بچھی ہوئی بساط
تخمینوں ، اندازوں اور خواہشوں کے برعکس کپٹلزم کی سکرات بہت طویل ہوچکی ہے ۔ اس جاں بہ لب بڑے جانور کے تڑپتے جُثہ کی زد میں آکر پورا مشرقی یورپ اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھا، انسان ذات غربت و افلاس ، جنگوں، فاشسٹ حکمرانوں، وباﺅں اور آفات کے مکمل نرغے میں چلا گیا ہے ۔۔۔ ورکنگ کلاس اور محکوم قوموں کی حالت بہت غیر کر دی گئی ہے ۔ اور اسی سکراتی نظام کی طوالت نے سماجی ارتقا کے گھڑیال کی تینوں سوئیوں کو ساکت بنا ئے رکھا ہے۔
جس طرح پندرھویں صدی میں حاکم ذوالنوں بیگ گہری نیند میں بھی اپنے دشمن بی ورغ کا نام بڑ بڑاتا رہتا تھا۔ اسی طرح کپٹلزم بستر مرگ پہ پڑے ہوئے بھی چند ہی بچے کھچے کمیونسٹ ممالک کا گلا گھونٹنے کی خواہش میں بڑ بڑاتا رہتا ہے ۔ وہ کیوبا ، ونیز ویلا ، کو لمبیا ، لاﺅس، کمپوچیا اور ویتنام کو برباد کرنا چاہتا ہے۔ ۔۔۔چین کو بھی ۔
کپٹلسٹ ممالک کی گلوبلائزیشن دنیا کے سیاسی نقشے کو تبدیل کرنا چاہتی ہے ۔ سرمایہ دار ممالک قوموں کے وسائل اور کماڈٹی مارکیٹ کو جس طرح بھی ہوسکے اپنا بنا لینے کی سازشیں کرتے ہیں۔ اسی لیے ہمیں اسلحہ کی دوڑ نظر آتی ہے ، نئے نئے ملٹری الائنسز بن رہے ہیں، کشیدگیاں بڑھتی جارہی ہیں اور ملٹری جھگڑے تیز ہوتے جارہے ہیں ۔۔۔اور اس کے لیے ان کے پاس فاشسٹ ہونے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔
کپٹلسٹ سیاسی نظام اجارہ داروں اور کارپوریشنوں کے مفادات کی نگہبانی کرتا ہے ،تشدد کے ذریعے مزدوروں اور عوام کے بڑھتے ہوئے سماجی بے چینی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
کپٹلزم اپنی غارت گر فطرت کی وجہ سے نا برابری کو بڑھاتا جاتا ہے ، یہ خوراک کا بحران پیدا کرتا جارہا ہے ۔ اس نے انوائرنمنٹ کا بحران پیدا کر دیا ہے ۔۔۔۔اور ان سارے بحرانوں سے بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوچکا ہے ۔
سرمایہ دار سامراجی ممالک دوہرے معیار اور بلاکیڈ پالیسیوں ، غیر قانونی تشدد آمیز اقدامات، فوجی مداخلتوں اور ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلتوں کو مزید بڑھاتے جاتے ہیں ۔کپٹلزم اُن ساری حکومتوں میں انتشار پھیلاتا ہے جو اُس کے مفادات سے خود کو ہم آہنگ نہیں کرتیں ۔ وہ ان حکومتوں کے خلاف غیر روایتی جنگ، بالخصوص میڈیا سے وابستہ بڑے اور خطرناک ہتھیار استعمال کرتا ہے ۔
سرمایہ داری نظام میں سارے کپٹلسٹ ”باہم دست و گریباں بھائیوں کا جتھا “ ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے ناترس مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ وہ بہ یک وقت ورکنگ کلاس کے خلاف متحد ہیں ۔ کپٹلزم اس بات پہ قائم ہے کہ کچھ کپٹلسٹوں کو کامیاب اور بقیہ کو ناکام ہوتا دیکھیے۔ یہ باتیں افرادی کپٹلسٹوں کو ایک دوسرے کے خلاف بے رحم لڑائیوں میں جھونک دیتی ہیں۔ وہاں مرجرز ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو خریدا جاتا ہے ، ہڑپ کیا جاتا ہے اور قیمتوں پہ جنگیں ہوتی ہیں۔ پھر یہ کپٹلسٹ ممالک آپس میں بھی تو لڑتے ہیں۔ دنیا پر اپنی تھانیداری برقرار رکھنے کے لیے ، دنیا کی مارکیٹ اور منڈیوں پہ اپنا حصہ بڑا کرنے کے لیے ۔اس عرض سے وہ اپنے ساتھی کپٹلسٹ ممالک کے ساتھ دھوکہ ، فراڈ حتی کہ جنگی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ مثال دیکھیے کہ وہ اپنے ہی بھائی بند سرمایہ داری نظام والے یوکرین کو اپنے دوسرے کپٹلسٹ ساتھی ملک روس کے خلاف لڑاتے ہیں ۔
ہر ملک کی طرح پاکستان کے اندر بھی ایک بنیادی اور اہم تضاد موجودہے : سرمایہ دار اور محنت کش طبقہ کے درمیان تضاد ۔اسی تضاد کے برابر والا ایک تضاد یہاں قوموں کے بیچ بھی ہے۔ پنجاب کی قیادت میں سرمایہ دار حکمران طبقہ محنت کشوں کا استحصال بھی کرتا ہے اور بلوچستان سے مزید سے مزید منافع کشید کرتا جاتا ہے ۔ جبکہ محنت کش اپنی استحصال شدہ بدبخت زندگی کو بدلنا چاہتا ہے ، اور بلوچ خود سے محکومی کا جوا اتارنا چاہتا ہے ۔ چونکہ ان کے مفادات یکسر مخالف ہیں، اس لیے ملک کے اندر کپٹلزم کی موت تک محنت کش (اور محکوم قومیں)اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہیں ۔ اس نتیجہ خیز مگر تلخ جدوجہد میں کسان اور عورتیں اس کی اتحادی ہیں۔
کپٹلزم نیچر کو کماڈیٹو ں میں بدل دیتا ہے اور کماڈیٹوں کو کپٹل میں ۔ یہ زیرِ زمین معدنیات ، آبی ذخائر، پہاڑی علاقوں اور دیگر قدرتی وسائل کا بے رحمانہ استحصال جاری رکھے ہوئے ہے۔وہ اندھا دھند پیسہ بنانے کے لیے دنیا کی جنگلات کو کاٹتا جاتا ہے ، اُس کے کار خانوں سے نکلتی زہریلی گیسیں پاک صاف فضا کو مکر وہ بناتی جاتی ہیں۔ سمندروں، نہروں اور دریاﺅں کا پانی انہی کارخانوں کے تیزابی گند سے انسان اور آبی حیات کے استعمال کے قابل نہ رہا۔ ان کی انڈسٹری زمین کا درجہ حرارت بڑھاتی جارہی ہے ۔ گلیشیئرز کی باضابطگی کو پریشان کرتے رہنے سے موسمی کیلنڈر شدید جھٹکوں میں ہے۔ قحط اور سیلاب باریاں لگاتے ہوئے گل زمین پر زندگی تنگ کیے جاتے ہیں۔
یہاں پاکستان میں ساری سیاست بھی سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور بیوروکریسی پہ مشتمل حکمران طبقات کے ہاتھ میں ہے ۔ محنت کشوں کی تحریک بہت کمزور اور غیر منظم ہے ۔ زراعت اور صنعت سے حاصل شدہ پیداوار کی تقسیم بھی منصفانہ نہیں ہے ۔ یہاں کسان اور مزدور کو کچھ نہیں ملتا اور ساری دولت کار خانہ دار، مائن اونر ، ماہی گیری والی کشتیوں اور ٹرالروں کا مالک ہڑپ کرجاتا ہے ۔ اس لیے کہ سرمایہ دار اور جاگیردار فصل اگانے یا کارخانے سے پیدا وار لینے کی محنت میں کوئی حصہ نہیں لیتے ۔
ریاست کی آمدنی اللے تللے میں اڑا دی جاتی ہے ۔بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ غیر پیداواری اخراجات میں چلا جاتا ہے ۔ آئی ایم ایف اور ملٹی نیشنل کار پوریشنز کے قرضے ناقابل ِ ادائیگی ہوچکے ہیں۔ روٹی روزگار کے ذرائع ختم ہوچکے ہیں۔ یہ نظام مہنگائی کو قابو کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ کرونا اور اُس کے بعد سیلاب نے ریاست اور ریاستی اداروں محکموں کا کھوکھلا پن واضح کر کے رکھ دیا ہے ۔لاکھوں انسان اب بھی سیلاب کے مصائب میں پڑے ہوئے ہیں۔ وہاں وبائیں ہیں اموات ہیں ۔ وہاں کے جاگیردار، وڈیرے ، اے سی ڈی سی ، اور دیگر پاور لابیاں محنت کش عوام کی جانوں کی قیمت پر اُن کے لیے آنے والے امدادی سامان چوری کر رہی ہیں۔
بلوچ کے قومی و سائل کی لوٹ مار کا کوئی حساب کوئی حد نہیں ہے ۔سیاسی کارکنوں اور مترقی طالب علموں کی جبری گمشدگی اب باقاعدہ ایک روٹین کی ریاستی سرگرمی بن چکی ہے ۔ دراصل صرف بلوچستان کی حکومت اصلی معنوں ہینڈ پکڈ اور سلیکٹڈ ہے ۔جہاں چاہو جھکے گی جہاں چاہو سُر کے گی۔ ۔۔۔گگھی بندھ جاتی ہے بھوتار کے سامنے۔
ایک بنیاد پرست سیاسی و سماجی فضا میں سوسائٹی کے کمزور حصوں بالخصوص عورتوں کو بے پناہ پابندیوں کا سامنا ہے ۔
یہاں جمہوریت زبانی کلانی ہے ۔ فیوڈل لارڈز ہی اسمبلی ممبر اور وزیر بنتے ہیں۔ پارلیمنٹ بے توقیر و بے اختیار ہے ۔صرف سیاہ اور رجعتی ترامیم پاس کروائی جاتی ہیں۔
اِس زنگ زدہ بین الاقوامی نظام اور اس کی یہاں کی شاخ کے خلاف ایک عوامی جمہوری سیاسی پارٹی قیام سب سے اولین ضرورت ہے ۔ اُس پارٹی کے تلے مزدور، کسان، محکوم قومیں، طلبا، دانشور اور عورتیں متحدہ ہوں گی۔ وہی یہاں طبقاتی اور قومی استحصال کے خلاف موثر آواز اٹھائے گی ۔اور وہیں سے بین الاقوامی مزدور تحریک اور سامراج دشمن جدوجہد سے قریبی تعلقات بنا کر متحد و مشترک انسانی قافلہ مضبوط ہوگا۔