کا کیا مطلب ہے، یعنی کہ چین قبر میں بھی نہیں۔ اس کے بعد رسومات کا ایک سلسلہ ہے جو گھر والوں کو بھگتنا پڑتا ہے اس میں بھی لوگوں کی ججمنٹ بچی کھچی زندگی عذاب بنا دیتی ہے۔
کتنا بڑا سوئم تھا
کتنے لوگ چالیسویں پہ تھے
کتنی دیگیں پکیں
کون سی کلاس کے مولوی صاحب دعا کے لیے آئے
کتنے لوگوں نے دعا میں شرکت کی
ججمنٹ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو انتہائی تکلیف دہ وقت میں اذیت کے نشتر چبھوتا ہے۔ رہی سہی کسر وہ لوگ پوری کرتے ہیں جو مرے ہوئے انسان سے منسوب کر کے باتیں اسی کے گھر والوں کو سناتے ہیں۔ گھر والے چوبیس گھنٹے جو ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ہوتے اس مصیبت کے وقت میں جب ان کا اپنا ان سے بچھڑ گیا ہوتا ہے ہمیشہ کے لیے اس سے منسوب بے سروپا باتیں انسان کے دل میں خنجر کی طرح گھونپ دی جاتی ہیں۔ مرنے والے اور اس کے لواحقین کا ہر رشتہ عوامی گفتگو کا محور ہوتا ہے، ہر طرح کے مشورے مرنے والے کے کپڑوں سے لے کر جائیداد کی تقسیم تک مفت دیے جاتے ہیں جیسے ان سے بڑا عقل مند دنیا میں کوئی نہیں اور ساتھ ساتھ لواحقین کو مسلسل صبر کا مشورہ ایسا دیا جاتا ہے کہ جیسے صبر کوئی دوائی ہے کھائیں گے تو آپ اپنے پیارے کو بھول جائیں گے۔
آج کے دور میں جب ہر بندے کے ہاتھ میں کیمرے والا فون ہے تو اس نے زیادہ مصیبت پیدا کی ہے۔ پاکستان میں زندہ انسان کی پرائیویسی کا کوئی کانسیپٹ نہیں تو مرے ہوئے انسان کی پرائیویسی کا کسی نے کیا خیال کرنا ہے۔ ہسپتال میں پڑے بیمار شخص کی آئی سی یو تک میں تصویریں اتار لی جاتی ہیں اور بے چارے اہل خانہ ہر آتے جاتے شخص کے ہاتھ جوڑ رہے ہوتے ہیں کہ خدا کے لیے تصویریں مت بنائیں لیکن نہ صرف تصویریں بلکہ ویڈیو تک بنائی جاتی ہے اور اس کو ہر طرف سوشل میڈیا پر نشر کیا جاتا ہے۔ اگر یہ لوگ ایسے گھر میں موجود ہیں جہاں کسی کا پیارا اس سے بچھڑ گیا ہے تو ایسے لوگوں کی چاندی ہو گئی نہ صرف لاش کی تصویریں کھینچی جائیں گئی بلکہ کئی مہینوں تک اس کے لواحقین کی آنکھوں کے آگے زبردستی نچائی جائیں گی اور وہ جو اپنا دل مٹی میں دفنا کر آتے ہیں ان کو سمجھ نہیں آ رہا ہوتا کہ وہ کیسے تصویر دیکھنے سے انکار کریں۔ دیکھیں تو کرب ہے نہ دیکھیں تو ”ہا ہائے آپ کو تو کوئی محبت نہیں مر کیا گیا آپ اس کو دیکھنے کے روادار نہیں“ یعنی کہ جب تک کوئی نئی موت واقع نہ ہو جائے نہ جان مرنے والے کی چھوڑنی ہے نہ اس کے لواحقین کی۔
جب والدین میرے سے جدا ہوئے میرے لیے یہ انتہائی دکھی کر دینے والی بات تھی لیکن میرے لیے اس میں سب سے مشکل لوگوں سے ملنا اور آداب معاشرہ کے مطابق چلنا تھا۔ میں خاموش رہنا چاہتی تھی اور کسی قسم کی کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میرا دل و دماغ کو اس دکھ کو ایک خاص انداز سے اپنے اندر پروسیس کرنے کی ضرورت تھی اور مجھے لگتا تھا۔ میں ہر وقت کٹہرے میں کھڑی ہوں۔ میں غیر روایتی طرز فکر کی حامل ہوں اور اس پر ستم یہ کہ جن دونوں انسانوں نے میرے اور پاکستان کے روایتی معاشرے کے درمیان ڈھال کا کام کیا وہ مجھ سے بچھڑ گئے۔ مجھے ایسے محسوس ہوتا تھا کہ میں چھوٹی سی بچی ہوں جس کے ہاتھ سے اس کے والدین کا ہاتھ چھوٹ گیا ہے اور وہ اکیلی میلے میں چھوٹی سی ہرنی کی مانند ڈری سہمی گھوم رہی ہے۔
اس دکھ نے میری ذات بے نشان کر دی۔ ہر وہ چیز جو مجھے خوشی دیتی تھی، دکھ میں بدل گئی میرے لیے دکھ اتنا زیادہ ہے کہ میں اس کے بارے میں بس مشکل بات کر پاتی ہوں۔ وہ بھی صرف ان لوگوں سے جن کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ یہ میرے بہت گہرے اور قریبی دوست ہیں اور میری تکلیف ان کی تکلیف ہے۔ اس میں المیہ یہ ہے کہ میرے لیے روایات کے مطابق چلنا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے لیکن اس وقت جب آپ بہت غم میں گھرے ہوں ان سب چیزوں کا سامنا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
میں نے مشکل حالات میں ہیڈ اسڑانگ رہنا اپنے والد سے سیکھا ہے۔ وہ کتنے مشکل حالات کیوں نہ ہوتے اپنے مزاج اور آئیڈیالوجی کے مطابق فیصلہ کرتے اور اس پر ڈٹ جاتے اس دکھ اور غم میں میں نے کچھ ایسے فیصلے کیے اور بے انتہا پریشر کا سامنا کیا لیکن اس میں تکلیف دہ وہ سیڈزم تھا جس کا پاکستانی معاشرہ شکار ہے۔ پرائیویسی کا خیال نہ کرنے سے میرے معاملات تک کے مشورے اور حالات و واقعات کے بے جھجک تبصروں نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ یہ لوگ خدا پر یقین رکھتے ہیں لیکن زمین پر دوسروں کے لیے زندگی کا دائرہ تنگ کرنے والے کس طرح اپنے خدا کا سامنا کریں گے کہ اس کو تو یہ ایک سجدے سے منا لیتے ہیں اور خود ہزار محبتوں اور واسطوں سے بھی دوسرے کی جان نہیں بخشتے۔ میں آپ سے ان رویوں کی وجہ جاننا چاہتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ آپ میری اور میرے جیسے بے شمار لوگوں کی رہنمائی کریں کہ وہ دکھ کے ان لمحوں میں کیسے اپنے دماغ کو گرین زون میں رکھیں۔
جواب کی منتظر
سارہ علی
میری ادبی و نظریاتی دوست ڈاکٹر سارہ علی
میں آپ کا خط پڑھ کر بہت دکھی ہو گیا۔
میں یہ تو جانتا تھا کہ اپنے والد کی وفات کے بعد آپ اداس ہو گئی تھیں لیکن یہ نہیں جانتا تھا کہ آپ کے ہمسایوں، عزیزوں اور رشتہ داروں نے آپ کے زخموں پر نمک چھڑک کر آپ کو مزید دکھی کر دیا تھا۔
میں آپ سے متفق ہوں کہ کسی عزیز کی موت کا دکھ ایک ذاتی دکھ ہوتا ہے جس کا دوسرے لوگوں کو احترام کرنا چاہیے اور کسی بھی محفل میں طنز کے نشتر نہیں چلانے چاہئیں۔ ایسے نشتر دکھوں کو کم کرنے کی بجائے ان میں اضافہ کرتے ہیں۔
آپ کا خط پڑھ کر مجھے اپنی زندگی کے دو واقعات یاد آئے جو میں آپ سے شیر کرنا چاہتا ہوں۔
پہلا واقعہ یہ ہے کہ جب میں بارہ برس کا تھا تو میرے قاسم نانا جان کا لاہور میں انتقال ہوا۔ میں ان سے جذباتی طور پر اتنا ہی قریب تھا جتنا آپ کے بچے اپنے نانا جان کے قریب تھے۔ قاسم نانا جان کی وفات کی خبر سن کر میرے ابو باسط، میری امی عائشہ، میری بہن عنبر اور میں پشاور سے ہوائی جہاز میں بیٹھ کر لاہور گئے تھے۔ وہ میری زندگی کا پہلا ہوائی سفر تھا اسی لیے مجھے آج تک یاد ہے۔
جب ہم 4 مزنگ روڈ لاہور پہنچے اور میں نے اپنے نانا جان کی میت دیکھی تو میرے لیے دو باتیں حیران کن تھیں۔
پہلی بات یہ ان کی میت کے چاروں طرف برف کی سلیں پڑی تھیں۔ پتہ چلا کہ وہ اس لیے تھیں کہ میت لاہور کی گرمی سے خراب نہ ہو۔
دوسری حیرت کی بات یہ تھی کہ چند ایسی عورتیں زور زور سے بین کر رہی تھیں جنہیں میں نے پہلے کبھی دیکھا نہ تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ کوئی ڈرامہ کر رہی ہوں لیکن میں خاموش رہا۔ مجھے ان کا رویہ منافقانہ لگا۔
میری والدہ نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ جب میں لاہور سے واپس پشاور آیا تھا تو میں تکیے میں سر چھپا کر رویا کرتا تھا کیونکہ مجھے اپنے نانا جان بہت یاد آتے تھے۔
آپ کا خط پڑھ کر دوسرا واقعہ جو مجھے یاد آیا وہ یہ تھا کہ چند سال پیشتر میرے ایک سوشلسٹ ادیب دوست فوت ہو گئے۔ وہ خود تو دہریہ تھے لیکن ان کا تعلق ایک احمدی خاندان سے اور ان کی بیوی کا تعلق ایک سنی خاندان سے تھا۔ جب نماز جنازہ پڑھنے کا وقت آیا تو سب نے نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔ سنی کہنے لگے احمدی نماز جنازہ پڑھائیں اور احمدی کہنے لگے سنی نماز جنازہ پڑھائیں۔ آخر میرے دوست کو بغیر نماز جنازہ پڑھائے دفن کر دیا گیا۔ ہو سکتا ہے میرے دوست کو کوئی فرق نہ پڑا ہو کیونکہ وہ لامذہب تھے لیکن اس واقعے سے مذہبی لوگوں کی سوچ کا اندازہ ہو گیا جو میرے لیے ایک افسوسناک خبر تھی۔
اس واقعے سے مجھے اندازہ ہوا کہ لوگ میت کو بھی مذہب کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور انسانوں پر مرنے کے بعد بھی فتوے لگاتے ہیں۔
ڈاکٹر سارہ علی!
میری نگاہ میں ہم ایک منافق معاشرے میں بستے ہیں جہاں لوگ اپنے سچ کا اظہار کرنے کی بجائے یہ سوچتے رہتے ہیں کہ۔ لوگ کیا کہیں گے۔ مجھے مغرب کی جو روایت بہت پسند ہے وہ یہ ہے کہ وہ مرنے والے کا سوگ منانے کی بجائے ایک ایسی تقریب کا اہتمام کرتے ہیں جو
CELEBRATION OF LIFE
کہلاتی ہے۔ اس تقریب میں مرنے والے پر طنز کرنے کی بجائے اس کی مثبت خصوصیات اس کی محبت اور خدمت خلق کا یاد کیا جاتا ہے۔
میری نگاہ میں مشرقی لوگوں کو بھی مرنے والے پر فتوے لگانے کی بجائے اس کی خوبیوں کو یاد کرنا چاہیے اور اس کے عزیز و اقارب سے عزت و احترام سے پیش آنا چاہیے۔ یہی احترام آدمیت کا وتیرہ ہے اور مہذب قوموں کی روایت۔
آپ کا گرین زون دوست
خالد سہیل