(12اپریل2000 کو ہوانا کیوبا میں گروپ 77کی سمٹ کے موقع پر تقریر )
ہم انسانی ارتقا کے ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں نہ تو کبھی انسانوں نے سائنس اور ٹکنالوجی میں اتنی زیادہ ترقی کی تھی اور نہ ہی وہ اتنی تیزی سے تنزل کی طرف رواں دواں تھے۔نہ تو ان میں اتنی دولت اور خوشحالی پیدا کرنے کی صلاحیت تھی اور نہ ہی وہ اتنی غربت اور بدحالی کا شکار تھے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امیر اور غریب ممالک کے درمیان فاصلہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ امیر ممالک امیر تر اور غریب ممالک غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
بین الاقوامی طور پر ہم ایک عجیب تضاد کا شکار ہیں۔جہاں مواصلاتی نظام کی ترقی کی وجہ سے ساری دنیا سکڑی جا رہی ہے وہیں ترقی یافتہ ممالک اور زوال پذیر ممالک میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔
گلوبلائزیشن کی عالمی معیشت اب ایک حقیقت بن چکی ہے اور اب ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں لیکن اس کشتی کے مختلف مسافر مختلف طبقوں اور مختلف حالتوں میں سفر کر رہے ہیں۔ ان مسافروں کی اقلیت آرام دہ کیبنوں میں سفر کر رہی ہے جہاں اسے انٹرنیٹ اور سیل فون کی سہولتیں میسر ہیں اور وہ اقلیت ساری دنیا سے رابطہ قائم رکھ سکتی ہے۔ اس اقلیت کے پاس اعلیٰ خوراک اور صاف پانی کی بہتات ہے اسے علاج کی سہولتیں بھی میسر ہیں اور وہ مختلف ثقافتوں کے فنون لطیفہ سے بھی محظوظ ہو سکتی ہے۔
اس کے مقابلے میں مسافروں کی اکثریت کی حالت اتنی ناگفتہ بہہ ہے کہ وہ ہمیں ان مسافروں کی یاد دلاتی ہے جو افریقہ سے غلام بنا کر کشتیوں اور جہازوں میں لاد کر شمالی امریکہ لائے گئے تھے۔ اس اکثریت کی تعداد پچاسی فیصد ہے۔ ان مسافروں کے کیبن غلیظ ہیں اور انہیں بھوک‘بیماری اور ناامیدی کا سامنا ہے۔
اس کشتی میں ناانصافیوں کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ اس کا سمندر کی سطح پر تیرتے رہنا اور ساحل تک پہنچنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ وہ کسی آئس برگ سے ٹکرائے گی اور سب مسافر ڈوب جائیں گے۔ خوشحال بھی اور مفلوک الحال بھی۔
آج یہاں جن قوموں کے سربراہ جمع ہوئے ہیں وہ پسماندہ اکثریت کے نمائندے ہیں۔ ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ناانصافی کے خاتمے کی کوشش کریں۔ ہم سب کا یہ فرض ہے کہ پوری سعی کریں کہ تمام مسافروں کو بنیادی حقوق و مراعات حاصل ہوں اور وہ امن’سکون ’انصاف اور برابری کی زندگی گزار سکیں۔
پچھلی دو دہائیوں سے تیسری دنیا کے عوام پہلی دنیا سے ایک ہی پیغام سن رہے ہیں جس میں کہا جاتا ہے کہ وہ قوم کی ملکیت ،افراد اور پرائیویٹ کمپنیوں کو دے رہے ہیں اور یہی ان کی کامیابی کی ضامن ہے۔
امیر ممالک نے ’جن میں امریکہ سر فہرست ہے’ غریب ممالک کے لیےIMFقائم کر رکھا ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ادارہ غریب ممالک کے معاشی مسائل کم کرنے کی بجائے بڑھا رہا ہے۔
گلوبلائزیشن نیو لبرلزم کی دین ہے جس کی وجہ سے ترقی کی بجائے غربت ساری دنیا میں پھیل رہی ہے اور غریب ممالک کی عزت نفس بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہے۔اس نام نہاد گلوبلائزیشن کی وجہ سے دنیا مزید تنزل کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہم سب معاشی اور سماجی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
یہ تیسری دنیا کے سیاستدانوں اور سیاسی رہنماﺅں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی عوام کو نیولبرلزم کے عذاب سے بچائیں اور تباہی کی طرف جاتے ہوئے راستے سے ہٹائیں۔لاطینی امریکہ کو نیولبرلزم کی پالیسیوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ دوسری عالی جنگ کے بعد ہم پر کوئی قرض نہ تھا لیکن اب ان پالیسیوں کی وجہ سے ہم ایک ٹریلین ڈالروں کے مقروض ہیں۔اب لاطینی امریکہ میں غریب ’ بے روزگار اور بھوکے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ تاریخ میں پہلے کبھی اتنے نہ تھے۔
نیو لبرلزم کا دعویٰ ہے کہ اس کی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا معاشی طور پر ترقی کر رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امیر شمال اور غریب جنوب کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ غریب ممالک مزید بے اطمینانی اور عدم تحفظ کا شکار ہو رہے ہیں اور عالمی صورت حال کسی بھی وقت بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔ غریب ممالک سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کاروباری امور کی کاروائی نہ چھپائیں لیکن امیر ممالک اپنے فیصلوں کی نہ تو تفاصیل بتاتے ہیں اور نہ ہی وجوہات۔
اس وقت دنیا کے بڑے بڑے بینکوں کے 727 بلین ڈالر امریکہ میں موجود ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ غریب ممالک کی ایک بڑی رقم امریکہ جیسے امیر ملک کی تجوری میں پڑی ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ اس دولت سے غریب ممالک کے عوام کے بہت سے سماجی اور معاشی مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
کیوبا نے اپنی آزادی کے بعد اپنی توجہ تعلیم، صحت‘ثقافت اور سائنس پر مرکوز کی اور ایسی ترقی کی جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ یہ علیحدہ بات کہ ہماری مدد کرنے سے بہت سے سرمایہ دار ممالک نے انکار کر دیا۔ہماری کامیابی ایک وجہ کہ ہم آئی ایم ایف سے قطع تعلق رہے۔ اس ادارے سے درپردہ غریب ممالک کی دولت سے امیر ممالک کی مدد کی جاتی ہے۔
IMF کی کارکردگی کا ایک سنگین مسئلہ یہ ہے کہ اسکے فیصلوں میں امریکہ ویٹو پاور استعمال کرتا ہے۔اس ادارے کی وجہ سے بہت سے غریب ممالک کی معاشی اور معاشرتی ترقی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ تیسری دنیا کے رہنماﺅں کو چاہیے کہ وہ اس ادارے سے قطع تعلق کر لیں جس سے انہیں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو رہا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ اس ادارے کے نمائندے امریکہ کے ہاتھ میں کٹھ پتلی ہیں۔ جب اس ادارے کی دخل اندازی کی وجہ سے غریب ممالک بحران کا شکار ہوتے ہیں تو اس کی ذمہ داری کون لیتا ہے؟
ہمیں ایک ایسے بین الاقوامی ادارے کی ضرورت ہے جس میں کسی بھی ملک کو ویٹو کی طاقت استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو اور وہ صرف سرمایہ دار ممالک کے حقوق کا ہی تحفظ نہ کرے بلکہ غریب ممالک کے حقوق کا بھی خیال رکھے۔آئی ایم ایف کی وجہ سے غریب ممالک کا قرض کم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔ جب امریکہ سود کی شرح بڑھاتا ہے تو غریب ممالک غریب تر ہو جاتے ہیں اور انہیں سود ادا کرنے کے لیے مزید قرضہ لینا پڑتا ہے۔ اس طرح ان کی حالت بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے۔
اب ہمیں اندازہ ہو گیا ہے کہ غریب ممالک کا قرض معاشی مسئلے سے زیادہ سیاسی مسئلہ بن چکا ہے۔ جس کا ہمیں مل کر ایک سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا۔ وہ قرض ایک بم بن چکا ہے جو ایک دن پھٹ کر غریب ممالک کی معیشت اور ثقافت کو تباہ و برباد کر سکتا ہے۔
یہ سیاسی مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے؟
اگر امیر ممالک ہر سال جنگ ’ اسلحہ اور فوج پر 800 ملین ڈالر اور منشیات پر 400 ملین ڈالر خرچ کرنے کی بجائے اس رقم سے غریب ممالک کی مدد کرنے کا فیصلہ کریں تو بہت سے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ تیسری دنیا کا قرض حد سے بڑھ چکا ہے اور پانی سر سے گزر چکا ہے۔امیر ممالک نے نیو لبرلزم کا سہارا لے کر عالمی تجارت سے غریب ممالک کو محکوم بنا رکھا ہے جس سے ظلم و ستم اور ناانصافی بڑھتے جا رہے ہیں۔
امیر ممالک غریب ممالک سے کاروبار کی پابندیاں ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن ان پابندیوں کو ختم کرنے سے امیر ممالک کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ ہم اس تشویشناک حقیقت کو ایک مثال سے واضح کر سکتے ہیں
1998 میں برازیل نے جس کی آبادی 168 ملین ہے، رقبہ 302 ملین مربع میل ہے، صرف51 ملین زر مبادلہ کمایا۔اسکے مقابلے میں اسی سال نیدر لینڈ نے جو برازیل سے کئی گنا چھوٹا ہے جس کی آبادی 7ملین ہے، رقبہ 12900 مربع میل ہے، 198 بلین زر مبادلہ کمایا
امیر ممالک غریب ممالک کی چیزیں نہیں خریدتے لیکن اپنی چیزیں بڑے منافع سے بیچتے ہیں۔ اسی طرح OECD (آرگنائزیشن فار اکنامک کو آپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ )کے ممالک غریب ممالک سے خرید و فروخت کے وقت اپنے ممبر ممالک سے چار گنا زیادہ محصول وصول کرتے ہیں۔ یہ ایک منافقانہ رویہ ہے جس کی وجہ سے غریب ممالک کو اپنی چینی ،کوکو اور کوفی بیچنے میں دقت ہوتی ہے۔
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO)کی سئیٹل کی میٹنگ میں امریکہ نے ایک دفعہ پھر غریب ممالک پر مزید پابندیاں لگانے کی کوشش کی ۔لیکن غریب ممالک نے نیو لبرلزم کے خلاف احتجاج کیا۔ اس احتجاج سے واضح ہو گیا کہ امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام میں شدت پسندی بڑھ رہی ہے۔ اس موجودہ بحران میں تیل کی خریدو فروخت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ساری دنیا کا اسی فیصد تیل تیسری دنیا میں پیدا ہوتا ہے لیکن اس تیل کا اسی فیصد پہلی دنیا میں استعمال ہوتا ہے۔ تیل کی قیمت کم رکھی جاتی ہے تا کہ امیر ممالک کو فائدہ ہو۔ تیسری دنیا کے ممالک کو متحد ہو کر ایسا نظام قائم کرنا چاہیے کہ غریب ممالک بقدر استطاعت دس یا پندرہ یا بیس ڈالر فی بیرل لیکن امیر ممالک تیس ڈالر فی بیرل خریدیں۔ تیسری دنیا کے ممالک کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے۔
ساری دنیا کو تعلیم’ سائنس اورٹکنالوجی کی ضرورت ہے۔ جب سائنس اور ٹکنالوجی کا کنٹرول افراد اور پرائیویٹ کمپنیوں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے تو عوام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔پرائیویٹ کمپنیاں اکثر اوقات عوام کی بجائے خواص کے مفادات کو فوقیت دیتی ہیں۔
یہ نیولبرلزم اور گلوبلائزیشن کا ہی نتیجہ ہے کہ آج دنیا میں820 ملین لوگ بھوک اور بیماری کی اذیت میں مبتلا ہیں جن میں سے 790ملین تیسری دنیا میں رہتے ہیں اور ان میں سے 507 ملین لوگ اپنی چالیسویں سالگرہ سے پہلے مر جائیں گے۔
تیسری دنیا کے عوام کے جو سیاسی و سماجی رہنما آج کی کانفرنس میں موجود ہیں انہیں اندازہ ہے کہ ان کے ممالک میں پانچ میں سے دو بچے خوراک کی کمی کی وجہ سے کمزور اور لاغر ہیں۔ ان ممالک میں ہر روز تیس ہزار ایسے بچے مر رہے ہیں جن کی جان بچائی جا سکتی ہے۔ ان ممالک میں لاکھوں لڑکیاں طوائف بننے پر مجبور ہیں۔ لاکھوں بچے سکول کی تعلیم سے محروم ہیں
لاکھوں نوجوان بے روزگار ہیں اور لاکھوں انسان زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔
گروپ آف 77 کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان مسائل کا حقیقت پسندانہ حل سوچیں اور متحد ہوجائیں۔
آج سے پچاس برس پہلے ہم سے امیر ممالک نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امیروں اور غریبوں کے درمیان سماجی اور معاشی فاصلوں کو کم کریں گے جس سے خوراک زیادہ ہوگی اور ناانصافی کم۔ لیکن اب خوراک کم اور ناانصافی زیادہ ہو چکی ہے۔
جب ہم افریکہ کے غریب بچوں اور پریشان ماﺅں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نازی جرمنی کے کیمپ اور ان کیمپوں میں ہونے والے مظالم یاد آتے ہیں۔ جہاں سے معصوم مردوں عورتوں اور بچوں کی لاشیں ملتی تھیں ان مظالم کی تحقیق کے لیے نیورمبرگ عدالت (NUREMBERG TRIAL)قائم کی گئی تھی۔ اب ہمیں بھی ایک ایسی عدالت کی ضرورت ہے جو آج کے غیر منصفانہ معاشی نظام کو کٹہرے میں لا کھڑا کرے کیونکہ اس نظام کی وجہ سے ہر روز معصوم و مظلوم عوام مر رہے ہیں۔ اس ظلم کی انتہا یہ ہے کہ تین سالوں میں اتنے مرد عورتیں اور بچے بھوک اور بیماری سے مر رہے ہیں جتنے دوسری جنگ عظیم کے چھ سالوں میں مرے تھے۔
اب ان مسائل کا حل تلاش کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ کیوبا میں ایک ضرب المثل مشہور ہے
یا اپنے ملک کا خیال رکھو یا موت کے لیے تیار ہو جاﺅ
میں غریب ممالک کے رہنماﺅں کو یہی آخری پیغام دینا چاہتا ہوں۔