نامور شاعر عیسٰی بلوچ کا شعری مجموعہ، ’’اُفتادہ زَمیں‘‘

 

عیسٰی بلوچ کی شاعری دِلوں کی اتھاہ گہرائیوں سے پھوٹتی ہے اور قاری کے قلب میں پیوست ہو جاتی ہے. ان کے ہاں شاعری کی لطافت کا کامل احساس خلوص کی اساس پر مسند افروز ہے. وہ بے باک، بے ساختہ اور برجستہ شاعرانہ تخیل کا اظہار کرنا جانتے ہی نہیں بلکہ اس کی اعلٰی پیش کش پر بھی قادر ہیں.

عیسٰی بلوچ روشنیوں کے شہر میں علم و ادب کی جگمگاتی شخصیت ہیں جن کے لیے احساس ہی سب کچھ ہے. سچ پوچھیں تو ہر نیکی کی ابتداء احساس سے ہی ہوتی ہے، اسی پر عمل کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور اسی سے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب آتا ہے. ان کی شاعری میں وہ کشش اور جاذبیت ہے کہ شائقین سخن خودبخود کنچھے چلے آتے ہیں. عیسٰی بلوچ کی غزل گوئی میں جدیدیت کا گہرا تاثر محسوس کیا جاسکتا ہے. آپ ایک عوامی شاعر ہیں اس لیے عوامی مسائل و جذبات سے آگاہ ہیں اور انھیں اپنی غزل میں پرونے کے گر جانتے ہیں.

 

باد صر صر کے مارے ستائے ہوئے

ہم نہیں ایسے صحرا میں آئے ہوئے

ظلم سہنے کی عادت میں خلقِ خدا

سہتی جاتی ہے سر کو جھکائے ہوئے

 

ایک اور غزل کے اشعار بھی کچھ اسی قبیل کے محسوس ہوتے ہیں:

 

تیری دنیا میں تعزیریں ہیں بہت

نکتہ چیں میری تحریریں ہیں بہت

 

عیسٰی بلوچ کی شاعری میں رنج و الم، دکھ اور افسوس جیسی کیفیات بھی ہیں البتہ وہ ناامید بالکل نہیں. یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں رجائیت بھی جلوہ دکھلاتی محسوس کی جا سکتی ہے. یہ دونوں متضاد کیفیات کی بوقلمونی ہی دراصل زندگی کا ثبوت ہیں. آپ لکھتے ہیں:

 

یکساں ہیں تیرے اور میرے دکھ

جہاں ہیں تیرے اور میرے دکھ

یقیں کی دنیا سے پرے خالی

گماں ہیں تیرے اور میرے دکھ

 

رجائیت کے رنگ ملاحظہ کیجیے کہ:

 

غم کو اشکوں سے دھویا نہیں جاتا

عمر بھر تو یوں رویا نہیں جاتا

اب تو پانے کی چاہت بھی نہیں ہے

جو بچا ہے وہ کھویا نہیں جاتا

 

اور اب ذرا ان کی نظم نگاری کا کچھ تذکرہ کرتے ہیں. ان کے زیر تبصرہ مجموعہ کلام ’’اُفتادہ زَمیں‘‘ میں پچاس کے قریب نظمیں بھی شامل ہیں.

اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ جدید اُردو نظم ادوار گذشتہ میں خوب پروان چڑھی ہے. میرا جی، ظفر علی خان، اقبال، مولانا حالی، ن م راشد سمیت اکثر بڑے بڑے شعراء کرام نے اس اصناف سخن کی بے حد خدمت کی ہے. عیسٰی بلوچ بھی جدید اُردو نظم کی روایت آگے بڑھاتے محسوس ہوتے ہیں. ان کی کتاب میں شامل نظمیں ان کی سخن دانی کا اعلی نمونہ معلوم ہوتی ہیں.

مجموعہ کلام کی پہلی نظم ”ماں‘‘ انسانی رشتوں کے سب سے عظیم رشتے کا تذکرہ ہے جو معنویت کے گہرے رموز کی عکاس ہے. شاعر کی نظم نگاری ایک علیحدہ مضمون کی متقاضی ہے البتہ چند محاسن ہر قاری کو ضرور متاثر کرتے محسوس ہوتے ہیں. ان کی نظموں میں گہرائی اور گیرائی نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے. ان کی نظم ”آئینہ چپ رہا‘‘ کے اشعار دیکھیں:

 

کل شب میں نے اپنے کمرے میں لگے

آئینے سے پوچھا

میرے اکیلے پن کا سبب کیا ہے؟

آئینہ چپ رہا

 

اس طرح ان کی ایک اور نظم ”سوچوں تو بغاوت پہ اتر آتا ہے دل‘‘ قابل توجہ ہے:

 

اپنا کیا ہے لیکن بچوں کے لیے کچھ

لینے کو دل کرتا ہے اصرار بہت

بازاروں میں نت نئی چیزیں دیکھوں تو

اپنی ہی کم قیمتی کا ہوتا ہے گماں

 

ان کی نظمیں غنائیت سے بھی آراستہ ہیں جو دھیرے دھیرے سرتال کا سماں باندھتی چلی جاتی ہیں:

 

تو ترا کب ہوا جو مرا نہ ہوا

میں مرا کب ہوا جو ترا نہ ہوا

یہ تو اچھا ہوا جو برا نہ ہوا

تو مرا نہ ہوا میں ترا نہ ہوا

 

عیسٰی بلوچ کی شاعری عصرِ حاضر میں شائقین سخن کے دلوں پر دستک دیتی ہے اور ان کی امنگوں کو زبان عطا کرتی ہے. میں ان کی صحت اور سلامتی کے لیے دعاگو ہوں کہ اللہ رب العالمین ان کے قلم کو مزید روانی اور جاودانی عطا فرمائے، آمین

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*