کینڈا میں جابجا آپ کو ایسے علاقے ملیں گے جن میں فارسی میں بورڈ لکھے نظر آئیں گے کیونکہ ان علاقوں میں ایران سے تعلق رکھنے والے بڑی تعداد میں مقیم ہیں۔ایران سے زیادہ لوگوں نے کینڈا کا رخ ایرانی حکومت کی پرتشدد پالیسیوں اور اپنے مخالفین کا قلع قمع کرنے کی مہم کے بعد کیا۔ہر ملک کے لوگوں نے کینیڈین شہروں میں اپنے علاقے بنائے ہوئے ہیں۔ کوئی علاقہ ہندوستانیوں کے لیے کوئی پاکستانیوں کے لیے مشہور ہے اور کچھ علاقے ایرانیوں کے ہیں ، کینڈا ہجرت کرنے والے اپنے آبائی ملکوں میں بیٹھ کے ان علاقوں کی تلاش کرتے ہیں تاکہ کینڈا میں آکر بھی وہ اپنے آبائی ملک کے لوگوں کے قریب رہ سکیں۔ حالانکہ مائیگریشن اور وہ بھی کینڈا جیسے ملک میں انسان کو diversity and inclusion سکھاتی ہے لیکن انسان وطن سے نکل بھی جائے وطن انسان سے کبھی نہیں نکلتا۔ اور خاص کر گرم علاقوں سے کینڈا مائیگریٹ کرنے والے برف اٹھاتے وقت انتہائی محبت سے اپنے علاقوں کے لئے سرد آہیں بھرتے ہیں اور اپنے آپ کو جی بھر کر کوستے ہیں ۔ کہتے ہیں آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ۔جیسے ہی بہار شروع ہوتی ہے سب بھول بھال جاتے ہیں اور grass hopper کی طرح ناچتے گاتے ہیں اور سردیوں میں اپنی روٹین والی آہیں اور کوسنے پابندی سے ادا کرتے ہیں۔
کینڈا میں ایرانی نزاد باشندے ہر شعبے میں ہیں لیکن باقی ایشائی ممالک کے لوگوں کی طرح اگر آپ ایرانی ہیں اور آپ ڈاکٹر ، انجینیر ، وکیل یا اکاوٹنٹ نہیں تو آپ اپنے خاندان کے لیے باعث شرمندگی ہیں ، اس لیے بے شمار ایرانی خواتین اور مرد ان شعبوں میں کام کر رہے ہیں ، مگر اللہ بھلا کرے اس سر پھری جنریشن زی اور خاص کر کینڈا میں پیدا ہوئے جنریشن زی کا وہ اس سے مختلف خیال رکھتی ہے ۔وہ آرٹ ، میوزک ، ڈرامہ، فلم ، پینٹنگ فوٹوگرافی کے شعبے بھی اپنا رہے ہیں اور اپنے اماں ابا کے سر میں درد کر رہے ہیں۔ اپنی عام زندگی میں ایرانی رقص و موسیقی کے دلداہ اور انتہائی کھلے دل و دماغ کے لوگ ہیں ، زندہ دل اور زندگی کو بھرپور جینے والے ، مذہب کا عمل دخل بہت کم ہے ، بلکہ آپ کو پاکستانی ، ہندوستانی ، بنگلہ دیشی نزاد کنیڈین میں یہ گھٹن زیادہ ملے گی بہ نسبت ایرانی نزاد کنیڈین کے ۔ اور جب بھی آپ ان سے ملیں گے تو وہ خمینی سے پہلے والے ایران کو لازماً یاد کریں گے ۔اس لیے اگر آپ کا کوئی ایرانی دوست ہے تو زندگی کافی رنگین ہے۔اس میں دلچسپ یہ ہے کہ سالوں سے کینڈا میں مقیم ایرانی بھی ایران کے بارے میں ایسے متفکر ہوتے ہیں جیسے وہ وہیں رہائش پذیر ہیں۔ اس لیے ہر وہ واقعہ جو ایران میں ہو اس کی جھلک کینڈا میں کسی نہ کسی صورت میں دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ ایرانی باشندے واضح انداز میں لبرل پارٹی کے حمایتی ہیں اس لیے کینڈا کے پرائم منسٹر جسٹن ٹروڈو ایران کی حالیہ جدوجہد کی حمایت میں کینڈا میں جو جلوس نکلالے گئے اس میں شامل ہوا اور گاہے بگاہے اپنے بیانات سے زن ،زندگی اور آزادی کے نعرے کے تحت ہونے والے احتجاج کو واضح انداز میں اپنی حمایت دیتے ملے۔
اس میں جسٹن ٹروڈو کی حمایت سے بھی زیادہ اہم وہ غم اور غصہ تھا جس کا اظہار نوجوان ایرانی مرد اور عورتوں نے کیا ، مظاہرے اور اپنی آرٹ کے فن سے۔رچمنڈ ہل میں پچاس ہزار ایرانی جمع ہوئے اور یہ ٹورنٹو کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔اس کے علاوہ مینی ٹوبا ،ونی پیگ ، کیوبیک میں مظاہرے ہوئے۔ان مظاہروں میں شامل مرد اور خواتین کی بیشتر تعداد ان ایرانیوں کی ہے جن کی پیدائش کینڈا میں ہوئی اور وہ شخصی آزادی ، انسانی حقوق اور ریاست کے بنیادی فلاحی کردار سے بخوبی آگاہ ہیں وہ روایات کی فرسودہ زنجیروں سے نہیں بندھے اور نئے انداز سے سوچنے کی اور سوال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ان مظاہرین کے لیے یہ مظاہرے خواتین کی آزادی تک محدود نہیں اس میں شامل تمام افراد انسان کی شخصی آزادی اور ریاست کے ڈائن بجائے ماں کے کردار کے خواہاں ہیں ۔ ان کو بخوبی علم ہے کہ ان کا احتجاج صرف حجاب کا احتجاج نہیں بلکہ یہ آج بھی اس انقلاب کی صدا ہے جس کو 1979 میں عوامی امنگوں کے برعکس مذہب کی قید میں جکڑ دیا گیا تھا ۔ یہ نوجوان اس نظام سے آزادی چاہتے ہیں جہاں ان کے سوال پہ ، ان کی سوچ پہ ، کام پہ پہرے ہیں۔ جہاں مٹھی بھر لوگ مذہب کے پردے میں امیر سے امیر تر ہو رہے ہیں اور باقی عوام کو مہنگائی اور غربت کا سامنا ہے۔
جیسے آج بھی انسان اپنی جڑیں پرانی تہذیبوں میں تلاش کرتا ہے تو اس تلاش میں روح وہ آرٹ کے نمونے پھونکتے ہیں جو ان ادوار کے فنکار اپنے اردگرد وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے متاثر ہو کر تخلیق کرتے ہیں اور ان واقعات کے اثرات کا اندازہ ہزاروں سال بعد بھی ان فن پاروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ایران کے زن ، زندگی اور آزادی مظاہروں نے کینڈا میں مقیم ایرانی خواتین پر اپنا گہرا اثر ڈالا ہے، اور یہ ہمیں ایرانی نژاد کنیڈین خواتین فنکاروں کے فن پاروں میں نظر آتا ہے۔ان نوجوان خواتین نے اس غصے کو اپنے اندر محسوس کیا ہے جو ایران کی سڑکوں پر نظر آ رہا ہے ۔یہ خواتین نہ صرف مظاہرے کر رہی ہیں ، بلکہ اپنے فن اور فن پاروں کے ذریعے عوام کی اس جدوجہد کا اصل اور توانا رنگ باہر کی دنیا کو دکھا رہی ہیں۔اس میں تین نام بہت زیادہ توانا آواز بن کر ابھرے جنہوں نے اس مہم کو نئی جہت عطا کی ۔ ان میں سرِفہرست نام ہاجرہ مرادی کا ہے جس نے کوئین پارک میں مہسا امینی کی موت کے تین دن بعد نہ صرف مظاہرہ کیا بلکہ اپنے پوسٹرز سے لوگوں کی توجہ ایران میں زندگی کے اوپر لگائی گئی قدغنوں کی طرف دلائی۔انتہائی باصلاحیت فلمساز روجن شفائی نے یکم اکتوبر کو اپنے فن پاروں کی نمائش ٹورنٹو میں کرنی تھی اس میں آخری چند دنوں میں ایرانی عوام کو جس قسم کے تشدد کا سامنا مظاہروں میں کرنا پڑا اس سے روجن شفائی کا لاتعلق رہنا ناممکن تھا ۔صرف نمائش کے شروع ہونے سے چند گھنٹوں پہلے روجن نے ایک ویڈیو بنائی جس میں اس نے مظاہروں کی خبروں ، اپنے بال بطور احتجاج کاٹنے اور ایران کے ظلم میں پستے طبقات جیسے خواتین ، معذور افراد ، اقلیتیں اور ٹرانس جینڈر افراد کے انٹرویو کو شامل کیا اور اس ویڈیو کی ریلیز کے دن ایرانی کمیونٹی نے کینڈا میں اپنا سب سے بڑا مظاہرہ ایران کی حکومت کے خلاف کیا۔اپنے فن سے زندگی کے لیے محبت کا اظہار کرنے والی گلشن عبدالملائی اس تحریک کا تیسرا نمایاں چہرہ ہیں ، گلشن ایرانی نزاد فوٹوگرافر ، لکھاری اور فلمساز ہیں ۔ گلشن کے والدین نے ایران کے فاشسٹ رجیم سے تنگ آکر کینڈا ہجرت کی تھی اور یہ پھانس آج بھی گلشن کے دل میں ہے کہ ان پر ان ہی کے وطن کی زمین تنگ کر دی گئی تھی، گلشن بطور فوٹوگرافر کئی د فعہ ایران جاچکی ہیں اور ان دکھوں کی تصویریں اتاری ہیں جن پر آج ایرانی عوام سراپا احتجاج ہیں ، یہ تصویریں مظاہروں کے دوران پلے کارڈز پر موجود گواہی دیتی ہیں کہ ایران کی عوام دکھوں کی ان لاشوں کو اپنے دل میں چھپائے ظلم اور جبر کے نظام سے تنگ آ چکے ہیں جہاں ٹریڈ یونین پر پابندی ہے ، عوامی نمائندوں اور صدر کا انتخاب آیت اللہ اور ان کی کونسل کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا ، ایرانی عوام دن بدن غربت اور بے روزگاری کی طرف دھکیلے جارہے ہیں جبکہ حکمران اور طاقتور طبقے دن بدن امیر ہوتا جا رہا ہے ۔ خواتین صدر یا جج نہیں بن سکتیں ، ان کو گھریلو تشدد سے کوئی تحفظ حاصل نہیں ۔وہ خاوند کا گھر اس وقت تک نہیں چھوڑ سکتیں جب تک وہ عدالت میں جا کر یہ ثابت نہ کر دیں ان کی جان کو خطرہ ہے جو کہ اس صورت میں کہ عورت کی گواہی کو آدھا تصور کیا جاتا ہے اور بھی مشکل ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح خواتین خاوند یا باپ کی اجازت کے بغیر ملک سے باہر نہیں جا سکتیں ۔وہ اپنے ہی ملک میں دوسرے درجے کی شہری ہیں اور یہ ایران کی دختران ِخوش ِگل کو گوارا نہیں۔ ایرانی خواتین آزاد معاشرے کی ایک مضبوط تاریخ رکھتی ہیں اور مذہب ، جہنم ، گناہ کے خوف کے اندر رہنا ان کے لیے ممکن نہیں۔ یہ جنگ صرف جینڈر یا عورتوں کے حقوق کی جنگ نہیں بلکہ یہ غریب ، مزدور کسان کی بھی جنگ ہے۔ایرانی نوجوان اور بالخصوص خواتین یہ فیصلہ کر چکی ہیں کہ ان کو نہ ملا کی جنت میں حور کا کردار چاہیے اور نہ ہی ویسٹ کی کمرشل اکانومی میں گلیمر گرل کا ۔وہ آزادی سے ایک انسان کی حیثیت اور عزت کے ساتھ جینا چاہتی ہیں اور اس دلیری ، بہادری کا خراج وہ اپنے خون سے ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔وہ ویسٹ کی طرف مدد کے لیے نہیں دیکھ رہیں بلکہ اپنے آپ پر بھروسہ کر کے اس میدان ِجنگ میں اتری ہیں ۔ وہ اپنی قسمت خود لکھنا چاہتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ بیس سال افغانستان میں آگ اور خون کا کھیل کھیل کر افغانستان کو انہی طالبان کے دوبارہ حوالے کر دیا گیا جن کو ختم کرنے کے لیے امریکہ نے جنگ اس خطے پر مسلط کی تھی اور طالبان کا سافٹ وئیر اتنا ہی اپڈیٹ کیا کہ وہ امریکی مفادات کی راہ میں روکاوٹ نہ بنیں اور باقی خواتین پر چاہے روزگار کے ، تعلیم کے ، صحت کے دروازے بند رہیں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو کوئی مسلہ نہیں۔ ایران کے عوام یہ چاہتے ہیں کہ یہ تحریک ایران کے عوام کی organic تحریک ہے اور یہ organic ہی رہے۔ اس میں امریکہ بہادر اپنا حصہ نہ ڈالے ۔وہ ایک جمہوری ، انسانی اقدار اور ظلم سے پاک معاشرے کے لیے دنیا کے صرف نیک جذبات کے خواہاں ہیں لیکن وہ اپنے ملک کی آزادی کی جنگ خود لڑنا چاہتے ہیں۔
—