اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! اوہ!!!! یہاں تو رنگ گل  سے آتش دوزخ بھڑک رہی ہے، پھول شدت حدت سے سیاہ پڑے ہیں، گلابوں سے ٹپ ٹپ  لہو ٹپکتا  ہے،آگ کی بل کھاتی لہریں سب کو لپیٹ میں لے رہی ہیں ، سانپ کی سی آنکھیں لیے محافظ جا بجا کھڑے ہیں،کتے گز بھر  زبانیں نکالے  پرجوش  دموں کے ساتھ ہیں۔۔۔

تصویر میں اڑتے گدھ نظر نہ آتے تو شاید چھت پر ذرہ ذرہ بکھری لاشوں پر نگاہ  بھی نہ پڑتی، لاشیں جن کا اتا معلوم  نہ پتا!۔ ٹانگ کہیں  ہے تو بازو کہیں, چہرے پگھل کر بہہ  رہے ہیں۔،سیاہ گھیردار شلوار سفید ناڑے کی لپیٹ میں کمر کے ساتھ مضبوطی سے بندھی ہے، پیٹ غار کے دہانے کی طرح کھلا ہے۔

مریم  کی گود خالی ہے،   عیسی صلیب پر ہے ،حوا کھلے بالوں کے ساتھ بین کرتی ہے اور پھر انہی بالوں کا گردن میں پھندا ڈالے جھول رہی  ہے، پس منظر میں  درد سے چھلنی  دھاڑیں نقش ہیں، سینے کو پھاڑ کر باہر آتی  کاجل بہاتی سسکیاں ہیں۔ ہو کا عالم ہے، قیامت کا سناٹا  ہے ،لفظ ہتھیا لیے گئے ہیں، لفظوں کے ساتھ بلاتکار ہوگیا ہے،لفظ اغوا ہوگئے، کوڑے کھاتے  لفظ، لفظ  نوک خار پر قطرہ ِ شبنم کی مانند لرزتے ہیں۔ گنگا اب  پاپیوں کی سہولت کار  بھی ہے،اس کے پانیوں پر   سیدھے رخ پر تیرتی  لاشیں   ہیں  جو دونوں ہاتھ چھاتیوں  پر دھرے  نماز عشق  کی نیت باندھ چکی  ہیں،  سورج شیشے کے جار میں سربمہر  یخ  برف کی ڈلی ہے۔ چاند رنگساز کے کڑاہے میں ابل رہا ہے، اس کی چاندنی بدرو میں بہتی ہے۔آکاش ننگا بچا ہے،کوئی نوسرباز اس کے سارے تارے اتار  کر جھولی بھر لے گیا۔

آہ! یہ تصویر تو   بیچارگی کی معلوم پڑتی  ہے، باپ خون کے تالاب میں اوندھے پڑے بیٹے  کو تپتی سڑک کی حدت سے بچانے کے لیے اس کے    گالوں کے نیچے اپنا صافہ رکھنے کی کوشش میں ہے۔مناظر تصویروں میں سے ابکائی کی طرح  باہر  کو آتے  محسوس ہوتے  ہیں۔

ساوے سبز کچور فریموں  میں  دیو ہیکل  چام چڑکیں    اپنے   پنجوں میں  پرچھائیاں اٹھائے ہلارا دیتی ہوئیں، منہ پھاڑے بلیک ہول میں غڑاپ سے گراتی ہیں، گراتی جا رہی ہیں، چار سو گہری دبیز اسموگ   ہے،  کچھ واضح نہیں ہے۔ بھگوان نظر خالی کینوس ہیں۔ خدا اپنی تنہائیوں  میں سرگراں  آدم آدم  آدم  پکارتا ہے،آدم فریموں میں سے نکل بھاگا  ہے،آدم لاپتا ہے!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے