کاکاجی صنوبر حسین کو احترام

آج کاکا جی صنوبر حسین کی 60ویں برسی ہے۔ حسبِ روایت و عقیدت کامریڈ گل بہادر کے ساتھ آج ان کے مزار کگہ ولہ، کوہاٹ روڈ پر جا کر اُن کو سرخ سلام پیش کیا اور چادر چڑھائی۔ کاکا جی جیسے عظیم لوگ کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں۔ کل فیس بُک پر کچھ محترم دوست بڑا غصہ اور معترض تھے کہ لوگ کاکا جی کو کیوں یاد نہیں کرتے؟ ترقی پسندوں اور قوم پرستوں نے اُن کو کیوں بُھلا دیا ہے؟ اُن کی طویل جدوجہد، مزاحمتی کردار اور سیاسی و ادبی خدمات کو کیوں یاد نہیں کرتے؟ مجھ جیسے سیاسی کارکن بھی کبھی کبھی یہ سوچتے ہیں لیکن جب وجوہات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کچھ وجوہات ہیں جس میں ہم عام آدمی کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ سب سے پہلے تو یہی کہ پچھتر سالہ پاکستانی سیاست و ریاست اور نظام و نصابِ تعلیم میں کاکا جی جیسے شخصیات کے لئے کیوں گنجائش ہو اور نہ شکوہ کریں گے کیونکہ وہ تو غدار ٹھہرائے گئے تھے۔ دوسری وجہ، جس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے، یہی کہ اُن کے نظریاتی وارث اتنے بخیل، کنجوس اور غیر زمہ دار تھے کہ ان کی سیاسی جدوجہد، ادبی خدمات اور شخصی کردار کے حوالے سے وہ کام نہ کر سکے۔ میرا اپنا ذاتی تجربہ یہی رہا ہے کہ جس دور میں جو بھی تحریک کا سرخیل رہا ہے، نہ صرف اس نے یہ سمجھا ہے اور تاثر بھی دیا ہے کہ میں ہی بانی و مبانی ہوں، اور یہ سلسلہ میری وجہ سے اور مجھ ہی پہ ختم ہوگا۔ تحریک میں دوسروں کا حصہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا۔ ایک وجہ شائد یہ بھی ہو کہ حیاتیاتی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے، وہ اور ان کی سیاسی و ادبی خدمات کو مارکیٹ لے جانا نصیب نہ ہوا۔ اسی طرح ان کے نام سے آج کے دور میں NGO بنایا جاتا اور یہ سلسلہ چلتا رہتا۔ میری نظر میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قوم پرست کرتا دھرتاؤں نے کبھی ان اور ان کی سیاسی جدوجہد کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا اور نہ ان کے سیاسی مقام کو ماننے کے لئے تیار تھے۔ بدقسمتی سے ترقی پسند تحریک پر بھی ان کا قبضہ تھا۔ کاکاجی طبقاتی سوچ وفکر کے داعی کی وجہ سے آج تک اُن کی نظروں میں طبقاتی دشمن اور شودر ہے جس کا اظہار کاکاجی نے اپنی شاعری میں اُس وقت بھی کیا تھا:

خدایہ دا بازار تالہ کی پہ مغلو

دہ مفلس حسن پہ یو موٹی چنڑو زی

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*