تمہاری آنکھوں میں روشنی کی لکیر کیسی مچل رہی ہے
شفق کی لالی تو بجھ چکی ہے
افق کی چاندی گماں کی سرحد سے دور
چپ چاپ سو رہی ہے
تمہاری آنکھوں میں روشنی کی لکیر کیوں کر مچل رہی ہے
ہماری آنکھوں نے کرم خوردہ تصوروں کو
حسین روپوں میں ڈھلتے دیکھا
انہی کو سولی پہ چڑھتے دیکھا
ہمیں نے دیکھا
جو آسمانوں پہ تھوکتے تھے
زمیں پہ ان کو امان پانے کی جستجو تھی
جوان جذبوں نے سرخ صبحوں
گلاب شاموں کے خواب دیکھے
وہ خواب اپنا لہو پہن کر شہید تعبیر بن چکے تھے
تمہاری آنکھوں میں روشنی کی لکیر کیونکر مچل رہی ہے
یہ فرقتوں کے اداس چیدگ
دکھوں کا عنوان بن کے سینوں میں چبھ رہے ہیں
عجب کہ افسوں فروش ساتھی
ہوس کی پاتال میں گڑے ہیں
تمہیں بتاوں؟
کہ میری آنکھوں میں روشنی کی لکیر کیونکر مچل رہی ہے
یہ پھڑ پھڑاتے دیئے کی لو ہے
شکست شب کی نوید بن کرمچل رہی ہے
تمہیں خبر ہو!
طویل راتیں نگار ہستی نگل چکی ہیں
ہماری آنکھوں کو تاب خورشید اب
کہاں ہے
نزار آنکھیں
بجھے مناظر کا مقبرہ ہیں
وہ کھیت،بہتا زلال پانی
کمان شاخیں،وہ پھول،کلیاں
مسافتوں کی اسیر کونجیں،سرکتے آنچل
بہار،باد صبا کے جھونکے
عشاق آنکھوں میں جم چکے ہیں
ملول سانسیں فسردہ یادوں کے بوجھ سے اب تو جھک چلی ہیں
بلا سے فطرت کی فرصتوں کے
ہمیں کو
سیلاب نے نشانے پہ لے رکھا ہے۔
شفیق پرکھوں کا چاند،سورج
عظیم قامت
قوی سلیمان
اس کا دامن
مہیب موجوں میں گھل چکے ہیں
(بلا ابھی تک ٹلی نہیں ہے)
زمین زادوں کو وہم،بارے
کہیں سے
افلاس کی وبائیں اتر رہی ہیں
وطن کے رستے
شجر،حجر سب
گدا کے کاسے اچھالتے ہیں
یہ سارے منظر نہ دیکھ پاتے
تو کیا برا تھا۔