اقبال اور اُس کا عہد

 

اقبال شاعر اور مفکر کی حیثیت سے نہ صرف برِ صغیر پاک و ہند میں مقبول ہے بلکہ عالمی شہرت کا حامل بھی ہے۔ اس نے اپنی شاعری کا آغاز اس وقت کیا، جب ہندوستان میں برطانوی غلامی کا دور دورہ تھا۔اقبال کا جس عہد سے تعلق ہے اور جس کی عکاسی نمایاں طور پر اس کی شاعری اور نظریات سے ملتی ہے، وہ 1900 ءکے بعد شروع ہوا اور 1938ءمیں اقبال کی وفات کے ساتھ ختم ہوگیا۔ اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز 1902ءمیں کردیا تھااور اس کی شاعری اور نظریات کا ارتقاءجنگ عظیم اول کے بعد اور جنگ عظیم دوم سے ذرا پہلے ہوا۔ یہی وہ دور ہے، جس کی عبوری نوعیت نے اقبال کی شاعری اور افکار کی نمایاں خصوصیات کو انکھارا اور جب اس نے شاعر اور مفکر دونوں کی حیثیت سے پختگی حاصل کی۔ اقبال نے اپنی نظموں میں، جو 1902ءتا 1938ءاپنی ادبی سرگرمیوں کے دوران تحریر کی گئیں، خاص طور پر اس دور کے ہندوستان کی مرقع نگاری کی۔ جب وہ برطانوی غلامی کی حالت میں تھا۔ جاگیردار، ساہوکار اور کسان کا دیہاتی ہندوستان۔ تاریخ ہند کے اس عہد کی عکاسی میں اقبال اتنے زیادہ اہم مسائل پیش کرنے میں کامیاب رہا اور فنی صلاحیتوں کی اتنی بلندی پر پہنچا کہ اس کی نظموں کا شمار اردو، فارسی اورعالمی ادب کے بہترین شاہکاروں میں ہونے لگا۔ ایک ایسے ملک میں، جو انگریز کی غلامی اور طبقاتی تفریق کی ایک زندہ مثال تھا، میں اقبال ایسے عظیم شاعر اور مفکر کا پیدا ہونا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔

ہندوستان ایک زرعی ملک تھا، جب انگریز نے اس پر قبضہ کیا،۔اس پر کسان غلامی اور اس سے متعلق پورا نظام مسلط تھا۔ قرونِ وسطیٰ کے سر قبیلوی اور پدرسری دیہی ہندوستان میں زیادہ تر آبادی کسانوں پر مشتمل تھی۔ جاگیردار اور کسان کے درمیان طبقاتی تضاد شدید تھا۔ کسان نہ صرف جاگیردار کے ظلم و استحصال کا شکار تھا بلکہ وہ انگریزی سرکار کو اپنی پیداوار سے کئی قسم کے زرعی ٹیکس بھی ادا کرتا تھا ،جنہیں ادا کرنے کے لےے اسے ساہو کاروں کے ہاں اپنی زمین رہن رکھ کر بھاری سود پر قرض لینا پڑتا تھا اور قرض نادہندگی کی صورت میں وہ اپنی زمین سے ہاتھ دھو بیٹھتا تھا اور وہ زمین سود خور ساہو کار کی ملکیت ہو جاتی تھی۔برطانوی قبضے کے بعد ہندوستان میں عالمی سرمایہ داری کے زیر اثرقدیم جاگیرداری نظام شکست و ریخت کا شکار ہونے لگا۔ برطانیہ ،جسے دنیا کی ورکشاپ کہا جاتا تھا، وہاں دنیا میں سب سے پہلے صنعتی انقلاب آیا۔ اس کی مصنوعات کی منڈی ہندوستان بنا ،جس سے وہاں کی سماجی و ثقافتی زندگی متاثر ہوئی۔ خاندان کا روایتی ڈھانچہ تبدیل ہونے لگا۔برطانوی سرمائے کے دباﺅ نے کسانوں کی گھریلو دست کاری کی صنعت اور ان کے دیہی خود کفیل معاشی اداروں کی بیخ کنی کردی ۔ پیداوار کے پیداوار سے تبادلے کا نظام ختم ہوگیا اور اس کی جگہ نقد زر نے لے لی ، جس کے نتیجے میں افلاس میں اضافہ ہوا، کسان بے زمین ہوکر بیروزگار ہوگئے۔وہ فاقہ کشی پر مجبورہوگئے اور دیہات چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کرنے لگے۔ تباہ حال کسانوں کی سستی محنت کی بدولت ریلوے لائنوں ، سڑکوں، بندرگاہوں،کارخانوں اور فیکٹریوں کی تعمیر وسیع پیمانے پر ہونے لگی۔ ہندوستان میں وسیع پیمانے پر بڑا مالیاتی سرمایہ تجارت اور صنعت کے فروغ کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگا۔ اس وجہ سے پرانے ہندوستان کی بوسیدہ بنیادیں تیزی سے ہلنے لگیں۔اس ماحول کی عکاسی اقبال کی شاعری اور فکر میں ملتی ہے۔ جس طرح اقبال نے اس کی عکاسی کی، اس کی مثال پہلے کے ہندوستانی ادب میں نہیں ملتی ہے۔ دیہی ہندوستان کی تباہی نے اقبال کی توجہ کو مہمیز دی ، اس کے اردگرد جو ہورہا تھا اس میں اس کی دلچسپی کو گہرا کیا اور اس کے نظریہ حیات میں تبدیلی برپا کی۔

اقبال نے صرف اپنی شاعری کے عظیم شہکار ہی پیدا نہیں کیے ہیں بلکہ وہ عام انسان کی سائیکی کو بڑی غیر معمولی قوت سے پیش کرنے میں کامیاب بھی رہا۔ اس نے ایک عظیم شاعر اور مفکر کی حیثیت سے اپنی شاعری میں تحریک آزادی ہند کے مخصوص خدوخال، اس کی قوت اور کمزوری کا حیرت انگیز طور پر اظہار کیا۔ تحریک آزادی کی ایک مخصوص خصوصیت یہ ہے کہ وہ عالمی پیمانے پر سرمایہ داری کے بہت ہی ترقی یافتہ ارتقاءکے دور میں ہندوستان میں قومی بورژواری کے ظہور کا مظہر تھا۔ قومی بورژوازی اپنی نشوونما میں سب سے بڑی رکاوٹ برطانوی سامراج کے غلبے کو ختم کرنا چاہتی تھی اور اس نے عوام کو قومی نعروں کے ذریعے برطانوی سامراج کے خلاف متحد کیا۔ لیکن مزدور اور کسان آزادی اور طبقاتی جدوجہد کے فرق کو نہیں سمجھتے تھے۔ خارجی حالات نے یہ مسائل پیش کیے کہ کسانوں کی حالت زار تبدیل ہو۔ زمین کی ملکیت کا صدیوں پرانا نظام ختم ہو اور سرمایہ داری کے لیے راستہ ہموار ہو۔

انیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں ہندوستانی بورژوازی کا ظہور ہونا شروع ہوا۔ اسی دوران۔ 1853ءمیں بمبئی میں پہلی کاٹن فیکٹری قائم ہوئی۔ 1880ءمیں فیکٹریوں کی تعداد 156 ہوگئی، جن میں 44 ہزار مزدور کام کرتے تھے۔ انیسویں صدی کے اختتام تک فیکٹریوں کی تعداد 193 تک ہوگئی، جن میں ایک لاکھ اکسٹھ ہزار مزدور کام کرتے تھے۔ہندوستان میں جنگِ عظیم ِاول تک صنعتی ترقی بہت سست رفتار رہی۔ کیوں کہ برطانوی سامراج نے قومی بورژوازی کو ابھرنے کا موقع ہی نہیں دیا اور نئی پیداواری قوتوں کی ترقی میں حائل رہا۔ دورانِ جنگ جب اس کا مواصلاتی رابطہ باقی دنیا سے کٹ گیا تو برطانوی حکومت نے مجبوراً ہندوستانی صنعت کو فروغ دیا اور قومی بورژوازی کی حوصلہ افزائی کی۔ کیوں کہ اسے خطرہ تھا کہ کہیں ہندوستان کی منڈی اس کے ہاتھوں سے پھسل کرجاپان کے چنگل میں نہ پھنس جائے۔لیکن جنگ کے چند سالوں بعد حالات تبدیل ہوئے تو حکومت پھر سے صنعتی ترقی میں مزاحم ہونا شروع ہوئی اور برطانوی مفادات کی خاطر اسے روکنے کی بھر پور کوشش کی۔ ہندوستانی قومی بورژوازی نے جان لیا تھا کہ جب تک برطانوی راج ہندوستان پر مسلط ہے یہاں آزاد اقتصادی حکمتِ عملی اختیار کرنا محض خیال و خواب ہے۔ اس لیے اس زمانے میں قومی بورژوازی کی زیرِ قیادت تحریکِ آزادیِ ہند میں نیا جوش و ولولہ آیا اور ہندوستان بھر میں اس کا مظاہرہ ہوا۔بہت سے پر تشدد واقعات رونما ہوئے، جن سے برطانوی حکومت بوکھلا اٹھی اور اس نے تحریک کو دبانے کے لیے نت نئے پر تشدد حربے استعمال کیے اور ہر طرف ظلم و تشدد کا ماحول پیدا ہوگیا۔ اقبال کی شاعری تحریکِ آزادی ِہندکے ان طاقت ور اور کمزور پہلوو¿ں کی عکاسی کرتی ہے۔ اس وقت ہندوستان میںبرطانوی سرکار اور جاگیردار اشرافیہ کا گٹھ جوڑ تھا، جس کے خلاف اقبال کی پر جوش شاعری، جو جذباتی ہے اور اکثر و بیشتر ایک سخت احتجاج بن جاتی ہے، ان سادہ ہندوستانی عوام کے خیالات اور جذبات کی ترجمانی کرتی ہے ،جن کے دلوں میں صدیوں پرانی جاگیرداری نے سرکاری مظالم اوراستحصال، جاگیرداروں اور ساہوکاروں کے ظلم و ستم نے غم و غصہ اور نفرت و احتجاج کے جذبات پیدا کردیے تھے۔مثال کے طور پراقبال نے اپنی نظم "تصویرِ درد "میں ہندوستانی عوام کو آنے والے پر آشوب عہد غلامی سے خبردار کرتے ہوئے ان میں پرانے عہد (جاگیرداری) ، سرمایہ داری اور سامراجیت کے خلاف جذبہِ بغاوت بیدار کرنے کی کوشش کی۔ اس دور کی اس سے زیادہ موزوں خصوصیت بیان نہیں کی جاسکتی۔

زمین کی نجی ملکیت کے نظام کے خلاف کسانوں کی غیر مصالحانہ بغاوتیں اس تاریخی دور میں کسان کی نفسیات کا اظہار کرتی ہیں، جب جاگیرداری اور برطانوی راج ملک کی ترقی میں ناقابل برداشت رکاوٹ بن گئے تھے۔ جب زمین کے ملکیتی نظام کو ختم ہونا ہی تھا۔ سرمایہ داری کے خلاف ہندوستانی عوام کا احتجاج، غم و غصہ اور نفرت ان کی دہشت کی عکاسی کرتے ہیں، جو وہ اس وقت محسوس کررہے تھے۔ جب شہروں میں کارخانہ دار قومی بورژوا اور غیر ملکی بورژوا طبقہ مستحکم ہوچکا تھا ، جس نے دیہی زندگی کی تمام بنیادیں ختم کردیں۔ اور اپنے ساتھ بے مثال تباہی، افلاس ، فاقہ کشی ، بیماری، آلودگی اور استحصال کی نئی شکلیں لایا۔ یہ سب کچھ جو سرمائے کے ابتدائی ارتکاز کے عہد میں آیا تھا، ہندوستان میں سوگنابڑھ گیاتھا،جب سرمایہ داری کی ابتداءہوئی۔ 1900ءتا8 193ءکا دور اس قسم کے انتشار کا دور تھا۔ جب پرانا جاگیرداری نظام منہدم ہوا اور پھر لوٹ کر کبھی واپس نہ آیا۔ اس کے کھنڈرات پر نیا نظام تعمیر ہونے لگا اور جو نئی قوتیں اس عہد میں مختلف شعبوں میں وسیع قومی اقدام کے ذریعے پہلی بار منظر عام پرآئیںہیں، برصغیر پاک و ہند کے نئے سماج کی تعمیر کررہی تھیں اور اسے موجودہ سماجی مشکلات ومسائل سے نجات دلا رہی تھیں۔ 1908ءمیں بمبئی میں ٹیکسٹائل مزدوروں کی ہڑتال سے لے کر1938ءتک ہندوستان اور دنیا کے کئی ملکوں میں اس قسم کے واقعات رونما ہوئے، جنہوں نے مشرقیت پسندی،، دروں بینی، خرد دشمنی اور عینیت پسندی کے خاتمے کی ابتداءکردی۔چنانچہ یہ دورتاریخی لحاظ سے اقبال ازم کے خاتمے کا دور بھی قرار پایا۔ اس عہد کا خاتمہ، جس نے اقبال کے نظریات اور شاعری کی بالیدگی کو ممکن اور ناگزیربنایا، جو کسی ایک فرد کے تخیل کی پرواز نہیں تھے بلکہ کروڑوں عوام کے نظریہ حیات میں ظہور پذیر ہوئے، جو اس عہد کے ایک مخصوص دور میں رہتے تھے۔

ہندوستان میں تیزی سے ہونے والی اس تیزرفتار سرمایہ دارانہ تبدیلی کے متعلق عام لوگ نہیںجانتے تھے۔ ان کے لیے یہ ایک اجنبی اور ناقابلِ فہم چیز تھی۔ اقبال نے بھی اس بورژوا نظام کو جو وہاں تیزی سے مستحکم ہورہا تھا،مبہم طور پر سمجھا۔ وہ اس نئے نظام اور سرمائے کی حاکمیت کے درمیان تعلق، زرکی کارکردگی، تبادلے کی ابتداءاور اس کے ارتقاءکی جدلیات کو نہیں جان سکا یا مکمل طور پر نہیں سمجھا۔ اس وقت یہ سوال در پیش تھا کہ یہ نظام کون سی صورت اختیار کرے گا؟ اور یہ سوال یقینا اہم ترین سوالات میں سے ایک تھا۔ اس بورژوا نظام نے برطانیہ ، جرمنی، فرانس اور امریکہ میں مختلف صورتیں اختیار کی تھیں۔ لیکن اس سوال کو پیش کرنا اقبال کے لیے بالکل اجنبی بات تھی۔ وہ دور ازکار دلیلیں دیتا رہا۔ وہ صرف اخلاقی تکمیل ذات اور مذہب کی طرف رجوع کرنے پر زور دیتا رہا۔ اس لیے وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ ایسا نقطہ نظر پرانی کسان غلامی اور مشرقی لوگوں کے طرزِ حیات کی عکاسی کرتا ہے۔اقبال نے اپنی نظموں ”پنجاب کے کسان “، "پنجاب کے دہقاں سے”اور” خضرِ راہ "میں کسانوں کی تباہی و برباری کی عکاسی کی ہے۔(1) لیکن اقبال کے ذہن میں زرعی اصلاحات کا کوئی واضح منصوبہ نہیں تھا۔ وہ صرف کسانوں کی حالتِ زار کو بہتر بنانا چاہتا تھا۔اقبال کسانوں کے حق میں لکھتا ہے:

” زمین کسی خاص فرد کی ملکیت نہیں بلکہ قومی ملکیت ہونی چاہےے۔ بہ الفاظ ِ دیگر یوں کہو کہ لگان کی یہ زائد مقدار جو آبادی کی زیادتی کے سبب پیدا ہوتی ہے سرکار یا قوم کا حق ہے نہ کہ زمین داروں کا۔“(2)

عبدلاسلام ندوی اقبال کی زرعی اصلاحات کے بارے میں تجویز کے متعلق لکھتا ہے:

”گورنمنٹ نے نیلی بار ضلع منٹگمری میں سوا تین لاکھ ایکڑ رقبہ فروخت کیا تھا، جس کا زیادہ تر حصہ سرمایہ داروں نے خریدا تھا، اس کے متعلق ڈاکٹر صاحب نے یہ تحریک کی کہ اس کا نصف حصہ مزارعین یعنی کسانوں کے لےے ،جو اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کرتے ہیں، مخصوص کیا جائے۔“(3)

برطانوی حکومت نے تحریک آزادی کو دبانے کے لیے ہرممکن حربہ استعمال کیا۔ جدید تعلیمی اداروں کے قیام کے ذریعے اس نے نئی نسل کو نوآبادیاتی نظام کی حمایت میں تیار کرنا شروع کیااور ہندوستان کی تاریخ ،ادب اور ثقافت پر تنقیدی حملے کرکے مغربی نظام حیات کو برتر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی،جس کے ردِ عمل میں ہندوستان کے پڑھے لکھے متوسط طبقے نے مغرب کو نشانہ تنقید بنایا۔پیدائش ، تعلیم و تربیت اور پیشے کے لحاظ سے اقبال اس نئے ابھرتے ہوئے تعلیم یافتہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ لیکن اس نے اپنے ماحول کے روایتی خیالات سے بغاوت کی اور اپنی شاعری میں ملا، پیر، جاگیردار، سرمایہ دار، برطانوی سامراج اور اس کے اداروں کے خلاف سخت حملے کیے،جن کی بنیاد عوامی غلامی، افلاس اور تباہی پر استوار تھی۔ اقبال نے ان سب چیزوں کے خلاف اپنی شاعری میں پر زور احتجاج کیا اور برطانوی سامراج ، جاگیر داری اور سرمایہ داری پر سخت تنقید کی۔لیکناقبال نے مغرب کی مخالفت میں متوسط طبقے کامشرقیت پسند رویہ اختیار کیا۔اقبال کے نزدیک مغربی سیاسی معیشت کی بنیاد مادہ پرستی پر ہے اور اس میں روحانیت مفقود ہے۔ اس لیے وہ سوشلزم کو بھی مادہ پرستی پر مبنی نظام قرار دے کر رد کرتا ہے ،سرمایہ داری اور جمہوریت کو بھی اسی بناءپر ہدفِ تنقید بناتا ہے۔ وہ صنعتی ترقی اور اس کے اداروں کو بھی مسترد کرتا ہے۔اس نے اپنی ایک نظم” ینیما "میں سینیماکی صنعت کو بھی بت فروشی،بت گری اور صنعتِ آزری قراردے کر مسترد کیااور وہ مشینوں کے بارے میں یہ بھی کہتا ہے:

"ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات ۔”

”اقبال کے ہاں مغرب کی مخالفت اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے ۔وہ ان مغربی مفکرین سے متاثر ہوکر جو اپنی تہذیبی برائیوں سے پردہ اٹھارہے تھے اور ان کے دلائل کے ذریعہ مغربی تہذیب پر حملہ آور ہوئے۔ ان کے ہاں جمہوریت، مادیت، مغربی صنعت و حرفت کی ترقی و فنی و سائنسی ایجادات کی مذمت ہے اس سے غلام اور پسماندہ مسلمان معاشرہ کو ذہنی خوشی و مسرت ضرور ہوئی ۔لیکن یہ وقتی مسرت افیون ثابت ہوئی ،جس نے انہیں با عمل بنانے کے بجائے سلادیا۔ کیوںکہ ان کے اشعار میں یہ پیغام ہے کہ مغربی تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کررہی ہے اور مشرق بیدار ہورہا ہے۔“(4)

حقیقی تاریخی کنٹینٹ کے لحاظ سے اقبال کا نظریہ۔ مشرقی اور ایشیائی نظام کا نظریہ ہے۔چنانچہ خودی،وجدان، دروں بینی ،خرد دشمنی اور پان اسلامازم سب کے سب تصورات مشرقیت اور آئیڈلزم سے عبارت ہیں۔اقبال مشرقیت، مذہب اور مذہبی علماءکی تعلیمات کو ناگزیر سمجھتا ہے۔ چناں چہ مذہب اور عینیت پسندی ، دروں بینی، روح اور وجدان ایسے نظریات خارجی دنیا کی حیققت کی نفی پر مبنی ہیں۔ اقبال کہتا ہے:

"تو ہے، تجھے جو کچھ نظر آتا ہے، نہیں ہے ۔”

"نقطہ پرکارِ حق، مردِ خدا کا یقین

ورنہ یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز ۔”

اقبال کی اسی مشرقیت اورعینیت پسندی نے ا سے تاریخی و جدلیاتی مادیت کی تردید کی طرف دھکیلا اور اس نے یہ ماننے سے انکار کردیا کہ تاریخ کا ارتقاءتاریخی شخصیات، بادشاہوں،شہزادوں، حملہ آوروں اور جنگجو سپہ سالاروں کے بہادرانہ کارناموں سے نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ سماج میں ظالم اور مظلوم طبقات کے مابین طبقاتی جدوجہد سے ہوتا ہے۔ اس لیے اقبال تیمور، احمد شاہ ابدالی، نپولین اور مسولینی کی شخصیات میں اپنا آئیڈیکل انسان، مردِ مومن،انسانِ کامل ،فوق البشر یا شاہین دیکھتا ہے۔ اس کے خیال میں ان شخصیات کے جنگی کارناموں کی وجہ سے تاریخ آگے بڑھتی ہے۔ اور ایسی فوق البشر شخصیات تاریخ میں مرکزی اہمیت کی حامل ہیں، جو اپنی خودی سے تاریخ کا رخ موڑ سکتی ہیں۔ یہی انفرادیت پسندی اقبال کو نیٹشے کے فلسفہ قوت کے قریب لے جاتی ہے۔ اس کے مطابق مرد ہی شاہین صفت اور خودی کی صفات کے حامل ہوتے ہیں۔ جب کہ عورتیں ان خصوصیات سے عاری ہوتی ہیں۔ لہٰذا ان کا اصل مقام گھر کی چہار دیواری اور ان کا فریضہ امورِ خانہ داری انجام دینا ہے۔ اس لیے اقبال نے عورتوں کے بارے میں اس بہت ہی رجعت پسند خیالات پیش کیے ہیں۔ مذہب، خرد دشمنی ، دروں بینی، خودی، وجدان اور روح پر مبنی عینیت پسندتصورات اس عہد کے نظریہ حیات کے اجزائے ترکیبی ہیں، جو اس وقت ناگزیر تھے، جب فرسودہ جاگیرداری نظام تیزی سے مٹ رہا تھا اور نئے بورژوا اداروں کی تاسیس ہورہی تھی۔ اس وقت عوام، جنہوں نے اس نظام میں پرورش پائی تھی اور انہوں نے اس نظام کی اقدار و روایات اور عقائد کو قبول کیا تھا، نئے بورژوا نظام کو نہیں سمجھ سکتے تھے کہ یہ کس قسم کا نظام ہے۔ کون سی سماجی و سیاسی اور تاریخی قوتیں اس کی تشکیل کررہی ہیں اور کس طرح، کون سی قوتیں اس قابل ہیں کہ اس نئے نظام کی سفاکیوں سے انہیں نجارت دلا سکتی ہیں۔اقبال ہندوستان میں پیدا ہونے والی اس نئی قوت یعنی پرولتاریہ طبقے کے انقلابی کردار کو نہیں سمجھ سکا۔ لیکن اس نے بورژوا انسان دوستی کے نقطہ نظر سے اس سے ہمدردی کا اظہار کیا۔

اس لیے اقبال کی شاعری اور فکرمیں ایک کمزوری بھی ظاہرہوئی، جوہندوستان کے بحران کی وجوہ اور بحران سے نکلنے کے ذرائع کو سمجھنے میں ناکامی ہے۔ لہٰذا عمر کے آخری سالوں میں اس کی سیاست سے کنارہ کشی، خرد دشمنی ، دروں بینی،عدمیت پسندی اور وجدان ایسے تصورات کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ مسلمانانِ ہند کی احیائیت، اصلاح اور پان اسلام ازم ،جاگیرداری، سرمایہ داری اور برطانوی سامراج کے خلاف عوام (مزدوروں اور کسانوں) کی جدوجہد کی شکل میں ظاہر نہیں ہوئے بلکہ مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہند کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ہرچند اقبال نے جاگیرداری،سرمایہ داری اور سامراجیت پر کڑی تنقید کی مگر اس کی تنقید کوئی نئی نہیں تھی۔ اس نے کوئی ایسی بات نہیں کی، جو پہلے ادیبوں ، شاعروں اور مفکروں نے نہیں کی ہو۔ لیکن اس کی تنقید کی جدت ،انوکھا پن اور اس کی تاریخی اہمیت اس حقیقت میں مضمر ہے کہ اس نے ایک عظیم شاعراور مفکر کی حیثیت سے پوری قوتِ فکر کے ساتھ اس زمانے میں ہندوستانی عوام کے خیالات اور جذبات میں ترقی پسند تبدیلی کی نشان دہی کی۔ جاگیرداری، سرمایہ داری اور سامراجیت پر اقبال کی تنقید کمیونسٹوں کی تنقید سے اس لیے مختلف ہے کہ اس کا نقطہ نظر احیائیت پسندی اور آئیڈ لسٹ دروں بینی پر مبنی تھا۔ کیوں کہ ہندوستان کے عوام خصوصاً مسلمانوں نے ماضی اور اپنی عظمت رفتہ کی طرف مراجعت کرنا شروع کی تھی اور وہ اس کا احیا اور بحالی چاہتے تھے۔

اس لیے اقبال کے نقطہ نظر میں ان کی نفسیات پوری طرح جھلکتی ہے۔ اقبال کی تنقید کا امتیاز اس کی جذباتی قوت، احساس اور یقین عوام کی حالت زار کی اصل وجہ کا کھوج لگانے کے لیے اس کی بے باکی میں ہے اور یہ تنقید ہندوستانی مزدوروں اور کسانوں کے خیالات میں بڑی تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے،جنہوں نے ابھی ابھی تحریک آزادی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ لیکن یہ نیا عہد ان کے ماضی کے خواب آور پر سکون اور مطمئن زمانے سے بدترین تھا۔ ہیجان خیز،فاقہ کشی ، بے روزگاری، شہر کی آبادی کی نچلی تہہ میں بے گھری، بیماری اور آلودگی کی زندگی نے انہیں برطانوی حکومت اور سرمایہ داری کے خلاف متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے متحد ہوکر اس نظام کے خلاف احتجاج کیا، بغاوت کی اور جنگ کی لیکن انہیں مکمل طور پر کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور انہیں کئی شکستوں اور پسپائیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان کے خیالات وجذبات کی اقبال نے اتنی سچائی کے ساتھ عکاسی کی کہ اس نے مزدوروں اور کسانوں کی سادگی، سیاسی زندگی سے لاتعلقی اور مذہب کی طرف جھکاو¿ کو بھی اپنے خیالات میں شامل کرلیا۔ کروڑوں عوام کا احتجاج اور مایوسی دونوں چیزیں اقبال کی شاعری اور فکر میں یکجا ہوگئیں۔

اقبال کے نظریات پرولتاریہ کی زندگی اور جدوجہد کے بالکل برعکس ثابت ہوئے۔ مگر پھر بھی اس کی زبان سے کروڑوں مزدوروں اور کسانوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی، جو جاگیرداری، سرمایہ داری اور سامراجیت سے نفرت کرتے تھے لیکن تاہنوز ان کے خلاف باشعور، ثابت قدم اور فیصلہ کن طبقاتی جدوجہد کے نکتے تک نہیں پہنچے تھے۔ تحریک آزادی ہند کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ طبقاتی شعور کے حامل پرولتاریہ ،برطانوی و قومی بورژوازی اور جاگیردار اشرافیہ کے درمیان لڑائی میں ایسے ہی لوگ تھے، جن کی اکثریت کسانوں پر مشتمل تھی، جو محسوس کرتے تھے کہ انہیں جاگیرداری، سرمایہ داری اور انگریزی سرکار سے کس قدر نفرت تھی اور ان کی زندگی کتنی نا گفتہ بہ تھی۔ وہ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی خودرو آرزو رکھتے تھے لیکن ان کی نفرت میں سیاسی شعور کی کمی تھی۔ وہ آزادی اور طبقاتی جدوجہد میں ثابت قدم نہیں تھے اور بہتر زندگی کے لیے ان کی جدوجہد نہایت ہی محدود تھی۔ تحریک آزادی اور طبقاتی جدوجہد ،جس کی لہریں عوام کے ہر طبقے کی زندگی تک پھیل گئی تھیں،نے اپنی تمام کوتاہیوں اور توانائیوں کے ساتھ اقبال کی شاعری اور افکار میں خود کو منعکس کیا۔ اقبال کی شاعری اور افکار کے تجزیے کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کی کمزوری کی وجہ کیا ہے؟ جنہوں نے عوام کو اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے سے روکا۔

اقبال نے بالشویک انقلاب کا پرجوش انداز میں خیرمقدم کیا،چین میں جاری انقلابی جدوجہد کو سراہا،مزدوروں اور کسانوں سے گہری ہمدردی کا اظہار کیالیکن اس کا نقطہِ نظر غیر سائنسی آئیڈلسٹ تھا، جس نے عوام کو انقلا ب کی طرف بڑھنے سے روکاکیوں کہ عوامی آزادی اور آئیڈیلزم کے تضادات اس کے نقطہ نظر میں یکجا ہوگئے تھے۔lقبال کے نظریات میں جو تضاد پائے جاتے ہیں وہ صرف اس کے ذاتی خیالات کے منفرد تضاد نہیں ہیں بلکہ ان انتہائی پیچیدہ متضاد حالات کے تضاد ہیں، جنہوں نے تحریک آزادی کے دوران ہندوستانی سماج کے مختلف طبقات کی نفسیات کی صورت گری کی۔ جس اقبال نے تقسیم ہند سے قبل اس تحریک آزادی ہند کی کمزوریوں کو اپنی شاعری میں پیش کیا تھا، اب قصہِ پارینہ بن چکا ہے لیکن اس نے جو ورثہ چھوڑا ہے، اس میں وہ باتیں نہیں، جو ماضی کا حصہ بن چکی ہیںبلکہ ان کا تعلق مستقبل سے ہے۔ محنت کش طبقے نے اس ورثے کو قبول کیا ہے اور وہ اس پر کام کررہا ہے۔ وہ استحصال زدہ عوام کو جاگیرداروی ، سرمایہ داری اور سامراجیت پر اقبال کی تنقید کا مفہوم سمجھائے گا تاکہ وہ خود کو سوشلسٹ کارکنوں کی تحریک سے مربوط بنا سکیں، جو سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے اور ایک نیا سوشلسٹ سماج تعمیر کرے، جس میں عوام کو مفلسی سے نجات ملے اور جہاں انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال ہو نہ قوم کا قوم کے ہاتھوں استحصال ہو۔

لینن نے لیوٹالسٹائی پر اپنے مضامین میں سے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ٹالسٹائی کا سوشلزم مارکس اور اینگلز کی کتاب "کمیونسٹ مینی فسٹو "میں گنوائی گئی سوشلزم کی مختلف قسموں میں مسیحی سوشلزم ہے، سائنسی نہیں ہے۔ اسی طرح اقبال کے سوشلزم کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ سائنسی سوشلزم نہیں ہے بلکہ اسلامی سوشلزم ہے او راقبال کے معاصرین منشی پریم چند اور ٹیگور کا سوشلزم بھی سائنسی نہیں ہے بلکہ ہندو سوشلزم ہے، جو انہیں ویدک عہد کے سنہرے دھندلکوں میں لے جاتا ہے۔ ان تمام ملکوں میں، جہاں طریقِ پیداوار سرمایہ دارانہ ہیں۔ یقینا ایسا سوشلزم ہے، جو ان طریقِ پیداوار کا اظہار کرتا ہے، جسے بورژوازی کی جگہ لینی ہے۔ اور ایسا سوشلزم بھی ہے، جو ایسے طبقات کے نظریہ حیات کا اظہار کرتا ہے، جن کی جگہ بورژوازی لینے والی ہے۔ مثال کے طور پر جاگیرداری سوشلزم اس قسم کا سوشلزم ہے۔ مارکس اور اینگلز نے” کمیونسٹ مینی فیسٹو "میں سوشلزم کی دیگر اقسام کے ساتھ اس کا جائزہ بھی لیا ہے۔ (5)

اقبال کے نظریات یقینا یوٹوپیائی ہیں اور ان کا کانٹنٹ رجعت پسند ہے۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ یہ نظریات سوشلسٹ نہیں ہیں یا ان میں ایسے تنقیدی عناصر موجود نہیں ہیں، جو ترقی یافتہ طبقات کی روشن فکری کے لیے قیمتی مواد فراہم کرسکیں۔ اس کے یوٹو پیائی نظریات میں تنقیدی عناصر کا موجود ہونا اتنا ہی فطری ہے، جتنا دیگر یو ٹو پیائی نظریات میں لیکن مارکس کی یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ یوٹوپیائی سوشلزم میں موجود تنقیدی عناصر کے معنی ”تاریخی ارتقاءکے ساتھ معکوس یا برعکس تعلقات ہیں۔ ان سماجی قوتوں کی سرگرمیاں جتنی زیادہ بڑھیں گی، وہ اتنا ہی زیادہ معین کردار اختیار کریں گی اور تنقیدی یوٹوپیائی سوشلزم بھی اتنی ہی تیزی سے اپنی ”تمام عملی اہمیت اور تمام نظریاتی جواز کھودے گا۔“ (6)

اس زمانے میںاپنی تمام رجعت پسند اور یوٹوپیائی خصوصیات کے باوجود اقبال کے نظریات میں تنقیدی عناصر بعض لوگوں کے لیے عملی طور پر مفید ثابت ہوسکتے تھے۔لیکن تقسیم ہند کے زمانے سے اب تک ایسا نہیں ہواہے کیوں کہ اقبال کی وفات سے اب تک دنیا نے تاریخی لحاظ سے ارتقاءکی بہت سی منازل طے کرلی ہیں۔ تاریخی ارتقاءنے مشرقیت،پان اسلام ازم ،یوٹوپیائی آئیدیلزم،اقبال ازم اور دروں بینی کے رحجانات کا خاتمہ کردیا ہے۔اس وقت اقبال کے نظریات کا مبالغہ آمیز ی کی حد تک پرچار،خودی،وجدان اور خرد دشمنی ایسے رجعت پسند تصورات کا جواز اور ان کی مابعدالطبیعاتی تشریحو ں اور تاویلوں سے سخت نقصان پہنچا ہے۔

 

ریفرنسز

1۔ اقبال”پنجاب کے کسان “ میں کہتا ہے:

"گرز فکر غربیاں باشی خبیر

روبہی بگذار و شیری پشہ گیر

چیست روباہی تلاشِ ساز و برگ

شیر مولا جوید آزادی و مرگ

جز بہ قرآن ضیغمی روبا ہی است

فقرِ قرآں اصلِ شاہنشاہی است

چیست قرآں؟ خواجہ را پیغامِ مرگ

دستگیر بندہِ بی ساز و برگ

ہیچ خیر از مردکِ زرکش مجو

لن تنالو البر حتیٰ تنفقوا ”

اقبال نے” اسرارِ خودی” میں دہقاں سے مخاطب ہوکر کہا:

"آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا

دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو

آہ! کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے؟

راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو منزل بھی تو

کانپتا ہے دل ترا اندیشہِ طوفاں سے کیا!

دہِ خدایا!یہ زمیں تیری نہیں، تیری نہیں!

تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں میری نہیں! ”

اقبال اپنی نظم” پنجاب کے دہقاں سے” میںکہتا ہے:

"بتا کیا تری زندگی کا ہے راز!

ہزاروں برس سے ہے تو خاک باز

اسی خواب میں دب گئی تیری آگ

سحر کی اذاں ہوگئی، اب تو جاگ نا خدا تو ،

بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو

دیکھ آکر کوچہِ چاکِ گریباں میں کبھی

قیس تو، لیلیٰ بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو

وائے نادانی! کہ تو محتاجِ ساقی ہوگیا

مئے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو

اقبال کسانوں کومخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہتا ہے:

"زمیں میں ہے گو خاکیوں کی برات

نہیں اس اندھیرے میں آبِ حیات

زمانے میں جھوٹا ہے اس کا نگیں

جو اپنی خودی کو پرکھتا نہیں

بتانِ شعوب و قبائل کو توڑ

رسومِ کہن کے سلاسل کو توڑ

یہی دینِ محکم، یہی فتحِ باب

کہ دنیا میں توحید ہو بے حجاب

بخاکِ بدن دانہِ دل فشاں

کہ ایں دانہ دارد ز حاصل نشاں

زندگی کا راز کیا ہے، سلطنت کیا چیز ہے

اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش ۔”

)خضرِ راہ، بانگِ درا (

2۔محمد اقبال۔ علم الاقتصاد۔ مخزن اپریل 1907ءاز تعارف ڈاکٹر سلیم اختر۔ لاہور: سنگ میل پبلی کیشن، 2011ئ۔ ص 13

3۔عبدلاسلام ندوی۔ اقبالِ کامل۔ اسلام آباد: نیشنل بک فاﺅنڈیشن، اکتوبر2019ء۔ص6

4 ۔ڈاکٹر مبار ک علی۔ تاریخ اور روشنی ۔ لاہور: نگارشات، 1986ئ۔ ص۔144

.5.Karl Marx and Frederich Engels Communist Manifesto. Moscow: Progress Publishers, 1970, P.43.

6.Ibid. P.44.

 

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

0Shares
[sharethis-inline-buttons]

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*