دھمال

 

سنا ہے بستی اجڑ رہی ہے

سنا ہے پھرتا ہے دیو کوئی ہر ایک گھر میں جو وحشتوں کو بسا رہا ہے

 

سنا ہے اترا ہے ایک لشکر مصیبتوں کا کہ سانڈھ پھرتے ہیں ہر گلی میں ہی دندناتے

سنا ہے دیوار و در بھی ہیبت سے کانپتے ہیں

سنا ہے دجّال آ گیا ہے

جو فتنہ پرور نظام ِ زر سے غریب لوگوں کو ہانکتا ہے

سنا ہے آنکھوں میں خواب ویران ہو رہے ہیں

صدائیں ساری حلق میں کانٹے چبھو رہی ہیں

زبان تالو سے جا لگی ہے

یہی تو پیارے ہے وقت جس کا تھے ذکر کرتے سبھی صحیفے

گھروں سے نکلیں

یہ خوف توڑیں

خیال باندھیں

دھمال ڈالیں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*